عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
حافظ سعید کی جرات ایمانی کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ بھارت اور امریکہ اس کے خلاف ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں۔ امریکہ جس کے خلاف ہے وہ محب وطن ہے، سچا ہے اور حریت پسند ہے۔ میں شہید بھٹو کا عاشق ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے اسے پھانسی دلوائی۔ وہ مر کے بھی نہیں مرا۔ اب اس کے نام پر حکومت کرنے والے امریکہ کے غلام ہیں اور بھارت کے بھی نوکر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کہتا ہے کہ سپریم کورٹ بھٹو کے عدالتی قتل پر معافی مانگے۔ تمہارے اندر اگر ماں کی محبت زندہ ہے تو امریکہ سے بھی کہو کہ بھٹو کو قتل کرانے پر معافی مانگے۔ بے نظیر بھٹو کو بھی امریکہ نے قتل کرایا۔ اسے قتل کرنے والوں کو بلاول کے والد محترم جانتے ہیں۔ اس سے اپنی ماں کے قاتلوں کے نام ہی پوچھ لو۔ بات خود بخود امریکہ تک پہنچ جائے گی۔ اسی باغ کی جلسہ گاہ میں لیاقت علی خان کو گولی امریکہ نے مروائی تین وزیراعظم امریکہ نے مارے۔ باقی جو زندہ ہیں وہ دھمکی سے ہی مر جاتے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی تو اس منصب کے لئے توہین کا باعث ہیں۔ امریکہ کے لئے حکام کو مارنا آسان ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح اس کے غلام ہوتے ہیں۔ پھر جب ان میں آزادی کی تڑپ جاگتی ہے، وطن کی محبت جوش مارتی ہے تو امریکہ ان کا گلا دبا دیتا ہے۔ عالم اسلام میں شاہ فیصل کا قتل بھٹو کے ارادوں کی سربلندی کو ثابت کرتا ہے۔ عالم اسلام میں کوئی لیڈر رہنے ہی نہیں دیا گیا۔ جب کہیں راکھ کے ڈھیر میں کوئی چنگاری نظر آتی ہے تو امریکہ ڈر جاتا ہے۔ ایوان صدر میں جمہوریت بہترین انتقام کہنے والے اپنے اصل دشمن سے انتقام کا سوچیں تو سہی۔ خدا کی قسم امریکہ انہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ امریکہ کا زور اپنے دوستوں پر چلتا ہے اور ان پر جو کبھی اس کے دوست رہے ہوں اور انہوں نے کبھی امریکہ پر اعتبار کیا ہو۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے تو جنرل ضیاءبھی اس لئے اچھا لگتا ہے کہ اسے بھی امریکہ نے پاکستان کی فضاﺅں میں جلا کے راکھ کر دیا۔ امریکہ کی کوئی خدمت جنرل ضیا نے نہ کی تھی۔ غلام حکمرانو! یاد رکھو تم امریکہ کو غلامی اور خدمت سے راضی نہیں رکھ سکتے۔ تمہارا آغاز امریکہ کے ہاتھ سے ہوا تھا۔ تمہارا انجام بھی اسی کے قبضے میں ہے۔ اتنے نہ گرو کہ پھر اٹھ بھی نہ سکو۔ امریکی ڈکٹیشن لینے والے حکمران سیاستدان، دانشوران میڈیا کے سلطان این جی او زدگان حافظ صاحب کا جملہ سنیں۔ ”امریکہ بھارت کی ڈکٹیشن پر چل رہا ہے۔ اب امریکہ پاکستان کو بھارتی غلامی میں دھکیل رہا ہے“۔ میں نے بات حافظ صاحب کی جرات کو سلام کرنے سے شروع کی تھی۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ امریکہ جتنا حاوی ہمارے حکام پر ہے آزادی اور ایمان کے متوالوں پر نہیں۔ حیرت ہے کہ حافظ سعید کو سب لوگ جانتے ہیں مگر اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر امریکہ نے رکھی ہے۔ افغانستان میں حریت پسندی کی تاریخ میں ایک نیا باب لہو سے لکھنے والے ملا عمر کے لئے بھی امریکہ نے یہ قیمت رکھی تھی مگر وہ اس کے قابو میں نہ آئے۔ اسامہ بن لادن کے لئے امریکہ نے ڈرامہ کیا اور رسوائی پاکستان کی ہوئی۔ امریکہ کے ایک ظالم اور بدنما وزیر دفاع رمز فیلڈ نے کہا تھا کہ ہم حکمرانوں سے نہیں ڈرتے۔ فوجوں سے نہیں ڈرتے۔ مگر ہمیں ان سے ڈر لگتا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر وقت میدان میں رہتے ہیں۔ جن کے پاس نہ حکومت ہے نہ باقاعدہ فوج ہے جو نڈر ہیں، جو مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ۔ اسرائیل نے عرب ممالک کو خدمت اور لالچ میں مبتلا کیا ہوا ہے مگر ایک سر پھرے ایمان اور یقین کی طاقت والے آدمی نے کمال کر دیا۔
بھارت اور امریکہ پاکستانی حکمرانوں سے نہیں ڈرتے۔ اب وہ ہمارے جرنیلوں سے بھی نہیں ڈرتے۔ بہرحال پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف امریکہ اور بھارت دونوں مسلسل پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ امریکہ اور بھارت صرف پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنا ملازم سمجھنے لگے ہیں۔ وہ حافظ سعید سے ڈرتے ہیں۔ حافظ صاحب ٹی وی چینل پر کتنے اطمینان، بے خوفی اور تحمل سے بول رہے تھے۔ تکبر والے اس ایمانی تدبر سے واقف نہیں ہو سکتے۔ ان کی روحانی شخصیت میں اضطراب اور انقلاب کا ملا جلا ایک خواب ہے جس کا نور ان کے چہرے پر وجد کر رہا تھا۔ کوئی راز ہے جو اللہ والوں کی حفاظت کرتا ہے۔ لالچ اور خوف سے بھرے ہوئے لوگ ان کے ہمراز نہیں ہو سکتے۔ ایک اینکرپرسن بھی ان کی ادائے دلیرانہ کا اعتراف کر رہا تھا۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ سر کی قیمت اس کی مقرر کی جاتی ہے جو سامنے ہو۔ حافظ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ روبرو ہیں اور دوبدو بھی ہیں۔ وہ جو سرنگوں ہیں۔ وہ سربلند انسانوں کے مرتبے اور مقام سے باخبر ہو کر بھی بے خبر رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ پر تنقید کرنے والے خوش ہوں گے کہ بھارت اور امریکہ اس انسان کو گردن زدنی قرار دے رہے ہیں جسے اعلیٰ عدالتوں نے سارے الزامات سے بری کیا ہے۔ ہر طرح کے حکمرانو، بھارت تمہاری حکومت کو نہیں مانتا اور عدالت کو بھی نہیں مانتا۔ بھارت اور امریکہ کو حافظ صاحب سے تکلیف ہے اور یہ تکلیف آج کچھ زیادہ ہے۔ وہ نیٹو اور ڈرون حملوں کے خلاف ہیں۔ کشمیر کے لئے اور پاکستانی دریاﺅں پر بھارتی ڈیموں کے خلاف ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے پیغام ہے۔ امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ بھی بغلیں بجا رہے ہیں۔ یہ روس کے ایجنٹ تھے۔ اب امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔
ٹی وی چینل پر ندیم افضل چن بڑی ڈھٹائی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ حافظ صاحب سے کہا کہ فاٹا جاکر جلسے کرو۔ جیسے فاٹا پاکستان کا حصہ ہی نہ ہو۔ حافظ صاحب نے کہا کہ ہم فاٹا جائیں گے اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ ندیم افضل چن ڈر گیا کہ کہیں سچ مچ اسے بھی ساتھ نہ لے جایا جائے۔ ٹی وی چینل پر جنرل (ر) طلعت کی باتیں بھی عجیب سی تھیں امریکہ اور بھارت پاکستان میں ایسے ہی لوگوں کے مہمان ہیں۔ یہ ریمنڈ ڈیوس کے دوست ہیں۔ سب حکمرانوں سیاستدانوں اپوزیشن والوں کے علاوہ ججوں اور جرنیلوں نے بھی ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروایا۔ یہ سب امریکی اور بھارتی ایجنڈے کے حامی ہیں۔
ایک پاکستانی کے خلاف دھمکی، صدر پاکستان کو دھمکی ہے۔ صدر زرداری بھارت جانے سے انکار کر دیں۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجیں داخل ہوئیں۔ اب بلوچستان میں مداخلت ہو رہی ہے۔ مگر مجاہدین کو قید کرنا چاہتے ہیں۔ حافظ سعید کا بال بیکا نہ ہو سکے گا۔ جماعت الدعوة کے سب لوگ ایمان کی طاقت سے بھرے ہوئے ہیں۔ امیر حمزہ، یحیٰی مجاہد اور دوسرے لوگوں میں حافظ صاحب کی محبت کے چراغ جلتے ہیں اور یہ چراغ پھونکوں سے نہیں بجھتے۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ بھارت، امریکہ کو مجھ سے تکلیف ہے تو یہ تکلیف رہنا چاہئے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ان لوگوں نے بھی مرنا ہے جو موت کی دھمکی دیتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے نام سے ہی امریکہ اور بھارت کو بیزاری ہے۔ مولانا سمیع الحق ثابت قدم ہیں۔ اب تو مولانا فضل الرحمن نے بھی ہر قسم کے تعاون کا یقین دلا دیا ہے۔ اللہ خیر کرے، حافظ حسین احمد نے حافظ صاحب کی حمایت کی ہے اس پر جنرل حمید گل، مشاہد حسین اور مولانا طاہر محمود اشرفی نے امریکہ کو للکارا ہے۔ یہ بھی سوچیں جو لوگ اقتدار اور اپوزیشن کے نشے میں ہیں انہیں امریکہ بھارت نے دھمکی کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ دھمکیاں اور دھماکے ”دوستوں“ کے لئے ہیں۔ ہم دشمنوں کو پہچاننے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں۔! ( تصحیح شدہ)
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے تو جنرل ضیاءبھی اس لئے اچھا لگتا ہے کہ اسے بھی امریکہ نے پاکستان کی فضاﺅں میں جلا کے راکھ کر دیا۔ امریکہ کی کوئی خدمت جنرل ضیا نے نہ کی تھی۔ غلام حکمرانو! یاد رکھو تم امریکہ کو غلامی اور خدمت سے راضی نہیں رکھ سکتے۔ تمہارا آغاز امریکہ کے ہاتھ سے ہوا تھا۔ تمہارا انجام بھی اسی کے قبضے میں ہے۔ اتنے نہ گرو کہ پھر اٹھ بھی نہ سکو۔ امریکی ڈکٹیشن لینے والے حکمران سیاستدان، دانشوران میڈیا کے سلطان این جی او زدگان حافظ صاحب کا جملہ سنیں۔ ”امریکہ بھارت کی ڈکٹیشن پر چل رہا ہے۔ اب امریکہ پاکستان کو بھارتی غلامی میں دھکیل رہا ہے“۔ میں نے بات حافظ صاحب کی جرات کو سلام کرنے سے شروع کی تھی۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ امریکہ جتنا حاوی ہمارے حکام پر ہے آزادی اور ایمان کے متوالوں پر نہیں۔ حیرت ہے کہ حافظ سعید کو سب لوگ جانتے ہیں مگر اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر امریکہ نے رکھی ہے۔ افغانستان میں حریت پسندی کی تاریخ میں ایک نیا باب لہو سے لکھنے والے ملا عمر کے لئے بھی امریکہ نے یہ قیمت رکھی تھی مگر وہ اس کے قابو میں نہ آئے۔ اسامہ بن لادن کے لئے امریکہ نے ڈرامہ کیا اور رسوائی پاکستان کی ہوئی۔ امریکہ کے ایک ظالم اور بدنما وزیر دفاع رمز فیلڈ نے کہا تھا کہ ہم حکمرانوں سے نہیں ڈرتے۔ فوجوں سے نہیں ڈرتے۔ مگر ہمیں ان سے ڈر لگتا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر وقت میدان میں رہتے ہیں۔ جن کے پاس نہ حکومت ہے نہ باقاعدہ فوج ہے جو نڈر ہیں، جو مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ۔ اسرائیل نے عرب ممالک کو خدمت اور لالچ میں مبتلا کیا ہوا ہے مگر ایک سر پھرے ایمان اور یقین کی طاقت والے آدمی نے کمال کر دیا۔
بھارت اور امریکہ پاکستانی حکمرانوں سے نہیں ڈرتے۔ اب وہ ہمارے جرنیلوں سے بھی نہیں ڈرتے۔ بہرحال پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف امریکہ اور بھارت دونوں مسلسل پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ امریکہ اور بھارت صرف پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنا ملازم سمجھنے لگے ہیں۔ وہ حافظ سعید سے ڈرتے ہیں۔ حافظ صاحب ٹی وی چینل پر کتنے اطمینان، بے خوفی اور تحمل سے بول رہے تھے۔ تکبر والے اس ایمانی تدبر سے واقف نہیں ہو سکتے۔ ان کی روحانی شخصیت میں اضطراب اور انقلاب کا ملا جلا ایک خواب ہے جس کا نور ان کے چہرے پر وجد کر رہا تھا۔ کوئی راز ہے جو اللہ والوں کی حفاظت کرتا ہے۔ لالچ اور خوف سے بھرے ہوئے لوگ ان کے ہمراز نہیں ہو سکتے۔ ایک اینکرپرسن بھی ان کی ادائے دلیرانہ کا اعتراف کر رہا تھا۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ سر کی قیمت اس کی مقرر کی جاتی ہے جو سامنے ہو۔ حافظ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ روبرو ہیں اور دوبدو بھی ہیں۔ وہ جو سرنگوں ہیں۔ وہ سربلند انسانوں کے مرتبے اور مقام سے باخبر ہو کر بھی بے خبر رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ پر تنقید کرنے والے خوش ہوں گے کہ بھارت اور امریکہ اس انسان کو گردن زدنی قرار دے رہے ہیں جسے اعلیٰ عدالتوں نے سارے الزامات سے بری کیا ہے۔ ہر طرح کے حکمرانو، بھارت تمہاری حکومت کو نہیں مانتا اور عدالت کو بھی نہیں مانتا۔ بھارت اور امریکہ کو حافظ صاحب سے تکلیف ہے اور یہ تکلیف آج کچھ زیادہ ہے۔ وہ نیٹو اور ڈرون حملوں کے خلاف ہیں۔ کشمیر کے لئے اور پاکستانی دریاﺅں پر بھارتی ڈیموں کے خلاف ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے پیغام ہے۔ امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ بھی بغلیں بجا رہے ہیں۔ یہ روس کے ایجنٹ تھے۔ اب امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔
ٹی وی چینل پر ندیم افضل چن بڑی ڈھٹائی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ حافظ صاحب سے کہا کہ فاٹا جاکر جلسے کرو۔ جیسے فاٹا پاکستان کا حصہ ہی نہ ہو۔ حافظ صاحب نے کہا کہ ہم فاٹا جائیں گے اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ ندیم افضل چن ڈر گیا کہ کہیں سچ مچ اسے بھی ساتھ نہ لے جایا جائے۔ ٹی وی چینل پر جنرل (ر) طلعت کی باتیں بھی عجیب سی تھیں امریکہ اور بھارت پاکستان میں ایسے ہی لوگوں کے مہمان ہیں۔ یہ ریمنڈ ڈیوس کے دوست ہیں۔ سب حکمرانوں سیاستدانوں اپوزیشن والوں کے علاوہ ججوں اور جرنیلوں نے بھی ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروایا۔ یہ سب امریکی اور بھارتی ایجنڈے کے حامی ہیں۔
ایک پاکستانی کے خلاف دھمکی، صدر پاکستان کو دھمکی ہے۔ صدر زرداری بھارت جانے سے انکار کر دیں۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجیں داخل ہوئیں۔ اب بلوچستان میں مداخلت ہو رہی ہے۔ مگر مجاہدین کو قید کرنا چاہتے ہیں۔ حافظ سعید کا بال بیکا نہ ہو سکے گا۔ جماعت الدعوة کے سب لوگ ایمان کی طاقت سے بھرے ہوئے ہیں۔ امیر حمزہ، یحیٰی مجاہد اور دوسرے لوگوں میں حافظ صاحب کی محبت کے چراغ جلتے ہیں اور یہ چراغ پھونکوں سے نہیں بجھتے۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ بھارت، امریکہ کو مجھ سے تکلیف ہے تو یہ تکلیف رہنا چاہئے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ان لوگوں نے بھی مرنا ہے جو موت کی دھمکی دیتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے نام سے ہی امریکہ اور بھارت کو بیزاری ہے۔ مولانا سمیع الحق ثابت قدم ہیں۔ اب تو مولانا فضل الرحمن نے بھی ہر قسم کے تعاون کا یقین دلا دیا ہے۔ اللہ خیر کرے، حافظ حسین احمد نے حافظ صاحب کی حمایت کی ہے اس پر جنرل حمید گل، مشاہد حسین اور مولانا طاہر محمود اشرفی نے امریکہ کو للکارا ہے۔ یہ بھی سوچیں جو لوگ اقتدار اور اپوزیشن کے نشے میں ہیں انہیں امریکہ بھارت نے دھمکی کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ دھمکیاں اور دھماکے ”دوستوں“ کے لئے ہیں۔ ہم دشمنوں کو پہچاننے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں۔! ( تصحیح شدہ)
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ 5 اپریل ، 2012 نوائے وقت