• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خطبہ جمعہ حرم مدنی 2011/11/18ء


خطیب:فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن محمد القاسم
مترجم:فاروق رفیع

پہلا خطبہ:

بلاشبہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہے۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں اس سے بخشش طلب کرتے ہیں اور ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور اپنے برے اعمال سے اللہ مالک الملک کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت سے نواز نہیں سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل اور اصحاب پر بکثرت درود و سلام بھیجے:
حمد و ثنا کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے اس طرح ڈرو، جیسے ڈرنے کا حق ہے اور اسلام کے مضبوط بندھن کو مضبوطی سے تھام۔
بردرانِ اسلام:
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر مختلف النوع عبادات کے ذریعے بڑا کرم کیا ہے، ان عبادات میں سے کچھ باطنی ہیں، جن کا تعلق محض دل کے ساتھ ہے اور کچھ ظاہری ہیں، جن کا نفاذ اعضاء پر ہے نیز اسلام اور ایمان کے ارکان کا مدار ان دو قسم کی عبادات پر ہے۔ بفضل اللہ ہے۔ اس وقت حجاج کرام بدنی عبادات میں سے افضل عبدت فریضہ حج سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ حج عبادات بدنیہ میں سے افضل عبادت فریضہ حج سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ حج عبادت بدنیہ میں سے افضل عبادت ہے۔ اس کی حقانیت پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا یہ قول صادق آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے پہلے حج کا امیر سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو مقرر کیا، چونکہ مناسک حج کا علم نہایت دقیق ہے۔ اس مناسبت سے نبی کریم ﷺ نے سیدنا ابو بکرؓ کو عامل حج مقرر کیا۔ اگر ان میں علمی وسعت و استعداد نہ ہوتی تو آپ ﷺ انہیں حج کا امیر نہ بناتے، بلکہ آپ ﷺ نے ان کی علمی فراست دیکھتے ہی انہیں عامل مقرر کیا تاکہ یہ لوگوں کو حج کے احکام کی تعلیم دیں۔ کیونکہ یہ صحابہ کرامؓ میں سب سے فقیہ تھے۔
فریضۃ حج کی ادائیگی میں مخلوق کے لئے رسولوں کی حقانیت کی کئی نشانیاں ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام و ہاجرہ علیہا السلام کو سر زمین مکہ میں چھوڑنے کے بعد بارگاہ ایزدی میں ان الفاظ میں دعا کی
فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ (ابراہیم: ۳۷)
تو لوگوں کے دل ان کی طرف جوڑ دے۔
چنانچہ یہ اس دعا کا اثر ہے کہ حجاج کرام پر کھلے اور تنگ راستوں سے آکر مکہ مکرمہ میں فریضہ حج ادا کرتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: (یہ مذکورہ دعا کا اثر ہے کہ) ہر مسلمان کعبہ کے دیدار و طواف کا شائق ہے اور دنیا کے مختلف اطراف و اکناف سے لوگ بیت اللہ کا قصد کرتے ہیں۔
مخلص و دیندار آدمی کی دعا اللہ تعالیٰ ہر سورت قبول کرتا ہے۔ خواہ اس کی وفات کے بعد ہی قبول ہو۔ اس تناظر میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کے اثرات ہر سال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کی دعا پر مسلمان ہرسال عملی کردار پیش کرتے ہیں۔
وفا مردوں کا شیوہ ہے اور نبی کریم ﷺ نے مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے اس لئے قبول کیا کہ آپ ﷺ کی امت ہدایت کے نور سے آسودہ حال ہو اور آپ ﷺ نے عائشہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ عائشہ! میں نے تیری قوم کی طرف سخت مصائب کا سامنا کیا ہے۔
صحابہ کرامؓ نے ہجرتیں کی اور مختلف ممالک ہی غریب الوطنی کی صعوبتیں اس لئے برداشت کیں، وہ رسالت کا پیغام، تبلیغ دین کی امانت لوگوں تک پہنچائیں اور آفاق میں اسلام کا پیغام دعوت اور قوت کے ذریعے نشر کریں۔ چنانچہ ہر مسلمان پر نبی ﷺ کے حقوق کی پاسداری کرنا واجب ہے۔ اور صحابہ کرام سے محبت و الفت کا اظہار کرنا اور ان کا دفاع کرنا لازم ہے۔ (عبادت گزارو کے لئے نصیحت)
جو شخص حج یا کوئی اور عبادت کی ادائیگی کرے، اس پر واجب ہے کہ وہ ریا، شہرت اور فخر و مباہات سے اجتناب کرے، کیونکہ جو شخص اپنی عبادت میں ریاء، شہرت اور فخر داخل کرتا ہے اس کی عبادت شرفِ قبولیت سے محروم ہوتی ہے اور اسے تھکاوٹ اور مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ فرمان نبوی ﷺ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمْلِ اِلَّا مَا کَانَ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْھُہُ۔ سنن ابو داؤد
بلاشبہ اللہ تعالیٰ اعمال میں سے محض وہ عمل کرتا ہے، جو خالص ہے اور جس سے اس کا چہرہ تلاش کیا گیا ہو۔
اور جو شخص خالص اللہ کی عبادت کرے اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشتے ہیں اور اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ (البقرہ: ۲۶۱)
اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا بڑھا چڑھا کر دیتا ہے۔
حافظ ابنِ کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ عامل کے عمل کے اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔
پھر شکر کرنے سے نعمتوں میں دمام اور اضافہ واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ جو شخص فریضۂ عبادت ادا کرے اور اس میں اللہ کا شکر کرے تو اللہ مالک الملک اسے مزید عبادت کی توفیق دیتا ہے تاکہ وہ مزید ثواب حاصل کر لے، اللہ عز وجل ارشاد فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّآتَاھُمْ تَقْوَاھُمْ (محمد: ۱۷)
اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی اس نے انہیں ہدایت سے مزید نوازا اور انہیں ان کا تقویٰ عطا کیا۔

اسی مناسبت سے ہر نماز کے بعد نماز کے شکرانے کے طور ۳۳ مرتبہ الحمد للہ کہنا مشروع ہے۔
نیز صالح عمل کی قبولیت کی علامت اس کے بعد مزید نیکی کی توفیق ہے۔ سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں: نیکی کے ثواب کی پہچان اس کے بعد مزید نیکی کی توفیق ہے اور بدلی کی عقوبت برائی کے بعد مزید برائی کی توفیق ہے۔
مسلمان کی صورت حال یہ ہے کہ جب وہ کسی عبادت سے فارغ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کسی اور عبادت کا موقع دے دیتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (الم نشرح: ۷)
جب آپ فارغ ہوں تو (عبادت کے لئے) اٹھ کھڑے ہوں۔
حافظ ابن جوزیؒ اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ عمل صالح میں ہمیشہ لگے رہی۔ پھر جب مسلم شخص کوئی نیک عمل سر انجام دے اور اس میں اخلاص پیدا کر لے تو اس پر لازم ہے کہ وہ شرک سے بچاؤ اختیار کرے، کیونکہ شرک تمام نیکیاں محو کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَقَدْ اُوْحِیْ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (الزمر: ۶۵)
یقیناً آپ ﷺ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ ﷺ سے پہلے تھے کی طرف وحی کی گئی کہ اگر آپ ﷺ نے شرک کیا تو آپ کے عمل ضرور اکارث ہوں گے اور یقیناً آپ خسارہ اُٹھانے والوں میں ہوں گے۔
حافظ ابن قیمؒ کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی چاہتے ہیں تو اس کے دل سے اچھے اعمال کی جھلک اور ان کا اس کی زبان سے اظہار سلب کر لیتے ہیں اور اسے گناہوں کی فکر لاحق کر دیتے ہیں۔
نیز اللہ تعالیٰ سے اعمالصالحہ کی قبولیت کی دعا کرنا۔ صدق ایمان کی علامت ہے۔
ابراہیم علیہ السلام نے جب کعبہ کی تعمیر کی تو اس نیک عمل کی قبولیت کی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دعا کی۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرہ: ۱۲۷)
اے پروردگار! ہم سے (یہ عمل) قبول کر بے شک تو خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے۔
ازاں بعد دین پر استقامت اور ثابت قدمی عزائم میں سے ہے اور نبی کریم ﷺ استقامت فی الدین کی ان لفظوں میں دعا بھی کرتے تھے کہ اے اللہ (ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔
اور جو شخص حج میں توحید کا تلبیہ کہے اور عید میں تکبیرات کا اہتمام کرے اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کئے گئے اس وعدہ کو نبھائے اور اس کے علاوہ کسی نہ کسی کوپکارے، نہ غیر اللہ سے پناہ مانگے اور کعبہ کے سوا کسی بھی جگہ کا طواف نہ کرے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ (فاطر: ۱۳)
اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے بھی مالک نہیں۔
اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا مطیع اللہ سبحانہ و تعالیٰاس کی مدد کرتے ہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۶۹)
اور وہ لوگ جو ہماری خاطر مصائب جھیلتے ہیں ہم انہیں اپنی راہ ضرور دکھائیں گے۔
آگاہ رہیے مدینہ منورہ کی زیارت صحت حج کے لئے شرط نہیں، بلکہ مسجد نبوی کی زیارت کا قصہ کرنا مسنون ہے۔ بلکہ نبی کریم ﷺ نے حاجی و غیر حاجی کو مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور مسجد نبوی ان محترم مساجد میں سے ہے، جن کی طرف طلب ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے۔
رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تُشَدُّ الرِّجَالُ اِلَّااِلَی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ، الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ، وَمَسْجِدِ الْاَقْصَی (متفق علیہ)
صرف تین مساجد کی طرف مطلب ثواب کی نیت، سے سواریاں کی جائیں۔ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔
اور مسجد حرام کے سوا مسجد نبوی میں نماز کا ثواب عام مساجد کی نسبت ہزار گنا زائد ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۱۹)
پھر جو مدینہ پہنچے اس کا حق ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صاحبین ’’ابو بکر و عمر‘‘ پر درود و سلام بھیجے۔ نیز مدینہ طیبہ میں آنے والوں کے لئے یہ بھی مشروع ہے کہ مسجد قباء کی زیارت کریں۔ سھل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَنْ تَطَھَّرَ فِیْ بَیْتِہِ، ثُمَّ اَتَی مَسْجِدَ قُبَاءٍ، فَصَلَّیْ فِیْہِ صَلَاۃً، کَانَ لَہُ کَاَجْرِ عُمْرَۃٍ
جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے، پھر مسجد قباء آ کر نماز پڑھے تو اس کے لئے عمرہ کے برابر ثواب ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۴۱۲) سنن نسائی: ۷۰۰)
نیز مدینہ منورہ میں تشریف لانے والوں کے لئے یہ بھی مشروع ہے کہ وہ بقیع قبرستان اور شھداء أحدکی زیارت کرے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں اور اہل قبرستان کی زیارت سے نصیحت و عبرت پکڑتے ہوئے آخرت کو یاد کریں۔
یاد رکھیں! میت کسی کے نفع نقصان کی مالک نہیں، بلکہ میت کے لئے تو بخشش و رضا کی دعا ہی کی اج سکتی ہے اور جس کے لئے مغفرت و رضوان کی دعا کی جائے اسے اللہ کے ساتھ پکارنا قطعاً درست نہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (یونس: ۱۰۶)
اور اللہ کے سوا اس کو نہ پکار جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر تو نے ایسا کیا، تو یقیناً تو ظالموں میں سے ہو گا۔
خوش قسمت انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں منہمک ہو، اپنے اعمال کو باطل اعمال سے بچائے۔ نبی مکرم ﷺ کے طریقے پر چلے۔ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، نیکیوں کی طرف سبقت کرے اور نیک اعمال کے ساتھ کامیاب ہو۔
اُعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم۔
یٰٓاَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ یَسْمَعُوْنَ
(الانفال: ۲۰)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے اعراض نہ کرو اور تم سنتے ہی ہو۔
اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور میرے قرآن کریم کو بابرکت بنانے اور اس کی آیات اور ذکر کریمہ سے ہمیں بہرہ ور کرے میں اپنے لئے، تمہارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے گناہوں کی بخشش کا سوال کرتا ہوں۔ اس سے استغفار کرو، بے شک وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
دوسرا خطبہ:

اللہ کے احسانات پر اس کا اور اس کی توفیق:
اللہ تعالیٰ کے احسان و توفیق کے سبب تمام تعریفیں اسی کو سزاوار ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کی علو شان کی بدولت اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ نبی مکرم محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر ان کی آل پر ان کے اصحاب پر رحمتیں اور برکتیں عنایت کرے۔
مسلمان بھائیو!
جو فریضہ حج ادا کر چکا ہے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف دفتر کی حفاظت کرے، کیونکہ جو حج کے دوران فسق و فجور اور گناہ کی آلائشوں سے پاک رہتا ہے وہ گناہ سے اس طرح دھل جاتا ہے، جیسے ولادت کے دن وہ گناہوں سے پاک ہے۔ لہٰذا حاجی کے لئے مناسب ہے کہ وہ خیر و صلاح کے کاموں استقامت دیں۔ دین فہمی اور فرض نمازوں کی باجماعت ادائیگی میں عام مسلمانوں کے لئے مینارہ نور بنے۔
نیز اس پر یہ بات بھی واجب ہے کہ یہ حکمت و دانائی سے دعوت دین کا کام کرے اور دعوت کا آغاز قریبی رشتہ داروں سے کرے اور اپنے اعمال اور فریضۃ دعوت میں اخلاص و للّٰہیت کا ضرور التزام کرے۔
سو تمہارا حق بنتا ہے کہ تم سنت نبوی اختیار کرو، اپنے رب کے ساتھ مخلص ہو جاؤ اور اس بات کے حریص ہو جاؤ کہ اپنے مسلم بھائیوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ انہیں وہ احکام سکھانے ہیں جو ان کے لئے مفید اور دین کی اصلاح کے لئے بہتر ہوں، کیونکہ اگر آپ کی محنت سے ایک بھی شخص کو ہدایت نصیب ہو گئی، تو یہ آپ کے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (سرخ اونٹ دور نبوی میں قیمتی ترین اثاثہ تھا)۔
یہ بات بھی ذہن نشین رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: ۵۶)
بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔
اے اللہ! محمد ﷺ پر رحمت وبرکت عنایت کر اور خلفاء راشدین ابو بکر و عمر، عثمان و علی رضوان اللہ اجمعین سے راضی ہو جا، جنہوں نے دین حق کے مطابق عدل و انصاف قائم کیا اور انہیں جو دو سخاوت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
اے اللہ! اسلام اور اہل اسلام کو عزت سے نواز اور شرک اور اہل شرک کو ذلیل و خوار کر، دشمنان اسلام کو نیست و نابور کر دے اور اس شہر سمیت تمام مسلم ممالک کو پرامن، مطمئن اور خوشحال بنا دے۔
اے اللہ! عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے حالات درست کر، انہیں اچھے حکمران نصیب کر اور انہیں رشد و ہدایت پر جمع فرما۔
باری تعالیٰ! حجاج کرام کا حج قبول کر۔ ان کے حج کو قبول فرما، ان کی محنتوں کو شرف یابی بخش، ان کے گناہ مٹا دے اور ان کے اعمال قبول فرما۔
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّار (البقرہ: ۲۰۱)
اے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے بچا۔
اے اللہ! ہمارے حاکم کو اپنی ہدایت کی توفیق دے، اس کے اعمال پسند کر، اور تمام مسلم حکام کو کتاب اللہ پر عمل کرنے اور شریعت کے نفاذ کی توفیق عنایت کر۔
اے اللہ! تو ہی معبود حق ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو غنی اور ہم فقیر ہیں۔ ہمیں بارش سے مستفید کر اور ہمیں مایوس نہ کرنا۔ اے اللہ، بارش بھیج۔ اے اللہ! بارش برسا، اے اللہ، مینہ بھیج۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (الاعراف: ۲۳)
اے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر مہربانی نہ کی تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں ہوں گے۔
اللہ کے بندو۔
اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَاءِ ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْھَیْ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل: ۹۰)
بلاشبہ اللہ عدل و احسان کا اور رشتہ داروں سے سلوک کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔
سو اللہ عزوجل کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں پر شکر کرو وہ مزید انعامات سے نوازے گا، اللہ کا ذکر بہت بلند ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے واقف ہے۔
 
Top