السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ
@اسحاق سلفی بھائی! دو باتوں کی وضاحت اہم ہے کہ مذکورہ واقعہ میں حجر اسود کے آگ سے گرم نہ ہونے اور پانی میں نہ ڈوبنے کے حوالے سے جو ذکر ہوا ہے اسے بیان کر دیں!
دوم کہ یہ اسے مصر لے گئے تھے یا بحرین؟
قرامطہ ۔۔حجر اسود ۔۔کو بحرین لے گئے تھے ۔جہاں سے مکہ آئے تھے ،بحرین میں ان دنوں ان کا غلبہ تھا ۔
اور حجر اسود کے آگ سے گرم نہ ہونے کے بارے درج ذیل تحریر پڑھ لیں
قرأت مقالة عن " الحجر الأسود " وأريد أن أتأكد من صحة الأحاديث والروايات هل هي صحيحة ويؤخذ بها أم أنها موضوعة جزاك الله كل خير ؟ والمقالة هي :
" صدِّق أو لا تصدق "
نعم ، هناك حجر واحد فقط على وجه الأرض يطفو فوق الماء ، إنه " الحجر الأسود " الموجود في الركن الجنوبي الشرقي من الكعبة المشرفة في الحرم الشريف في مكة المكرمة ، قال جلال السيوطي : يقال إنه لما اشترى المطيع لله الحجر الأسود من أبي طاهر القرمطي جاء عبد الله بن عُكيم المحدث وقال : إن لنا في حجرنا آيتين : إنه يطفو على الماء ، ولا يحمو بالنار ، فأتى بحجر مضمخ بالطيب مغشي بالديباج ليوهموه بذلك ، فوضعوه في الماء فغرق ، ثم جعلوه في النار فكاد أن يتشقق ، ثم أتي بحجر آخر ففعل به ما فعل بما قبله فوقع له ما وقع له ، ثم أتي بالحجر الأسود فوضع في الماء فطفا ، ووضع في النار فلم يحم ، فقال عبد الله : هذا حجرنا ، فعند ذلك عجب أبو طاهر القرمطي وقال : من أين لكم ؟ فقال عبد الله : ورد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الحجر الأسود يمين الله في أرضه يأتي يوم القيامة له لسان يشهد لمن قبَّله بحق أو باطل لا يغرق في الماء ولا يحمى بالنار ... " .
ترجمہ :
حجراسود کے بارہ میں سوالات
میں نے حجراسود کے موضوع پرایک مقالہ پڑھا ، میں کچھ احادیث اورروایات کی صحت کے بارہ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آيا ان پرعمل ہوسکتا ہے یا کہ یہ روایات موضوع ہیں ، اللہ تعالی آپ کوجزائے خیرعطا فرمائے ذیل میں میں وہ مقالہ ذکر کرتا ہوں ؟ : " آپ تصدیق کریں یا نہ کريں "
جی ہاں ، روئے زمین پرصرف ایک ایسا پتھر ہے جوپانی کے اوپرآجاتا ہے اورنیچے تہ میں نہیں رہتا ، وہ پتھر حجر اسود ہے جومکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے جنوب مشرقی کنارے میں موجود ہے ۔
جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
کہا جاتا ہے کہ جب المطیع للہ نے ابوطاھر قرمطی سے حجراسود خریدا توعبداللہ بن عکیم المحدث آئے اورکہنے لگے :
ہمارے اس پتھرمیں ہماری دونشانیاں ہیں : یہ پانی کے اوپر رہتا ہے اورتہ میں نہيں بیٹھتا ، اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، توایک پتھرکوخوشبوسے لت پت اورریشمی کپڑے میں لپیٹ کرلایا گيا تاکہ یہ مغالطہ ڈالا جاسکے یہ ہی وہ پتھر ہے ، لھذا جب اسے پانی میں ڈالا گيا تووہ ڈوب گيا ، اورجب اسے آگ میں رکھا گيا تووہ پھٹنے کے قریب ہوگیا ۔ پھر ایک اورپتھرلايا گيا تواس کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا گياتھا جوپہلے پتھر سے کیا گيا تھا اوراس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جوپہلے پتھر کےساتھ ہوا تھا ، پھر حجراسود لایا گيا اوراسے پانی میں ڈالا گيا تووہ اوپرتیرنے لگا ، اورآگ میں رکھا گيا توگرم نہ ہوا ۔
توعبداللہ کہنے لگے ہمارا پتھر یہ ہے ، تواس وقت ابوطاھر قرمطی نے بہت تعجب کیا اوروہ کہنے لگا تمہیں یہ دلائل کہاں سے ملے ؟ توعبداللہ کہنے لگے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہے ، روزقیامت آئے گا تواس کی ایک زبان ہوگي جس نے بھی اسے حق یا باطل کے ساتھ چوما اس کی گواہی دے گا ، پانی نہيں ڈوبتااورنہ ہی آگ سے گرم ہوتا ہے ۔۔۔"
اورحجراسود وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں ہے اوریہيں سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے ، یہ اصل میں جنت کے یاقوتوں میں سے ہے ، اس کا رنگ مقام ( ابراھیم ) کی طرح سفید شفاف تھا ، اوریہ آنسوبہانے اوردعا کے قبول ہونے کی جگہ ہے ، اسے چھونا اوراس کا بوسہ لینا مسنون ہے ، اورزمین میں یہ اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے یعنی اللہ تعالی ساتھ توبہ کا عھد کرتے ہوئے مصافحہ کامقام ہے ، جس نے بھی اسے چھویا روزقیامت اس کی گواہی دے گا ، اورجواس کے برابرہوتا ہے وہ رحمن کے ہاتھ سے معاھدہ کررہا ہے ، اوراسے چھونے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ، یہ انبیاء ، صالحین ، اورحجاج اورعمرہ اورزيارت کرنے والوں کے لبوں کے ملنے کی جگہ ہے ، فسبحان اللہ العظیم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :وأما ما ذكر من وصف الحجر الأسود بأنه موضع سكب العبرات ، فقد ورد في ذلك حديث عند ابن ماجه (2945) عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : اسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَرَ ثُمَّ وَضَعَ شَفَتَيْهِ عَلَيْهِ يَبْكِي طَوِيلًا ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَبْكِي ، فَقَالَ : ( يَا عُمَرُ ، هَاهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ ) . ولكنه حديث ضعيف ذكره الألباني في "إرواء الغليل" (1111) وقال: ضعيف جدا اهـ .
وأما حديث " الحجر الأسود يمين الله في الأرض " فالجواب عنه : أنه حديث باطل لا يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم .
قال ابن الجوزي في " العلل المتناهية " : " هذا حديث لا يصح " .
" العلل لابن الجوزي " ( 2 / 575 ) ، وانظر " تلخيص العلل " للذهبي ( ص 191 ) ، وقال ابن العربي :حديث باطل فلا يلتفت إليه ، وقال شيخ الإسلام ابن تيمية : " روي عن النبي صلى الله عليه وسلم بإسناد لا يثبت ، وعلى هذا فلا حاجة للخوض في معناه " .
" مجموع الفتاوى " ( 6 / 397 ) .
وأما ما ذكرت من وصف الحجر الأسود بأنه موضع سكب العبرات ، فقد ورد في ذلك حديث عند ابن ماجة ولكنه حديث ضعيف لا يصح .
رابعاً :
وأما ما ذُكر من وصف الحجر الأسود بأنه " يطفو على الماء " ، وأنه " لا يحمو بالنار " و " استجابة الدعاء " : فمما لا أصل له في السنَّة .
والله أعلم .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ::
اورجویہ ذکر کیا گيا ہے کہ حجراسود آنسوبہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ایک حدیث ابن ماجہ میں مروی ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، ہم اسے ذیل میں ذکر کرتےہيں :
ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کی جانب رخ کیا اوراپنے ہونٹ مبارک حجراسود پررکھے اوربہت دیرتک روتے رہے ، پھر وہ پیچھے متوجہ ہوئے تودیکھا کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ رو رہے ہيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
( اے عمر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) یہاں پرآنسوبہائے جاتے ہیں ) دیکھیں ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2945 ) ۔
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل میں اسے بہت ہی زيادہ ضعیف قرار دیا ہے ۔ اھـ دیکھیں : ارواء الغلیل حدیث نمبر ( 1111 ) ۔
اوردوسری حدیث : زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے " کے بارہ میں جواب یہ ہے کہ یہ حدیث باطل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہيں ۔
ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے العلل المتناھیۃ میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہيں ۔
دیکھیں : العلل المتناھیۃ لابن الجوزی ( 2 / 575 ) اورتلخیص العلل للذھبی صفحہ نمبر ( 191 ) ۔
اورابن العربی کہتے ہيں :
یہ حدیث باطل ہے اس کی طرف التفات بھی نہيں کیا جاسکتا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ روایت کی گئي ہے جو ثابت ہی نہيں ہوتی ، تواس بنا پراس کے معنی میں غوروخوض کرنے کی کوئي ضرورت ہی نہيں رہتی ۔
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 6 / 397 ) ۔
اورآپ نے حجر اسود کے بارہ میں جویہ وصف ذکر کیا ہے کہ یہ آنسو بہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ابن ماجہ میں ایک حدیث وارد ہے لیکن وہ صحیح نہيں بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ اوپربیان بھی ہوچکا ہے ۔
چہارم :
اورمقالہ میں جویہ ذکرکیا گيا ہے کہ حجراسود پانی پرتیرتا ہے اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، اوردعا قبول ہوتی ہے ، یہ بھی ایسی اشیاء میں شامل ہے جس کا سنت نبویہ میں ثبوت نہیں ملتا اوراس کی کوئي اصل نہيں ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
الإسلام سؤال وجواب
http://islamqa.info/ar/45643