• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ یوسف سراج کا کالم

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
قیامت ہے صاحب ،قیامت !!آئے گی کیا، سمجھئے آچکی ۔ اس ہفتے نہیں تو اس مہینے ضرور آئے گی ۔ حضور ذراکام تو دیکھئے ہمارے، ارے کام کہاں کرتوت کہئے کرتوت !غضب خدا کارب کے مقدس گھر کے لئے تیار ہونے والے غلافِ کعبہ پرایک عورت کے ہاتھ لگوالئے ؟اگرچہ وزیر مگر عورت ۔اگرچہ مسلمان مگر عور ت ۔ اگرچہ عقیدے اور اقلیتوں کی وزیر مگر برطانیہ جیسے کافر ملک کی۔ اگرچہ کبھی شلوار قمیص بھی پہنتی ہیں مگراکثرمغربی لباس۔ سر بھی ننگارکھتی ہیں صاحب اورغلافِ کعبہ کی تیاری میں شرکت؟؟سعیدہ وارثی کے' جرائم'اوربھی ہیں،مگر پہلے ایک تعارف !

سعیدہ وارثی 28 مارچ 1971 کو انگلستان کے شمالی علاقہ ویسٹ یارک شائر کے ایک شہر ڈیوزبری میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین ضلع گوجر خان کے گاؤں بیول کے باسی تھے۔جو ایک مزدور کی حیثیت سے برطانیہ آئے پھر اپناکاروبار کرنے لگے۔ سعیدہ نے ابتدائی تعلیم برطانیہ ویسٹ یارکشائر کے قصبہ ڈیوزبری سے حاصل کی اورگریجویشن لیڈز یونیورسٹی سے کیا۔بعد ازاں انہوں نے ٹوری پارٹی کے مقامی چیئرمین کے ساتھ وکالت کی ایک فرم کھولی۔ 2003 میں پہلی مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی ایک میٹنگ سے خطاب کیا۔ 2005 میں انہیں ڈیوزبری سے ممبر آف پارلیمنٹ کا ٹکٹ دیا گیا مگر وہ ہار گئیں۔2009 میں برطانیہ کی ایک مقامی تنظیم نے انہیں برطانیہ کی سب سے طاقتور مسلمان خاتون قرار دیا تھا۔17 مئی 2010کو سعیدہ وارثی برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی چیئرمین مین اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ کی رکن بن کر،اس عہدے پرپہنچنے والی پہلی مسلمان،پہلی ایشیائی اورپہلی پاکستانی خاتون ثابت ہوئیں۔ وہ 4 جولائی 2007 سے برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کی رکن بھی ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے انھیں بیرونس کا خطاب دے رکھاہے۔ دسمبر 2007 میں ان کی اپنے ماموں زاد شوہر سے علیحدگی ہوگئی اور بعدازاں اگست 2009 کو سعیدہ وارثی افتخار اعظم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ ان کی صاف گو باتیں انہیں دیگر سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔

کشمیر پر پاکستان کے حق میں بھی ان کے بیانات سامنے آچکے ہیں۔وہ برطانیہ کی اقلیتی اور مذہبی امور کی وزیر ہیں۔حال ہی میں سعیدہ وارثی برطانیہ کی طرف سے سرکاری دورے پر سعودی عرب آئیں ۔یہاں انھوں نے عمرے کی سعادت بھی حاصل کی اوریہ بھی دیکھاکہ مکہ معظمہ میں برطانوی فرموں کے لئے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ چنانچہ انھوں نے برطانوی فرم پی بی کے لئے سعودیہ سے ایک بڑا پراجیکٹ حاصل کرلیا۔ان کا کہنا تھاکہ برطانوی فرم پی بی ورلڈکے لئے مکہ کے انفراسٹرکچرکی معاونت کی مد میں ایک بڑاٹھیکہ حاصل کرنے پر انھیں بڑی خوشی ہے ۔'' انھوں نے یہاں سے ملنے والی اپنی ایک اور خوشی بھی اپنے ٹویٹر اکاؤ نٹ پر شیئر کی۔دراصل انھیں مکہ مکرمہ میں واقع 'کسوہ' فیکٹری کا دورہ کروایاگیا،جہاں انھوں نے غلافِ کعبہ کی تاریخ سے آگاہی بھی حاصل کی اور سونے کی تاروں سے سیاہ ریشمی غلاف پر کشیدہ کاری کرنے کے عمل میں بھی شریک ہونے کی سعادت بھی ملی۔یہی وہ خوشی ہے جس کا نھوں نے ٹویٹراکاؤنٹ پر اظہارکیا۔

ناظرین !اب ایک طرف سیدہ وارثی کی یہ اچیومنٹس ہیں ۔دوسری طرف ہم میں سے کچھ لوگوں کومذہبی حوالے سے ان پر اعتراضات بھی ہو سکتے ہیں ۔اعتراضات کی یہ فہرست ہم جتنی چاہیں طویل کر سکتے ہیں۔ہم ایسے سب اعتراضات کو عین اسلام بھی قرار دے سکتے ہیں۔تاہم دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو سعیدہ وارثی میں ہمیں کافی سارا اسلام بھی نظر آسکتا ہے ۔مثلاًوہ مکہ جاتی ہیں تو جہاں ایک معاہدے پر دستخط کرتی ہیں وہیں عمرہ بھی اداکرتی ہیں ۔اور جہاں انھیں اس معاہدے کے طے پانے سے خوشی ہوتی ہے وہیں انھیں غلافِ کعبہ کی بنت میں شرکت پربھی روحانی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔جہاں ہمیں ان کامغربی لباس نظر آتاہے ،وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی کابینہ کے اپنے پہلے ہی اجلاس میں سعیدہ وارثی شلوار قمیص اور دوپٹے میں شرکت کرکے پاکستان سے محبت کرتی بھی نظر آتی ہیں۔سعیدہ وارثی سیاسی ذمہ داریوں کے ساتھ سویرا فاؤنڈیشن نامی ایک فلاحی تنظیم کی بھی سربراہ بھی ہیں جس کے تحت پاکستان کی مستحق خواتین کے لئے خدمات سرانجام دی جاتی ہیں۔اب ہم چاہیں تو سعیدہ وارثی اور ان جیسی دیگر خواتین پر تنقید کرکر کے اپنا اسلام ثابت بھی ثابت کرسکتے ہیں اور چاہیں توان کی اچھائیاں دیکھتے ہوئے ان کی معمولی کوتاہیاں نظر انداز کرکے اسلام کی روح پر بھی عمل کرسکتے ہیں ۔یہ ہمارے رویوں پر موقوف ہے ۔

ہم چاہیں تو لوگوں سے اُس حساب کا ابھی سے مطالبہ کرنا شروع کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز لیناہے اور چاہیں تو ا س مواخذے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں جولوگوں کے خداسے متعلق کے معاملات میں مداخلت کرنے پرہماراہوسکتاہے۔پہلی صورت میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہونے کاامکان ہے جبکہ دوسری صورت میں ہماری آخرت مشکل میں پڑسکتی ہے ۔ حالانکہ یہ طے ہے کہ دوسروں کے متعلق خواہ وہ کیسے بھی کیوں نہ ہوں ،ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ ضرور ہی انھیں معاف نہیں کرے گا۔اس کے باوجود ہم لوگوں کے متعلق فیصلے کرنے میں زیادہ وقت لگاتے اوراپنے اسیاسلامی عمل سے زیادہ خوشی پاتے ہیں ۔ہمارے یہ فیصلے لوگوں کاظاہر دیکھ کر ان کی آخرت کے متعلق ہوتے ہیں۔مثلاً ہم مسلمانوں میں سے بہت سے 'زیادہ مسلمان 'فلم انڈسٹری اور بہت سی دوسری ایسی انڈسٹریوں سے وابستگان کی آخرت کے متعلق ایک واضح نقطۂ نظر رکھنے ہیں ۔ایساکرتے وقت وہ بھول جائیں گے ایک نیک شخص صرف اس لئے جہنم چلاگیا تھاکہ ہر روز دوسرے کو نیکی کی تلقین کرنے کے جواب میں بھی جب دوسرا ٹس سے مس نہ ہواتو ایک دن اس کے منہ سے یہ نکل گیاتھا: ''اللہ کی قسم تو ہر گزنہ بخشاجائے گا''۔ حالانکہ یہ اللہ کے اختیارات کو چیلنج کرنے والی بات تھی اور کسی کے متعلق ایسے فیصلے کرنے کی اللہ نے قطعاًً کسی کو اجازت نہیں دے رکھی ۔ وہ بھول جائیں گے کہ واضح طور پر دوسرا کردار رکھتی ایک خاتون کو اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے بخش دیا تھا کہ اس نے ایک بارایک نجس جانور کو شدیدگرمی میں پانی پلادیا تھا۔ ایسے زیادہ اچھے مسلمان کبھی غلط لوگوں کی اصلاح کے لئے نہ نکلیں گے اور بھول جائیں گے کہ اللہ کے سب سے برگزیدہ نبی ﷺ عکاظ کے بازاروں میں بھی چلے جایا کرتے تھے ۔

کیاخیال ہے اے پیارے ناظرین !ہمیں دوسروں کے متعلق فیصلے کرکرکے اس دنیاکو جہنم بناناچاہئے یااسلام کی دی ہوئی فراخی کوبروئے کار لاکر محبت بھر ااپناکام کرنا چاہئے ؟میراخیال ہے سنبھلنے ،سوچنے اور پلٹنے کااللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جو آخری سانس تک موقع دے رکھا ہے ہمیں وہ کم نہ کرناچاہئے ۔آپ دیکھتے نہیں وینا ملک نے دوپٹااوڑھ لیا ہے اور سارہ چودھری حجاب اوڑھے دین پھیلارہی ہیں ۔ آپ کاکیاخیال ہے اگر ان کے شوہر فیصل اخوند زادہ ہماری طرح کے 'باعمل'مسلمان ہوتے اور سارہ چودھری کو اسلام کی دی ہوئی تدریج کی مہلت نہ دیتے تو وہ آج وہی ہوتیں جیسی کہ ہیں؟کیاہمیں حیرت نہیں ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ تو عبداللہ بن ابی کومنافق ہونے کے باجود قتل نہیں ہونے دیتے اور ہم ملالہ جیسی بچی پر حملہ کر گزرتے ہیں؟نظرئیے کا جواب دلیل سے یا گولی سے؟؟ (روزنامہ نئی بات 27 فروری 2014ء)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
حافظ یوسف سراج صاحب کے متذکرہ بالا ”بھاشن“ پر فورم کے ”پارسا لکھاریوں“ کے تصوراتی جوابات پر مبنی ”نوشتہ ہائے آئینہ“ ۔ اگر آپ کو اس آئینہ میں اپنی تصویر نظر آجائے تو آئینہ کو برا بھلا نہ کہئے گا بلکہ ۔ ۔ ۔ (عقلمند کے لئے اشارہ والا آئی کون)

دوسروں کے متعلق خواہ وہ کیسے بھی کیوں نہ ہوں ،ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ ضرور ہی انھیں معاف نہیں کرے گا
حافظ صاحب! ”ہم دیندار، باعمل اور پارسا لوگ ہیں“ آپ ہم سے یہ ”حق“ چھین نہیں سکتے۔ ہمارا تو ”فریضہ“ ہی یہی ہے کہ ہم دین کا نسبتاً کم علم رکھنے اور اس پر کم تر عمل کرنے والوں کو دن رات ”گمراہ اور جہنمی“ قرار دیتے رہیں۔ (سوچنے والا آئی کون)

ایک نیک شخص صرف اس لئے جہنم چلاگیا تھاکہ ہر روز دوسرے کو نیکی کی تلقین کرنے کے جواب میں بھی جب دوسرا ٹس سے مس نہ ہواتو ایک دن اس کے منہ سے یہ نکل گیاتھا: ''اللہ کی قسم تو ہر گزنہ بخشاجائے گا''
ہم بھی تو ”نیک لوگ“ ہیں۔ اب ہم کیا گناہگاروں کے خلاف فتوے بھی نہ دیں کہ وہ جہنمی ہیں (نقل کفر، کفر نہ باشد)

”دوسرا کردار“ رکھتی ایک خاتون کو اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے بخش دیا تھا کہ اس نے ایک بارایک نجس جانور کو شدیدگرمی میں پانی پلادیا تھا۔
پھر کیا ہوا؟ اللہ بخشے تو بخشے۔ ہم ”پارسا لوگ“ ایسے ”بدکردار لوگوں“ کو کیوں بخشیں (معاذ اللہ)

!ہمیں دوسروں کے متعلق فیصلے کرکرکے اس دنیاکو جہنم بناناچاہئے یااسلام کی دی ہوئی فراخی کوبروئے کار لاکر محبت بھر ااپناکام کرنا چاہئے
ہمیں تو قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکرار سے کہیں زیادہ ”بدکردار اور گناہ گار“ لوگوں کے ڈھکے چھپے بد اعمالیوں و اقوال کی تفسیر و تشہیر میں ہی زیادہ "لطف" آتا ہے ۔ ہم ان ”گندگیوں“ کو اپنی ماؤں، بہنوں اور معصوم بچوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتے رہتے ہیں تاکہ ان ”اذکار عالیہ“ سے یہ بھی ”مستفید“ ہوں اور ہم بھی (لاحول ولا قوۃ الا باللہ)

سارہ چودھری حجاب اوڑھے دین پھیلارہی ہیں ۔ آپ کاکیاخیال ہے اگر ان کے شوہر فیصل اخوند زادہ ہماری طرح کے 'باعمل'مسلمان ہوتے اور سارہ چودھری کو اسلام کی دی ہوئی تدریج کی مہلت نہ دیتے تو وہ آج وہی ہوتیں جیسی کہ ہیں؟
حافظ صاحب! اگر ان بدکردار خواتین کو ان کے شوہروں نے ”مہلت“ دی تو وہ بھی ان کے گناہوں میں برابر کے ”شریک“ ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کے اس ”بھاشن“ سے ہم اپنا ”فریضہ“ ادا کرنا ترک کردیں گے، ہر گز نہیں۔ ہم ”زندہ گناہ گار“ تو رہے ایک طرف صدیوں قبل وفات پاجانے والے اُن نامور علمائے دین تک کے ”گناہوں کا حساب کتاب“ کرکے انہیں دنیا کے سامنے ”ذلیل و رسوا“ کرتے رہیں گے، جن کا تعلق ”ہمارے مسلک و مذہب“ سے نہ ہو۔ ہم صرف اپنے ”مسلکی اکابر“ کی عزت کرنے کے قائل ہیں۔ دوسرے مسالک کے اکابر تو اسی قابل ہیں کہ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے لئے اپنی توانائیاں لگاتے رہیں۔ ہمیں اللہ نے اسی فریضہ کے لئے تو علم دین عطا کیا ہے۔ جب ہم اُن سے ”بہتر و افضل“ ہیں تو انہیں کمتر اور گناہگار ثابت کیوں نہ کریں (لمحہ فکریہ والا آئی کون)

انتساب:
فورم کے اُن تمام ”پارسا لکھاریوں“ کے نام جو متذکرہ بالا ”حرکات“ میں ”گوڈے گوڈے“ ڈوبے ہوئے ہیں (ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والا آئی کون)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یوسف تو ایک ہی کافی تھا لیکن اب دو جمع ہوگئے ہیں ۔ اللہ خیرکرے ۔ ( ابتسامہ )
دل کی بیماریوں میں سے ایک بیماری کا نام ہے ’’ عُجب ‘‘ یعنی خود پسندی ۔
علماء عام طور پر اس بیماری سے بڑے محتاط رہتے تھے ۔ میں نے مولانا محمد حسین شیخوپوری صاحب رحمہ اللہ کی ایک مکمل تقریر سنی تھی جس کا موضوع ہی یہ تھا ۔
ہم بھی نہ رہ سکیں گے کچھ کہے بغیرکہ حافظ یوسف سراج صاحب کے کالم میں کام کی بات یہی ہے کہ ’’ خود پسندی ‘‘سے بچنا چاہیے اور دوسروں کو ’’ گناہ گار ‘‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ذمہ داری ہماری نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ جتنی باتیں ہیں وہ ’’ قلمکاریاں اور کالم نگاریاں ‘‘ہیں جن سے کوئی واضح پیغام نہیں ملتا ۔ بات کو گول کرنابھی اگرچہ ایک فن تصور کیا جاتا ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں آج کل واضح رہنمائی کی زیادہ ضرورت ہے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس کے علاوہ جتنی باتیں ہیں وہ ’’ قلمکاریاں اور کالم نگاریاں ‘‘ہیں جن سے کوئی واضح پیغام نہیں ملتا ۔ بات کو گول کرنابھی اگرچہ ایک فن تصور کیا جاتا ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں آج کل واضح رہنمائی کی زیادہ ضرورت ہے ۔
محترم بھائیو محترم یوسف سراج بھائی بے شک ہماری جماعت کے ہی لکھاری ہیں مگر کبھی کبھی مجھے ان کی باتوں میں مبہم چیزین نظر آتی ہیں جیسے آج کل محترم امیر حمزہ حفظہ اللہ کی باتوں میں غلط چیزیں مل جاتی ہیں
اب گول مول باتوں سے جہاں آپ ایک طرف کچھ لوگوں کو غلط راستے سے روک رہے ہوتے ہیں وہاں دوسری طرف آپ کچھ لوگوں کو غلط منہج بھی دے رہے ہوتے ہیں کچھ دن پہلے بھی غالبا جاوید چوہدھری کے ایک کالم کی بات ہوئی تھی جس میں شریعت پر طنز کرتے ہوئے اخلاق کی بات کی گئی تھی خیر انکا تو دین سے تعلق نہیں تھا مگر ہمارے محترم سراج یوسف بھائی تو ایک باعمل عالم ہیں مگر نیک نیتی سے لکھتے ہوئے دوسری طرف کو بھول گئے کہ اس کی بھی وضاحت ساتھ کر دی جاتی تو کوئی ابہام نہ رہتا
اس پر اگلی فرصت میں لکھوں گا ان شاءاللہ
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
فیس بک پر میری محترم کالم نگار سے بات ہوئی؛کہا گیا کہ آخرت کے فیصلے ہمیں نہیں کرنے؛میں نے عرض کیا:
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آخرت میں ان پر حکم لگانا ہے یا نہیں؛یقیننا وہ ہمارے اختیار میں نہیں لیکن کیا محض غلاف کعبہ کی تیاری کوئی نیکی یا عظیم کام ہے بھی یا نہیں؛اگر ہے بھی تو کیا جس شخصیت کے عقائد و اعمال اسلام کے اس حد تک منافی ہوں کہ نواقض کی حد تک پہنچے ہوں اس کی محض اس پر تحسین آپ جیسے اصحاب علم کے لیے کہاں تک درست ہے؛معاف کیجیے گا یہ مولانا طارق جمیل والی اپروچ ہے؛بھلا جس قرآن و حدیث میں بدعتی کی توقیر باعث انہدام عمارت اسلام ہو اس کے نام لیوا اس طرح کی سیکولر اور لادین خواتین کی تحسین کیوں کر کر سکتے ہیں
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اب اس پر ثانی صاحب نے جو تبصرے فرمائے ہیں وہ بھی صحافیانہ قسم کی اپروچ کا مظہرہیں؛محترم من!آخرت کے ہم ذمہ دار نہیں ،لیکن دنیا میں فیصلے بہ ہر حال ظاہر ہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں:نحن نحکم بالظواھر،واللہ یتولی السرائر
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ہم ایسے سب اعتراضات کو عین اسلام بھی قرار دے سکتے ہیں۔تاہم دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو سعیدہ وارثی میں ہمیں کافی سارا اسلام بھی نظر آسکتا ہے ۔مثلاًوہ مکہ جاتی ہیں تو جہاں ایک معاہدے پر دستخط کرتی ہیں وہیں عمرہ بھی اداکرتی ہیں ۔اور جہاں انھیں اس معاہدے کے طے پانے سے خوشی ہوتی ہے وہیں انھیں غلافِ کعبہ کی بنت میں شرکت پربھی روحانی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔جہاں ہمیں ان کامغربی لباس نظر آتاہے ،وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی کابینہ کے اپنے پہلے ہی اجلاس میں سعیدہ وارثی شلوار قمیص اور دوپٹے میں شرکت کرکے پاکستان سے محبت کرتی بھی نظر آتی ہیں۔سعیدہ وارثی سیاسی ذمہ داریوں کے ساتھ سویرا فاؤنڈیشن نامی ایک فلاحی تنظیم کی بھی سربراہ بھی ہیں جس کے تحت پاکستان کی مستحق خواتین کے لئے خدمات سرانجام دی جاتی ہیں۔اب ہم چاہیں تو سعیدہ وارثی اور ان جیسی دیگر خواتین پر تنقید کرکر کے اپنا اسلام ثابت بھی ثابت کرسکتے ہیں اور چاہیں توان کی اچھائیاں دیکھتے ہوئے ان کی معمولی کوتاہیاں نظر انداز کرکے اسلام کی روح پر بھی عمل کرسکتے ہیں ۔یہ ہمارے رویوں پر موقوف ہے ۔
پہلی بات تو یہ کہ محترم یوسف سراج بھائی نے ایک طرف کچھ لوگوں کی غلطی کی طرف تو بالکل ٹھیک اشارہ کیا ہے مگر ساتھ کچھ ایسی مبہم باتیں چھوڑیں ہیں جس سے محترم یوسف ثانی بھائی کو بھی لگا کہ وہ شاید اپنے مسلک کو صحیح سمجھنے والے علماء کو بھی رگڑ رہے ہیں
دوسرا ہمارے اندر سے یہ احساس ہی ختم ہو گیا ہے کہ کافی سارا اسلام کس کو کہتے ہیں اور اسلام کی اصل بنیاد کیا ہے
تیسرا کسی پر تنقید کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں

1-کسی کو غلطی کا احساس دلانے کے لئے یا دوسروں کو اسکی غلطی واضح کرنے کے لئے اسکو غلط کہا جائے اور میرا خیال ہے کہ اکثر علماء گوڈوں گوڈوں تک شاید اسی میں گرے ہوئے ہیں اور اسکے پیچھے ان علماء کو بہت ساری احادیث نظر آتی ہیں مثلا
لما وقعت بنو إسرائيل في المعاصي، نهتهم علماؤهم فلم ينتهوا، فجالسوهم في مجالسهم، قال يزيد: وأحسبه قال في أسواقهم، وواكلوهم، وشاربوهم، فضرب الله قلوب بعضهم ببعض
اسی طرح من رای منکرا فلیغیر بیدہ ---------- وغیرہ
مگر آجکل کچھ غامدی جیسے دانشور اور دوسرے اینکر ایسی صوفیاء جیسی باتیں کرتے ہیں کہ جس سے دین اسلام پر عمل کرنے والے مخلص علماء انکو فرقہ پرست ہی نظر آتے ہیں اور بعض دفعہ خلوص نیت سے کچھ مخلص لوگ بھی حالات کا ایک پہلو لاشعوری طور پر اوجھل ہونے کی وجہ سے مبہم بات کر جاتے ہیں

2-دوسری تنقید یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی پر جنت جہنم کا حکم لگا دے میرے خیال میں میں نے کسی صحیح عالم کو اس میں ڈوبا نہیں پایا

جہاں تک دنیا میں کسی سے تعامل کا حکم ہے تو اس میں تو ہم ظاہر کے مکلف ہیں اور لوگوں کے ظاہر کو دیکھ کر ہی حکم لگائیں گےمگر یہ حکم تعامل کی حد تک ہی ہو گا اخرت کے فیصلے تک نہیں جائے گا مثلا میرے محترم یوسف سراج بھائی کو اگر اوپر محترمہ جیسی لڑکی بہو بنانے کے لئے کہا جائے تو انکا تعامل لازما ظاہر کو دیکھ کر ہی ہو گا

ہم چاہیں تو لوگوں سے اُس حساب کا ابھی سے مطالبہ کرنا شروع کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز لیناہے اور چاہیں تو ا س مواخذے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں جولوگوں کے خداسے متعلق کے معاملات میں مداخلت کرنے پرہماراہوسکتاہے۔پہلی صورت میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہونے کاامکان ہے جبکہ دوسری صورت میں ہماری آخرت مشکل میں پڑسکتی ہے
اوپر والا مواخذہ تو تب ہو گا جب کوئی کسی پر جنت جہنم کا یقین کے ساتھ حکم لگائے البتہ غلط سمجھنے اور غلط کہ کر روکنا تو خود مطلوب ہے پس اس صورت میں بنی اسرائیل کے علماٗ پر لگائے گئے حکم سے بھی ڈرنا چاہئے

کیاہمیں حیرت نہیں ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ تو عبداللہ بن ابی کومنافق ہونے کے باجود قتل نہیں ہونے دیتے اور ہم ملالہ جیسی بچی پر حملہ کر گزرتے ہیں؟نظرئیے کا جواب دلیل سے یا گولی سے؟؟ (روزنامہ نئی بات 27 فروری 2014ء)​
میرے خیال میں اسلام کسی بھی بچی پر گولی چلانے کو بہادری نہیں کہتا چاہے وہ گولی جامعہ حفصہ والوں کے نظریے کے جواب میں ہو جو کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی اصل امن کے علمبردار ہیں پس انکے اصول لاگو ہوں یا پھر ملالہ کے نظریے کے جواب میں ہو کہ جو اوباما کو امن کا علمبردار سمجھتی ہے​
منافق (جس کا کفر چھپا ہو) کو مارنے کے حرام ہونے پر قرآن و سنت کے بہت سے دلائل موجود ہیں مگر عبداللہ بن ابی کی ذات پر قیاس کرنا صحیح نہیں وجہ یہ ہے کہ اس نے جو رسول اللہ کی گستاخی کی تھی اسکی گواہی قرآن نے دی تھی تو اگر اس پر ہم آج کے انسانوں کو قیاس کریں تو حرمت رسول کی تحریکیں ختم ہو جائیں گی کیونکہ کسی گستاخ رسول کو مارنا ٹھیک نہیں رہے گا وہاں پر علماء اور دلیل دیتے ہیں​
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
فیس بک پر میری محترم کالم نگار سے بات ہوئی؛کہا گیا کہ آخرت کے فیصلے ہمیں نہیں کرنے؛میں نے عرض کیا:
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آخرت میں ان پر حکم لگانا ہے یا نہیں؛یقیننا وہ ہمارے اختیار میں نہیں لیکن کیا محض غلاف کعبہ کی تیاری کوئی نیکی یا عظیم کام ہے بھی یا نہیں؛اگر ہے بھی تو کیا جس شخصیت کے عقائد و اعمال اسلام کے اس حد تک منافی ہوں کہ نواقض کی حد تک پہنچے ہوں اس کی محض اس پر تحسین آپ جیسے اصحاب علم کے لیے کہاں تک درست ہے؛معاف کیجیے گا یہ مولانا طارق جمیل والی اپروچ ہے؛بھلا جس قرآن و حدیث میں بدعتی کی توقیر باعث انہدام عمارت اسلام ہو اس کے نام لیوا اس طرح کی سیکولر اور لادین خواتین کی تحسین کیوں کر کر سکتے ہیں
ماشاءاللہ میں نے لکھ کر پوسٹ کیا تو دیکھا کہ پہلے سے استاد محترم کے دو پیغام موجود تھے جس میں انہوں نے مجھ سے زیادہ بہتر اور مختصر طریقے سے وہی بات کر دی تھی جو میں کرنا چاہتا تھا اللہ جزائے خیر دے امین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
گویا ”ہم“ ویسے ”کچھ اور“ کہنے کے قائل ہیں اور ٹی وی اسکرین اور اخباری کالموں میں ”کچھ اور“۔ اس فورم میں ایک طرف تو دیگر مسالک اور ان کے اکابرین کے لئے ”شدید ترین“ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، تو دوسری طرف اوپن میڈیا میں ”کھلی رواداری“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”شیعہ سنی“ سب کو مسلمان قرار دیا جاتاہے ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں خود علامہ ابتسام الہٰی ظہیر صاحب نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ہم شیعہ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ اور یہ پروگرام اس احقر نے بہ چشم خود دیکھا تھا۔ (کم سے کم الفاظ میں) کیا یہ ”کھلا تضاد“ نہیں ہے۔ (سوچنے والا آئی کون)
 
Top