• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجّیت قراء ات … ضمیمہ فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

جواب: الحمد ﷲ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی أشرف المرسلین وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین و بعد !
فطری حقیقت ہے کہ ہر زبان کے بولنے والے اَنداز بیان اور لہجات میں مختلف ہوتے ہیں ایک ہی لغت بولنے والے متعدد قبائل میں درج ذیل امور کا اختلاف ناقابل اِنکار حقیقت ہے۔
(١) ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنا۔ (٢) ایک مسمی کے متعدد اَسماء۔
(٣) حرکات کا اختلاف۔ چنانچہ ایک قبیلہ کسرہ پڑھتا ہے تو دوسرا فتحہ یاضمہ۔
ان وجوہ اختلاف کا مشاہدہ برصغیر کی زبانوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
قرآن حکیم جزیرۃ العرب کے متمدن مراکز کے اَنداز بیان میں اُترا جبکہ گردونواح میں کئی قبائل آباد تھے۔ جن کے بولنے کے مذکورہ بالا اَنداز تھے۔ جب رسول اللہﷺنے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو قبائل عرب سے وفود کی آمد ہونے لگی جن کے لیے متمدن مراکز کی زبان غیر معتاد تھی اور ان کے لیے صحیح تلفظ ممکن نہ تھا، مثلاً قبیلہ ہذیل کا حاء کو عین پڑھتے ہوئے’ حتی حین‘ کو’ عتی عین‘ پڑھنا، اور قبیلہ حمیر کا لام تعریف کو میم سے بدلتے ہوئے ’الحمد‘ کو ’امحمد‘ پڑھنا، ’الصیام‘ کو ’امصیام‘ پڑھنا، تو ایسے لوگوں کو اپنے اپنے اَنداز میں تلاوت کی اِجازت دی گئی البتہ وہ جب درست تلفظ کے عادی ہوگئے تو یہ اجازت منسوخ ہوگئی اور جو کلمات قرآنی فصاحت و بلاغت کے معیار پر اترتے تھے اور ان کے ساتھ تفسیری و لغوی فوائد وابستہ تھے ان کو باقی رکھا گیا۔ تقدیم و تاخیر، حروف کی کمی و بیشی، اَنداز بیان کا تنوع دیگر زبانوں کی طرح عربی میں بھی تھا ان کا سماع جب رسول اللہﷺ سے مرفوعاً یا موقوفاً ، قولاً یا سکوتاً و تحسیناً ہوا تو وہ قرآنی اصطلاح میں قراء ات کہلانے لگیں اور یہ وجوہ تغیر نقل در نقل اُمت میں چلے آرہے ہیں اس طرح قراء ات کا سلسلہ سماعی ہے اَداء اور تلاوت میں قیاس کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ منصوص ہیں۔ اس پر درج ذیل دلائل بڑے واضح ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(١) نبیﷺ کا بار بار جبریل اَمین﷤ سے اُمت کی تخفیف کی بابت سوال کرنا۔
(٢) حضرت ہشام بن حکیم﷜ اور حضرت عمر﷜ کے درمیان سورۃ فرقان میں اختلاف قراء ت ہونا اور حضورﷺ کا دونوں کی تحسین کرنا۔
(٣) حضرت اُبی بن کعب﷜ کا اپنے دو احباب کے ساتھ سورۃ نحل کی وجوہ قراء ت میں اختلاف ہونا اور رسول اللہﷺ کا دونوں کا تصدیق کرنا۔
(٤) رسم قرآنی کا عام عربی رسم الخط سے مختلف لکھنا جیسے دَحیٰ مشتق ہے دَحو سے اور جب کوئی کلمہ معتل الآخرواوی ہو تو اس کو الف سے بدلا جاتا ہے نہ کہ یاء سے جیسے دعو سے دعا۔ لیکن رسم قرآنی میں دحا کی بجائے وحیٰ۔ بالیاء لکھا گیا ہے اور یہ کام صف اوّل کی جماعت صحابہ﷢ نے کیا ہے۔ قراء ت کی بھی رعایت پیش نظر تھی۔ پوری جماعت صحابہ﷢ کا اس رسم الخط پراجماع بھی ہے اور اُمت میں اس کو تلقی بالقبول بھی حاصل ہے۔ جو از خود حجت ہیں۔
(٥) حضرت عثمان﷜ کی یہ حکمت عملی کہ جہاں رسم الخط میں قرا ء ات مسموعہ کی گنجائش تھی، ان کو حضرت ابوبکر﷜ کے نہج پر ہی لکھنا لیکن تقریباً۴۱ ؍مقامات میں رسم الخط کی یکسانیت میں متعدد قراء ات کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مصاحف میں الگ رسم الخط میں لکھنا۔ جیسا کہ مصحف مدنی اور شامی میں سارعو (آل عمران) بغیر واؤ کے اور دیگر مصاحف میں وسارعوا واؤ کے ساتھ لکھنا اور ان مصاحف پر تمام صحابہ﷢ کا اجماع ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٦) اُمت میں قراء ات کی نسبت جن مشہور قراء عشرہ کی طرف ہے وہ تمام کے تمام بالواسطہ یا بلا واسطہ صحابہ کرام﷢ سے فیض یافتہ ہیں۔ جن صحابہ﷢ پر رسول اللہﷺنے یوں فرما کر اعتماد ہی نہیں کیا کہ ما اَنا علیہ وأصحابی بلکہ اُمت کو بھی ان کی اتباع کی تلقین کردی۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قراء ات کا تعلق سماع سے ہے۔ محض لغت سے اَز خود کوئی وجہ نکال کر اس کو قراء ات قرار دینا قطعی غلط اور بے بنیاد ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ کئی ایک صحابہ﷢ کے پاس ان کے ذاتی مصاحف تھے جن میں موجود قراء ات کو نظر اَنداز کردیا گیا تو یہ سوال لاعلمی پر مبنی ہے، دراصل صحابہ کرام﷢ میں سے جوحضرات لکھنا جانتے تھے وہ حضورﷺ کی مجلس میں قرآنی متن اور تفسیر دونوں سنتے اور لکھتے تھے اس کے بعد دور دراز اَسفار میں چلے جاتے تھے۔ اس طرح وہ مصاحف متن کے اعتبار سے بھی مکمل نہ تھے اور دوسرا یہ کہ ان میں اضافات تفسیر یہ بھی تھے جو کسی طور اصطلاح قراء ات قرار نہیں دیئے جاسکے۔ حضرت ابوبکرt نے جب متن قرآنی کو یکجا کرنے کا فیصلہ کیاتو ظاہر ہے کہ اضافات تفسیریہ کے لیے اس میں گنجائش نہیں تھی۔ لہٰذا رسم الخط ایسا اختیار کیا کہ قراء ات مسموعہ کی وجوہات پر محیط ہوسکے اور تقریباً ۴۱؍ مقامات میں ایک رسم الخط کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عثمان﷜ نے ان کو مصاحف پر تقسیم کردیا اور شخصی مصاحف کو جلا دیا کہ اُمت کے اندر اختلاف کا باعث تھے۔ اس کے ساتھ حضرت عثمان﷜ نے ہر مصحف کے ساتھ ایک ماہر قاری بھی بھیجا جو لوگوں کو درست اَنداز میں پڑھا سکے اور محض لغت سے وجوہ قراء ات نکالنے کا سدباب ہوسکے۔ اس پر بھی صحابہ کرام﷢ کا اجماع ہے۔ اگلے دور میں انہیں قراء ات مسموعہ کو مدوّن کیا گیا اور درس و تدریس نیز تالیف کے ذریعہ اخلاف تک منتقل کیا گیا۔ جن میں تفسیری فوائد کے علاوہ لغوی ، نحوی اور اشتقاقات کے حوالے سے بھی اِستنباط کیا جاسکتا ہے۔
ایسے اجماعی مسئلے سے اِنحراف کرنا نہ یہ کہ کتاب اللہ کو مشکوک بنانے والی بات ہے بلکہ دین اسلام کی اَساس کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔اَللّٰہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہٗ۔
پروفیسر تاج الدین الازہری
شعبہ تفسیر و علوم قرآن
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد​
٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
مختلف قراء ا تِ قرآنیہ کا ثبوت موجودہے، چنانچہ بخاری شریف میں ہے:
’’حدثنا سعید بن عفیر قال: حدثني اللیث قال حدثني عقیل عن ابن شہاب، قال حدثني عروۃ بن الزبیر أن المسور بن مخرمۃ و عبدالرحمن بن عبدالقاری حدثاہ أنھما سمعا عمر ابن الخطاب یقول: سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان في حیاۃ رسول اﷲ! فاستمعت لقرائتہ فإذا ھو علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اﷲ! فکدت أساورہ في الصلاۃ، فتصبرت حتی سلم، فلببتہ بردائہ فقلت: من أقرأک ھذہ السورۃ التي سمعتک تقرأ؟ قال: أقرأنیھا رسول اﷲ! فقلت: کذبت، فإن رسول اﷲ! قد أقرأنیھا علی غیر ما قرأت، فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اﷲ ! فقلت: إني سمعت ھذا یقرأ بسورۃ الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا۔ فقال رسول اﷲ!: أرسلہ: اقرأ یا ہشام! فقرأ علیہ القرائۃ التي سمعتہ یقرأ۔ فقال رسول اﷲ !: ’’کَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ‘‘۔ ثم قال: ’’اِقْرَأْ یَا عُمَرُ!‘‘۔ فقرأت القرائۃ التي أقراني، فقال رسول اﷲ!: ’’کَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ أَنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلـٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَؤُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ‘‘۔
’’حضرت سعید بن عفیر﷜ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’مجھے حضرت لیث﷜ نے حدیث بیان کی، وہ فرماتے ہیں: مجھے حضرت عقیل بن شہاب﷜ نے حدیث بیان کی، اور وہ فرماتے ہیں: مجھے عروہ بن زبیر﷜ نے حدیث بیان کی، کہ مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن عبدالقاری دونوں نے حدیث بیان کی۔ ان دونوں نے حضرت عمر بن خطاب﷜ سے سنا وہ فرماتے ہیں: میں نے ہشام بن حکیم﷜ کوسنا کہ وہ رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ میں سورت فرقان کی تلاوت کرتے تھے تو جب میں نے ان کی قراء ت سنی تو بہت سے اَیسے حروف سنے جو رسول اللہﷺنے ہمیں نہیں پڑھائے تھے تو قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پرحملہ کردیتا لیکن بمشکل ضبط کیا حتیٰ کہ اُنہوں نے نماز سے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر سے ان کو گھسیٹا اور کہا یہ سورت جو میں نے آپ سے سنی کس نے آپ کوپڑھائی؟ انہوں نے کہا مجھے رسول اللہﷺنے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا تو نے جھوٹ کہا۔بے شک رسول اللہﷺنے ہمیں اس کے علاوہ تعلیم دی۔پس میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہﷺکی طرف لے کر چلا۔ میں نے رسول اللہﷺکی بارگاہ میں عرض کیا۔ بے شک میں نے سورۃ فرقان کو ایسے حروف کے ساتھ سنا ہے جو آپ نے ہمیں نہیں پڑھایا۔ تو رسول اللہﷺنے اِرشاد فرمایا: اس کو چھوڑ دو۔ اے ہشام! تم پڑھو تو اس نے وہ پڑھا جو میں نے سنا تھا۔ تو رسول اللہﷺنے اِرشاد فرمایا: اس طرح اُتارا گیا ہے۔پھر فرمایا اے عمر! تم پڑھو: تو میں نے وہ قراء ۃ پڑھی جو آپﷺنے ہمیں پڑھائی تھی۔ تو رسول اللہﷺنے اِرشاد فرمایا: اس طرح بھی نازل کیا گیا ہے۔ بے شک یہ قرآن سات حروف پر اُتارا گیا ہے جو تمہیں آسان معلوم ہو، پڑھو۔‘‘ (عمدۃ القاری:۲۰۵؍:۲۹:۴۹۹۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علامہ غلام رسول سعیدی مدظلہ عالی بخاری شریف کی احادیث نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
’’علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ سات حرفوں سے کیا مراد ہے، ابوحاتم محمد بن حبان بستی نے اس مسئلہ میں علماء کے ۳۵؍اقوال ذکر کیے ہیں۔‘‘
ان میں پانچ ملخصاً ذکر کیے جاتے ہیں۔
(١) سات حرفوں سے مراد سات مختلف الفاظ سے متقارب معانی ہیں مثلاً اقبل، تعال اور ھلم ان سب کا معنی ہے آؤ اور اذھب، أسرع ان کا معنی ہے جاؤ۔
(٢) ایک قوم نے یہ کہا کہ سات حرفوں سے مراد عرب کے سات لغات ہیں اور اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ایک لفظ کو سات لغات پر پڑھا جائے گا، بلکہ یہ سات لغات قرآن مجید میں متفرق ہیں، بعض آیات لغت قریش پر ہیں، بعض لغت ھُذیل پر، بعض لغت ہوازن پر اور بعض لغات یمن پر ہیں۔
(٣) ایک قوم نے یہ کہا کہ یہ سات لغات مضر میں ہیں، کیونکہ حضرت عثمان﷜ نے کہا ہے کہ قرآن لغت مضر پر نازل ہوا ہے اور انہوں نے یہ کہا کہ قریش، کنانہ، اسد ، ھذیل، تمیم، ضبہ اور قیس یہ سب مضر کے قبائل ہیں اور یہ سات لغات انہی مراتب پر ہیں، البتہ مضر میں بعض شواذ بھی ہیں، کیونکہ قیس میں مؤنث کی ضمیر کی جگہ شین لاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٤) سات حروف سے مراد سات قراء ات ہیں، صاحب الدلائل اور قاضی ابن الطیب﷫ نے کہا :
’’ ہم نے اختلاف قراء ات میں تتبع کیا تو یہ سات ہیں۔ حافظ ابن حجر﷫ نے کہا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہرکلمہ اور ہر آیت میں سات قراء ات جاری ہوتی ہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کلمہ میں قراء ات کی زیادہ سے زیادہ سات وجوہ ہیں، اگریہ اعتراض کیا جائے کہ بعض کلمات میں سات سے زیادہ وجوہات قراء ات ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر اور غالب کلمات میں سات سے زیادہ قراء ات نہیں ہیں۔‘‘
(٥) سات حرفوں سے مراد قرآن مجید کے سات معانی ہیں اور وہ یہ ہیں:
’’اَمر، نہی،وعد، وعید، قصص، مجادلہ اور اَمثال۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
٭ ابن عطیہ﷫ نے کہا:
’’ یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ ان عنوانات کو حروف نہیں کہتے، نیز اس پر اجماع ہے کہ حلال ،حرام اور کسی معنی کے تغیر میں وسعت کی گنجائش نہیں۔‘‘(تفسیر تبیان القرآن: ۱؍۱۰۷)
علامہ ملا علی قاری﷫ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں قراء ات ِسبعہ پربحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پہلی قراء ۃ میں فی نفسھا کمی اور زیادتی ہوتی ہے مثلاً ’ نُنْشِزُھَا ‘ اور ’ نُنْشِرُھَا ‘، ’ سَارِعُوْا ‘ اور ’ وَسَارِعُوْا‘ اور دوسری میں واحد اور جمع کے اعتبار سے فرق ہے۔ مثلاً ’ کُتُبِہٖ‘ اور ’ کِتٰبِہٖ‘ اور تیسری میں تذکیر اور تانیث کے اعتبار سے اختلاف ہے مثلاً ’یَکُنْ‘ اور ’تَکُنْ‘ میں اور چوتھی میں تصریفی اختلا ف ہے جیسے مخفف اور مشدد میں مثلاً ’یَکْذِبُوْنَ‘ اور ’یُکَذِّبُوْنَ‘ فتح اور کسرہ کے اعتبار سے’یَقْنِطُ اور ’یَقْنُطُ‘ اور پانچویں قراء ت اعرابی اختلاف ہے۔ ’ذُو الْعَرْشِ الْمَجِید‘ میں دال کے رفع اور اس کے مجرور ہونے کے اعتبار سے اور چھٹی اداۃ کا اختلاف ہے مثلاً ’وَلـٰکِنِ الشَّیٰطِیْنُ‘ اور’’ولـٰکِنَّ الشِّیٰطِیْنَ‘‘ون کے مشدد اور مخفف ہونے میں اور ساتویں قراء ت لغت کے اعتبار سے تفخیم اور اِمالہ میں اختلاف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مزید فرماتے ہیں:
’’ انہی سات قراء توں میں حصر نہیں بلکہ جو رسول اللہﷺسے ثابت ہو پڑھنا جائز ہے اس میں اُمت کی آسانی ہے۔‘‘
چنانچہ لکھتے ہیں:
’’والحاصل أنہ أجاز بأن یقرؤوا ماثبت عنہ ! بالتواتر بدلیل قولہ أنزل علی سبعۃ أحرف والأظھر أن المراد بالسبعۃ التکثیر لا التحدید۔‘‘
’’ حاصل کلام یہ ہے کہ جو قراء ت بھی رسول اللہﷺسے بالدلیل تواتر کیساتھ ثابت ہے وہ جائز ہے آپﷺکے اس فرمان کی وجہ سے: کہ قرآن سات اَحرف پرنازل کیا گیا ہے۔ اَظہر بات یہ ہے کہ سبعہ سے مراد کثرت ہے حصر نہیں۔‘‘
مزید اگلے صفحہ پر لکھتے ہیں:
’’قال ابن عبد البرّ والباقلانی و آخرون: ھذا وکأنہ علیہ الصلاۃ والسلام کشف لہ أن القرائۃ المتواتر تستقر في أمتہ علی سبع وھي الموجودۃ الآن المتفق علی تواترھا والجمہور علی أن ما فوقھا شاذ لا یحل القرائۃ بہ۔‘‘
’’ ابن عبدالبر، باقلانی اور دیگر نے کہا کہ یہ اَیسا ہے گویا حضور ﷺ پر کشف ہوا کہ قراء ت متواتر میری اُمت میں سات ہوں گی، جو کہ ابھی موجود ہیں اور جن کا متواتر ہونا متفق علیہ ہے۔ جمہور اس طرف گئے ہیں کہ جو اس سے زیادہ ہیں ان کے ساتھ قراء ت قرآن حلال نہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مزید تواتر کا معنی لکھتے ہیں کہ تواتر سے کیا مراد ہے:
’’حدیث نزول القرآن علی سبعۃ أحرف ادعی أبوعبیدۃ تواترہ لأنہ ورد من روایۃ أحد وعشرین صحابیاً ومرادہ التواتر اللفظي، وإما تواترہ المعنوي فلا خلاف فیہ۔‘‘(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، کتاب فضائل القرآن باب اختلاف القراء ت و جمع القرآن:۵ ؍۹۰،۹۱)
’’ نزول القرآن علی سبعۃ أحرف کے بارے میں ابوعبید نے تواتر کا دعویٰ کیا ہے، کیونکہ یہ اکیس صحابہ کرام﷢ سے مروی ہے اور اس سے ان کی مراد تواتر لفظی ہے جبکہ اس حدیث کے تواتر معنوی میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔‘‘
یہاں تک تو بحث تھی سات حروف اور قراء ات کے تواتر کی اور جہاں تک تعلق ہے ان میں سے کسی قراء ات کے اِنکاری کا تو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ قراء اتِ سبعہ میں سے اگر کوئی کسی ایک کا اِنکار کرتا ہے تو اس کے منکر کو کافر نہیں کہا جائے گا کیونکہ قراء اتِ سبعہ ضروریات دین میں سے نہیں ہیں۔ الفتاویٰ الحدیثیۃ میں شیخ الاسلام احمدبن محمد بن علی بن حجر ﷫ سے اس طرح کا سوال کیا گیا لہٰذا وہ سوال اورجواب دونوں نقل کیے جاتے ہیں:
’’ھل القراء ات ذات السبع متواتر مطلقاً او عندالقراء فقط، وھل إنکار تواترھا کفر أم لا؟
فأجاب بقولہ: ھي متواتر عند القراء وغیرھم، واختار بعض أئمۃ متأخرین المالکیۃ إنھا متواترۃ عند القراء لا عموما، وإنکار تواترھا صرح بعضھم بأنہ کفر، واعترضہ بعض أئمتھم، فقال: لا یخفی علی من اتقی اﷲ وفھم ما نقلناہ عن الأئمۃ الثقات من اختلافھم في تواترھا وطالع کلام القاضي عیاض من أئمۃ الدین أنہ قول غیر صحیح، ھذہ مسألۃ البسملۃ اتفقوا علی عدم التکفیر بالخلاف في إثباتھا ونفیھا والخلاف في تواتر وجوہ القرأۃ مثلہ أو أیسر منہ، فکیف یصرح فیہ بالتکفیر، وبتسلیم تواترھا عموماً وخصوصاً لیس ذلک معلوماً من الدین بالضرورۃ، والاستحلال والتکفیر إنما یکون بإنکار المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ والإستدلال علی الکفر بأن إنکار تواترھا یؤدي إلی عدم تواتر القرآن جملۃ مردود۔‘‘ (الفتاویٰ الحدیثیۃ: ۳۱۹،۳۲۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
’’یہ سوال کہ: کیا قراء اتِ سبعہ مطلقاً متواتر ہیں یا فقط قراء کے نزدیک متواتر ہیں اور آیا ان کا اِنکار کفر ہے یا نہیں؟‘‘
اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: یہ قراء کے اور بعض دیگر علماء کے نزدیک متواتر ہیں اور بعض متاخر اَئمہ مالکیہ نے اس بات کو پسند کیا کہ یہ صرف قراء کے ہاںمتواتر ہیں نہ کہ عموماً۔ اور اس تواتر کے منکر کے بارے میں بعض علماء نے کفر کی صراحت کی ہے، لیکن بعض اَئمہ نے کفر کہنے پراعتراض کیا اور فرمایا: یہ بات ایسے شخص پرپوشیدہ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور ثقہ اَئمہ کے قراء ات کے تواتر میں اختلاف کو سمجھتا ہے جو ہم نے نقل کیا اور جو علامہ قاضی عیاض﷫ کے کلام پر مطلع ہوا، جو اَئمہ دین سے ہیں، ان کا (قراء اتِ سبعہ کے اِنکار کو کفر قرار دینے کا) قول درست نہیں۔ اس مسئلے کی حیثیت ’بسم اﷲ‘ کی طرح ہے۔ جس کے قرآن کا جزء ہونے کے اِثبات اور نفی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ لیکن تمام علماء (یعنی ، جو اس کے جزء قرآن ہونے کے قائل ہیں اور جو نہیں ہیں، ان دونوں کی) عد م تکفیر پرمتفق ہیں اور قراء ات کی وجوہ میں اختلاف یا تو اس کی مثل ہے یا اس سے بھی آسان ہے تو پھر اس میں کفر کی صراحت کیونکر کی جائے گی؟ اور اگر قراء ات کا تواتر عموماً اور خصوصاً تسلیم کربھی لیا جائے تو پھر بھی یہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے، (جن کے اِنکار پرمطلقاً تکفیر کی جاتی) کیونکہ تکفیر تو اس میں ہوتی ہے جس کا ضروریات دین سے ہونا معلوم ہو اور وہ مجمع علیہ (جس پر سب کا اتفاق ) ہو اور کوئی اس کا اِنکار نہ کرے۔ اور قراء اتِ سبعہ کے منکر کو کافر قرار دینے کے لیے اس طرح اِستدلال کرنا کہ کسی وجہ قراء ات کا اِنکار کرنا قرآن کے عدم تواتر کی طرف لے جاتا ہے۔ (قرآن کا انکار ہے) تو یہ جملہ مردود ہے۔‘‘
ان مذکورہ قراء اتِ سبعہ کا ضروریاتِ دین سے نہ ہونا اس بات سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ فقہاء کرام نے یہ فرمایا ہے کہ جو قراء ت لوگوں میں معروف نہ ہو، وہ قراء ت نہ کی جائے تاکہ وہ اس کا انکار کرکے گمراہی میں مبتلا نہ ہوں۔
 
Top