کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
حالتِ غصہ میں دی گئی طلاق کا حکم
غضب کی تعریف
یہ غضب، یغضب غضباً سے مصدر ہے۔کہا جاتا ہے رجل غضبان اور امرأة غضبی۔ یہ رضا کی ضد ہے۔(لسان العرب:٥؍٣٦٦٢)
مطلقاًیہ غصہ اور اشتعال کے لیے بولا جاتا ہے۔
جرجانی کہتے ہیں:
’’الغضب تغیر یحصل عند غلیان دم القلب لیحصل عنه التشف للصدر‘‘(التعریفات:ص١٦٢)
’’دل کے خون کے کھولنے کی وجہ سے جو تغیر ہوتا ہے اس کوغضب کہتے ہیں تاکہ دل کو تسلی ہو سکے۔‘‘
غصے کی حالتیں
غصے کی تین حالتوں کا تذکرہ کیا گیاہے:
1۔یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی حالت طاری ہو جہاں پر اس کی عقل میں فتور نہ آئے اورجو وہ کہہ رہا ہو اس کو بخوبی جانتاہو۔ ایسی حالت میں دی گئی طلاق بغیر کسی اشکال کے واقع ہوجائے گی اور وہ اپنے اقوال کا مکلف ہوگا۔(جامع العلوم والحکم:ص١٤٨)
2۔ایسا غصہ جس میں انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور متکلم کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔
ابن قیم فرماتے ہیں:
’’وذلك أنه لم یعلم صدور الطلاق منه فهو شبه مایکون بالنائم والمجنون ونحوهم‘‘(إغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان:ص٣٩)
’’چونکہ وہ طلاق کے صدور کے متعلق نہیں جانتا ہوتا لہٰذا وہ بھی سوئے ہوئے اور پاگل وغیرہ کے مشابہ تصور ہوگا۔‘‘
3۔غصے کی تیسری حالت یہ ہے کہ انسان پر شدید غصہ تو طاری ہو، لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا ہو۔ اس حالت میں دی گئی طلاق کی تنفیذ اور عدم تنفیذ میں علما کے مابین اختلاف ہے۔(ایضاً)
غصے کے حالت میں دی گئی طلاق کا حکم
غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کے بارے میں دو قسم کی آرا ہیں:
1۔اَحناف اور بعض حنابلہ کا موقف ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار نہیں ہوگی۔(حاشیہ ابن عابدین:٢؍٤٢٧)
2۔مالکیہ اور حنابلہ کا خیال ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی اور اس کا اعتبار کیا جائے گا۔(حاشیہ الشرح الکبیر:٢؍٣٦٦)
فریق اوّل کے دلائل
احناف اور ان کے مؤیدین نے درج ذیل ادلہ سے استدلال کیا ہے:
1۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«لا طلاق ولا عتاق في غلاق»(سنن ابوداؤد:٢١٩٣) ’’ زبردستی کی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘
2۔فرمان عالیشان ہے:’’لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْۤ اَيْمَانِكُمْ ‘‘(البقرہ:225)اور زبردستی غصے کو بھی شامل ہے، کیونکہ اس میں رائے پر بندش لگ جاتی ہے۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں۔‘‘
ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’لغو الیمین أن تحلف وأنت غضبان‘‘(بیہقی2؍450)
’’لغو قسم یہ ہے کہ آپ غصے کی حالت میں قسم اٹھائیں۔‘‘
اسی پر قیاس کرتے ہوئے غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی طلاق شمار نہیں کیا جائے گا۔(طلاق الغضبان: ص٣٢)
3۔فرمان الٰہی ہے:’’وَ اِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ‘‘(الاعراف:200)
’’اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجئے۔‘‘
متکلم شدید غصے کی حالت میں شیطان کے بہکانے سے طلاق یا اس طرح کے دیگر الفاظ غیر ارادی طور پر بول دیتا ہے۔ لہٰذا یسی حالت میں اس پر طلاق احکام مترتب نہیں ہوں گے۔(طلاق الغضبان:ص٣٥)
رسول اکرمﷺنے فرمایا: «إن الغضب من الشیطان»(سنن ابوداؤد: ٤٧٨٤) ’’غصہ شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘
4۔عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«لا نذر في غضب و کفارته کفارة یمین»(سنن نسائی:٣٨٤٢) ’’غصے کی حالت میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‘‘
خدا تعالیٰ نے اپنی نذروں کو پورا کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ تو جب حالت غضب میں مانی گئی نذر میں رخصت موجود ہے تو طلاق میں یہ رخصت کیوں باقی نہ رکھی جائے۔(طلاق الغضبان:ص٤١)
5۔حدیث ابوبکرہ: «لا یقض القاض بین اثنین وهو غضبان»(سنن ابن ماجہ:٢٣١٦)
’’قاضی غصے کی حالت میں دو لوگوں کے مابین فیصلہ نہ کرے۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ غصہ علم و ارادہ پر اثر انداز ہوتا ہے اور درست فیصلہ کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق بھی معتبر نہیں ہو گی۔(طلاق الغضبان:ص٤٣)
(vi) نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا وقوع نہیں ہوتا کیونکہ متکلم کا طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہوتا، یاد رہے کہ غصے کی حالت نشے سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔(طلاق الغضبان: ص٤٥)
مذکورہ دلائل کا جائزہ
1۔اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی بیان کردہ حدیث اس نزاع سے خارج ہے، کیونکہ اس سے مراد زبردستی ہے۔ اور زبردستی محض غصے کانام نہیں ہے۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں: ’’الغلاق انسداد باب العلم والقصد علیه‘‘(تہذیب السنن:٦/١٨٧)
’’غلاق علم و ارادہ کے دروازہ کو بند کرتا ہے۔‘‘
لہٰذا یہ غصے کی دوسری حالت کو شامل ہے۔ جس میں بالاتفاق طلاق واقع نہیں ہوتی۔
2۔حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب تفسیر صحیح نہیں ہے۔
ابن رجب فرماتے ہیں: ’’لا یصح إسناده‘‘(جامع العلوم والحکم:ص١٤٩)
’’اس کی سند صحیح نہیں ہے۔‘‘
اور اسی آیت کی تفسیر میں آپ سے دیگر اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں۔جیسا کہ ابن ابی حاتم نے تفسیر ابن کثیر(١/٢٦٨) میں سعید بن جبیر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ ’’لغو قسم وہ ہے جس میں آپ ایسی چیز کو حرام قرار دیں جو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دی ہو۔‘‘
ابن رجب فرماتے ہیں:
’’صح عن غیر واحد من الصحابة أنهم أفتوا أن یمین الغضبان منعقدة وفیها الکفارة‘‘(جامع العلوم والحکم: ص١٤٩)
’’دیگر بہت سے صحابہ کرام نے فتویٰ دیا کہ غصے کی حالت میں اٹھائی گئی قسم کا انعقاد ہوگا اور اس(کو پورا نہ کرنے ) پرکفارہ ہوگا۔‘‘
3۔یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں انسان شیطان کی اکسانے پر بول رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پرحکم مرتب نہ ہوگا۔ تو ایسا کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر گناہوں اور بُرائیوں کا ظہور تو شیطان کی اکساہٹ اور وساوس ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھراس کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کے اکسانے پرکیے جانے والے کسی بھی عمل پر احکام مرتب نہ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سراسر خام خیالی ہے۔
4۔حضرت عمران بن حصین کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہے۔
5۔’’ابوبکرہ کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے قاضی کو حالت غصہ میں فیصلہ نہ کرنے کا پابند کیا ہے۔ یہ قاضی کے مکلف ٹھہرتا ہے پھر یہ بھی ہے کہ قاضی نے تو اپنے علاوہ کسی اور کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جب کہ طلاق دینے والا خود ا اپنا فیصلہ کر رہا ہوتا ہے اس لیے طلاق دینے والے کو قاضی پرنہیں کیا جا سکتا‘‘
6۔اس حالت کو نشہ پر قیاس کرنادرست نہیں ہے۔ کیونکہ نشہ میں تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور اسے پتہ نہیں ہوتا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور یہ غصہ کی دوسری حالت ہے۔ ایسی حالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ‘‘(النساء : ٤٣)
’’اے ایمان والو جب تم نشہ میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔ جب تک کہ اپنی بات سمجھنے نہ لگو۔‘‘
فریق ثانی کے دلائل
مالکیہ اور حنابلہ نے درج ذیل دلائل کو سامنے رکھا ہے:
1۔خولہ بنت ثعلبہ اوس بن ثابت کی اہلیہ تھیں،ایک روز ان دونوں میں جھگڑا ہو گیا تو اوس بن ثابت نے غصے سے ظہار کرڈالا۔حضرت خولہ یشانی کی حالت میں حضور نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور تمام ماجرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ظہار نازل فرمائیں۔ پھررسول اللہﷺان کو ظہار کے کفارہ کا حکم دیا۔(سنن ابن ماجہ:٢٠٦٣)
2۔اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کرنے کے باوجود اس کا کفارہ ادا کیا۔ طلاق بھی ظہار ہی کی طرح ہے۔(جامع العلوم:ص١٤٩)
ابن رجب جامع میں فرماتے ہیں:
’’اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کیا تھاپھر بھی رسول اللہﷺنے ظہار کو طلاق شمار کیا اور ان کی بیوی کو ان پر حرام قرار دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ لازم کیا تو آپﷺ نے اوس بن ثابت کو کفارہ سے بری قرار نہیں دیا۔‘‘(ص:١٤٩)
3۔مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: میں اپنے آپ میں اس قدر جرأت نہیں پاتاکہ تیرے لیے وہ حلال کردوں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیاہے۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔(دارقطنی:٤/١٣)ان احادیث پر یہ اعتراض وارد کیا جاسکتا ہے کہ یہ غصے کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے اور اس سے غصے کی پہلی قسم مراد ہے۔اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ حدیث مطلق طور پر عمومی غضب سے متعلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تفصیل نہیں اور احتمالی جگہ پر تفصیل کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو عموم پر محمول کیا جائے۔ اس میں اگرچہ غصہ کی تینوں حالتیں اور ہر غصے کی حالت میں دی گئی طلاق لازم ہوگی۔ لیکن اجماع امت سے وہ حالت اس سے نکل گئی جب غصہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح اس حدیث میں دوسری دونوں قسمیں شامل ہوں گی۔
4۔حسن کا قول ہے:سُنی طلاق یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں ایک طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو۔ ایسی صورت میں اس کے بعد تیسرے حیض تک اسے اختیار حاصل ہوگا کہ وہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔اگر آدمی نے غصے میں طلاق دی ہے تو تین حیض یا تین مہینے میں اس کا غصہ کافور ہو سکتا ہے۔(جامع العلوم والحکم: ص ١٤٩)
5۔قاعدہ فقہیہ ہے:
’’دلالة الأقوال تختلف بها دلالة الأقول في قبول دعوی ما یوافقها ورد ما یخالفها وتترتب علیها الأحکام بمجردها‘‘(القواعد لابن رجب: ص٣٢٢)
’’دعویٰ کو قبول کرنے میں احوال کی حالت اقوال سے مختلف ہوتی ہے۔ ۔احوال پر احکام مرتب ہوں گے چاہے اقوال احوال کے مخالف ہوں یا موافق۔‘‘
ابن رجب فرماتے ہیں: اس قاعدہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑائی جھگڑے اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار ہوگی اور کسی کا یہ دعویٰ کہ طلاق کارادہ نہ تھا، قابل قبول نہ ہوگا۔
مغنی لابن قدامہ میں ہے:
’’والغضب ههنا یدل علی قصد الطلاق فیقوم مقامه‘‘(8 ؍450)
’’یہاں پر غصہ ارادہ طلاق پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا اس کو اس کے مقام پر محمول کیا جائے گا۔‘‘
راجح موقف
سابقہ مبحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالکیہ، حنابلہ اور ان کے مؤیدین کا موقف راجح ہے، کہ غصہ کی حالت میں طلاق کا وقوع ہوجائے گا اور اس کی ترجیح درج ذیل امور کی وجہ سے ہے:
خلاصہ1۔دلائل کی قوت۔
2۔مسئلے پر مکمل گرفت اور وضاحت۔
3۔مخالفین کے دلائل کا ضعف۔
4۔قاعدہ ہے:’’أن الأصل فی الأبضاع التحریم فالواجب التثبت في مرها والتنبه لها‘‘
فقہاء، محدثین، مفسرین اور اصولیین کی آراء کو نقل کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
1۔مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔
2۔اورایسے غصے کی حالت میں طلاق، جس میں انسان اپنے ہوش و حواس میں ہوتا ہے، طلاق واقع ہو جائے گی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پرخدا تعالیٰ نے طلاق کو حلال قرار دیا ہے۔ اسے دیگر امور کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔ جیساکہ بعض تربیت اور ڈرانے دھمکانے کے نام پر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے کے سوا کچھ نہیں۔