سورۃ الضحیٰ اوریتیم وسائل کی توقیر
چونکہ عرب کا معیارِ تو قیر خوش حالی اور دولت تھی، حضور1یتیم پیداہوئے اس لیے ایک زمانہ آپ پر تنگ دستی کا گذرا۔ خوش حالی کے دنوں میںبھی آپ نے مسکین کی سی زندگی بسر کی کیونکہ اپنی کمائی محتاجوں پر صرف کرتے تھے اور فیاضی کی نمائش نہ کرتے تھے، اس لیے لوگوں نے طعنہ دیا کہ ودعہ ربہ وقلا یعنی اسے اس کے ربّ نے چھوڑ دیا اور اسے رخصت کر دیا ہے۔ ایسا طعنہ کسی اور وجہ سے حضرت داؤد کو بھی دیا گیا تھا ۔چنانچہ وہؑ فرماتے ہیں کہ
’’میرے دشمن میری بابت باتیں کرتے ہیں،اور میر ی طرف تاکتے ہوئے باہم مشورہ کرتے وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اسے چھوڑ دیا ہے، اس کا پیچھا کر کے اسے پکڑ لو،کیونکہ کوئی نہیں جو اسے چھڑائے ۔‘‘ (زبور۷۱:۱۰،۱۱)
تو ہی اے الٰہ! میری توانائی ہے، تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا ہے۔ (زبور۴۳:۲)
کفار نے جب حضور 1کے خلاف یہی بات کہیں جو کبھی حضرت داؤد ؑ کی بابت کہی گئی تھی تو اللہ نے وحی نازل فرمائی:
{وَالضُّحٰی٭ وَالَّیْلِ إِذَا سَجٰی٭ مَاوَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی٭وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْأوْلٰی٭وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی٭اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَآوٰی٭ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی٭ وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی٭فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ٭ وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنْہَرْ٭ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ}
’’دن کی روشنی شاہد ہے اور رات جب کہ تاریک ہو جاتی ہے۔ تیرے ربّ نے نہ تو تجھے چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ ناراض ہے اور تیرا مستقبل تیرے ماضی سے بہتر ہو گا اور تجھے تیرا ربّ دے گا تو خوش ہو جائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا پھر پناہ دی اور تجھے ناکام پایا پھر راہ کامیابی دکھائی اور تجھے تنگ دست پایا اور غنی بنا دیا؟ اس لیے یتیم پر سختی نہ کرنا اورمانگنے والے کو نہ جھڑکنا اور اپنے ربّ کی نعمت کا تذکرہ کر۔‘‘ ( سورۃ الضحیٰ)
ہر زبان میں بعض الفاظ متعدد معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ جملے کے دیگر الفاظ کی مدد سے کثیر المعانی لفظ کے معنی میں سے ایک کی ترجیح ہوتی ہے۔ ضلال کے متعدد معانی ہیں:
أبرہۃ الأشرم کے کتبے میں…ضللن (ضلالنا)ہماری دوستی کے معنی میں آیا۔
ضلال عربی میں ’عشق ناکام‘ کو بھی کہتے ہیں۔ {تَاﷲِ إنَّکَ لَفِیْ ضَلٰـلِکَ الْقَدِیْمِ}میں ضلال بے جا محبت کے معنی میں آیا۔
ضلّ سعیہمکے معنی ہیں: ان کی کوشش ناکام رہی۔
سورۃ القلم میں ہے کہ أصحاب الجنۃ نے اپنے باغ کی تباہی دیکھ کر کہا:
{ إنَّا لَضَآلُّوْنَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ}
یعنی ہم نامراد بلکہ محروم ہو گئے۔
ضلالگمراہی کو کہتے ہیں۔ اس معنی میں بکثرت قرآن میں یہ لفظ آیا ہے ۔ راستے کی تلاش کو بھی کہتے ہیں مگر قرآن میں اس معنی میں یہ لفظ نہیں آیا ہے۔ ضلال کی ضد ’ابتدا‘ اور اضلال کی ضد ’ہدایت‘ ہے۔
اب سورہ پر غور کرو۔تین دعووں کی ترتیب سے تین دلیلیں اور دلیلوں کی ترتیب سے تین نصیحتیں ہیں:آیت نمبر۳، نمبر۶ اورنمبر۹ بالترتیب دعویٰ، دلیل اور حکم ہیں، دعویٰ یہ ہے کہ تیرے ربّ نے تجھے چھوڑ نہیں دیا ہے ، دلیل یہ ہے کہ تو یتیم تھا، اس نے تجھے پالا پوسا، حکم یہ ہے کہ یتیم کی توقیر کرتے رہنا، اسے ستانا نہیں۔
آیت نمبر۵، نمبر۸اور نمبر۱۱ دعویٰ دلیل اورحکم ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ تجھے تیرا ربّ دے گا تو خوش ہو جائے گا۔ دلیل یہ ہے کہ توتنگ دست تھا، اس نے غنی کر دیا، حکم یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ دیا ہے، اس کا تذکرہ کر۔
اسی طرح نمبر۴، نمبر۷ اور نمبر۱۰، دعویٰ، دلیل اور حکم ہیں۔ ساری آیتیں مالی حالت سے تعلق رکھتی ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ تیرا مستقبل تیرے ماضی سے بہتر ہو گا، دلیل یہ ہے کہ تو ضال تھا(تیری کوششیں رائیگاں جاتی تھیں) اس نے راہِ فلاح بتائی۔ حکم یہ کہ مانگنے والے کو نہ جھڑکنا، سورہ کے لف ونشر کو اور ضل سعیہم کو خیال میں نہ رکھنے کی وجہ سے اور اُردو میں ترجمہ کرنے والوں کے ایک لفظ پر اصرار نے سورہ کے فہم میں دشواریاں پیدا کر دی ہیں۔
یہ سورۃ الفرقان :۳۲،۳۳ کے مطابق حضرت رسول اللہ1کی تشفی کے لئے اُتری مگر اس سے ہم کوحسب ِذیل مسائل معلوم ہوئے جن کو ہماری اقتصادی نظام کا جزو ہونا چاہیے۔
یتیم کی توقیر واجب ہے، اس پر سختی نہ کرنی چاہیے۔
سائل کی توہین نہیں کرنی چاہیے۔
اللہ نے بندے پر جو نوازش کی ہے اس کو ظاہر کرنا چاہیے، خصوصاً خدامِ دین کو ۔
ہم نے دیکھا ہے ایک وکیل جس کی آمدنی زیادہ ترقانون کی کمزوریوں سے مجرموں کے حق میں استفادہ کا اجرہوتی ہے، قانون کے بجائے قانون شکن کی حمایت کی مزدوری ہوتی ہے۔وہ جب خدمت ِخلق کا مدعی بن کر آتا ہے تو لوگ اس سے نہیں پوچھتے کہ تیری آمدنی حلال ہے یا حرام؟ لیکن جب ایک متقی آدمی سامنے آتا ہے تو لوگ طرح طرح کے شبے ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہو نہ ہو اسے فلاں ادارہ کچھ دیتا ہے ، فلاں حکومت کچھ دیتی ہے۔ شیطان اس طرح اتقیا کی عزت پر دھبے لگایا کرتا ہے اور فساق کی عزت بڑھایا کرتا ہے۔
رسول اللہﷺکی تحدیثِ نعمت کا اس لیے حکم ہوا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کا ہادی کسی کا دست نگر نہیں ہے۔ جب کبھی عوام کو شبہ ہو جاتا ہے کہ ان کو اس کی تعلیم دینے والا محتاج اور کسی نہ کسی کا دست نگر ہے، تو پھر اس کی باتوں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔