• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجر اسود کا عجیب تاریخی واقعہ : کیا یہ واقعہ صحیح ہیں ؟؟؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی کیا یہ واقعہ صحیح ہیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
جی بھائی یہ واقعہ صحیح ہے،
قرامطیوں کاحجراسود چوری کرنا اوراسے ایک لمبی مدت تک اپنے پاس رکھنا صحیح ہے اورتاریخی طورپراس کا ثبوت ملتا ہے ۔
تاریخ کی مستند کتب میں موجود ہے (دیکھئے ۔البدایہ والنہایہ۔۔اور ۔۔المنتظم )

اور ۔۔الاسلام سوال و جواب سائیٹ ۔۔ پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

الحمد لله

أولاً :

الحجر الأسود هو : الحجر المنصوب في الركن الجنوبي الشرقي للكعبة المشرفة من الخارج في غطاء من الفضة وهو مبدأ الطواف ويرتفع عن الأرض الآن متراً ونصف المتر .

وما ذُكر في المقال الوارد ضمن السؤال فيه حق عليه أدلة صحيحة ، وفيه ما لا أصل له .

وقد ذكرنا في جواب السؤال رقم ( 1902 ) أكثر ما ورد في السنة الصحيحة عن " الحجر الأسود " ، ومنه : أن الحجر الأسود أنزله الله تعالى إلى الأرض من الجنة ، وكان أشد بياضا من اللبن فسودته خطايا بني آدم ، وأنه يأتي يوم القيامة له عينان يبصر بهما ولسان ينطق به يشهد لمن استلمه بحق ، وأن استلامه أو تقبيله أو الإشارة إليه : هو أول ما يفعله من أراد الطواف سواء كان حاجا أو معتمراً أو متطوعاً ، وقد قبَّله النبي صلى الله عليه وسلم ، وتبعه على ذلك أمته ، فإن عجز عن تقبيله فيستلمه بيده أو بشيء ويقبل هذا الشيء ، فإن عجز : أشار إليه بيده وكبَّر ، ومسح الحجر مما يكفِّر الله تعالى به الخطايا .

ثانياً :

وأما بخصوص سرقة القرامطة للحجر الأسود له ومكثه عندهم فترة كبيرة : فصحيح .

قال ابن كثير – في حوادث 278 هـ - :

وفيها تحركت القرامطة ، وهم فرقة من الزنادقة الملاحدة أتباع الفلاسفة من الفرس الذين يعتقدون نبوة زرادشت ومزدك ، وكانا يبيحان المحرمات‏ .‏

ثم هم بعد ذلك أتباع كل ناعق إلى باطل ، وأكثر ما يفسدون من جهة الرافضة ويدخلون إلى الباطل من جهتهم ؛ لأنهم أقل الناس عقولاً ، ويقال لهم ‏:‏ الإسماعيلية ؛ لانتسابهم إلى إسماعيل الأعرج بن جعفر الصادق ‏.‏

ويقال لهم ‏:‏ القرامطة ، قيل‏ :‏ نسبة إلى قرمط بن الأشعث البقار ، وقيل‏ :‏ إن رئيسهم كان في أول دعوته يأمر من اتبعه بخمسين صلاة في كل يوم وليلة ليشغلهم بذلك عما يريد تدبيره من المكيدة‏ ...

والمقصود : أن هذه الطائفة تحركت في هذه السنة ، ثم استفحل أمرهم وتفاقم الحال بهم - كما سنذكره - حتى آل بهم الحال إلى أن دخلوا المسجد الحرام فسفكوا دم الحجيج في وسط المسجد حول الكعبة وكسروا الحجر الأسود واقتلعوه من موضعه ، وذهبوا به إلى بلادهم في سنة سبع عشرة وثلاثمائة ، ثم لم يزل عندهم إلى سنة تسع وثلاثين وثلاثمائة ، فمكث غائباً عن موضعه من البيت ثنتين وعشرين سنة ، فإنا لله وإنا إليه راجعون‏ .‏

" البداية والنهاية " ‏(‏‏ 11 / 72 ، 73‏ )‏ .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
الحمد للہ
اول :

حجراسود : وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں باہرکی جانب منصوب ہے اوراس کے ارد گرد چاندی سے گھیرا ہوا ہے ، اورطواف کے ابتدا کرنے کی جگہ ہے اوریہ پتھر زمین سے ڈیڑھ میٹر بلند ہے ۔

اورسوال میں جومقالہ ذکر کیا گيا ہے اس میں کچھ توحق ہے اوراس کے صحیح دلائل ملتے ہيں ، اورکچھ ایسی روایات بھی ہیں جن کی کوئي اصل نہيں ملتی ۔

ہم نے سوال نمبر ( 1902 ) کےجواب میں حجراسود کے بارہ میں سنت صحیحہ میں وارد شدہ اکثر دلائل ذکر کیے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ :

اللہ تعالی نے حجراسود جنت سے اتارا تویہ دودھ سے بھی سفید تھا اور اولاد آدم کی خطاؤں اورگناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ، اورروزقیامت حجراسود آئے گاتواس کی دو آنکھیں ہونگی ان سے دیکھے گا اور زبان ہوگي جس سے بولے گا اورجس نے بھی اسے حق کے ساتھ استلام کیا اس کی گواہی دے گا ، اوراسے چھونا یا اس کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے چاہے وہ طواف حج کا ہویا عمرہ کا یا نفلی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجراسود کابوسہ لیا تھا اوران کی اتباع میں امت محمدیہ بھی اس کا بوسہ لیتی ہے ، اگربوسہ نہ لیا جاسکے تواسے ہاتھ یا کسی چيز سے چھوکراسے چوما جائے ، اوراگراس سے بھی عاجز ہوتواپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اوراللہ اکبر کہے ، اورحجر اسود کوچھونے سے غلطیاں ختم ہوتی ہیں

دوم :
اورقرامطیوں کاحجراسود چوری کرنا اوراسے ایک لمبی مدت تک اپنے پاس رکھنا صحیح ہے اورتاریخی طورپراس کا ثبوت ملتا ہے ۔

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی 278 ھجری کے واقعات میں لکھتے ہيں :
اوراس برس میں قرامطی حرکت میں آئے ، اوریہ فرقہ ملاحدہ اورزندیقوں میں سے ہے اورفرس میں سے فلسفیوں کا پیروکار ہے جوزردشت اورمزدک کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہيں ، اوریہ دونوں حرام اشیاء کومباح قرار دیتے تھے ۔
پھر وہ ہرباطل کی طرف بلانے والے کے پیروکارہيں ، اوران میں اکثر رافضیوں کی جانب سے اس طرف آتے ہیں اوروہی باطل میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں میں یہی لوگ سب سے کم عقل ہیں اورانہيں اسماعیلی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسماعیل الاعرج بن جعفرالصادق کی طرف منسوب ہوتے ہيں ۔

اورانہيں قرامطہ کہا جاتا ہے : کہا جاتا ہے کہ قرمط بن اشعث البقار کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے قرامطہ کہا جاتا ہے ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا قائد اپنے پیروکاروں کوسب سے پہلے جس چيزکا حکم دیتا تھا وہ یہ تھا کہ وہ ایک دن اوررات میں پچاس نمازيں ادا کرے اوراس میں اس کا مقصد یہ تھا انہيں مشغول رکھے اورخود چالیں چلتا رہے ۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ یہ فرقہ اورگروہ اس سال حرکت میں آیا ، اورپھر ان کا معاملہ بڑھتا ہی چلا گیا اورحالات بھی ان کے موافق ہوگئے – جیسا کہ ہم بیان بھی کریں گے – حتی کہ حالات ان کے موافق ہوگئے اوریہ مسجدحرام میں داخل ہوئے اورحجاج کرام کومسجد کے اندر کعبہ کے ارد گرد قتل کیا اورحجر اسود کوتوڑا اوراکھاڑ کے317 ھجری میں اپنے ساتھ اپنے ملک لے گئے ، اوریہ پتھر339 ھجری تک ان کے پاس ہی رہا اوربیت اللہ میں اپنی جگہ سے بائيس برس تک غائب رہا ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
دیکھیں : البدايۃ والنھايۃ ( 11 / 72 - 73 ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ ابن جوزی ؒ ۔۔المنتظم ۔۔میں لکھتے ہیں :
قال ابن الجوزي بسنده إلى أبي الحسين عبدالله بن أحمد بن عياش القاضي، قال:

أخبرني بعض أصحابنا: أنه كان بمكة في الوقت الذي دخلها أبو طاهر القرمطي ونهبها وسلب البيت وقلع الحجر الأسود والباب، وقتل المسلمين في الطواف، وفي المسجد، وعمل تلك الأعمال العظيمة، قال: فرأيت رجلاً قد صعد البيت؛ ليقلع الميزاب، فلما صار عليه سقط، فاندقت عنقه، فقال القرمطي: لا يصعد إليه أحد ودعوه، فترك الميزاب، ولم يقلع، ثم سكنت الثائرة بعد يوم أو يومين، قال: فكنت أطوف بالبيت فإذا بقرمطي سكران، وقد دخل المسجد بفرسه، فصفر له حتى بال في الطواف، وجرد سيفه ليضرب به من لحق وكنتُ قريبًا منه، فعدوت، فلحق رجلاً كان إلى جنبي فضربه فقتله، ثم وقف وصاح: يا حمير، أليس قلتم في هذا البيت من دخله كان آمنًا، وقد قتلته الساعة بحضرتكم؟


رابط الموضوع: http://www.alukah.net/web/fayad/0/23826/#ixzz3m4B4uFY9
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جزاک اللہ خیرا!

ان کا قائد اپنے پیروکاروں کوسب سے پہلے جس چيزکا حکم دیتا تھا وہ یہ تھا کہ وہ ایک دن اوررات میں پچاس نمازيں ادا کرے
تو گویا اس کے پیروکار اپنے امام کے متعلق "معصوم عن الخطا" کا عقیدہ بھی رکھتے ہوں گے اور غالی صوفیوں کی طرح اپنے جسم و جان پر اپنے پیر کا تصرف تسلیم کرتے ہوں گے۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جزاک اللہ خیرا!
تو گویا اس کے پیروکار اپنے امام کے متعلق "معصوم عن الخطا" کا عقیدہ بھی رکھتے ہوں گے اور غالی صوفیوں کی طرح اپنے جسم و جان پر اپنے پیر کا تصرف تسلیم کرتے ہوں گے۔۔
’’ قرامطہ ‘‘ انتہائی جاہل اور پکے ملحد تھے ۔۔ مورخین نے انکے کئی واہیات قسم کے عقائد و اعمال بتائے ہیں ،
علامہ ابن کثیر ۔البدایہ و النہایہ ۔۔میں لکھتے ہیں کہ :
وفيها تحركت القرامطة وَهُمْ فِرْقَةٌ مِنَ الزَّنَادِقَةِ الْمَلَاحِدَةِ أَتْبَاعِ الْفَلَاسِفَةِ مِنَ الْفُرْسِ الَّذِينَ يَعْتَقِدُونَ نُبُوَّةَ زَرَادِشْتَ وَمَزْدَكَ، وَكَانَا يُبِيحَانِ الْمُحَرَّمَاتِ.
کہ۔۔ قرامطہ۔۔زندیقوں اور ملحدوں کا ایک فرقہ تھا ۔جو ان فارسی فلاسفہ کے پیروکار تھے جن کا عقیدہ تھا کہ ۔۔زَرَادِشْتَ۔۔اور ۔۔مَزْدَكَ
نبی تھے ۔یہ فرقہ قرامطہ محرمات کی حرمت کے قائل نہیں تھے بلکہ محرمات کو مباح سمجھتے تھے۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی بھائی! دو باتوں کی وضاحت اہم ہے کہ مذکورہ واقعہ میں حجر اسود کے آگ سے گرم نہ ہونے اور پانی میں نہ ڈوبنے کے حوالے سے جو ذکر ہوا ہے اسے بیان کر دیں!
دوم کہ یہ اسے مصر لے گئے تھے یا بحرین؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی بھائی! دو باتوں کی وضاحت اہم ہے کہ مذکورہ واقعہ میں حجر اسود کے آگ سے گرم نہ ہونے اور پانی میں نہ ڈوبنے کے حوالے سے جو ذکر ہوا ہے اسے بیان کر دیں!
دوم کہ یہ اسے مصر لے گئے تھے یا بحرین؟
قرامطہ ۔۔حجر اسود ۔۔کو بحرین لے گئے تھے ۔جہاں سے مکہ آئے تھے ،بحرین میں ان دنوں ان کا غلبہ تھا ۔
اور حجر اسود کے آگ سے گرم نہ ہونے کے بارے درج ذیل تحریر پڑھ لیں

قرأت مقالة عن " الحجر الأسود " وأريد أن أتأكد من صحة الأحاديث والروايات هل هي صحيحة ويؤخذ بها أم أنها موضوعة جزاك الله كل خير ؟ والمقالة هي :
" صدِّق أو لا تصدق "
نعم ، هناك حجر واحد فقط على وجه الأرض يطفو فوق الماء ، إنه " الحجر الأسود " الموجود في الركن الجنوبي الشرقي من الكعبة المشرفة في الحرم الشريف في مكة المكرمة ، قال جلال السيوطي : يقال إنه لما اشترى المطيع لله الحجر الأسود من أبي طاهر القرمطي جاء عبد الله بن عُكيم المحدث وقال : إن لنا في حجرنا آيتين : إنه يطفو على الماء ، ولا يحمو بالنار ، فأتى بحجر مضمخ بالطيب مغشي بالديباج ليوهموه بذلك ، فوضعوه في الماء فغرق ، ثم جعلوه في النار فكاد أن يتشقق ، ثم أتي بحجر آخر ففعل به ما فعل بما قبله فوقع له ما وقع له ، ثم أتي بالحجر الأسود فوضع في الماء فطفا ، ووضع في النار فلم يحم ، فقال عبد الله : هذا حجرنا ، فعند ذلك عجب أبو طاهر القرمطي وقال : من أين لكم ؟ فقال عبد الله : ورد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الحجر الأسود يمين الله في أرضه يأتي يوم القيامة له لسان يشهد لمن قبَّله بحق أو باطل لا يغرق في الماء ولا يحمى بالنار ... " .

ترجمہ :
حجراسود کے بارہ میں سوالات
میں نے حجراسود کے موضوع پرایک مقالہ پڑھا ، میں کچھ احادیث اورروایات کی صحت کے بارہ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آيا ان پرعمل ہوسکتا ہے یا کہ یہ روایات موضوع ہیں ، اللہ تعالی آپ کوجزائے خیرعطا فرمائے ذیل میں میں وہ مقالہ ذکر کرتا ہوں ؟ : " آپ تصدیق کریں یا نہ کريں "
جی ہاں ، روئے زمین پرصرف ایک ایسا پتھر ہے جوپانی کے اوپرآجاتا ہے اورنیچے تہ میں نہیں رہتا ، وہ پتھر حجر اسود ہے جومکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے جنوب مشرقی کنارے میں موجود ہے ۔
جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
کہا جاتا ہے کہ جب المطیع للہ نے ابوطاھر قرمطی سے حجراسود خریدا توعبداللہ بن عکیم المحدث آئے اورکہنے لگے :
ہمارے اس پتھرمیں ہماری دونشانیاں ہیں : یہ پانی کے اوپر رہتا ہے اورتہ میں نہيں بیٹھتا ، اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، توایک پتھرکوخوشبوسے لت پت اورریشمی کپڑے میں لپیٹ کرلایا گيا تاکہ یہ مغالطہ ڈالا جاسکے یہ ہی وہ پتھر ہے ، لھذا جب اسے پانی میں ڈالا گيا تووہ ڈوب گيا ، اورجب اسے آگ میں رکھا گيا تووہ پھٹنے کے قریب ہوگیا ۔ پھر ایک اورپتھرلايا گيا تواس کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا گياتھا جوپہلے پتھر سے کیا گيا تھا اوراس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جوپہلے پتھر کےساتھ ہوا تھا ، پھر حجراسود لایا گيا اوراسے پانی میں ڈالا گيا تووہ اوپرتیرنے لگا ، اورآگ میں رکھا گيا توگرم نہ ہوا ۔
توعبداللہ کہنے لگے ہمارا پتھر یہ ہے ، تواس وقت ابوطاھر قرمطی نے بہت تعجب کیا اوروہ کہنے لگا تمہیں یہ دلائل کہاں سے ملے ؟ توعبداللہ کہنے لگے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہے ، روزقیامت آئے گا تواس کی ایک زبان ہوگي جس نے بھی اسے حق یا باطل کے ساتھ چوما اس کی گواہی دے گا ، پانی نہيں ڈوبتااورنہ ہی آگ سے گرم ہوتا ہے ۔۔۔"
اورحجراسود وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں ہے اوریہيں سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے ، یہ اصل میں جنت کے یاقوتوں میں سے ہے ، اس کا رنگ مقام ( ابراھیم ) کی طرح سفید شفاف تھا ، اوریہ آنسوبہانے اوردعا کے قبول ہونے کی جگہ ہے ، اسے چھونا اوراس کا بوسہ لینا مسنون ہے ، اورزمین میں یہ اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے یعنی اللہ تعالی ساتھ توبہ کا عھد کرتے ہوئے مصافحہ کامقام ہے ، جس نے بھی اسے چھویا روزقیامت اس کی گواہی دے گا ، اورجواس کے برابرہوتا ہے وہ رحمن کے ہاتھ سے معاھدہ کررہا ہے ، اوراسے چھونے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ، یہ انبیاء ، صالحین ، اورحجاج اورعمرہ اورزيارت کرنے والوں کے لبوں کے ملنے کی جگہ ہے ، فسبحان اللہ العظیم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :وأما ما ذكر من وصف الحجر الأسود بأنه موضع سكب العبرات ، فقد ورد في ذلك حديث عند ابن ماجه (2945) عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : اسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَرَ ثُمَّ وَضَعَ شَفَتَيْهِ عَلَيْهِ يَبْكِي طَوِيلًا ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَبْكِي ، فَقَالَ : ( يَا عُمَرُ ، هَاهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ ) . ولكنه حديث ضعيف ذكره الألباني في "إرواء الغليل" (1111) وقال: ضعيف جدا اهـ .

وأما حديث " الحجر الأسود يمين الله في الأرض " فالجواب عنه : أنه حديث باطل لا يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم .

قال ابن الجوزي في " العلل المتناهية " : " هذا حديث لا يصح " .

" العلل لابن الجوزي " ( 2 / 575 ) ، وانظر " تلخيص العلل " للذهبي ( ص 191 ) ، وقال ابن العربي :حديث باطل فلا يلتفت إليه ، وقال شيخ الإسلام ابن تيمية : " روي عن النبي صلى الله عليه وسلم بإسناد لا يثبت ، وعلى هذا فلا حاجة للخوض في معناه " .

" مجموع الفتاوى " ( 6 / 397 ) .

وأما ما ذكرت من وصف الحجر الأسود بأنه موضع سكب العبرات ، فقد ورد في ذلك حديث عند ابن ماجة ولكنه حديث ضعيف لا يصح .

رابعاً :

وأما ما ذُكر من وصف الحجر الأسود بأنه " يطفو على الماء " ، وأنه " لا يحمو بالنار " و " استجابة الدعاء " : فمما لا أصل له في السنَّة .

والله أعلم .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ::
اورجویہ ذکر کیا گيا ہے کہ حجراسود آنسوبہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ایک حدیث ابن ماجہ میں مروی ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، ہم اسے ذیل میں ذکر کرتےہيں :

ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کی جانب رخ کیا اوراپنے ہونٹ مبارک حجراسود پررکھے اوربہت دیرتک روتے رہے ، پھر وہ پیچھے متوجہ ہوئے تودیکھا کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ رو رہے ہيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

( اے عمر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) یہاں پرآنسوبہائے جاتے ہیں ) دیکھیں ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2945 ) ۔

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل میں اسے بہت ہی زيادہ ضعیف قرار دیا ہے ۔ اھـ دیکھیں : ارواء الغلیل حدیث نمبر ( 1111 ) ۔

اوردوسری حدیث : زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے " کے بارہ میں جواب یہ ہے کہ یہ حدیث باطل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہيں ۔

ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے العلل المتناھیۃ میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہيں ۔

دیکھیں : العلل المتناھیۃ لابن الجوزی ( 2 / 575 ) اورتلخیص العلل للذھبی صفحہ نمبر ( 191 ) ۔

اورابن العربی کہتے ہيں :

یہ حدیث باطل ہے اس کی طرف التفات بھی نہيں کیا جاسکتا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ روایت کی گئي ہے جو ثابت ہی نہيں ہوتی ، تواس بنا پراس کے معنی میں غوروخوض کرنے کی کوئي ضرورت ہی نہيں رہتی ۔

دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 6 / 397 ) ۔

اورآپ نے حجر اسود کے بارہ میں جویہ وصف ذکر کیا ہے کہ یہ آنسو بہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ابن ماجہ میں ایک حدیث وارد ہے لیکن وہ صحیح نہيں بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ اوپربیان بھی ہوچکا ہے ۔

چہارم :

اورمقالہ میں جویہ ذکرکیا گيا ہے کہ حجراسود پانی پرتیرتا ہے اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، اوردعا قبول ہوتی ہے ، یہ بھی ایسی اشیاء میں شامل ہے جس کا سنت نبویہ میں ثبوت نہیں ملتا اوراس کی کوئي اصل نہيں ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
الإسلام سؤال وجواب
http://islamqa.info/ar/45643
 
Top