کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
حجاز ریلوے لائن اور سلطنتِ عثمانیہ
Hejaz Railway Line Or Saltanat e Usmania
رواں دواں ریلوے لائن رک چکی تھی، جو جہاں تھا ٹھہر چکا تھا۔ اس کے مسافر، اس کا عملہ، اس کے نگران جو سب محوِسفر یا وہ جو اپنی انتظامی ذمے داریوں پر اپنے اسٹیشنوں پر متعین تھے، سب کے سب جوں کے توں تباہ کر دیے گئے۔ جابجا بکھری یہ تباہ شدہ باقیات اس عظیم حجاز ریلوے کی یاد لیے کھڑی ہیں جو 1908ء سے 1916ء تک دمشق سے مدینہ منورہ تک آتی تھی۔
سرزمینِ حرمین الشریفین حجاز 1518ء سے سلطنتِ عثمانیہ کی عمل داری میں شامل تھا۔ یہاں پر ان کا مقرر کردہ گورنر ''شریفِ مکہ'' کہلاتا تھا۔ آخری شریفِ مکہ حسین بن علی تھا جو عرب کے ہاشمی خاندان سے تھا اور جسے 1909ء میں عثمانی سلطان عبدالحمید ثانی نے شریفِ مکہ نامزد کیا تھا۔ سلطان عبدالحمید ثانی کا بڑا کارنامہ دمشق سے مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے کی تعمیر تھی جو شریفِ مکہ، بدو قبائل اور اونٹوں کے کاروانی مالکوں کی عملی مخالفت اور طویل تر زمینی خدوخال اور موسمی مشکلات کے باوجود 1908ء میں مدینہ منورہ تک مکمل اور رواں دواں ہو گئی۔ تاہم مکہ مکرمہ اور جدہ تک اس کی توسیع میں شریفِ مکہ اور اس کے حواری بدستور رکاوٹ ڈال رہے تھے تاآنکہ 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی اور یہ منصوبہ مؤخر ہو گیا۔
1916ء میں شریفِ مکہ حسین بن علی نے برطانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے تحریک بیداریٔ عرب کے نام پر عثمانی ترکوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا اور انگریزوں کی عسکری اور مالی اعانت کے ساتھ لارنس آف عریبیہ کی عملی سرکردگی میں بغاوت کو پروان چڑھا کر سلطنتِ عثمانیہ کی عمل داری کا خاتمہ کرتے ہوئے دمشق سے مدینہ منورہ تک ترکوں کی رواں دواں شہ رگ حجاز ریلوے لائن کو تباہ و برباد کر دیا۔
حجاز ریلوے لائن کے ساتھ سفر
میں نے مدتوں مدینہ منورہ سے عمان (اُردن) تک حجاز ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سفر کیا۔ صحرا کی وسعتوں میں عربی کی مانوس آوازوں کو سنتے، کھجور کے درختوں، عربی طرز کے مکانات دیکھتے، صحرا کی اڑتی ریت سے اَٹی ریلوے لائن اور سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی پٹری کا مشاہدہ کرتے، ترکی طرزِ تعمیر میں تراشیدہ پتھروں سے بنے چھوٹے بڑے خوبصورت اسٹیشن اور ان سے پرے پیچھے ہٹتے ہوئے ترک فوجی قلعے اور بیرکیں، پٹری کے لیے کہیں کہیں بنے تراشیدہ پتھروں کے ترک طرزِ تعمیر کے پل، اس کے ساتھ ہی جابجا تباہ شدہ ریل کی پٹریاں اور ان پر کھڑی جلی ہوئی زنگ آلود بوگیاں ، تباہ شدہ ریل گاڑی کا انجن اور دور جا کر گرے ہوئے ریل گاڑی کے ڈبے، یہ سب عجیب دنیا کا منظر لگتا تھا۔
شہرِ مدینہ منورہ میں بابِ عنبریہ کے ساتھ سیاہ گنبدوں والی خوبصورت عنبریہ مسجد سے ملحق سرمئی تراشیدہ پتھروں سے بنا مدینہ منورہ کا حجاز ریلوے اسٹیشن عربی اور ترکی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے اور عثمانی ترکوں کے آخری دم تک طویل دفاعِ مدینہ کی وجہ سے آج بھی اپنی اصلی ہیئت میں محفوظ ریل کی پٹری، ڈبے اور انجن سمیت عثمانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ حجاز ریلوے کی مدینہ منورہ سے دمشق تک جاتی ریلوے لائن کہیں کچی ریتلی زمین پر بچھی ہوئی اور کہیں پہاڑی اُتار چڑھاؤ میں سے گزرتی ہے لیکن ریگستانی اور پہاڑی دونوں راستوں پر پھیلی یہ ریلوے لائن ہموار اور ستواں ہے۔ گرد و پیش ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ کہیں کسی چھوٹی وادی سے گزرتی اور کہیں خودرو درختوں سے گھرا نخلستان پار کرتی تو کہیں کسی غیر آباد علاقے اور وسیع ویرانے کو عبور کرتی العلا تک پہنچ جاتی ہے۔
جزیرہ نمائے عرب کا قدرتی دفاعی حصار شمال مغرب میں کوہِ لبنان سے شروع ہونے والا وہ پہاڑی سلسلہ ہے جو جنوب میں باب المندب تک اور پھر اس سلسلۂ کوہ پر یہ خط ایک عمود بناتا ہوا ایک دوسرے پہاڑی سلسلے میں سارے جنوبی کنارے پر پھیلتا عمان تک چلا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خشک اور بنجر زمین تہامہ ہے جو بحیرہ قلزم کے ساتھ ساتھ چلتی ساحلی میدان کی ایک تنگ پٹی ہے جو پہاڑوں کے ساتھ ساتھ جن کی اونچائی ۴۰۰۰؍فٹ تک بلند ہے اور سیدھی ڈھلوان سمندر کی طرف ہے۔ خلیج عقبہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان ان پہاڑوں کی اونچائی 4000؍فٹ سے 7000؍فٹ تک بلند ہے۔ حجاز کے ان ساحلی پہاڑوں کا سیدھا مغربی ڈھلوان صدیوں پہلے نمودار ہونے والے غیر معمولی تغیرو تبدل کے نتیجے میں ہوا جب زمین کی سطح سمندر کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی اور بلند و بالا پہاڑوں کے مغربی حصے بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں اس بڑی کھائی میں لڑھکتے ، پھر بحیرہ قلزم کی موجوں نے اس کھائی کو بھر کر برابر کر دیا۔
حجازیہ جبلِ سراۃ کا کوہستانی علاقہ ہے جو یمن سے شام تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں بے آب و گیاہ پہاڑوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس میں خشک اور ناقابلِ عبور دروں کا ایک جال ہے۔ یہ تمام علاقہ غیرآباد ہے اور اس خاموش صحرا میں بچھی حجاز ریلوے لائن پر وقفوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کا ایک ٹھہراؤ ہے۔ قدیم حجاز ریلوے کا خوبصورت، مسحورکن نظارہ، اس کا ماحولیاتی حسن اور دیدہ زیب و جاذبِ نگاہ عثمانی طرزِ تعمیر کے دلفریب ریلوے اسٹیشنوں کی ہر چیز ڈحرائی بودو باش کے بدوؤں نے نکال پھینکی اور اسے مالِ غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے گھروں کے حفاظتی جنگلوں اور باڑ کے لیے اٹھا لے جاتے رہے۔
اگرچہ گزرتے وقت کی طویل مدت اور موسموں کے تغیرو تبدل نے ان کے حسن کو دھندلا دیا ہے مگر پھر بھی تراشیدہ پتھروں سے بنے جابجا نظر آنے والے یہ شاہکار آج بھی اپنے طرزِ تعمیر میں منفرد ہیں اور اس دور کا عکس پیش کرتے ہیں جب حجاز ریلوے ان کے آگے رواں دواں تھی۔ جابجا ٹوٹی ہوئی ریلوے لائن بارودی دھماکوں اور انسانی ہاتھوں کے ظلم کی تاریخ بتاتی ہے۔ تاہم فولادی پٹریاں اور سلیپر آج بھی اپنے اعلیٰ معیار کا پتا دیتے ہیں۔ ترکی طرز کے قوس در قوس محرابی پل بنیادوں سمیت ٹوٹے پڑے ہیں اور ان کے اوپر لوہے کے سلیپر لٹکتی ہوئی ریلوے لائن کو سہارا دیے ہوئے آج اپنی تاریخی دفاعی جدوجہد کا منظر پیش کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ خود رو جھاڑیوں کے علاوہ بچھی پڑی پٹری کے ساتھ سارا ماحول ویران ہے۔ کئی جگہ تباہ شدہ حالت میں گاڑیاں پٹری سے الٹی پڑی ہیں۔ ایک جگہ ایک انجن چار پانچ ڈبوں سمیت کھڑا ہے جس کے مسافر اور عملہ شاید اس کے ساتھ ہی برباد ہوئے اور وقت کی تہ در تہ بدلتی ہوئی رنگت اور اڑتی ہوئی ریت کی لہردار تہوں نے انھیں زیرِ خاک کر دیا۔ خالی ڈبے گواہ ہیں کہ ان کا مال و اسباب بدوؤں کے ہاتھوں لٹ گیا۔ حجاز ریلوے کا ایک انجن اپنے انجام پر نوحہ کناں مدینہ جاتے مسافروں کی بے نشان قبروں پر لَوحِ قبر بنا کھڑا ہے۔ پہاڑی راستے ویران ہیں۔ نہ عرب کا صحرائی نشان، نہ رواں دواں اونٹوں کا کارواں، نہ کوئی حدی خواں۔ آسمان کی فضا میں کوئی پرندہ بھی نہیں اڑتا۔ صرف خود رو جھاڑیاں اور سنگلاخ چٹانیں سر اٹھائے کھڑی ہیں۔
مدینہ منورہ کے ریلوے اسٹیشن سے شمال کو نکلتی مدتوں سے ویران پڑی ریلوے لائن جوں جوں آگے بڑھتی ہے اس کی ویرانیوں اور تنہائیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تباہی و بربادی کا پہلا نشان ابوالنعم ریلوے اسٹیشن کے قریب ریلوے لائن پر ڈائنامائیٹ شدہ گاڑیوں کے آثار سے ملتا ہے جو بڑھتے قدموں کو روک لیتے ہیں۔ اس سے آگے چلتے ہوئے ہدیہ ریلوے اسٹیشن کے قریب کھلا ہلکا نیلگوں آسمان اور اس کے نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے حدِنگاہ تک بچھا ہوا صدیوں سے مٹیالی مٹی کی تہوں سے آراستہ میدان جہاں گہرے بھورے رنگ کی سیاہی مائل پہاڑیاں پیچھے ہٹتی ہوئی کھڑی ہیں۔ ایک قوی ہیکل فولادی انجن اپنے بائیں پہلو پر الٹا پڑا ہے ۔ اس کے پیچھے ریل کے جلے ہوئے ڈبے کھڑے ہیں۔
العلا سے 16؍کلومیٹر پہلے حجاز ریلوے لائن ایک کُھلی پُر فضا وادی میں سے گزرتی ہے۔ یہاں آج بھی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ تھوڑے فاصلے پر جلی ہوئی زنگ آلود لائنوں کے ٹیڑھے میڑھے حصے اور ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں۔ جب کہ پاس ہی ایک تباہ حال ڈائنامائیٹ شدہ انجن ریت میں دبا سیدھا کھڑا ہے۔ اس کے آثار آج بھی انمٹ ہیں۔ انجن کے پچھلے حصے کی فولادی زنگ آلود سطح کو طاقتور دھماکے نے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ آج بھی اپنے ساتھ جلی ہوئی زنگ آلود گاڑیوں کے ساتھ اُڑتی ریت کے تھپیڑے کھا رہا ہے۔
یہاں سے 34؍کلومیٹر آگے کُھلتی وادی کی تنہائیوں میں دلکش پیلے پتھروں سے بنا السرا کا خوبصورت اسٹیشن اپنی تین عمارتوں کا جھرمٹ بنائے حجاز ریلوے لائن کے متوازی ویران پڑا ہے۔ جوں جوں العلا کی طرف بڑھتے ہیں اونچے پہاڑ پیچھے ہٹتے اور وادیاں اور میدان پھیلتے جاتے ہیں۔ عذابِ الٰہی کے آثار ایک ایک کر کے ماحول کو تاریخی تصورات میں گھیر لیتے ہیں۔ کھلی وسیع وادی میں ریلوے لائن سیدھی بچھی چلی جاتی ہے۔ لہراتی ہواؤں نے اس پر لہر در لہر ریت کی تہیں بچھا دی ہیں۔ کبھی یہ پہاڑ پھٹے تھے، زمین پھٹی تھی۔ العلا کے نواح میں اونچے پہاڑ بے قطار پھٹتے چلے گئے۔ مدائن صالح سے 25؍کلومیٹر پہلے سراوت پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان تنگ ہوتی وادی آگے کی طرف پھیلتی اور کھلتی جاتی ہے۔ یہاں تیرھویں صدی عیسوی سے العلا اپنی نمایاں شناخت رکھتا ہے۔ یہاں مٹی کی اینٹوں سے بنے گھروں کے قدیم شہر کے آثار بیسویں صدی کے آغاز سے ویران پڑے ہیں۔
العلا کا میٹھے پانی کا چشمہ آج بھی رواں دواں ہے۔ جہاں مقامی عرب بدو آج بھی قہوہ پیتے اور گئے وقتوں کی یاد دہراتے ہیں۔ یہاں کے ماضی کے بارے میں ان کی ہر بات حرفِ آخر ہے۔ العلا کے اردگرد ماحول شاداب ہے۔ پھلوں کا ایک نخلستان اور وادی ام القریٰ اس کا نام ہے۔ العلا حجاز ریلوے اسٹیشن کا ایک اہم اسٹیشن تھا۔ یہاں ریلوے کے تباہ شدہ آثار آج بھی موجود ہیں۔ العلا کے اسٹیشن پر آج بھی ایک گاڑی کھڑی ہے۔ وادی ام القریٰ میں العلا کا نخلستان مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان صدیوں سے رواں دواں کاروانی راہ گزر پر واقع تھا۔ اگرچہ 75ء میں رومنوں نے بحیرہ قلزم کے ساحلی راستے کو اپنایا اور اس طرح 500؍سال تک العلا کی کاروانی رونقیں ماند رہیں۔ تاہم 620ء میں اسلام کی آمد کے اور احکامِ حج کی بجا آوری کے لیے اس نخلستان میں کاروانِ حج کی آمدو رفت سے پھر بہار لوٹ آئی۔
(جاری ھے)