- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
وکیل مسلک اہل حدیث کی رحلت
وکیل مسلک اہل حدیث کی رحلت
الحمد للہ والصلاتہ والسلام علی رسول اللہ وبعدہ!
تمام اہل حدیث احباب تک یہ المناک خبر پہنچ چکی کہ سرمایہ مسلک اہل حدیث ، عظیم محقق ، بے باک و حاضر جواب مناظر ، فاتح مذاہب و مسالک باطلہ ، محدث فقیہ ، ماہر اسماء رجال ، استاذالعلماء ، الشیخ الحافظ زبیرعلی زئی 10 نومبر 2013، بمطابق 4 محرم 1435ھ بروز اتوار صبح سات بجے 56 سال 5 ماہ 15 دن کی عمر پاکردار فانی سے داربقا کی جانب کوچ کرگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون -
چند روز قبل آپ رحمہ اللہ پر فالج کا اٹیک ہوا ،اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں آپ کے دماغ کا آپریشن ہوا ، آپریشن کے بعد آپ ہوش میں آگئے اور وہاں موجود اپنے تلامذہ کو پہچانا اور ان سے گفتگو بھی کی اور ایک دو روز بعد آپ کی صحت میں بہتری کے آثار بھی نمودار ہوئے لیکن پھراچانک طبیعت بگڑی اور آپ کومہ میں چلے گئے ، ہفتہ دس دن اسی کیفیت میں رہے اور پھر بالآخر وہ ساعت آ پہنچی کہ جس کے متعلق وارد ہے کہ اذا جاء لا یوخر کہ جب وہ آجائے تو ٹلتی نہیں ، نماز جنازہ اسی دن بعد نماز مغرب آپ رحمہ اللہ کے آبائی گاؤں میں آپ رحمہ اللہ کے مشفق استاذ فضیلتہ الشیخ حافظ عبدالحمید ازہر حفظ اللہ کی اقتداء میں ادا کی گئی ، حافظ عبدالحمید ازہر حفظ اللہ نے ایسے رقت آمیز لہجہ میں دعائیں مانگیں کہ مقتدیوں کی ہچکیاں بندھ گئیں ، ہرآنکھ اشک بار تھی ، جنازہ میں شرکت کرنے والوں کے بقول ، حضرو کی تاریخ میں پہلی بار اتنا بڑا جنازہ دیکھا گیا ، ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے جماعتی احباب کا ایک جم غفیر موجود تھا ، حدنگاہ لوگ ہی لوگ نظرآرہے تھے ،ملک کے نامور مشایخ ، علماء کرام و مفتیان عظام ، شیوخ الحدیث اور ادباء و دانشوروں کی کثیر تعداد نے جنازہ میں شرکت کی۔ رحمہ اللہ رحمتہ واسعتہ
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے 25 جون انیس سو ستاون میں صوبہ خیبرپختو نخواہ (اُس وقت سرحد) ضلع اٹک کے مقام حضرو کے ایک گاؤں میں پیرداد خان میں حاجی مجدد خان کے گھر آنکھ کھولی اور پہلی جماعت سے ایف اے تک باقاعدہ اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بی ائے اور 1983 میں ایم اے اسلامیات کا امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کیا اور 1994 میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے عربی کا امتحان دیا۔ آپ رحمہ اللہ ابتداء میں اہل حدیث نہیں تھے لیکن آپ کو مطالعہ کا شوق تھا یہی شوق آپ کے قبولِ حق کا باعث بنا۔ 1972 تا 1974 کے دوران آپ نے صحیح بخاری کا مطالعہ کیا وحی(حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم)نے اپنا اثر دکھایا اور آپ رحمہ اللہ نے مسلک اہل حدیث قبول کرلیا اور بڑے جذبہ و ولولہ سے اس مسلک کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا۔
آپ رحمہ اللہ نے جن اساتذہ سے دینی علوم کا استفادہ کیا ان میں چند کے اسماء گرامی ملاحظہ ہوں:: محدث دیارِ سندھ ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی ، محدث العصر سید ابوالقاسم محب اللہ شاہ راشدی ، الشیخ فیض اللہ ثوری ، مولانا عطاء اللہ حنیف ،حافظ عبدالمنان نور پوری ،مولانا اللہ دتہ سوہدری ، مولانا عبدالغفارحسن رحمہم اللہ ،حافظ عبدالحمید ازہر متعنا اللہ بطول حیاتہ
حافظ زبیر علی زئی نے 1990 میں جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ سے دور حدیث کیا اور پورے جامعہ میں اول پوزیشن حاصل کی اور آپ رحمہ اللہ نے وفاق المدارس السلفیہ کا امتحان بھی پاس کیا۔ حافظ زبیر علی زئی کو دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں سے 6 زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا ، جن میں عربی ، عبرانی ، اردو ، انگریزی ، ہندکو اور پشتو شامل ہیں اور بقول مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی حافظ اللہ ،حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ موجود دور کے علماء میں واحد عالم دین تھے کہ جنہیں عبرانی زبان سے آشنائی حاصل تھی ، اور عبرانی زبان سے آشنائی آپ رحمہ اللہ کو عیسائیوں کے ساتھ چند ایک مناظروں میں بڑی کام آئی-
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ مصنف کتب کثیرہ تھے آپ کی 25 سے زائد اردو اور تیس سے زائد عربی کتب منصہ شہود پر آئیں۔ آپ رحمہ اللہ نے جب اپنی عربی تصنیف ''الاسانید الصحیحہ فی اخبار ابی حنیفہ '' اپنے شیخ محدث دیارِ سندھ ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی کی خدمت میں پیش کی تو محدث دیارِ سندھ نے اس تصنیف کی بڑی تحسین فرمائی۔ رحمہما اللہ۔اس طرح آپ کے ایک اور استاذ محترم استاذ ، محدث العصر سید ابوالقاسم محب اللہ شاہ راشدی نے آپ کی ایک کتاب پر وقیع مقدمہ تحریر فرمایا۔ علامہ نیموی کی آثار السنن ، جس کے متعلق معروف دیوبندی عالم ماسٹر امین اوکاڑوی کہا کرتے تھے کہ میں آثار السنن پڑھ کر مسلک اہل حدیث ترک کر کے دیوبندی بنا تھا، پر حافظ زبیر علی زئی نے انوارالسنن کے نام سے تحقیقی کام کیا اور آثار السنن کی بہت سی روایات کو ضعیف ثابت کیا اور ان کے مقابلے میں صحیح روایات کو ذکرکردیا، آثار السنن کے جواب میں یہ کتاب انتہائی مفید ہے۔
حافظ زبیر علی زئی نے اپنی تحریرات میں حدیث کا حوالہ دینے کے حوالے سے ایک منفردمقام رکھتے تھے ، ان کی تحریروں میں جو حدیث بھی ذکر کی جاتی ہے وہ بڑی ٹھوس اور پختہ تحقیق کے بعد درج کی جاتی تھی۔ آپ مسلک حق ، مسلک اہل حدیث کی بڑی تڑپ رکھنے والے تھے ، سندھ ، پنجاب ، بلوچستان ، خیبرپختون خواہ کے دور دراز علاقوں میں جہاں کہیں بھی حاملین مسلک اہل حدیث کا مباحثہ یا مناظرہ کا چیلنج دیا جاتا اور اس حوالہ سے احباب جب آپ سے رابطہ کرتے تو کبھی پس و پیش سے کام نہ لیتے ، فورا رختِ سفر باندھتے اور مطلوبہ علاقہ میں مناظر یا معاون کی حیثیت سے موجودہوتے۔
حافظ زبیرعلی زئی کی وفات کے بعد دفتر المعہد السلفی کراچی کے ایک اجلاس زیرصدارت فضیلتہ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظ اللہ امیر جمعیت اہل حدیث سندھ منعقد ہوا ، اجلاس میں اساتذہ المعہد السلفی نے شرکت کی ، محترم شیخ صاحب نے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی مفارقت پر بڑے دکھ و افسوس کا اظہار کیا اور آپ رحمہ اللہ کی کئی حوالوں سے تحسین فرمائی اور آپ کی خدماتِ عالیہ و دینیہ کی عنداللہ قبولیت کے متعلق دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔ اس موقعہ پر شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظ اللہ نے بتایا کہ شیخ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بالکل سادہ مزاج رکھتے تھے اور علم پر اتراتے نہیں تھے ، وہ ریاکاری و شہرت پسندی سے کوسوں دور اور گمنامی کو پسند کرنے والے تھے ، آپ رحمہ اللہ کی چاہت تھی کہ علمی و اصلاحی کام عوام و خواص تک پہچنا چاہیے اس کے لئے کسی ناموری کی چنداں ضرورت نہیں۔
اس حوالے سے محترم شیخ صاحب نے بتایا کہ یہ اس دور کی بات ہے کہ جب حافظ زبیر علی زئی نے تصنیفی و تالیفی کام میں ابھی نیا نیا قدم رکھا تھا اور اشاعتِ دین کے کام کا آغاز کیا تھا ، انہوں نے اپنی چند تالیفات اشاعت کیلئے ، ایک مشہور و معروف اشاعتی ادارہ کو پیش کیں ، انتظامیہ کا کہنا تھا کہ چونکہ علمی و عوامی حلقوں میں آپ کی بہت زیادہ شہرت نہیں ہے اور آپ کو مطلوبہ تعارف حاصل نہیں ہے لہذا ہم آپ کی پیش کردہ کتب شایع تو کریں گے لیکن آپ کے نام و تذکرہ کے بغیر !حافظ زبیر علی زئی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور جذبہ ء دعوت و تبلیغ کے پیشِ نظراس شرط کو قبول کرتےہوئے کتب کی اشاعت کا اذن مرحمت فرمادیا ، رحمہ اللہ رحمہ واسعتہ
حافظ زبیر علی زئی ایک عالم حقانی تھے،کوئی بھی موقف اپناتے اور ان کے اس موقف میں سہو کے سرزد ہوجانے کے حوالے سے اگر کوئی طالب علم بھی ان کی توجہ مبذول کرواتا اور وہ حق بجانب ہوتا تو آپ رحمہ اللہ اپنےاس موقف سے رجوع کرنے میں ذرا تاخیر نہ کرتے اور اس طالبعلم کے مشکور ہوتے ، اس کی ایک مثال المعہد السلفی کراچی کے فاضل قاضی احمد سندھ کے باشندے مولانا محمد آصف فاروق کی ہے ، جو ابھی زیرتعلیم تھے ، انہوں نے آپ رحمہ اللہ کی توجہ آپ کے ایک موقف میں سہو ہو جانے کی جانب مبذول کرائی تو آپ رحمہ اللہ نے جوابی خط کے ذریعے طالبعلم کا شکریہ ادا کیا اور اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ آج کے اس معاشرہ میں یہ بات خال خال ہی نظرآتی ہے۔
جامعہ مسجد صراط مستقیم تین ہٹی کراچی میں جب معہد السلفی کا آغاز ہوا تو کچھ ماہ بعد حافظ زبیر علی زئی سے وقت لیا گیا ،آپ تشریف لائے اور تقریبا ایک ہفتہ قیام فرمایا اور طلبہ کو مناظرانہ گر سکھائے اور ان ہی ایام میں راقم کی حافظ صاحب رحمہ اللہ اچھی ملاقتیں رہیں۔
جامع مسجد ابوعبیدہ بن الجراح کینٹ بازار ڈرگ روڈ کراچی ، جہاں راقم امام و خطیب ہے ، میں حافظ زبیر علی زئی کا درس رکھا گیا، آپ رحمہ اللہ تشریف لائے۔ راقم کی آپ سے یہ ملاقات بھی بڑی یاد گار رہی۔ ماہنامہ دعوتِ اہل حدیث کی ادارت کی بھاری ذمہ داری جب راقم کے ناتواں کاندھوں پر ڈالی گئی اور چند ماہ بعد ''مقدس رسول نمبر'' نکالنے کا مشورہ ہوا تو راقم نے فون پر رابطہ کر کے حافظ صاحب رحمہ اللہ سے مضمون کے حوالہ سے درخواست کی ، آپ نے درخواست منظور فرمائی اور کمالِ شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے مضمون عنایت فرمایا۔ رحمہ اللہ
بہرحال میانہ قد، سرخ گندمی رنگ ، کھلی پیشانی ، موٹی چمکدار آنکھیں ، گھنی داڑھی ، کچھ چوڑا چہرہ ، شلوار قمیض کے لباس میں ملبوس شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اب ہمارے اندر نہیں رہے ، اس موقعہ پر ہم اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں دعاگوہیں کہ اللہ تبارک و تعالی ان کی حسنات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کی بشری لغزشوں سے درگذر فرماتے ہوئے انہیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین اور تمام اہل حدیث احباب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
اللھم اٖغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
ذوالفقار علی طاھر
ماہنامہ دعوتِ اہل حدیث(حیدرآباد)
ماہنامہ دعوتِ اہل حدیث(حیدرآباد)
یونی کوڈ منتقلی :::مشاري
بشکریہ: اردو مجلس فورم