- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
قیامت ہے صاحب ،قیامت !!آئے گی کیا، سمجھئے آچکی ۔ اس ہفتے نہیں تو اس مہینے ضرور آئے گی ۔ حضور ذراکام تو دیکھئے ہمارے، ارے کام کہاں کرتوت کہئے کرتوت !غضب خدا کارب کے مقدس گھر کے لئے تیار ہونے والے غلافِ کعبہ پرایک عورت کے ہاتھ لگوالئے ؟اگرچہ وزیر مگر عورت ۔اگرچہ مسلمان مگر عور ت ۔ اگرچہ عقیدے اور اقلیتوں کی وزیر مگر برطانیہ جیسے کافر ملک کی۔ اگرچہ کبھی شلوار قمیص بھی پہنتی ہیں مگراکثرمغربی لباس۔ سر بھی ننگارکھتی ہیں صاحب اورغلافِ کعبہ کی تیاری میں شرکت؟؟سعیدہ وارثی کے' جرائم'اوربھی ہیں،مگر پہلے ایک تعارف !
سعیدہ وارثی 28 مارچ 1971 کو انگلستان کے شمالی علاقہ ویسٹ یارک شائر کے ایک شہر ڈیوزبری میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین ضلع گوجر خان کے گاؤں بیول کے باسی تھے۔جو ایک مزدور کی حیثیت سے برطانیہ آئے پھر اپناکاروبار کرنے لگے۔ سعیدہ نے ابتدائی تعلیم برطانیہ ویسٹ یارکشائر کے قصبہ ڈیوزبری سے حاصل کی اورگریجویشن لیڈز یونیورسٹی سے کیا۔بعد ازاں انہوں نے ٹوری پارٹی کے مقامی چیئرمین کے ساتھ وکالت کی ایک فرم کھولی۔ 2003 میں پہلی مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی ایک میٹنگ سے خطاب کیا۔ 2005 میں انہیں ڈیوزبری سے ممبر آف پارلیمنٹ کا ٹکٹ دیا گیا مگر وہ ہار گئیں۔2009 میں برطانیہ کی ایک مقامی تنظیم نے انہیں برطانیہ کی سب سے طاقتور مسلمان خاتون قرار دیا تھا۔17 مئی 2010کو سعیدہ وارثی برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی چیئرمین مین اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ کی رکن بن کر،اس عہدے پرپہنچنے والی پہلی مسلمان،پہلی ایشیائی اورپہلی پاکستانی خاتون ثابت ہوئیں۔ وہ 4 جولائی 2007 سے برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کی رکن بھی ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے انھیں بیرونس کا خطاب دے رکھاہے۔ دسمبر 2007 میں ان کی اپنے ماموں زاد شوہر سے علیحدگی ہوگئی اور بعدازاں اگست 2009 کو سعیدہ وارثی افتخار اعظم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ ان کی صاف گو باتیں انہیں دیگر سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
کشمیر پر پاکستان کے حق میں بھی ان کے بیانات سامنے آچکے ہیں۔وہ برطانیہ کی اقلیتی اور مذہبی امور کی وزیر ہیں۔حال ہی میں سعیدہ وارثی برطانیہ کی طرف سے سرکاری دورے پر سعودی عرب آئیں ۔یہاں انھوں نے عمرے کی سعادت بھی حاصل کی اوریہ بھی دیکھاکہ مکہ معظمہ میں برطانوی فرموں کے لئے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ چنانچہ انھوں نے برطانوی فرم پی بی کے لئے سعودیہ سے ایک بڑا پراجیکٹ حاصل کرلیا۔ان کا کہنا تھاکہ برطانوی فرم پی بی ورلڈکے لئے مکہ کے انفراسٹرکچرکی معاونت کی مد میں ایک بڑاٹھیکہ حاصل کرنے پر انھیں بڑی خوشی ہے ۔'' انھوں نے یہاں سے ملنے والی اپنی ایک اور خوشی بھی اپنے ٹویٹر اکاؤ نٹ پر شیئر کی۔دراصل انھیں مکہ مکرمہ میں واقع 'کسوہ' فیکٹری کا دورہ کروایاگیا،جہاں انھوں نے غلافِ کعبہ کی تاریخ سے آگاہی بھی حاصل کی اور سونے کی تاروں سے سیاہ ریشمی غلاف پر کشیدہ کاری کرنے کے عمل میں بھی شریک ہونے کی سعادت بھی ملی۔یہی وہ خوشی ہے جس کا نھوں نے ٹویٹراکاؤنٹ پر اظہارکیا۔
ناظرین !اب ایک طرف سیدہ وارثی کی یہ اچیومنٹس ہیں ۔دوسری طرف ہم میں سے کچھ لوگوں کومذہبی حوالے سے ان پر اعتراضات بھی ہو سکتے ہیں ۔اعتراضات کی یہ فہرست ہم جتنی چاہیں طویل کر سکتے ہیں۔ہم ایسے سب اعتراضات کو عین اسلام بھی قرار دے سکتے ہیں۔تاہم دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو سعیدہ وارثی میں ہمیں کافی سارا اسلام بھی نظر آسکتا ہے ۔مثلاًوہ مکہ جاتی ہیں تو جہاں ایک معاہدے پر دستخط کرتی ہیں وہیں عمرہ بھی اداکرتی ہیں ۔اور جہاں انھیں اس معاہدے کے طے پانے سے خوشی ہوتی ہے وہیں انھیں غلافِ کعبہ کی بنت میں شرکت پربھی روحانی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔جہاں ہمیں ان کامغربی لباس نظر آتاہے ،وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی کابینہ کے اپنے پہلے ہی اجلاس میں سعیدہ وارثی شلوار قمیص اور دوپٹے میں شرکت کرکے پاکستان سے محبت کرتی بھی نظر آتی ہیں۔سعیدہ وارثی سیاسی ذمہ داریوں کے ساتھ سویرا فاؤنڈیشن نامی ایک فلاحی تنظیم کی بھی سربراہ بھی ہیں جس کے تحت پاکستان کی مستحق خواتین کے لئے خدمات سرانجام دی جاتی ہیں۔اب ہم چاہیں تو سعیدہ وارثی اور ان جیسی دیگر خواتین پر تنقید کرکر کے اپنا اسلام ثابت بھی ثابت کرسکتے ہیں اور چاہیں توان کی اچھائیاں دیکھتے ہوئے ان کی معمولی کوتاہیاں نظر انداز کرکے اسلام کی روح پر بھی عمل کرسکتے ہیں ۔یہ ہمارے رویوں پر موقوف ہے ۔
ہم چاہیں تو لوگوں سے اُس حساب کا ابھی سے مطالبہ کرنا شروع کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز لیناہے اور چاہیں تو ا س مواخذے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں جولوگوں کے خداسے متعلق کے معاملات میں مداخلت کرنے پرہماراہوسکتاہے۔پہلی صورت میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہونے کاامکان ہے جبکہ دوسری صورت میں ہماری آخرت مشکل میں پڑسکتی ہے ۔ حالانکہ یہ طے ہے کہ دوسروں کے متعلق خواہ وہ کیسے بھی کیوں نہ ہوں ،ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ ضرور ہی انھیں معاف نہیں کرے گا۔اس کے باوجود ہم لوگوں کے متعلق فیصلے کرنے میں زیادہ وقت لگاتے اوراپنے اسیاسلامی عمل سے زیادہ خوشی پاتے ہیں ۔ہمارے یہ فیصلے لوگوں کاظاہر دیکھ کر ان کی آخرت کے متعلق ہوتے ہیں۔مثلاً ہم مسلمانوں میں سے بہت سے 'زیادہ مسلمان 'فلم انڈسٹری اور بہت سی دوسری ایسی انڈسٹریوں سے وابستگان کی آخرت کے متعلق ایک واضح نقطۂ نظر رکھنے ہیں ۔ایساکرتے وقت وہ بھول جائیں گے ایک نیک شخص صرف اس لئے جہنم چلاگیا تھاکہ ہر روز دوسرے کو نیکی کی تلقین کرنے کے جواب میں بھی جب دوسرا ٹس سے مس نہ ہواتو ایک دن اس کے منہ سے یہ نکل گیاتھا: ''اللہ کی قسم تو ہر گزنہ بخشاجائے گا''۔ حالانکہ یہ اللہ کے اختیارات کو چیلنج کرنے والی بات تھی اور کسی کے متعلق ایسے فیصلے کرنے کی اللہ نے قطعاًً کسی کو اجازت نہیں دے رکھی ۔ وہ بھول جائیں گے کہ واضح طور پر دوسرا کردار رکھتی ایک خاتون کو اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے بخش دیا تھا کہ اس نے ایک بارایک نجس جانور کو شدیدگرمی میں پانی پلادیا تھا۔ ایسے زیادہ اچھے مسلمان کبھی غلط لوگوں کی اصلاح کے لئے نہ نکلیں گے اور بھول جائیں گے کہ اللہ کے سب سے برگزیدہ نبی ﷺ عکاظ کے بازاروں میں بھی چلے جایا کرتے تھے ۔
کیاخیال ہے اے پیارے ناظرین !ہمیں دوسروں کے متعلق فیصلے کرکرکے اس دنیاکو جہنم بناناچاہئے یااسلام کی دی ہوئی فراخی کوبروئے کار لاکر محبت بھر ااپناکام کرنا چاہئے ؟میراخیال ہے سنبھلنے ،سوچنے اور پلٹنے کااللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جو آخری سانس تک موقع دے رکھا ہے ہمیں وہ کم نہ کرناچاہئے ۔آپ دیکھتے نہیں وینا ملک نے دوپٹااوڑھ لیا ہے اور سارہ چودھری حجاب اوڑھے دین پھیلارہی ہیں ۔ آپ کاکیاخیال ہے اگر ان کے شوہر فیصل اخوند زادہ ہماری طرح کے 'باعمل'مسلمان ہوتے اور سارہ چودھری کو اسلام کی دی ہوئی تدریج کی مہلت نہ دیتے تو وہ آج وہی ہوتیں جیسی کہ ہیں؟کیاہمیں حیرت نہیں ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ تو عبداللہ بن ابی کومنافق ہونے کے باجود قتل نہیں ہونے دیتے اور ہم ملالہ جیسی بچی پر حملہ کر گزرتے ہیں؟نظرئیے کا جواب دلیل سے یا گولی سے؟؟ (روزنامہ نئی بات 27 فروری 2014ء)
سعیدہ وارثی 28 مارچ 1971 کو انگلستان کے شمالی علاقہ ویسٹ یارک شائر کے ایک شہر ڈیوزبری میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین ضلع گوجر خان کے گاؤں بیول کے باسی تھے۔جو ایک مزدور کی حیثیت سے برطانیہ آئے پھر اپناکاروبار کرنے لگے۔ سعیدہ نے ابتدائی تعلیم برطانیہ ویسٹ یارکشائر کے قصبہ ڈیوزبری سے حاصل کی اورگریجویشن لیڈز یونیورسٹی سے کیا۔بعد ازاں انہوں نے ٹوری پارٹی کے مقامی چیئرمین کے ساتھ وکالت کی ایک فرم کھولی۔ 2003 میں پہلی مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی ایک میٹنگ سے خطاب کیا۔ 2005 میں انہیں ڈیوزبری سے ممبر آف پارلیمنٹ کا ٹکٹ دیا گیا مگر وہ ہار گئیں۔2009 میں برطانیہ کی ایک مقامی تنظیم نے انہیں برطانیہ کی سب سے طاقتور مسلمان خاتون قرار دیا تھا۔17 مئی 2010کو سعیدہ وارثی برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی چیئرمین مین اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ کی رکن بن کر،اس عہدے پرپہنچنے والی پہلی مسلمان،پہلی ایشیائی اورپہلی پاکستانی خاتون ثابت ہوئیں۔ وہ 4 جولائی 2007 سے برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کی رکن بھی ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے انھیں بیرونس کا خطاب دے رکھاہے۔ دسمبر 2007 میں ان کی اپنے ماموں زاد شوہر سے علیحدگی ہوگئی اور بعدازاں اگست 2009 کو سعیدہ وارثی افتخار اعظم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ ان کی صاف گو باتیں انہیں دیگر سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
کشمیر پر پاکستان کے حق میں بھی ان کے بیانات سامنے آچکے ہیں۔وہ برطانیہ کی اقلیتی اور مذہبی امور کی وزیر ہیں۔حال ہی میں سعیدہ وارثی برطانیہ کی طرف سے سرکاری دورے پر سعودی عرب آئیں ۔یہاں انھوں نے عمرے کی سعادت بھی حاصل کی اوریہ بھی دیکھاکہ مکہ معظمہ میں برطانوی فرموں کے لئے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ چنانچہ انھوں نے برطانوی فرم پی بی کے لئے سعودیہ سے ایک بڑا پراجیکٹ حاصل کرلیا۔ان کا کہنا تھاکہ برطانوی فرم پی بی ورلڈکے لئے مکہ کے انفراسٹرکچرکی معاونت کی مد میں ایک بڑاٹھیکہ حاصل کرنے پر انھیں بڑی خوشی ہے ۔'' انھوں نے یہاں سے ملنے والی اپنی ایک اور خوشی بھی اپنے ٹویٹر اکاؤ نٹ پر شیئر کی۔دراصل انھیں مکہ مکرمہ میں واقع 'کسوہ' فیکٹری کا دورہ کروایاگیا،جہاں انھوں نے غلافِ کعبہ کی تاریخ سے آگاہی بھی حاصل کی اور سونے کی تاروں سے سیاہ ریشمی غلاف پر کشیدہ کاری کرنے کے عمل میں بھی شریک ہونے کی سعادت بھی ملی۔یہی وہ خوشی ہے جس کا نھوں نے ٹویٹراکاؤنٹ پر اظہارکیا۔
ناظرین !اب ایک طرف سیدہ وارثی کی یہ اچیومنٹس ہیں ۔دوسری طرف ہم میں سے کچھ لوگوں کومذہبی حوالے سے ان پر اعتراضات بھی ہو سکتے ہیں ۔اعتراضات کی یہ فہرست ہم جتنی چاہیں طویل کر سکتے ہیں۔ہم ایسے سب اعتراضات کو عین اسلام بھی قرار دے سکتے ہیں۔تاہم دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو سعیدہ وارثی میں ہمیں کافی سارا اسلام بھی نظر آسکتا ہے ۔مثلاًوہ مکہ جاتی ہیں تو جہاں ایک معاہدے پر دستخط کرتی ہیں وہیں عمرہ بھی اداکرتی ہیں ۔اور جہاں انھیں اس معاہدے کے طے پانے سے خوشی ہوتی ہے وہیں انھیں غلافِ کعبہ کی بنت میں شرکت پربھی روحانی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔جہاں ہمیں ان کامغربی لباس نظر آتاہے ،وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی کابینہ کے اپنے پہلے ہی اجلاس میں سعیدہ وارثی شلوار قمیص اور دوپٹے میں شرکت کرکے پاکستان سے محبت کرتی بھی نظر آتی ہیں۔سعیدہ وارثی سیاسی ذمہ داریوں کے ساتھ سویرا فاؤنڈیشن نامی ایک فلاحی تنظیم کی بھی سربراہ بھی ہیں جس کے تحت پاکستان کی مستحق خواتین کے لئے خدمات سرانجام دی جاتی ہیں۔اب ہم چاہیں تو سعیدہ وارثی اور ان جیسی دیگر خواتین پر تنقید کرکر کے اپنا اسلام ثابت بھی ثابت کرسکتے ہیں اور چاہیں توان کی اچھائیاں دیکھتے ہوئے ان کی معمولی کوتاہیاں نظر انداز کرکے اسلام کی روح پر بھی عمل کرسکتے ہیں ۔یہ ہمارے رویوں پر موقوف ہے ۔
ہم چاہیں تو لوگوں سے اُس حساب کا ابھی سے مطالبہ کرنا شروع کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز لیناہے اور چاہیں تو ا س مواخذے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں جولوگوں کے خداسے متعلق کے معاملات میں مداخلت کرنے پرہماراہوسکتاہے۔پہلی صورت میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہونے کاامکان ہے جبکہ دوسری صورت میں ہماری آخرت مشکل میں پڑسکتی ہے ۔ حالانکہ یہ طے ہے کہ دوسروں کے متعلق خواہ وہ کیسے بھی کیوں نہ ہوں ،ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ ضرور ہی انھیں معاف نہیں کرے گا۔اس کے باوجود ہم لوگوں کے متعلق فیصلے کرنے میں زیادہ وقت لگاتے اوراپنے اسیاسلامی عمل سے زیادہ خوشی پاتے ہیں ۔ہمارے یہ فیصلے لوگوں کاظاہر دیکھ کر ان کی آخرت کے متعلق ہوتے ہیں۔مثلاً ہم مسلمانوں میں سے بہت سے 'زیادہ مسلمان 'فلم انڈسٹری اور بہت سی دوسری ایسی انڈسٹریوں سے وابستگان کی آخرت کے متعلق ایک واضح نقطۂ نظر رکھنے ہیں ۔ایساکرتے وقت وہ بھول جائیں گے ایک نیک شخص صرف اس لئے جہنم چلاگیا تھاکہ ہر روز دوسرے کو نیکی کی تلقین کرنے کے جواب میں بھی جب دوسرا ٹس سے مس نہ ہواتو ایک دن اس کے منہ سے یہ نکل گیاتھا: ''اللہ کی قسم تو ہر گزنہ بخشاجائے گا''۔ حالانکہ یہ اللہ کے اختیارات کو چیلنج کرنے والی بات تھی اور کسی کے متعلق ایسے فیصلے کرنے کی اللہ نے قطعاًً کسی کو اجازت نہیں دے رکھی ۔ وہ بھول جائیں گے کہ واضح طور پر دوسرا کردار رکھتی ایک خاتون کو اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے بخش دیا تھا کہ اس نے ایک بارایک نجس جانور کو شدیدگرمی میں پانی پلادیا تھا۔ ایسے زیادہ اچھے مسلمان کبھی غلط لوگوں کی اصلاح کے لئے نہ نکلیں گے اور بھول جائیں گے کہ اللہ کے سب سے برگزیدہ نبی ﷺ عکاظ کے بازاروں میں بھی چلے جایا کرتے تھے ۔
کیاخیال ہے اے پیارے ناظرین !ہمیں دوسروں کے متعلق فیصلے کرکرکے اس دنیاکو جہنم بناناچاہئے یااسلام کی دی ہوئی فراخی کوبروئے کار لاکر محبت بھر ااپناکام کرنا چاہئے ؟میراخیال ہے سنبھلنے ،سوچنے اور پلٹنے کااللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جو آخری سانس تک موقع دے رکھا ہے ہمیں وہ کم نہ کرناچاہئے ۔آپ دیکھتے نہیں وینا ملک نے دوپٹااوڑھ لیا ہے اور سارہ چودھری حجاب اوڑھے دین پھیلارہی ہیں ۔ آپ کاکیاخیال ہے اگر ان کے شوہر فیصل اخوند زادہ ہماری طرح کے 'باعمل'مسلمان ہوتے اور سارہ چودھری کو اسلام کی دی ہوئی تدریج کی مہلت نہ دیتے تو وہ آج وہی ہوتیں جیسی کہ ہیں؟کیاہمیں حیرت نہیں ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ تو عبداللہ بن ابی کومنافق ہونے کے باجود قتل نہیں ہونے دیتے اور ہم ملالہ جیسی بچی پر حملہ کر گزرتے ہیں؟نظرئیے کا جواب دلیل سے یا گولی سے؟؟ (روزنامہ نئی بات 27 فروری 2014ء)