- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
السلام علیکم
حامد کمال الدین، پروفیسر حافظ سعید صاحب کے بھائی، ایک فاضل، متحرک، دیندار، متقیم مخلص اور درد دین رکھنے والے قابل شخص ہیں۔ ایقاظ کے نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں اور اس کے تحت کئی ایک علمی اور تربیتی ورکشاپس منعقد کرتے رہتے ہیں۔ کچھ سلفی نوجوان بھی ان کے ساتھ ان کے اس دعوتی اور علمی کام میں شریک ہیں۔
ایک تھریڈ میں ان کے منہج کے بارے بحث چل پڑی تو مناسب سمجھا گیا کہ یہاں ان کے منہج کے بارے ایک علیحدہ تھریڈ قائم کر دیا جائے۔ جو شرکا بھی اس بحث میں حصہ لینے چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ تحمل، بردباری، برداشت اور عدل سے کام لیتے ہوئے کسی کے بارے بات کریں۔ کسی سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صد فی صد اس کی تمام باتیں ہی غلط ہوتی ہیں۔ صحیح اور غلط میں تمیز کرتے ہوئے جو تجزیہ کیا جاتا ہے، اس میں فرق مخالف کی طرف سے قبولیت کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔
بلاشبہ یہاں حقیقی بھائیوں مثلا حافظ سعید صاحب اور حامد کمال الدین صاحب کے مناہج کا اختلاف بھی سامنے آئے گا لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے، کہ یہ دونوں حضرات سلفی اور امت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ لہذا نقد کرتے ہوئے شدید نکیر یا ذاتی طعن و تشنیع کی بجائے فکر کی غلطی واضح کی جائے۔ چاہے یہ غلطی واضح کرنے والے حامد کمال الدیں صاحب کے ساتھی ہوں یا حافظ سعید صاحب کی فکر سے متفق۔ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ ہم اس وقت مختلف مناہج پر کام کرنے والی جماعتوں مثلا جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی، حزب التحریر، طالبان تحریک پاکستان، جماعۃ الدعوۃ، تبلیغی جماعت اور ادارہ ایقاظ وغیرہ پر کھلے دل و دماغ سے بحث کریں۔ ہم انہیں اوائڈ اس لیے نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارا نوجوان آج عملی طور ان مناہج اورطریقوں کے مطابق تبدیلی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور ایسے نوجوان بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں اور ان نوجوانوں میں سلفی نوجوانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ یہاں مسئلہ صرف ایک دوسرے کو خوارجی، مرجئہ، قطبی، اسراری، مودودی، لشکری وغیرہ کا طعنہ دینے سے حل نہیں ہو گا بلکہ علمی بنیادوں پر افہام و تفہہیم ہی ہمیں ایک ایسے صحیح منہج کی طرف رہنمائی فراہم کر سکتی ہے کہ جس پر عمل کی صورت میں دنیا میں کوئی اسلامی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقوں میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو متحرک ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ان کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور یہ مختلف تحریکوں سے وابستہ ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو علمی ہیں اور تحریکی نہیں ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ کچھ درس و تدریس یا دعوتی نوعیت کے کاموں میں مشغول ہیں۔ علما کی اکثریت عموما تعلیم و تعلم سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں میدان ہیں اور ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ تعلیم و تحریک دو مستقل شعبے ہیں جنہیں ان کے اصحاب نے سنبھالا ہوا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کی اہمیت مسلم ہے۔ تحریکیوں کا علما کو جمود کا طعنہ دینا اور علما کا تحریک ہی کو خلاف اسلام قرار دینا، میرے خیال میں دونوں انتہائیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں ذہن میں تھیں۔ مزید بھائی اس پر مزید تھریڈز میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
حامد کمال الدین، پروفیسر حافظ سعید صاحب کے بھائی، ایک فاضل، متحرک، دیندار، متقیم مخلص اور درد دین رکھنے والے قابل شخص ہیں۔ ایقاظ کے نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں اور اس کے تحت کئی ایک علمی اور تربیتی ورکشاپس منعقد کرتے رہتے ہیں۔ کچھ سلفی نوجوان بھی ان کے ساتھ ان کے اس دعوتی اور علمی کام میں شریک ہیں۔
ایک تھریڈ میں ان کے منہج کے بارے بحث چل پڑی تو مناسب سمجھا گیا کہ یہاں ان کے منہج کے بارے ایک علیحدہ تھریڈ قائم کر دیا جائے۔ جو شرکا بھی اس بحث میں حصہ لینے چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ تحمل، بردباری، برداشت اور عدل سے کام لیتے ہوئے کسی کے بارے بات کریں۔ کسی سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صد فی صد اس کی تمام باتیں ہی غلط ہوتی ہیں۔ صحیح اور غلط میں تمیز کرتے ہوئے جو تجزیہ کیا جاتا ہے، اس میں فرق مخالف کی طرف سے قبولیت کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔
بلاشبہ یہاں حقیقی بھائیوں مثلا حافظ سعید صاحب اور حامد کمال الدین صاحب کے مناہج کا اختلاف بھی سامنے آئے گا لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے، کہ یہ دونوں حضرات سلفی اور امت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ لہذا نقد کرتے ہوئے شدید نکیر یا ذاتی طعن و تشنیع کی بجائے فکر کی غلطی واضح کی جائے۔ چاہے یہ غلطی واضح کرنے والے حامد کمال الدیں صاحب کے ساتھی ہوں یا حافظ سعید صاحب کی فکر سے متفق۔ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ ہم اس وقت مختلف مناہج پر کام کرنے والی جماعتوں مثلا جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی، حزب التحریر، طالبان تحریک پاکستان، جماعۃ الدعوۃ، تبلیغی جماعت اور ادارہ ایقاظ وغیرہ پر کھلے دل و دماغ سے بحث کریں۔ ہم انہیں اوائڈ اس لیے نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارا نوجوان آج عملی طور ان مناہج اورطریقوں کے مطابق تبدیلی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور ایسے نوجوان بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں اور ان نوجوانوں میں سلفی نوجوانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ یہاں مسئلہ صرف ایک دوسرے کو خوارجی، مرجئہ، قطبی، اسراری، مودودی، لشکری وغیرہ کا طعنہ دینے سے حل نہیں ہو گا بلکہ علمی بنیادوں پر افہام و تفہہیم ہی ہمیں ایک ایسے صحیح منہج کی طرف رہنمائی فراہم کر سکتی ہے کہ جس پر عمل کی صورت میں دنیا میں کوئی اسلامی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقوں میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو متحرک ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ان کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور یہ مختلف تحریکوں سے وابستہ ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو علمی ہیں اور تحریکی نہیں ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ کچھ درس و تدریس یا دعوتی نوعیت کے کاموں میں مشغول ہیں۔ علما کی اکثریت عموما تعلیم و تعلم سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں میدان ہیں اور ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ تعلیم و تحریک دو مستقل شعبے ہیں جنہیں ان کے اصحاب نے سنبھالا ہوا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کی اہمیت مسلم ہے۔ تحریکیوں کا علما کو جمود کا طعنہ دینا اور علما کا تحریک ہی کو خلاف اسلام قرار دینا، میرے خیال میں دونوں انتہائیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں ذہن میں تھیں۔ مزید بھائی اس پر مزید تھریڈز میں گفتگو کر سکتے ہیں۔