حافظ محمد ظہیر
مبتدی
- شمولیت
- جولائی 08، 2015
- پیغامات
- 12
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 10
خطاب : شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ تعالی
تحریر :حافظ محمد ظہیر
مقام : جامعہ لاہور الاسلامیہ ، نیوگارڈن ٹاؤن ، لاہور
مناسبت : تقریب تکمیل صحیح بخاری 2013ء ۔
تحریر :حافظ محمد ظہیر
مقام : جامعہ لاہور الاسلامیہ ، نیوگارڈن ٹاؤن ، لاہور
مناسبت : تقریب تکمیل صحیح بخاری 2013ء ۔
بسم الله الرحمٰن الرحيم
نحمد ه ونصلئ ونسلم علئ رسوله الكريم اما بعد :فاعوذ باالله من الشيطٰن الرجيم من همز ه ونفخه ونفثه (واعتصمو بحبل الله جميعاً ولا تفرّقو ا)‘‘امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحيح بخاری میں ایک عنوان قائم کیا ہے ’کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ‘اور یہ عنوان انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت سے اخذ کیا ہے’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعًاوَّلاتفرّقُوا‘‘کہ اے لوگوں اللہ تعالیٰ عزوجل کی رسی کومضبوطی سےتھام لو‘‘امام بخاری نے اس بیان میں اس موضوع میں محدثین اور اھلحدیث کا مسلک واضح کیا ہے کہ محدثین اور ان کے نقش پر چلنے والے اھلحدیث ان کا نصاب‘ ان کا منہج‘ اللہ تعالیٰ کا قرآن اورنبی پاک حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اجماع کا دارومدار بھی کسی نہ کسی نص پر ہوتا ہے اور قیاس بھی جب علت منصوص ہویا بدیہی ہو پھر قیاس کیا جاتا ہے گویا اصل دارو مدارکتاب وسنت پر ہے اور آپ نے احادیث اورسنت رسولﷺ کے حجت شرعیہ ہونے کےبہت سے مقالے اور مضامین سنے ہيں۔ لیکن ایک بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی حدیث وسنت اور قرآن آپس میں لازم وملزوم ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم اپنےاوراق میں جا بجا حدیث کے حوالے دیتا ہےاور قرآن کریم ایسی چیز کا ہی حوالہ دے سکتا ہے جوشرعی اعتبار سے حجت ہو اور امت کیلئے دلیل ہودیکھیں قرآن کریم میں ہے ’’واذاَسرّالنّبیُ الیٰ بعض ازواجہ حدیثا‘‘نبی کریم نےاپنی کسی ایک بیوی کےپاسایک بات پوشیدہ طور پرکہی اب جولوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں ان سے مطالبہ یہ ہے کہ اگر تم صرف قرآن کریم کو ہی حجت مانتے ہوحدیث کا انکار کرتے ہوتو بتلاؤ قرآن کریم نے جو یہ کہا ہے کہ نبی پاک ﷺنےاپنی کسی بیوی کےپاس ایک پوشیدہ بات کہی تھی وہ بات کیا ہے قرآن کریم میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے قرآن کریم نے اس آیت کوپیش کر کے آپ کوحوالے کردیا ہےسنت رسول ﷺکے ۔
اور حدیث پاک میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ نبی اکرم ﷺنے کسی وجہ سے اپنی ذات پر شہد کو حرام کر لیا تھا اور اس کی لمبی تفصیل ہے اور یہ وہ بات ہے جس کی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما انہوں نے آپس میں پلاننگ کی
کہ نبی اکرمﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جا کر شہد پینے سے روکا جائے اور انہوں نے آپس میں منصوبہ بندی کی کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ آپ کےمنہ مبارک سے بو آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺکو یہ لفظ بڑ ے نا گوار گزرےلیکن یہ پلاننگ تھی بو آتی نہیں تھی جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے (واذ اسر النبی الی بعض ازواجہ حدیثا)کہ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺنے اپنی بیویوں سے کہا کہ اگربوآتی ہے تو باقی ازواج مطہرات کو نہ بتانا ان کے پاس اس بات کا اظہار نہ کرنا یہ وہ بات تھی جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ﷺنے اپنی بیویوں کے پاس راز کے طور پر کہی تھی قرآن کریم میں اس کا کہیں ذ کر نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم نے ہم کو حدیث کےحوالےکر دیا ہے ۔