مداہنت یعنی نہی عن المنکر کے ترک پر وعیدیں
آیاتِ ربانی:
-1
ملعون ہوئے کافر بنی اسرائیل کے داوٗد اور مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہماالسلام کی زبا ن پر ،یہ اس لئے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گذر گئے تھے آپس میں منع نہ کرتے تھے برے کام سے جو وہ کرتے تھے، کیا ہی براکام ہے جو کرتے تھے ''،(المائدۃ
-2
اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہاکہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کئے جاتے ہوجن کو اللہ تعالیٰ بالکل ہلاک کرنے والے ہیں ،یا ان کو سخت سزادینے والے ہیں ،انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبروعذرکرنے کے لئے اور اس لئے کہ شاید کہ یہ ڈرجائیں، پھر جب وہ بھول گئے اس چیز کو جو ان کو سمجھائی گئی تھی تو ہم نے ان کو نجات دے دی جو برے کاموں سے روکتے تھے اور گرفت کی گنہگاروں کی سخت عذاب کے ساتھ بوجہ ان کی سرکشی کے۔
(الاعراف)
-3
اور تم ایسے وبال سے بچوجو خاص انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگاجو تم میں ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھوکہ اللہ تعالیٰ سخت سزادینے والے ہیں۔ (الانفال
-4
قسم ہے زمانے کی (یعنی زمانے کی تاریخ اور دنیا میں نیک وبد کے انجام کے واقعات شاہد ہیں) کہ انسان بڑے خسارے میں ہے مگر جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو (اعمال کی )پابندی اور اعتقاد حق (پر قائم رہنے )کی فہمائش کرتے رہے۔(العصر)
احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
-1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں جو شخص گناہ کی بات دیکھے اس پر فرض ہے کہ اسے ہاتھ سے روک دے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو زبان سے روک دے ،اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے روکے اور یہ ایمان کا سب سے ادنی درجہ ہے۔
-2
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ بھلائی کا حکم دیتے رہواور برائی سے منع کرتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دیں گے پھر تم اس سے دعاء کروگے تو قبول نہ ہوگی۔(ترمذی
-3
حدیث میں ایک مداہن کا ذکر ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوا:''اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ شہر کو اس کے باشندوں سمیت الٹ دو انہوں نے عرض کیا یارب العالمین! ان لوگوں میں تو تیرافلاں بندہ بھی ہے جس نے پلک جھپکنے کے برابربھی کبھی تیری نافرمانی نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس شخص پر اور دوسرے لوگوں پر شہرکو الٹ دواس لئے کہ میری خاطر ایک گھڑی بھی اس کا چہرہ متغیرنہ ہوا (کھلے بندوں لوگ میری نافرنیاں کرتے رہے مگر اس کے چہرے پر تیوری تک نہ آئی مداہن بن کر صرف اپنی عبادت میں مگن رہا)۔(بیہقی
-4
ایک حدیث میں مداہنت کرنے والوں کی مثال اس طرح دی گئی ہے
''حدوداللہ میں مداہنت کرنے والااور حدوداللہ میں پڑنے والادونوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو باہم قرعہ اندازی کرکے ایک کشتی میں سوارہوئے بعض اس کی نچلی منزل پر اور بعض اوپر کی منزل پر بیٹھ گئے ،نچلی منزل والے پانی لینے کے لئے اوپر والوں پرگذرتے رہے جس سے انہیں ایذاء پہنچی اورناگواری ظاہر کی اس لئے نچلی منزل والوں نے کلہاڑا لے کر کشتی میں سوراخ کرنا شروع کیا اوپر والوں نے آکر اس کاسبب دریافت کیا تو بولے کہ ہماری وجہ سے تمہیں ایذاء پہنچ رہی ہے اور ہمیں پانی کے بغیر چارہ نہیں اب اگر اوپر والے ان کا ہاتھ پکڑیں (اور حماقت سے روک دیں )تو انہیں بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر چھوڑدیں (روکیں نہیں) تو انہیں بھی ہلاک کریں گے خود بھی ہلاک ہوں گے۔(ترمذی
-5
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ قرآن پاک کی یہ آیت پڑھتے ہو
''اے ایمان والوں تم پر لازم ہے اپنے نفسوں کی فکر ،تمہاراکچھ نہ بگاڑیں گے گمراہ ہونے والے لوگ جب تم راہ ہدایت پر ہو۔ '' (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ شریعت کے خلاف کام ہوتے دیکھیں اور اس کی اصلاح کی کوشش نہ کریں تو قوی خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سب ہی پر عذاب آجائے۔(سنن ابی داوٗد،ابن ماجہ ،ترمذی
-6
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ کسی قوم (اور جماعت )میں کوئی آدمی ایسے اعمال کرتا ہو جو گناہ اور خلاف شریعت ہیں اور اس قوم اور جماعت کے لوگ اس کی قدرت اور طاقت رکھتے ہوں کہ اس کی اصلاح کردیں اس کے باوجود پھر بھی اصلاح نہ کریں (اسی حال میں اس کو چھوڑے رکھیں )تو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے کسی عذاب میں مبتلا فرمائیں گے۔(سنن ابی داوٗد، ابن ماجہ
-7
حضرت عرس بن عمیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کسی سرزمین میں گناہ کیا جائے تو جب تک لوگ وہاں موجودہوں اور اس گناہ سے ناراض ہوں تو (اللہ تعالیٰ کے نزدیک )وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو وہاں نہیں ہیں (یعنی ان سے گناہ کے بارے میں کوئی باز پرس نہ ہوگی )اور جو لوگ اس گناہ کی جگہ میں موجود نہ ہوں مگر اس گناہ سے راضی ہوں وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو وہاں موجود تھے (اور گویا شریک گناہ تھے )۔(سنن ابی داوٗد
مآخذ