السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مولاناسلمان ندوی کی تقریرمیں صحابہ کرام کی گستاخی پرایک علمی جائزہ
از مفتی عبیداللہ قاسمی، دہلی یونیورسٹی ،دہلی
انتہائی درد اور کڑھن کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ حالیہ دنوں میں جناب مولانا سلمان ندوی صاحب کی اس جوشیلی تقریر نے جس میں بے دردی کے ساتھ کاتبِ وحی، فاتحِ عرب وعجم صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسولِ اکرم کی زوجہِ مطہرہ جو اہلِ بیت میں ہیں، کے حقیقی بھائی سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی کردار کشی کی گئی ہے اور انہیں فاسق بنایا گیا ہے اس تقریر سے ملتِ اسلامیہ مضطرب ہوگئی ہے، علماءِ کرام غرقِ حیرت ہیں، ہر باغیرت صاحبِ ایمان کا کلیجہ منھ کو آرہا ہے اور تکلیف دہ حیرت اس وجہ سے بھی بڑھی ہوئی ہے کہ یہ ساری باتیں ان مولانا سلمان صاحب کی طرف سے امت کے سامنے پیش کی گئی ہیں جو ایک اہم ادارے کے مسندِ تدریسِ حدیث پر فائز ہیں۔ مولانا موصوف کا چند برسوں سے یہ معمول سا بن گیا ہے کہ وہ اپنے پرجوش بیانات میں ایسی باتیں کہتے رہتے ہیں جس سے امتِ اسلامیہ کو سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ مولانا کا یہ رویہ بالخصوص مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد نمایاں ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں میں مولانا نے کبھی قرآن کریم کے صدیوں سے تعاملِ امت کے ذریعے چلے آرہے پاروں کی ترتیب کو غلط ٹھہرایا، تو کبھی بدنامِ زمانہ بغدادی کو امیر المومنین بناکر اور دشمنانِ اسلام کے اس ایجنٹ کی منھ بھر بھر کر تعریف کرکے مسلمانوں میں بھونچال پیدا کیا، تو کبھی روی روی شنکر سے ملاقات کرکے خانہِ خدا بابری مسجد کو بت خانے کے لئے حوالہ کرنے اور بدلے میں اجودھیا سے بہت دور شاندار مسجد اور جامعۃ الاسلام یونیورسٹی کی تجویز پیش کردی اور اکابرینِ مسلم پرسنل لاء کے ذریعے اس کی مخالفت کیے جانے پر ان کے خلاف تنقید وتنقیص اور الزام تراشیوں کا دہانہ کھول دیا۔ .
مولانا کی اس بار کی تقریر گزشتہ تمام تقریروں کا ریکارڈ توڑ گئی کیونکہ اب کی بار کا حملہ سیدھا ناموسِ صحابہ اور عدالتِ صحابہ پر تھا، چنانچہ مولانا نے صحابیِ رسول حضرت معاویہ پر اور (اگر میں نے سمجھنے میں غلطی نہیں کی ہے تو) دبے لفظوں میں خلافتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر بھی اپنی تقریر میں تنقید کی ہے۔ .
درج ذیل سطور میں مولانا کی تقریر میں اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف مشمولات اور ان کا سرسری جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ .
1۔ مولانا نے اپنی تقریر میں کہا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اچانک عمل میں آگئی، پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت خلافت کا قیام نہیں ہوا۔ .
سوال یہ ہے کہ مولانا کی اس بات کے پیچھے اصل منشاء کیا ہے؟ کیا مولانا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی خلافت منصوبہ بندی اور صحابہ کے درمیان خوب غور وفکر اور مشورے کی صفت سے خالی ہونے کی وجہ سے مخدوش اور قابلِ تنقید خلافت تھی؟ اگر بین السطور میں یہ کہاجارہا ہے تو یہ بہت خطرناک بات ہے۔ روافض تو اس بات کو سن کر مارے خوشی کے بلیوں اچھلینگے اور عید منائینگے کیونکہ وہ شیخین کی تنقیص کرنا اور انہیں گالیاں دینا اپنا جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ خدا کرے مولانا کی مراد یہ نہ ہو۔ لیکن اگر مولانا نے حضرتِ ابوبکر کی خلافت پر یہ سوال اٹھایا ہے تو کس مقصد سے اٹھایا ہے، یہ میری فہم سے بالا تر ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صحابہ کے درمیان سب سے افضل صحابی کے طور پر معروف تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں امامتِ نماز میں بھی انہیں اپنا خلیفہ بنایا۔ اہلِ بیت جن افراد پر مشتمل ہے ان میں ان کی جگر گوشہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ خود اہلِ بیت کے حضراتِ حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے والد اور خلیفہِ رابع حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرتِ ابو بکر کی وفات پر ان وقیع الفاظ میں ان کے اوصاف بیان فرمائے "رحمك الله أبا بكر، كنت والله أول القوم إسلاماً،وأخلصهم إيماناً وأشدهم يقيناً. وأحفظهم على رسول الله وأحربهم على الإسلام، وأحناهم على أهله، وأشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم خلقاً وفضلاً وهدياً وسمتاً،فجزاك الله عن الإسلام وعن رسول الله وعن المسلمين خيراً." اب ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کا حضرت ابو بکر کو ان کےmatchless اوصافِ حمیدہ کی بنیاد پر خلیفہِ اول منتخب کرلینا فطری عمل کہلائے گا اور اس میں کسی منصوبہ بندی اور غور وفکر ومشورے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔ غور وفکر اور منصوبہ بندی کی ضرورت اس وقت پڑتی جب ان کی بجائے کسی اور صحابی کو خلیفہ بنایا جاتا۔ وقت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ فوری طور پر افضل الصحابہ کو خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔ چنانچہ اس وقت موجود ہزاروں صحابہ نے بیعت کرکے متفقہ طور پر حضرت ابوبکر کو اپنا خلیفہ بنالیا۔ اگر یہ انشاءِ خلافت بوجہ عدمِ منصوبہ بندی غلط یا کمزور تھی تو صحابہ کی طرف سے ابقائے خلافت ہرگز نہیں ہوتی اور خلافت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کا پورا موقعہ تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہونا چاہئے تھا۔ بہرکیف، ہزاروں صحابہ کا فوری طور پر حضرت ابوبکر کی خلافت پر مجتمع ہوجانا اور کسی کی طرف سے بھی اختلاف کا نہ ہونا کیا منصوبہ بندی سے کمتر بنیادِ خلافت کہی جاسکتی ہے؟ حق تو یہ ہے کہ ان ہزاروں تمام صحابہ کے ذریعے حضرت ابو بکر کی بیعت اور خلافت پر متفق ہوجانے پر لاکھوں منصوبہ بندیاں قربان اور ہیچ ہیں۔ سورج کے غروب ہونے پر چودہویں کی رات میں چاند اور ستاروں میں چاند کو سب سے زیادہ روشن کہنے کے لئے کسی منصوبہ بندی، پلاننگ، غور و فکر، تدبر وتامل اور مشورے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کسی کا اس میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہوسکتا ہے تو کسی چمگادڑ کی طرف سے یا انتہائی ضعیف البصر شخص کی طرف سے۔ "الله الله في أصحابي"۔
2۔ مولانا نے اپنی تقریر میں صحابیِ رسول اور کاتبِ وحی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں، انہیں باغی گروہ کا سردار کہا ہے۔ ان کی حکومت کو مجرمانہ کہا ہے۔ ان کے لئے حضرت علی کی بیعت کو واجب بتلایا گویا کہ حضرت معاویہ ترکِ واجب اور قیادتِ بغاۃ کی وجہ سے مجرم، فاسق اور غیر عادل ٹھہرے۔ مولانا موصوف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بغاوت کو مؤکد کرنے کے لئے یہ حدیث بھی پیش کرڈالتے ہیں "إن عماراً تقتله الفئة الباغية". جبکہ اہلِ سنت والجماعت کی کتابوں میں مصرح ہے کہ یہاں الفئة الباغية سے مراد خوارج ہیں جنہوں نے حضرتِ عمار کو قتل کیا اور جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی تھی۔ مگر حیرت ہے کہ مولانا اس کا مصداق جماعتِ معاویہ کو ٹھہرا رہے ہیں جن میں بڑی تعداد میں صحابہ بھی ہیں۔ پھر مولانا آگے یہ بھی فرمارہے ہیں کہ "یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جن کی وجہ سے معاویہؓ کی حیثیت قرآن کی روشنی میں مجروح ہوتی چلی جارہی ہے"! استغفر الله، استغفر الله! یہاں رک کر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں حضرت علی کے ساتھ صحابہ تھے وہیں حضرت معاویہ کے ساتھ بھی تو صحابہ تھے جن میں خزیمہ بن ثابت، ابو ایوب انصاری، خالد بن ربیعہ، عبد اللہ بن عباس، زید بن ارقم، سہل بن حنیف، قیس بن سعد بن عبادہ، عدی بن حاتم، عمار بن یاسر، ربیعہ بن قیاس، سعد بن حارث، رافع بن خدیج وغیرہ رضی اللہ عنہم شامل تھے۔سوال یہ ہے کہ پھر کیا حضرت معاویہ کا ساتھ دینے والے یہ سارے صحابہ الفئة الباغية تھے، فاسق، مجرم، غیر عادل اور قرآن کی روشنی میں مجروح شخصیت والے تھے، نعوذ باللہ؟ اگر ہاں، تو ان تمام صحابہ سے مروی جو احادیث صحیحین اور دوسری کتابوں میں ہیں ان کا کیا حکم ہوگا؟ امام بخاری نے تو اخذِ حدیث میں عدالت اور تقویٰ کا اس حد تک خیال رکھا کہ کسی محدث نے جانور کو جھوٹا چارہ دکھایا تو اس سے اخذِ حدیث کا ارادہ ترک کردیا اور غیر ثقہ ٹھہرادیا۔ اب اگر مولانا کے الزامات درست ہیں اور یہ سارے اصحابِ رسول قرآن کی نگاہ میں مجروح ہیں اور الفئۃ الباغیہ ہیں تو بھلا کس محدث کی مجال ہے کہ قرآن کی جرح کے مقابلے میں ان صحابہ کی تعدیل کردے اور ان کی مروی احادیث کو امام بخاری کی اصح الکتب بعد کتاب اللہ اور دیگر تمام محدثین کی کتابوں میں جگہ مل جائے؟ یا کیا یہ سمجھا جائے کہ حضرت معاویہ اور ان کا ساتھ دینے والے صحابہ کی مجروحیت عند القرآن اور ان کا الفئۃ الباغیہ کا مصداق ہونا محدثین اور فقہاء کو معلوم نہیں تھا اور ان سب سے غلطی ہوئی ہے؟ "الله الله في أصحابي"۔
*صحابہ کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت (ما أنا عليه وأصحابي) کاعقیدہ:
صحابہ کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا واضح اور صریح عقیدہ قرآن وسنت کی صریح نصوص پر مشتمل ہے۔
*اہل السنہ والجماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام انبیاء کرام کے بعد الی قیام الساعة روئے زمین کی سب سے زیادہ متقی،صالح اور افضل جماعت ہیں۔ ان کی تعریف وتوصیف میں درجنوں قرآنی آیات اور سینکڑوں احادیث منقول ہیں۔ اگر ان کی فضیلت اور تعریف اور صفتِ عدالت میں ایک بھی آیت یا حدیث موجود نہ ہوتی اور قرآن و حدیث ان کی تعریف سے خالی ہوتے تب بھی بتقاضائے عقل صحابہ کا احترام اور ان کی شان میں گستاخی سے احتراز اور ان کی اقتداء کرنا لازم ہوتا کیونکہ وہ اصحابِ رسول تھے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تزکیہ کرتے تھے اور انہیں تعلیم دیتے تھے "ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة". مگر یہاں تو نہ صرف یہ کہ خموشی نہیں ہے بلکہ قرآن اور احادیث دونوں انتہائی خوبصورت اسلوب میں جگہ جگہ ان کی تعریف میں ناطق ہیں جنہیں پڑھ کر انسان جھوم جھوم جائے، ان کے لئے جنت کی بشارت سنارہے ہیں، ان کے ایمان کو قیامت تک آنیوالے مسلمانوں کے لئے parameterاور scale بنایا جارہا ہے اور حکمِ ربانی ہورہا ہے "آمنوا كما آمن الناس" یعنی اے ایمان والو، جس طرح صحابہ جنمیں حضرتِ معاویہ بھی شامل ہیں، کا ایمان ہے اس طرح اپنا ایمان بناؤ۔ ان سے محبت کرنے کا حکم دیا جارہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں صاف صاف اعلان فرمائے دے رہا ہے ''رضي الله عنهم ورضوا عنه''۔ ایسی صورت میں صحابی حضرت معاویہ یا صحابہ کے خلاف نفرت اور بغض کا اظہار اور بذریعہ وعظ مسلم عوام کو اس نفرت اور بغض کی تعلیم دینا انتہائی باعثِ حیرت ہے اور خدانخواستہ یہ ایمان سوز بھی بن سکتا ہے۔ صحابہ کے خلاف بغض ونفرت پر مشتمل ایسی فکر رکھنا اور اس کی اشاعت کرنا خدانخواستہ کسی بڑے ابتلاء اور مصیبت کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے! "الله الله في أصحابي"
*اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ قرآنی آیت ''رضي الله عنهم ورضوا عنه ''ہے۔
*اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ارشادِ نبوی "الصحابة کلهم عدول'' ہے۔
یعنی تمام صحابہ تقویٰ وثقاہت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ صحابہ یقیناً معصوم عن الخطاء نہیں ہیں مگر وہ باقی علی الخطاء بھی نہیں ہیں۔ ان سے غلطیاں ہوئی ہیں مگر وہ اللہ کے حضور میں توبہ کرکے خود کو پاک صاف بھی کرتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ توبہ کے بعد انسان pure اور پاک ہوجاتا ہے "التائب من الذنب كمن لا ذنب له". ان کے باقی علی الخطاء نہ ہونے کی بطور دلالۃ النص دلیل دیگر متعدد دلائل کے علاوہ قرآن کریم کا یہ اعلان ہے "رضي الله عنهم ورضوا عنه". ظاہر ہے کہ اللہ نے صحابہ جن میں حضرت معاویہ بھی ہیں، سے اپنی رضامندی اور خوش ہونے کا اظہار صیغہِ ماضی سے کیا جوconfirmed statusاور یقنیت وتاکید کو بتلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں نزولِ قرآن کی تکمیل کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے قصاص لینے کے معاملے میں صحابہ کے درمیان رونما ہونے والے اختلافات، حضرت معاویہ کا حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کا انکار کرنا، حضرت علی وحضرت معاویہ کا دیگر صحابہ کے ساتھ قصاصِ حضرتِ عثمان کے معاملے میں برسرِپیکار ہونا اور حضرت معاویہ کا یزید کو ولیِ عہد بنانا یہ سب کچھ تھا۔ ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر ہرگز نہ تھی مگر ان سب کے باوجود اعلانِ ربانی رضي الله عنهم ورضوا عنه کے ہونے کا مطلب اس سوا کچھ نہیں ہے کہ صحابہ اگرچہ معصوم عن الخطاء نہیں ہیں مگر ان کی طرف سے بقاء علی الخطاء بھی نہیں ہوگا لہٰذا میں ان سے راضی ہوں اور اس کا اعلان بھی کردے رہا ہوں تاکہ دوسرے مسلمان بھی ان سے راضی رہیں، ان کے خلاف دل میں بغض نہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کو بتلانے کے لیے ورضوا عنه بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی مگر یہ بڑھاکر خدا کے نزدیک صحابہ کے بہت زیادہ لاڈلے اور پیارے ہونے کو بلیغ انداز میں ظاہر کیا گیا۔ اب بھلا کسی مسلمان کے لئے کہاں گنجائش باقی رہی کہ وہ صحابہ سے بغض اور نفرت کرے اور انہیں ہدفِ تنقید بنائے۔ "الله الله في أصحابي"۔
*اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے:
'' الله الله في أصحابي لا تتخذوهم غرضاً بعدي فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذى الله، ومن آذى الله يوشك أن يأخذه" (الترمذي) اللہ اللہ! قربان جائیے رسالت مآب کی فصاحت وبلاغت پر! جملے کے شروع میں کوئی فعل استعمال نہیں کیا گیا اور لفظ اللہ کو مکرر کرکے کتنے مؤکد اسلوبِ بیان میں فرمایا کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو، کوئی نازیبا کلمہ منھ سے نہ نکلے اور میری وفات کے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا۔ نیز رسولِ خدا سے محبت کے لئے صحابہ جنمیں حضرتِ معاویہ بھی شامل ہیں، سے محبت کو شرط قرار دیا گیا۔ اور صحابہ جنمیں حضرت معاویہ بھی داخل ہیں، سے بغض اور نفرت کو خدا ورسول سے بغض اور نفرت قرار دیا گیا اور بہت صریح الفاظ میں اللہ کے رسول نے یہ باتیں فرمائیں۔ حیرت ہے کہ مولانا نے خطبہِ جمعہ سے "الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة" پڑھکر تو سنا دیا مگر اسی خطبے میں موجود اس حدیث کو پڑھ کر نہیں سنایا۔
*اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ:
ارشادِ صحابیِ رسول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہے "من كان منكم متأسيا فليتأس بأصحاب محمد ، فإنهم كانوا أبر هذه الأمة قلوبا، وأعمقها علما، وأقلها تكلفا، وأقومها هديا، وأحسنها حالا؛ قوما اختارهم الله لصحبة نبيه، وإقامة دينه، فاعرفوا لهم فضلهم، واتبعوهم في آثارهم، فإنهم كانوا على الهدى المستقيم"۔
*حضرت علی وحضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلافات اور جنگ:
ان دونوں جلیل القدر صحابہ کے درمیان اختلاف اور جنگ خلیفہِ ثالث حضرت عثمان کے قاتلین کے قصاص کو لیکر پیدا ہوئی۔ حضرت علی اپنے اجتہاد کے مطابق محسوس کررہے تھے کہ چونکہ قاتلین کا ٹولہ مضبوط ہے اور ان سے قصاص لینے پر کوئی بڑا فتنہ کھڑا ہوسکتا ہے لہٰذا کچھ انتظار کرلیا جائے۔ دوسری طرف حضرت معاویہ اپنے اجتہاد کے مطابق فوری قصاص کو ضروری سمجھ رہے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کا اختلاف اور پھر جنگ کسی ذاتی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ سیاسی پالیسی میں اجتہادی نوعیت کی تھی۔ دونوں بزرگوں کا ساتھ دینے والے صحابہ کرام کی بھی یہی نوعیت تھی۔ بدنیتی اور ظلم فریقین میں سے کسی کی طرف سے نہیں تھا۔ صحابہ کا ایک تیسرا طبقہ وہ بھی تھا جو اپنے اجتہاد کے پیشِ نظر دونوں میں سے کسی کی طرف نہیں تھا۔ وہ طبقہ یہ سمجھتا تھا کہ جنگ کی صورت میں بہر صورت خون مسلمانوں کا ہی بہے گا لہٰذا ہمیں دونوں سے الگ تھلگ رہنا ہے۔ جس طرح بہت سارے فقہی مسائل میں صحابہ کے مابین اجتہادی اختلافات تھے اسی طرح اسلامی حکومت اور اسلامی سیاست کے اس مسئلہِ قصاص میں بھی صحابہ کے درمیان یہ تین اجتہادی اختلافات پیدا ہوئے اور بموجب حدیثِ نبوی یہ تینوں طبقے اپنے اپنے اجتہاد کی وجہ سے مستحقِ ثواب بھی ٹھہرے۔ ان میں سے جو حق پر تھا وہ دوہرے اجر کا مستحق اور جو غلطی پر تھا وہ بھی کوئی گنہگار نہیں بلکہ اکہرے اجر کا مستحق تھا۔ اہلِ سنت والجماعت کے اجماعی عقیدے کے مطابق حضرت علی حق پر ہونے کی وجہ سے دوہرے اجر والے تھے اور حضرت معاویہ اکہرے اجر والے، اور گنہگار وہ ہرگز نہ تھے۔ چنانچہ جنگِ صفین کا ذکر کرنے کے بعد حافظ بن کثیر فرماتے ہیں "وهذا هو مذهب أهل السنة والجماعة أن علياً هو المصيب وإن كان معاوية مجتهداً وهو مأجور إن شاء الله".(البداية والنهاية) خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان کے قصاص کے معاملے میں یہ اختلاف ہوا اور یہ اجتہادی نوعیت کا اختلاف تھا جس میں صواب وخطاء دونوں پر اجر موعود ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پر حضرت معاویہ کی کردار کشی، ان پر لعن طعن کرنا، انہیں برا بھلا کہنا اور ان کی تنقیص کرنا بلکہ اپنے دل میں بھی ان کے خلاف بغض ونفرت کو چھپاکر رکھنا سراسر حرام اور گناہِ عظیم ہے۔ "الله الله في أصحابي"
3۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت معاویہ نے حضرت علی سے بغاوت کی اور باغی گروہ کی سربراہی کی۔ مولانا کی طرف سے حضرت معاویہ پر یہ الزامِ بغاوت بھی اس وجہ سے درست نہیں ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت عثمان کے قصاص کے معاملے کو لیکر حضرت علی سے بیعت نہیں کیا۔ بغاوت تب ہوتی جب انہوں نے بیعت کی ہوتی اور پھر بات نہ مانتے۔ کسی بھی ملک سے بغاوت اس کی طرف سے ہوتی ہے جو اس ملک کا آئینی شہری ہو۔ جو شہری ہی نہ ہو اس کے ذریعے اس ملک کی مخالفت بغاوت نہیں کہی جاسکتی۔ اسی طرح حضرت معاویہ کا معاملہ تھا۔
4۔ اپنی تقریر میں مولانا فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ کے مزاج میں ڈھیلاپن تھا۔ ڈھیلاپن کا ہونا اور خلیفۃ المسلمین کا امورِ خلافت میں ڈھیلاپن یقیناً ایک بڑا عیب بلکہ گناہ ہے۔ ظاہر ہے خلیفہِ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ڈھیلاپن کی تعبیر انتہائی نامناسب بات ہے۔
5۔ مولانا نے فرمایا کہ"لا تسبوا أصحابي" ایک خاص سیاق وسباق کے ساتھ مخصوص ہے، یہ کوئی اصول اور عمومی بات نہیں ہے۔ وہ سیاق وسباق یہ تھا کہ حضرت خالد بن ولید کو حضرت عبد الرحمن بن عوف کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی۔ لہٰذا یہ حدیث اسی واقعے کے ساتھ خاص ہے، یہ کوئی اصول نہیں ہے۔ واہ صاحب واہ! یہ آپ کا اصول بھی خوب رہا! اولاً جمہور علماء امت کے نزدیک تو اصول یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے نصوص کے عمومِ الفاظ کا اعتبار ہے، نہ کہ سبب اور واقعے کا، العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب" البتہ شانِ نزول اور مواقعِ احادیث کے علم کا فائدہ یہ ہے کہ نص میں اگر کہیں اجمال ہو اور فہمِ معنی میں دشواری ہو تو اس سے مدد لے لی جائے۔ امت کا یہ اصول "العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب" معقول بھی ہے کیونکہ اگر قرآن و حدیث کے نصوص کو ان کی شانِ نزول اور واقعات کے ساتھ خاص کردیا جائے تو قرآن و حدیث یعنی مکمل اسلام ان واقعات کے ساتھ مخصوص ہوکر رہ جائے گا کیونکہ قرآن کی تقریباً ہر آیت کی شانِ نزول ہے اور خطبات کے علاوہ تقریباً تمام ہی ارشاداتِ رسول کسی نہ کسی سبب اور واقعے کے وقت فرمائے گئے۔ اس طرح لازم آئے گا کہ احکامِ اسلام مابعد زمانہ کے لئے معتبر نہیں ہونگے۔ گویا کہ اسلام صحابہ کے زمانے تک ہی محدود رہے گا۔ ثانیاً، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد لا تسبوا أصحابي صرف عبد الرحمن بن عوف کے ساتھ مخصوص ہوتا تو جمع کا لفظ اصحاب کی بجائے مفرد لفظ استعمال کیا جاتا۔ ثالثا، اگر حضور کا ارشاد "لا تسبوا" عام نہیں تھا تو کیا یہ لازم نہیں آیا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سوا دوسرے صحابہ کے بارے میں برا بھلا کہنے کی ممانعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہرگز نہیں کی گئی ہے اور اس کا جواز حاصل ہے؟ جبکہ معمولی اخلاق والا انسان بھی دوسروں کو برا بھلا کہنے اور گالی دینے سے روکتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو چشمہِ اخلاقِ فاضلہ تھے۔ مولانا کو اگر اس حدیث میں عام ممانعت نظر نہیں بھی آئی تو دوسری حدیثوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈال لیتے۔ کیا حدیث "سباب المسلم فسوق وقتاله كفر" بھی عام نہیں بلکہ واقعہِ ارشاد کے ساتھ خاص ہے؟ "الله الله في أصحابي"
6۔ یزید کو ولیِ عہد بنانے کی وجہ سے بھی مولانا حضرت معاویہ پر برس پڑے ہیں اور حضرت معاویہ کے اس اقدام کو ناجائز قرار دیا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت معاویہ کو بحیثیت امیر المومنین اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنانے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں تھی۔ اگر بیٹا نااہل اور فاسق نہیں ہے اور دوسرے افراد بیٹے سے زیادہ اہل ہیں تب بھی بیٹے کو ولیِ عہد بنانے کا شرعاً جواز ہے البتہ یہ افضل نہیں ہے۔ مگر افضل کو اختیار کرنا بھی افضل ہی تک ہے، واجب نہیں ہے۔ یزید میں بظاہر فسق کے اسباب حضرت معاویہ کے زمانے میں ظاہر نہیں ہوئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ بھی یزید کی ان الفاظ میں تعریف کرتے ہیں "قد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواظباً على الصلاة متحرياً للخير يسأل عن الفقه ملازماً للسنة۔"( حافظ بن كثير)،نیز مشہور صحابیِ رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کے سامنے یزید کو ولیِ عہد بنانے کی تجویز رکھی۔ نیز یزید فنِ حرب وضرب، سپہ سالاری میں ماہر تھا۔ چنانچہ بہت ممکن ہے کہ حضرات عبد الرحمن بن ابی بکر، حسن وحسین اور دیگر صحابہ کے مقابلے میں یزید کی ان ممتاز خوبیوں اور حضرت مغیرہ کی تجویز کی وجہ سے حضرت معاویہ نے اسے ولیِ عہد بنادیا ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ انہوں نے بددیانتی کی ہے اور ذاتی مفاد کے پیشِ نظر محض بیٹا ہونے کی وجہ سے یزید کو ولیِ عہد نامزد کردیا۔ انہوں نے جو کچھ کیا نیک نیتی کے ساتھ کیا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ نتائج کے اعتبار سے یہ فیصلہ غلط نکلا اور یزید سے امت کو نقصان پہنچا۔ حضرت معاویہ کی طرف سے اس فیصلے میں ان کی طرف سے بدنیتی اور مفاد پرستی نہ ہونے کی دلیلوں میں سے دلیلِ قرآنی "رضي الله عنهم ورضوا عنه" ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ آیت نازل کرتے وقت آئندہ یزید کو ولیِ عہد بنانے میں حضرت معاویہ کی نیت بھی معلوم تھی اس کے باوجود صحابہ کرام کے بارے میں یہ اعلانِ رضامندی فرمایا اور صحابہ میں حضرت معاویہ بھی شامل ہیں۔ اگر حضرت معاویہ کی طرف سے بدنیتی ہوتی، مفاد پرستی ہوتی جو یقیناً گناہ ہے اور اس نامزدگی پر حضرت معاویہ اپنی وفات تک قائم بھی رہے تو یہ اعلان "رضي الله عنهم.. " نہ ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ بغیر توبے کے گناہوں کے ساتھ راضی ہونے کا اعلان نہیں کرسکتا ہے۔ نیز حضرت معاویہ پر مفاد پرستی اور بددیانتی جیسے گناہ کا الزام حدیثِ رسول'' الصحابة كلهم عدول'' کے بھی خلاف ہے۔ حضور اگر ك''کلهم'' کا لفظ استعمال نہ فرماتے تب بھی مفہوم'' كکلھم'' ہی تھا مگر'' كکلھم'' کی صراحت کرکے حضور نے بلا استثناء تمام صحابہ بشمول حضرت معاویہ کی عدول ہونے کو مؤکد کردیا۔ اب جب حضرت معاویہ قرآن و حدیث دونوں کے مطابق عدول ثابت ہوئے تو مفاد پرستی اور بددیانتی جو عدولیت کے خلاف ہے خود بخود مرتفع ہوگئی۔ لہٰذا یزید کو ولیِ عہد بنانے کی وجہ سے حضرت معاویہ پر لعن طعن کرنا، تنقید وتنقیص کرنا حرام اور سخت گناہ ہوا۔ حضرت معاویہ کو اپنے بیٹے یزید کو اپنے اجتہاد کی روشنی میں ولیِ عہد بنانے کی صورت میں بھی اکہرا اجر حاصل ہے۔ "الله الله في أصحابي"
7۔ ا ہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ایک ادنیٰ درجے کا صحابی بھی اپنے مابعد قیامت تک آنے والے بڑے بڑے متقی اور اللہ والے سے ہزاروں گنا افضل ہے بلکہ کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تمام تابعین، فقہاء، محدثین وعلماء سے افضل ہیں۔ وہ اہلِ بیت کے غیر صحابی قیامت تک آنیوالے تمام مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ حضرت معاویہ حضرات سعید بن مسیب، حسن بصری، زین العابدین، علی بن حسین، محمد بن باقر، جعفرِ صادق، زید، حسن بصری، ابو حنیفہ، مالک، شافعی، احمد بن حنبل، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید رحمہم اللہ ان سب سے ہزاروں گنا زیادہ افضل ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ان حضرات میں سے کسی کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کی جاسکتی ہے تو ان سے ہزاروں گنا افضل صحابیِ رسول کاتبِ وحی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی امت کیسے برداشت کرسکتی ہے؟ اور ان پر لعن طعن کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ "الله الله في أصحابي"
8۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری دعائیں اور تعریفیں منقول ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا "اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذاب"، ایک مرتبہ حضور نے فرمایا "ادعوا معاوية أحضروه أمركم فإنه قوي أمين" (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، مطبوعة بيروت)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر مقرر کیا اور اپنی آخر حیات تک باقی رکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہِ خلافت میں بھی انہیں شام کی گورنری پر باقی رکھا بلکہ مزید کچھ دوسرے علاقوں کی ذمہ داری دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب کسی فقہی مسئلے میں شکایت کی گئی تو انہوں نے فرمایا "إنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم" (البخاري). حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعد کو حمص کی گورنری سے معزول کیا اور ان کی جگہ حضرت معاویہ کو مقرر کیا تو کچھ لوگوں نے چہ می گوئیاں کیں۔ حضرت عمیر بن سعد نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا "لا تذكروا معاوية إلا بخير فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول اللهم اهد به" (جامع الترمذي).
9 ۔ حضرت معاویہ کو مخدوش کرنا، انہیں ہدفِ تنقید بنانا اور ان سے بغض رکھنا، لعن طعن کرنا صرف حضرت معاویہ تک ہی محدود نہیں رہتا ہے بلکہ اس کے اثرات صحابہ کی ایک بڑی تعداد تک پہنچتے ہیں۔ انہیں شام ودوسرے علاقوں کا گورنر بنانے والے صحابہ یعنی حضرت عمر وعثمان رضی اللہ عنہما بھی زد میں آتے ہیں، سعد بن ابی وقاص، مغیرہ بن شعبہ، ابو ایوب انصاری اور دیگر بہت سارے صحابہ زد میں آتے ہیں جنہوں حضرت معاویہ کی تعریف کی یا جنگ میں ان کا ساتھ دیا۔ لہٰذا جو شخص حضرت معاویہ کو برا بھلا کہے گا اسے دیگر اصحابِ رسول کو برا بھلا کہنے کی بھی ناپاک جرات ہوجائے گی۔ اسی وجہ سے رفیع بن نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں "معاوية ستر لأصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فإذا كشف الرجل الستر اجترأ على ما وراءه" (الخطيب: تاريخ بغداد). یعنی حضرت معاویہ اصحابِ رسول کے ناموس کے لیے ڈھال ہیں۔
روافض اور دشمنانِ اسلام اسی وجہ سے حضرت معاویہ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ جب یہ ڈھال ٹوٹ جائیگی اور اس کے ذریعے دروازہ کھل جائے گا تو پھر دیگر صحابہ کی ناموس تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مولانا سلمان صاحب نے حضرت معاویہ اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ پر سخت تنقید اور ان کی کردار کشی کرکے انتہائی گھناؤنا اور مکروہ کام کیا ہے جو قرآن و سنت اور عقیدہِ اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہے۔ ناموسِ صحابہ پامال ہونے کی وجہ سے ہم ان کی تقریر کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور تمام صحابہ بشمول حضرت معاویہ کو اسی طرح برگزیدہ، متقی، نیک نیت، صالح، اور خیرِ امت سمجھتے ہیں جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول نے قرآن و حدیث میں بتلایا ہے۔ مولانا کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ کریں اور واضح انداز میں بغیر کسی اگر مگر اور شق بیانی کے اپنی غلط باتوں سے رجوع کرنے کا اعلان کریں۔
بحوالہ m.dailyhunt.in