مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
حج وعمرہ میں عورتوں کے احرام کا لباس
تحریر: مقبول احمد سلفی /اسلامک دعوۃ سنٹر، جدہ
سب سے پہلے یہاں مرد وعورت کویہ جان لینا چاہئے کہ کسی کپڑے یا لباس کا نام احرام نہیں ہے بلکہ حج یا عمرہ کی نیت کرنےکو احرام کہا جاتا ہے اس وجہ سے مرد اور عورت دونوں کا احرام ایک ہی ہے،وہ ہے نسک (حج وعمرہ)کی نیت کرنا ۔ عمرہ کے لئے" اللَّهمَّ لبَّيكَ عمرةً "اور حج کے لئے "اللَّهمَّ لبَّيكَ حجًّا"۔زبان سے یہ الفاظ کہنے پر مرد یا عورت نسک میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
اب رہا مسئلہ احرام کی حالت میں لباس کا تو اس بارے میں مرد وعورت کے لباس میں فرق ہے ۔ مردوں کے لئے سلاہوا لباس ممنوع ہے ، وہ بغیر سلے ہوئے لباس میں احرام باندھیں گے جبکہ اسلام نے عورتوں کی عفت وعصمت کا خیال کرتے ہوئے سلے ہوئے لباس کو ممنوع نہیں کیا ۔ اس لئے عورت سلے ہوئے کپڑوں میں احرام باندھیں گی ۔
عورتوں کے لئے احرام کے لباس میں نقا ب وبرقع اور دستانہ کی ممانعت:
احرام باندھنے کے لئے عورتوں کو سلے ہوئے لباس استعمال کرنے کی اجازت ہے لیکن دو طرح کے کپڑوں کی ممانعت ہے ، ایک نقاب وبرقع اور دوسرا دستانہ ۔ اس بات کی دلیل یہ حدیث ہے ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:ولَا تَنْتَقِبِ المَرْأَةُ المُحْرِمَةُ، ولَا تَلْبَسِ القُفَّازَيْنِ( صحيح البخاري:1838)
ترجمہ: احرام کی حالت میں عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے استعمال کرے۔
عرب کی عورتیں چہرہ کو چھپانے کے لئے نقاب جسے برقع بھی کہاجاتا ہے استعمال کرتی تھیں اس میں ایک یا دو نوں آنکھوں کے لئے سوراخ چھوڑا جاتا تھا۔اسی طرح ہاتھ(انگلیاں، ہتھیلیاں اور بازو) کا پردہ کرنے کےلئے دستانہ لگاتی تھیں۔ احرام کی حالت میں رسول اللہ ﷺنے ان دونوں لباس سے منع فرمادیا۔ اس حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ عہد رسول کی خواتین اپنے چہروں اور ہاتھوں کا پردہ کیا کرتی تھیں ۔
غلط فہمی کا ازالہ : لوگوں میں اور خاص طور سے عورتوں میں دو طرح کی غلط باتیں مشہور ہیں ۔
پہلی غلط بات: احرام میں عورتوں کے چہرہ کا پردہ نہیں ہے ۔دوسری غلط بات: احرام میں عورت کے رخسار سے کپڑا مس نہیں کرنا چاہئے۔
آپ کے علم میں یہ بات رہنی چاہئے کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں، دراصل انہیں دونوں باتوں کی حقیقت بتانے کے لئے یہ مختصر تحریر لکھ رہا ہوں تاکہ عورتوں کی اصلاح ہوسکے ۔
غلط فہمی کی وجہ :
سوال یہ ہے کہ آخر کس وجہ سے لوگوں میں یہ باتیں مشہور ہوگئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث رسول کا غلط مطلب نکالا گیا ہے ۔ حدیث میں کہاگیا ہے کہ عورت احرام کی حالت میں نقاب نہ لگائے تو لوگوں نے سمجھ لیا چہرے کا پردہ ہی نہیں کرنا ہے یا چہرے سے پردہ نہیں لگنا چاہئے۔ ظاہر سی بات ہے حدیث کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو چہرے کا پردہ کرنے سے منع کیا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھ کی ساخت کا سلا ہوا کپڑانقاب و دستانہ احرام کی حالت میں عورت نہ استعمال کرے ، ان کے علاوہ کسی دوسرے کپڑے سے اپنے چہرہ اور ہاتھ کو چھپائے۔ مذکورہ حدیث کا مطلب بیان کرتے ہوئے شیخ ابن باز کہتے ہیں کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کی ساخت کے حساب سے مخصوص طرز پر کاٹ کر جو سلا جائے وہ کپڑاممنوع ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت اپنے چہرے یا ہاتھوں کا پردہ نہ کرے جیساکہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ نقاب و دستانہ کے بغیر چہرہ اور ہاتھ کو چھپائے۔(مجموع فتاوى ابن باز:5/223)
احرام کی حالت میں چہرہ چھپانے کی دلیل :
صحیح بخاری کی مذکورہ بالا حدیث کا معنی ومفہوم جان لینے کے بعد اب آپ کو صریح دلیل بھی دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ احرام کی حالت میں عورت اپنے چہرے کا پردہ کرے گی ، نبی ﷺ کے زمانے میں صحابیات احرام کی حالت میں اپنے چہرہ کو چھپایا کرتی تھیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:كان الركبًان يمرون بنا ونحن مع رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم محرمات فإذا حاذوا بنا سدلت إحدانا جلبًابها من رأسها على وجهها فإذا جاوزونا كشفناه(أخرجه أبو داود:1833واللفظ له، وابن ماجه :2935، وأحمد:24021)
ترجمہ:سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوتے، جب سوار ہمارے سامنے آ جاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
حدیث پر حکم :اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے جس کی وجہ سے اس حدیث کو محدثین نے ضعیف کہا ہے مگر اس باب میں اسماء بنت ابی بکر کی صحیح روایت موجود ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو مشکوۃ کی تخریج میں شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔
اب وہ روایت بھی دیکھ لیں جو اسماء بنت ابی بکر سے مروی ہے ۔
عن أسماء بنت أبي بكر - رحمه الله - قالت: «كُنَّا نُغَطِّيَ وُجُوهَنَا مِنَ الرِّجَالِ، وَكُنَّا نَتَمَشَّطُ قَبْلَ ذَلِكَ فِي الإِحْرَامِ» (أخرجه ابن خزيمة:4/ 203 برقم 2690 والحاكم: 1/ 454)
ترجمہ: سماء بنت ابی بکر سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ ہم عورتیں اس سے پہلے احرام کی حالت میں مردوں سے اپنا چہرہ چھپاتی تھیں اور بالوں میں کنگھابھی کرتی تھیں۔
حدیث کا حکم : اس کی سند صحیح ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔(إرواء الغليل: 4/212)
اسی طرح شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں ایک دوسرا اثر بھی ذکر کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
عن فاطمةَ بنتِ المنذرِ أنها قالت كنا نُخمِّرُ وجوهَنا ونحن مُحرماتٌ ونحن مع أسماءَ بنتِ أبِي بكرٍ الصدِّيقِ۔(إرواء الغليل: 4/212)
ترجمہ: فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم عورتیں احرام کی حالت میں اپنے چہروں کا پردہ کیا کرتی تھیں اور ہم اسماء بنت ابی بکر کے ساتھ ہوتی تھیں۔
احرام کی حالت میں عورت کے لباس کاطریقہ :
دلائل سے بالکل صاف طور پر ہمیں معلوم ہوگیا کہ عورتیں احرام کی حالت میں اپنے چہرے کا پردہ کریں گی ، تو سوال ہےکہ چہرے کا پردہ کس طرح کریں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سر کے علاوہ بقیہ جسم کے لئے ایک لباس تو ہوگا ہی قمیص وعبایا یا اس شکل کا ۔ باقی چہرے اور ہاتھوں کو چھپانے کے لئے الگ سےوسیع دوپٹہ اور اوڑھنی کا استعمال کرے جس سے سر، چہرہ اور دونوں ہاتھ ڈھکا جا سکے ۔اس طرح عورت کے لئے احرام میں سلوار، قمیص اورموزے پہننا جائز ہے، ساتھ ہی کان ، ناک ، سر، پیر اور ہاتھ میں زینت کی جو چیزیں ہیں ان کو بھی اتارنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے ریبن، کلپ، بالی، انگوٹھی، گھڑی، چوڑی اور پازیب وغیرہ ۔نیز محظورات احرام مثلا خوشبولگانا، بال وناخن کاٹنا، عقد نکاح ، جماع اور شکار ممنوع ہیں۔
موضوع سے متعلق مزید وضاحت :
٭ اب یہ سوچ ختم کریں کہ احرام میں چہرے کا پردہ نہیں ہے اور یہ سوچ بنائیں کہ چہرے کا پردہ کبھی بھی منع نہیں کیا گیا ہے، حج وعمرہ میں احرام کی حالت میں بھی چہرے کا پردہ کیا جائے گا، یہی صحیح بات ہے ۔
٭صحیح بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بعض عورتیں احرام کی حالت میں سر پہ انگریزی کیپ لگاتی ہیں تاکہ چہرے سے کپڑا نہ لگے ، یہ غلط طریقہ ہے، اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اوڑھنی سے چہرے کا پردہ کرنا ہے اور کیپ نہیں لگانا ہےاور رخسار سے کپڑا لگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٭احرام کا جو لباس ہے اس میں گندگی لگ جائے یا کسی ضرورت کے پیش نظر بدلنا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے،محرم عورت احرام کی حالت میں جیسے غسل کرسکتی ہے ویسے ہی احرام کا لباس بدل سکتی ہے۔
٭ اگر کوئی عورت بھول کر یا انجانے میں نقاب میں ہی احرام باندھ لے یا اسی حالت میں عمرہ کرلے تو بھولنے کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
٭احرام کا مطلب سمجھ گئے ہیں کہ عمرہ یا حج کی نیت کرنا احرام ہے تو جب عورت کا عمرہ مکمل ہوجائےیعنی آخری کام بال کاٹ لے تو احرام سے محض نیت سے ہی نکل جائے گی اسے کوئی کپڑا وغیرہ بدلنے کی یا نہانے کی ضرورت نہیں ہے ۔