عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
خطبہ جمعہ حرم مدنی 2011/11/18ء
خطیب:فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن محمد القاسم
مترجم:فاروق رفیع
مترجم:فاروق رفیع
پہلا خطبہ:
بلاشبہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہے۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں اس سے بخشش طلب کرتے ہیں اور ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور اپنے برے اعمال سے اللہ مالک الملک کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت سے نواز نہیں سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل اور اصحاب پر بکثرت درود و سلام بھیجے:
حمد و ثنا کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے اس طرح ڈرو، جیسے ڈرنے کا حق ہے اور اسلام کے مضبوط بندھن کو مضبوطی سے تھام۔
بردرانِ اسلام:
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر مختلف النوع عبادات کے ذریعے بڑا کرم کیا ہے، ان عبادات میں سے کچھ باطنی ہیں، جن کا تعلق محض دل کے ساتھ ہے اور کچھ ظاہری ہیں، جن کا نفاذ اعضاء پر ہے نیز اسلام اور ایمان کے ارکان کا مدار ان دو قسم کی عبادات پر ہے۔ بفضل اللہ ہے۔ اس وقت حجاج کرام بدنی عبادات میں سے افضل عبدت فریضہ حج سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ حج عبادات بدنیہ میں سے افضل عبادت فریضہ حج سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ حج عبادت بدنیہ میں سے افضل عبادت ہے۔ اس کی حقانیت پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا یہ قول صادق آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے پہلے حج کا امیر سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو مقرر کیا، چونکہ مناسک حج کا علم نہایت دقیق ہے۔ اس مناسبت سے نبی کریم ﷺ نے سیدنا ابو بکرؓ کو عامل حج مقرر کیا۔ اگر ان میں علمی وسعت و استعداد نہ ہوتی تو آپ ﷺ انہیں حج کا امیر نہ بناتے، بلکہ آپ ﷺ نے ان کی علمی فراست دیکھتے ہی انہیں عامل مقرر کیا تاکہ یہ لوگوں کو حج کے احکام کی تعلیم دیں۔ کیونکہ یہ صحابہ کرامؓ میں سب سے فقیہ تھے۔
فریضۃ حج کی ادائیگی میں مخلوق کے لئے رسولوں کی حقانیت کی کئی نشانیاں ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام و ہاجرہ علیہا السلام کو سر زمین مکہ میں چھوڑنے کے بعد بارگاہ ایزدی میں ان الفاظ میں دعا کی
تو لوگوں کے دل ان کی طرف جوڑ دے۔فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ (ابراہیم: ۳۷)
چنانچہ یہ اس دعا کا اثر ہے کہ حجاج کرام پر کھلے اور تنگ راستوں سے آکر مکہ مکرمہ میں فریضہ حج ادا کرتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: (یہ مذکورہ دعا کا اثر ہے کہ) ہر مسلمان کعبہ کے دیدار و طواف کا شائق ہے اور دنیا کے مختلف اطراف و اکناف سے لوگ بیت اللہ کا قصد کرتے ہیں۔
مخلص و دیندار آدمی کی دعا اللہ تعالیٰ ہر سورت قبول کرتا ہے۔ خواہ اس کی وفات کے بعد ہی قبول ہو۔ اس تناظر میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کے اثرات ہر سال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کی دعا پر مسلمان ہرسال عملی کردار پیش کرتے ہیں۔
وفا مردوں کا شیوہ ہے اور نبی کریم ﷺ نے مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے اس لئے قبول کیا کہ آپ ﷺ کی امت ہدایت کے نور سے آسودہ حال ہو اور آپ ﷺ نے عائشہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ عائشہ! میں نے تیری قوم کی طرف سخت مصائب کا سامنا کیا ہے۔
صحابہ کرامؓ نے ہجرتیں کی اور مختلف ممالک ہی غریب الوطنی کی صعوبتیں اس لئے برداشت کیں، وہ رسالت کا پیغام، تبلیغ دین کی امانت لوگوں تک پہنچائیں اور آفاق میں اسلام کا پیغام دعوت اور قوت کے ذریعے نشر کریں۔ چنانچہ ہر مسلمان پر نبی ﷺ کے حقوق کی پاسداری کرنا واجب ہے۔ اور صحابہ کرام سے محبت و الفت کا اظہار کرنا اور ان کا دفاع کرنا لازم ہے۔ (عبادت گزارو کے لئے نصیحت)
جو شخص حج یا کوئی اور عبادت کی ادائیگی کرے، اس پر واجب ہے کہ وہ ریا، شہرت اور فخر و مباہات سے اجتناب کرے، کیونکہ جو شخص اپنی عبادت میں ریاء، شہرت اور فخر داخل کرتا ہے اس کی عبادت شرفِ قبولیت سے محروم ہوتی ہے اور اسے تھکاوٹ اور مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ فرمان نبوی ﷺ ہے:
اور جو شخص خالص اللہ کی عبادت کرے اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشتے ہیں اور اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ اعمال میں سے محض وہ عمل کرتا ہے، جو خالص ہے اور جس سے اس کا چہرہ تلاش کیا گیا ہو۔اِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمْلِ اِلَّا مَا کَانَ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْھُہُ۔ سنن ابو داؤد
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
حافظ ابنِ کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ عامل کے عمل کے اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ (البقرہ: ۲۶۱)
اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا بڑھا چڑھا کر دیتا ہے۔
پھر شکر کرنے سے نعمتوں میں دمام اور اضافہ واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ جو شخص فریضۂ عبادت ادا کرے اور اس میں اللہ کا شکر کرے تو اللہ مالک الملک اسے مزید عبادت کی توفیق دیتا ہے تاکہ وہ مزید ثواب حاصل کر لے، اللہ عز وجل ارشاد فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّآتَاھُمْ تَقْوَاھُمْ (محمد: ۱۷)
اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی اس نے انہیں ہدایت سے مزید نوازا اور انہیں ان کا تقویٰ عطا کیا۔
اسی مناسبت سے ہر نماز کے بعد نماز کے شکرانے کے طور ۳۳ مرتبہ الحمد للہ کہنا مشروع ہے۔
نیز صالح عمل کی قبولیت کی علامت اس کے بعد مزید نیکی کی توفیق ہے۔ سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں: نیکی کے ثواب کی پہچان اس کے بعد مزید نیکی کی توفیق ہے اور بدلی کی عقوبت برائی کے بعد مزید برائی کی توفیق ہے۔
مسلمان کی صورت حال یہ ہے کہ جب وہ کسی عبادت سے فارغ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کسی اور عبادت کا موقع دے دیتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
حافظ ابن جوزیؒ اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ عمل صالح میں ہمیشہ لگے رہی۔ پھر جب مسلم شخص کوئی نیک عمل سر انجام دے اور اس میں اخلاص پیدا کر لے تو اس پر لازم ہے کہ وہ شرک سے بچاؤ اختیار کرے، کیونکہ شرک تمام نیکیاں محو کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (الم نشرح: ۷)
جب آپ فارغ ہوں تو (عبادت کے لئے) اٹھ کھڑے ہوں۔
حافظ ابن قیمؒ کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی چاہتے ہیں تو اس کے دل سے اچھے اعمال کی جھلک اور ان کا اس کی زبان سے اظہار سلب کر لیتے ہیں اور اسے گناہوں کی فکر لاحق کر دیتے ہیں۔وَلَقَدْ اُوْحِیْ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (الزمر: ۶۵)
یقیناً آپ ﷺ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ ﷺ سے پہلے تھے کی طرف وحی کی گئی کہ اگر آپ ﷺ نے شرک کیا تو آپ کے عمل ضرور اکارث ہوں گے اور یقیناً آپ خسارہ اُٹھانے والوں میں ہوں گے۔
نیز اللہ تعالیٰ سے اعمالصالحہ کی قبولیت کی دعا کرنا۔ صدق ایمان کی علامت ہے۔
ابراہیم علیہ السلام نے جب کعبہ کی تعمیر کی تو اس نیک عمل کی قبولیت کی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دعا کی۔
ازاں بعد دین پر استقامت اور ثابت قدمی عزائم میں سے ہے اور نبی کریم ﷺ استقامت فی الدین کی ان لفظوں میں دعا بھی کرتے تھے کہ اے اللہ (ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرہ: ۱۲۷)
اے پروردگار! ہم سے (یہ عمل) قبول کر بے شک تو خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے۔
اور جو شخص حج میں توحید کا تلبیہ کہے اور عید میں تکبیرات کا اہتمام کرے اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کئے گئے اس وعدہ کو نبھائے اور اس کے علاوہ کسی نہ کسی کوپکارے، نہ غیر اللہ سے پناہ مانگے اور کعبہ کے سوا کسی بھی جگہ کا طواف نہ کرے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا مطیع اللہ سبحانہ و تعالیٰاس کی مدد کرتے ہیں۔وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ (فاطر: ۱۳)
اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے بھی مالک نہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
آگاہ رہیے مدینہ منورہ کی زیارت صحت حج کے لئے شرط نہیں، بلکہ مسجد نبوی کی زیارت کا قصہ کرنا مسنون ہے۔ بلکہ نبی کریم ﷺ نے حاجی و غیر حاجی کو مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور مسجد نبوی ان محترم مساجد میں سے ہے، جن کی طرف طلب ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے۔وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۶۹)
اور وہ لوگ جو ہماری خاطر مصائب جھیلتے ہیں ہم انہیں اپنی راہ ضرور دکھائیں گے۔
رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:
اور مسجد حرام کے سوا مسجد نبوی میں نماز کا ثواب عام مساجد کی نسبت ہزار گنا زائد ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۱۹)لَا تُشَدُّ الرِّجَالُ اِلَّااِلَی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ، الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ، وَمَسْجِدِ الْاَقْصَی (متفق علیہ)
صرف تین مساجد کی طرف مطلب ثواب کی نیت، سے سواریاں کی جائیں۔ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔
پھر جو مدینہ پہنچے اس کا حق ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صاحبین ’’ابو بکر و عمر‘‘ پر درود و سلام بھیجے۔ نیز مدینہ طیبہ میں آنے والوں کے لئے یہ بھی مشروع ہے کہ مسجد قباء کی زیارت کریں۔ سھل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
نیز مدینہ منورہ میں تشریف لانے والوں کے لئے یہ بھی مشروع ہے کہ وہ بقیع قبرستان اور شھداء أحدکی زیارت کرے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں اور اہل قبرستان کی زیارت سے نصیحت و عبرت پکڑتے ہوئے آخرت کو یاد کریں۔مَنْ تَطَھَّرَ فِیْ بَیْتِہِ، ثُمَّ اَتَی مَسْجِدَ قُبَاءٍ، فَصَلَّیْ فِیْہِ صَلَاۃً، کَانَ لَہُ کَاَجْرِ عُمْرَۃٍ
جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے، پھر مسجد قباء آ کر نماز پڑھے تو اس کے لئے عمرہ کے برابر ثواب ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۴۱۲) سنن نسائی: ۷۰۰)
یاد رکھیں! میت کسی کے نفع نقصان کی مالک نہیں، بلکہ میت کے لئے تو بخشش و رضا کی دعا ہی کی اج سکتی ہے اور جس کے لئے مغفرت و رضوان کی دعا کی جائے اسے اللہ کے ساتھ پکارنا قطعاً درست نہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
خوش قسمت انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں منہمک ہو، اپنے اعمال کو باطل اعمال سے بچائے۔ نبی مکرم ﷺ کے طریقے پر چلے۔ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، نیکیوں کی طرف سبقت کرے اور نیک اعمال کے ساتھ کامیاب ہو۔وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (یونس: ۱۰۶)
اور اللہ کے سوا اس کو نہ پکار جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر تو نے ایسا کیا، تو یقیناً تو ظالموں میں سے ہو گا۔
اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور میرے قرآن کریم کو بابرکت بنانے اور اس کی آیات اور ذکر کریمہ سے ہمیں بہرہ ور کرے میں اپنے لئے، تمہارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے گناہوں کی بخشش کا سوال کرتا ہوں۔ اس سے استغفار کرو، بے شک وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔اُعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم۔
یٰٓاَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ یَسْمَعُوْنَ (الانفال: ۲۰)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے اعراض نہ کرو اور تم سنتے ہی ہو۔