• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج وعمرہ کے مسائل و احکام

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
حج وعمرہ کے مسائل و احکام
حج کی فرضیت
حج اِسلام کا ایک بنیادی رکن ہے، اور ہر اس مرد و عورت پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہے، فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا.....٩٧ ﴾......سورة آل عمران" یعنی "حج بیت اللہ کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اس کی طرف جانے کی طاقت رکھتے ہوں" اور جب حج کرنے کی قدرت موجود ہو تو اسے فوراً کرلینا چاہئے کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
"جس کا حج کرنے کا ارادہ ہو وہ جلدی حج کرلے، کیونکہ ہوسکتا ہو وہ بیمار پڑ جائے یا اس کی کوئی چیزگم ہوجائے یا کوئی ضرورت پیش آجائے" (احمد و ابن ماجہ)
اور حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کچھ لوگوں کو بھیج کر معلوم کروں کہ کس کے پاس مال موجود ہے اور وہ حج پر نہیں گیا تو اس پر جزیہ لگا دیا جائے۔
حج کی فضیلت
حج کی فضیلت میں وارد چند احادیث ِرسول ﷺ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
۱۔ "حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے" (متفق علیہ) اور حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ کی گئی ہو اور اس کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد حاجی نیکی کے کام زیادہ کرنے لگ جائے اور دوبارہ گناہوں کی طرف نہ لوٹے۔
۲۔ رسولِ ﷺنے حضرت عمرو بن العاص سے فرمایا: "حج پچھلے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے" (مسلم)
۳۔ "حج اور عمرہ ہمیشہ کرتے رہا کرو کیونکہ یہ دونوں غربت اور گناہوں کو اس طرح ختم کردیتے ہیں جس طرح دھونی لوہے کے زنگ کو ختم کردیتی ہے۔" (طبرانی ، دارقطنی)
۴۔ "اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا یہ سب اللہ کے مہمان ہوتے ہیں، اللہ نے انہیں بلایا تو یہ چلے آئے اور اب یہ جو کچھ اللہ سے مانگیں گے، وہ انہیں عطا کرے گا" (ابن ماجہ، ابن حبان)
سفر حج سے پہلے چند آداب
۱۔ عازمِ حج کو چاہئےکہ وہ حج و عمرہ کے ذریعے صرف اللہ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی نیت کرے۔
۲۔ وہ حج کے اِخراجات رزقِ حلال سے کرے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ
" اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے"۔
۳۔ تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لے اور اگر اس پر لوگوں کا کوئی حق (قرضہ وغیرہ) ہے تو اسے ادا کر دے، اور اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی تلقین کرے، اور اگر کچھ حقوق وہ اَدا نہیں کر پایا تو انہیں ان کے متعلق آگاہ کردے۔
۴۔ قرآن و سنت کی روشنی میں حج و عمرہ کے اَحکامات کو سیکھ لے، اور سنی سنائی باتوں پر اعتماد نہ کرے۔
۵۔ عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے محرم یا خاوند کے ساتھ ہی سفر حج کرے اور اکیلی روانہ نہ ہو۔
دورانِ سفر اور دورانِ ادائیگی ٴحج چند ضروری آداب
۱۔ اِحرام کی نیت کرنے کے بعد زبان کی خصوصی طور پر حفاظت کریں اور فضول گفتگو سے پرہیز کریں، اپنے ساتھیوں کو ایذا نہ دیں اور ان سے برادرانہ سلوک رکھیں، اور اپنے تمام فارغ اوقات اللہ کی اِطاعت میں گزاریں، کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ "جس نے حج کیااور اس دوران بے ہودگی اور اللہ کی نافرمانی سے بچا رہا، وہ اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا"
۲۔ حجاج کے رَش میں خصوصاً حالت ِطواف و سعی میں اور کنکریاں مارتے ہوئے کوشش کریں کہ کسی کو آپ سے کوئی تکلیف نہ پہنچے، اور اگر آپ کو کسی سے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے درگزر کر دیں اور جھگڑا نہ کریں۔
۳۔ باجماعت نماز پڑھنے کی پابندی کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
۴۔ خواتین غیر مردوں کے سامنے بے پردہ نہ ہوں۔
حج تمتع کے مختصر اَحکام
عمرہ: اِحرام، تلبیہ، طواف، سعی، بالوں کو منڈوانا /کٹوانا

حج: ۸/ ذوالحج: احرامِ حج، تلبیہ، منیٰ میں ۹/ ذوالحج کی صبح تک قیام

۹/ ذوالحج : وقوفِ عرفات، دس کی رات مزدلفہ میں قیام

۱۰/ ذوالحج: بڑے جمرہ کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا، طوافِ افاضہ و سعی

۱۱/ ذوالحج :کی رات منیٰ میں قیام
۱۱ و ۱۲ / ذوالحج (جس نے جلدی کی) اور ۱۳ / ذوالحج (جس نے تاخیر کی) تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا، منیٰ میں قیام، مکہ مکرمہ سے روانگی سے پہلے طوافِ وداع
عمرہ کے تفصیلی اَحکام
(۱) اِحرام
۱۔ اِحرام حج و عمرہ کا پہلا رکن ہے ، اور اس سے مراد ہے: "احرام کا لباس پہن کر تلبیہ کہتے ہوئے مناسک ِحج و عمرہ کو شروع کرنے کی نیت کر لینا"... اور ایسا کرنے سے حاجی پر چند اُمور کی پابندی کرنا لازمی ہو جاتا ہے... عمرے کا اِحرام میقات سے شروع ہوتا ہے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ لباسِ اِحرام پہلے پہن لیا جائے اور نیت میقات سے کی جائے... میقات سے اِحرام باندھے بغیر گزرنا حرام ہے، اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اسے میقات کو واپس آنا یا مکہ جاکر 'دَم' دینا پڑتا ہے۔
۲۔ احرام باندھتے وقت غسل کرنا، صفائی کے اُمور کا خیال کرنا اور بدن پر خوشبو لگانا سنت ہے۔
۳۔ مرد دو سفید اور صاف ستھری چادروں میں اِحرام باندھیں گے جبکہ خواتین اپنے عام لباس میں ہی احرام کی نیت کریں گی، البتہ نقاب نہیں باندھیں گی اور دستانے نہیں پہنیں گی۔ اگر میقات پر عورت مخصوص ایام میں ہے تو تب بھی وہ غسل کرکے احرام کی نیت کر لے گی۔
۴۔ اِحرام کی نیت ان الفاظ سے ہوگی: "لَبَّيْکَ اّللّٰهُمَّ عُمْرَةً' اور اگر رستے میں کسی رکاوٹ کے پیش آنے کا خطرہ ہو تو اسے یہ الفاظ بھی پڑھنے چاہئیں:«اَللّٰهُمَّ إِنْ حَبَسَنِیْ حَابِسٌ فَمَحَلِّیْ حَيْثُ حَبَسَتْنِیْ» پھر تلبیہ پڑھنا شروع کردیں اور طواف شروع کرنے تک اسے پڑھتے رہیں، تلبیہ یہ ہے«لَبَّيْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْکَ، لَبَّيْکَ لاَ شَرِيْکَ لَکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِيْکَ لَکَ»
"میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں... تیرا کوئی شریک نہیں، بے شک تمام تعریفیں، نعمتیں او ربادشاہت تیرے لئے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں!"
۵۔ مردوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں، کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا تھا، اور آپ ا نے فرمایا کہ کوئی مسلمان جب تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیں پتھر اور درخت بھی تلبیہ پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ (بیہقی و ابن خزیمہ)
۶۔ اِحرام باندھ لینے کے بعد کئی لوگ فوٹو کھنچواتے ہیں اور عورتیں بے پردہ ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اور کچھ لوگ میقات سے ہی اپنا دایاں کندھا ننگا کر لیتے ہیں، حالانکہ ایسا صرف طوافِ قدوم میں کرنا چاہئے۔
۷۔ احرام کی نیت کرنے کے بعد کچھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جوکہ یہ ہیں: جسم کے کسی حصے سے بال اکھیڑنا یا کٹوانا ، ناخن کاٹنا، خوشبو استعمال کرنا، بیوی سے صحبت یا بوس وکنار کرنا، دستانے پہننا، اور شکار کرنا۔ مرد پر سلا ہوا کپڑا پہننا اور سر کو ڈھانپنا حرام ہوجاتاہے او رعورت پر نقاب باندھنا ممنوع ہوجاتا ہے، البتہ وہ غیر مردوں کے سامنے چہرے کا پردہ کرنے کی پابند ہوگی۔ خواہ کپڑا اس کے چہرے کو بھی لگ جائے، کیونکہ امہات الموٴمنین اور صحابیات  اسی طرح کرتی تھیں۔
۸۔ حالت ِاحرام میں غسل ، سر میں خارش کرنا، چھتری کے ذریعے سایہ کرنا اور بیلٹ باندھنا جائز ہے۔
(۲) طواف
۱۔ مسجد حرام میں پہنچ کر تلبیہ بند کردیں، پھر حجر اسود کے سامنے آئیں، اپنا دایاں کندھا ننگا کرلیں، اگر بآسانی حجر اسود کو بوسہ دے سکتے ہوں تو ٹھیک ورنہ ہاتھ لگا کر اسے چوم لیں، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو اس کی طرف اشارہ کرکے زبان سے «بسم الله، الله اکبر» کہیں اور طواف شروع کردیں، رسول اللہ ﷺنے حضرت عمر سے کہا تھا: "اے عمر ! تم طاقتور ہو، سو کمزور کو ایذا نہ دو، اور جب حجر اسود کا استلام کرنا چاہو تو دیکھ لو، اگر بآسانی کرسکو تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے سامنے آکر تکبیر کہہ لو"
۲۔ پہلے تین چکروں میں کندھے ہلاتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ، تیز تیز چلیں، اگر رَش ہو تو صرف کندھوں کو ہلانا کافی ہوگا... یہ حکم عورتوں اور ان کے ساتھ جانے والے مردوں کے لئے نہیں ہے۔
۳۔ دورانِ طواف ذکر، دعا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں، ہر چکر کی کوئی خاص دعا نہیں ہے، البتہ رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان ﴿رَ‌بَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الءاخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ‌ ٢٠١ ﴾..... سورة البقرة" پڑھنا مسنون ہے۔ اگر چاہیں تو بابِ کعبہ'ملتزم' سے چمٹ کر بھی دعا کرسکتے ہیں، ذکر اور دعا میں آواز بلند کرنا درست نہیں ہے۔
۴۔ رکن یمانی کو ہاتھ لگا سکیں تو ٹھیک ورنہ بغیر اشارہ کرنے اور بوسہ دینے کے وہاں سے گزر جائیں۔
۵۔ سات چکر مکمل کرکے مقامِ ابراہیم کے پیچھے اگر جگہ مل جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ مسجد حرام کے کسی حصے میں دو رکعات ادا کریں۔ پہلی رکعت میں 'سورة الکافرون' اور دوسری میں 'سورة الاخلاص' سور ة فاتحہ کے بعد پڑھیں، پھر زمزم کا پانی پئیں اور اپنے سر پر بہائیں۔ اس کے بعد اگر ہوسکے تو حجر اسود کا استلام کریں ، ورنہ صفا کی طرف چلے جائیں۔
(۳) سعی
صفا کے قریب جاکر ﴿إِنَّ الصَّفا وَالمَر‌وَةَ مِن شَعائِرِ‌ اللَّهِ......١٥٨ ﴾....... سورة البقرة" پڑھیں، پھر صفا پہ چڑھ جائیں اور خانہٴ کعبہ کی طرف منہ کرکے یہ دعا پڑھیں: «لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُُ وَحْدَہ لاَشَرِيْکَ له، له الْمُلْکُ وَله الْحَمْدُ يُحْيِیْ وَيُمِيْتُ، وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْیٴٍ قَدِيْرٌ، لاَ اِلٰه إِلاَّ اللهُ وَحْدَہ لاَشَرِيْکَ له، اَنْجَزَ وَعْدَہ وَنَصَرَ عَبْدَہ وَهَزَمَ الأحْزَابَ وَحْدَہ» پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں۔ تین مرتبہ اسی طرح کرکے 'مروہ' کی طرف روانہ ہوجائیں، راستے میں دو سبز نشانوں کے درمیان دوڑیں، البتہ عورتیں اور ان کے ساتھ جانے والے مرد نہیں دوڑیں گے۔ پھر عام رفتار میں چلتے ہوئے 'مروہ' پر پہنچیں، یہاں پہنچ کر ایک چکر پورا ہوجائے گا، اب یہاں بھی وہی کریں جو آ پ نے صفا پر کیا تھا، پھر واپس 'صفا' کی طرف آئیں، راستے میں دو سبز نشانوں کے درمیان دوڑیں، صفا پر پہنچ کر دوسرا چکر مکمل ہوجائے گا، پھر اسی طرح سات چکر پورے کریں۔ آخری چکر مروہ پر پورا ہوگا، دورانِ سعی ذکر، دعا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں۔
(۴) سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا
صفا اور مردہ کے درمیان سعی مکمل کرکے سر منڈوا لیں یا پورے سر کے بال چھوٹے کروالیں، عورت اپنی ہر مینڈھی سے ایک 'پور' کے برابر بال کٹوائے، اس طرح عمرہ مکمل ہوجائے گا۔ اب آپ احرام کھول دیں، اور احرام کی وجہ سے جو پابندیاں لگی تھیں وہ ختم ہوجائیں گی۔
عمرے کے بعد آٹھ ذوالحج تک...!
۱۔ بعض لوگ عمرے سے فارغ ہو کر مختلف مساجد اور پہاڑوں کی زیارت کے لئے ثواب کی نیت سے جاتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا ضیاعِ وقت ہے۔ اسی طرح مسجد عائشہ سے اِحرام باندھ کر بار بار عمرے کرنا بھی ثابت نہیں ہے۔
۲۔ مسجد ِحرام میں نماز باجماعت پڑھنے کی پابندی کریں اور اس کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ اس میں ایک نماز ایک لاکھ نماز سے افضل ہوتی ہے۔
۳۔ خانہٴ کعبہ کا نفلی طواف کرتے رہیں۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ طواف کرتے ہوئے ایک ایک قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے او رایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے، اور پورے سات چکر لگانے کا ثواب ایک غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔
حج کے تفصیلی احکام
۸/ ذوالحج... یوم الترویہ
مکہ مکرمہ میں جہاں آپ رہائش پذیر ہیں، وہیں سے حج کا احرام باندھ لیں۔ احرامِ حج کا طریقہ بھی وہی ہے جو احرامِ عمرہ کا ہے۔ سو صفائی اور غسل کرکے اور بدن پر خوشبو لگا کر اِحرام کا لباس پہن لیں، پھر "لَبَّيْکَ اَللّٰهمَّ حَجًّا" کہتے ہوئے حج کی نیت کر لیں اور تلبیہ شروع کردیں اور ۱۰/ ذوالحج کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑتے رہیں۔ احرام باندھ کر ظہر سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوجائیں جہاں ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور ۹/ ذوالحج کی فجر کی نمازیں پڑھنا اور رات کو وہیں ٹھہرنا ہوگا۔
۹/ ذوالحج ...یومِ عرفہ
۱۔ طلوعِ شمس کے بعد تکبیر اور تلبیہ کہتے ہوئے عرفات کی طرف روانہ ہوجائیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ آپ حدودِ عرفہ کے اندر ہیں۔ زوالِ شمس کے بعد اگر ہوسکے تو امام کاخطبہ حج سنیں اور اس کے ساتھ ظہر و عصر کی نمازیں جمع و قصر کرکے پڑھیں، اگر ایسا نہ ہوسکے تو اپنے خیمے میں ہی دونوں نمازیں جمع و قصر کرتے ہوئے باجماعت ادا کرلیں۔
۲۔ پھر غروبِ شمس تک ذکر، دعا، تلبیہ اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں اور یہ دعا بار بار پڑھیں: «لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّهُ وَحْدَہ لاَشَرِيْکَ لهُ، له الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْیٴٍ قَدِيْرٌ» اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی و انکساری ظاہر کریں، اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور ہاتھ اُٹھا کر دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی کی دعا کریں، اس دن اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور فرشتوں کے سامنے اہل عرفات پر فخر کرتا ہے۔
۳۔ و قوفِ عرفہ کا وقت زوالِ شمس سے لے کر دسویں کی رات کو طلوعِ فجر تک رہتا ہے، اس دوران حاجی ایک گھڑی کے لئے بھی عرفات میں چلا جائے تو حج کا یہ رکن پورا ہوجاتا ہے۔
۴۔ غروبِ شمس کے بعد عرفات سے انتہائی سکون کے ساتھ مزدلفہ کو روانہ ہوجائیں، جہاں سے سب سے پہلے مغرب و عشاء کی نمازیں جمع و قصر کرکے باجماعت پڑھیں، پھر اپنی ضرورتیں پوری کرکے سو جائیں۔
۵۔ عورتوں اور ان کے ساتھ جانے والے مردوں اور بچوں کے لئے اور اسی طرح کمزوروں کے لئے جائز ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کو چلے جائیں۔
۱۰/ذوالحج ...یوم عید
۱۔ فجر کی نماز مزدلفہ میں اَدا کریں، پھر صبح کی روشنی پھیلنے تک قبلہ رُخ ہو کر ذکر، دعا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں۔
۲۔ بڑے 'جمرہ' کو کنکریاں مارنے کے لئے مزدلفہ سے ہی موٹے چنے کے برابر کنکریاں اٹھا لیں... اَیامِ تشریق میں کنکریاں مارنے کے لئے مزدلفہ سے کنکریاں اُٹھانا ضروری نہیں۔
۳۔ پھر طلوعِ شمس سے پہلے منیٰ کو روانہ ہوجائیں، رستے میں وادی ٴ محسر کو عبور کرتے ہوئے تیز تیز چلیں۔
۴۔ منیٰ میں پہنچ کر سب سے پہلے بڑے جمرة کو جو کہ مکہ کی طرف ہے، سات کنکریاں ایک ایک کرکے ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ 'اللہ اکبر' کہیں ، کنکریاں مارنے کے بعد تلبیہ پڑھنا بند کردیں۔ کمزور یابیمار مرد، بچے اور اسی طرح خواتین کنکریاں مارنے کے لئے کسی دوسرے کو نائب بناسکتے ہیں۔
۵۔ پھر قربانی کا جانور ذبح کریں جو کہ بے عیب ہو اور مطلوبہ عمر کے مطابق ہو۔ قربانی کا گوشت اپنے لئے بھی لے آئیں اور فقراء میں بھی تقسیم کریں۔ اگر آپ بامر مجبوری قربانی نہیں کرسکتے تو آپ کو دس روزے رکھنا ہوں گے، تین ایامِ حج میں اور سات وطن لوٹ کر۔
۶۔ پھر سر کے بال منڈوا دیں یا پورے سر کے بال چھوٹے کروا دیں۔ خواتین اپنی ہر مینڈھی سے ایک پور کے برابر بال کٹوائیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ حلال ہوجائیں گے، جو کام بسبب ِاحرام ممنوع تھے وہ سب حلال ہوجائیں گے سوائے بیوی کے قرب کے جو طوافِ افاضہ کے بعد جائز ہوگا۔ اب آپ صفائی اور غسل وغیرہ کرکے اپنا عام لباس پہن لیں اور طوافِ افاضہ کیلئے خانہٴ کعبہ چلے جائیں۔
۷۔ طوافِ افاضہ حج کا رکن ہے، اگر کسی وجہ سے آپ دس ذوالحجہ کو طوافِ افاضہ نہیں کرسکے تو اسے بعد میں بھی کرسکتے ہیں۔ اور اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو وہ طہارت کے بعد طواف کریں گی۔ اگر وہ ایامِ تشریق کی کنکریاں مارنے کے بعد پاک ہوتی ہیں تو طوافِ افاضہ کرتے ہوئے طوافِ وداع کی نیت بھی کرلیں تو ایسا کرنا درست ہوگا اور اگر وہ قافلے کی روانگی تک پاک نہیں ہوتیں اور قافلہ والے بھی ان کا انتظار نہیں کرسکتے تو وہ غسل کرکے لنگوٹ کس لیں اور طواف کرلیں۔
۸۔ طواف کے بعد مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعات ادا کریں، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کریں اور منیٰ کو واپس چلے جائیں جہاں گیارہ کی رات گزارانا واجب ہے۔
۹۔ دس ذوالحج کے چار کام (کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، حلق یا تقصیر، طواف و سعی) جس ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں، انہیں اسی ترتیب کے ساتھ کرنا مسنون ہے، تاہم ان میں تقدیم و تاخیر بھی جائز ہے۔
ایامِ تشریق
۱۔ ۱۱ اور ۱۲ ذوالحج کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے، اور اگرچاہیں تو ۱۳ تک بھی منیٰ میں رہ سکتے ہیں۔ ان ایام میں تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا ہوتا ہے، ا س کا وقت زوالِ شمس سے لے کر آدھی رات تک ہوتا ہے۔
۲۔ سب سے پہلے چھوٹے جمرہ کو سات کنکریاں ایک ایک کرکے ماریں، ہر کنکری کے ساتھ " اللہ اکبر" کہیں، پھر اسی طرح درمیانے جمرہ کو کنکریاں ماریں، اگر آپ کو کسی دوسرے کی طرف سے بھی کنکریاں مارنی ہوں تو پہلے اپنی کنکریاں مار کر پھر اس کی کنکریاں ماریں، چھوٹے اور درمیانے جمرہ کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلہ رُخ ہو کر دعا کرنا مسنون ہے۔
۳۔ پھر بڑے جمرہ کوبھی اسی طرح کنکریاں ماریں، اس کے بعد دعا کرنا مسنون نہیں۔
۴۔ کنکریاں مارتے ہوئے اگر قبلہ بائیں طرف اور منیٰ دائیں طرف ہو تو زیادہ بہتر ہے، لازم نہیں۔
۵۔ تینوں جمرات کوکنکریاں کے لئے کنکریاں منیٰ سے کسی بھی جگہ سے اٹھا سکتے ہیں۔
۶۔ جمرات کا نشانہ لے کر کنکریاں ماریں، صرف گول دائرے میں کنکریاں پھینک دینا کافی نہیں ہے۔
۷۔ جمرات کو شیطان تصور کرکے انہیں گالیاں دینا یا جوتے رسید کرنا جہالت ہے۔
۸۔ ایامِ تشریق کے فارغ اوقات اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزاریں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں، اور باجماعت نمازوں کی پابندی کریں۔
۹۔ اگر آپ ۱۲ ذوالحج کو ہی منیٰ سے روانہ ہونا چاہتے ہیں تو غروبِ شمس سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر منیٰ کی حدود سے نکل جائیں ورنہ ۱۳ کی رات بھی وہیں گزارنا ہوگی اور پھر تیرہ کو کنکریاں مار کر ہی آپ منیٰ سے نکل سکیں گے۔
طوافِ وداع:مکہ مکرمہ سے روانگی سے پہلے طوافِ وداع کرنا واجب ہے، اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو ان پر طوافِ وداع واجب نہیں۔ ۱۲ یا ۱۳ ذوالحج کو کنکریاں مارنے سے پہلے طوافِ وداع کرنا درست نہیں ہے۔
آدابِ زیارتِ مسجد ِنبوی
۱۔ مکہ مکرمہ میں حج مکمل ہوجاتا ہے، البتہ مسجد ِنبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت کرکے مدینہ طیبہ کا سفر کرنا مستحب ہے۔
۲۔ مسجد ِنبوی میں پہنچ کر تحیة المسجد پڑھیں، بہتر ہے کہ روضة من ریاض الجنة میں جاکر پڑھیں کیونکہ وہ جنت کا ٹکڑا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے سامنے آئیں، درود و سلام پڑھیں اور بہتر ہے کہ درودِ ابراہیمی، جسے نماز میں پڑھا جاتا ہے، پڑھا جائے۔ پھر آپ اکے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر  کوسلام کہیں اور اگر دعا کرنا چاہیں تو قبلہ رُخ ہو کر کریں۔
۳۔ روضہٴ مبارکہ پر بنیت ِتبرک ہاتھ پھیرنا یا اس کا طواف کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔
۴۔ مردوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ جنت البیقع میں مدفون حضرات اور اسی طرح شہداءِ اُحد کی قبروں پر جاکر انہیں سلام کہیں اور قبلہ رخ ہو کر ان کے لئے دعا کریں۔
۵۔ مساجد مدینہ طیبہ میں سے مسجد ِنبوی کے علاوہ صرف مسجد ِقبا میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے، باقی مساجد میں نماز پڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے، اس لئے ان کا قصد کرنا درست نہیں ہے۔
حج میں ہونے والی عام غلطیاں
حج ایک عبادت ہے اور ہر عبادت کی قبولیت دو شرطوں کے ساتھ ہوتی ہے: اخلاصِ نیت اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے موافقت۔ اس تمنا کے پیش نظر کہ حجاج کرام کو حج مبرور نصیب ہو اور وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنے وطنوں کو واپس لوٹیں، ذیل میں حجاج کی عام غلطیاں درج کی جارہی ہیں تاکہ حتیٰ الوسع ان سے پرہیز کیا جائے۔
بغیر اِحرام باندھے میقات کو عبور کرجانا، اِحرام باندھتے ہی دایاں کندھا ننگا کر لینا، خاص ڈھب سے بنے ہوئے جوتے کی پابندی کرنا (حالانکہ ٹخنوں کوننگا رکھتے ہوئے ہر قسم کا جوتا پہنا جاسکتا ہے)، احرام باندھ کر بجائے کثرتِ ذکر و استغفار اور تلبیہ کے لہو لعب میں مشغول رہنا، باجماعت نماز ادا کرنے میں سستی کرنا، خواتین کا بغیر محرم یا خاوند کے سفر کرنا، غیر مردوں کے سامنے عورتوں کا پردہ نہ کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے مزاحمت کرنا، اورمسلمانوں کو ایذا دینا، دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے حجر اسود کی طرف اشارہ کرنا، حطیم کے درمیان سے گذرتے ہوئے طواف کرنا، رکن یمانی کوبوسہ دینا یا استلام نہ کرسکنے کی صورت میں اس کی طرف اشارہ کرنا، ہر چکر کے لئے کوئی دعا خاص کرنا، کعبہ کی دیواروں پر بنیت ِتبرک ہاتھ پھیرنا، طوافِ قدوم کے بعد بھی دایاں کندھا ننگا رکھنا، دورانِ طواف دعائیں پڑھتے ہوئے آواز بلند کرنا، صفا اور مروہ پر قبلہ رخ ہو کردونوں ہاتھوں سے اشارہ کرنا، اقامت ِنماز ہوجانے کے بعد بھی سعی جاری رکھنا، سعی کے سات چکروں کی بجائے چودہ چکر لگانا، سر کے کچھ حصہ سے بال کٹوا کر حلال ہوجانا، حدودِ عرفہ سے باہر وقوف کرنا، یہ عقیدہ رکھنا کہ جبل رحمہ پر چڑھے بغیر وقوفِ عرفہ مکمل نہں ہوگا، غروبِ شمس سے پہلے عرفات سے روانہ ہوجانا، مزدلفہ میں پہنچ کر سب سے پہلے مغرب و عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کی بجائے کنکریاں چننے میں لگ جانا، مزدلفہ کی رات نوافل پڑھنا، کنکریاں دھونا، سات کنکریاں بجائے ایک ایک کرکے مارنے کے ایک ہی بار دے مارنا، کنکریاں مارنے کے مشروع وقت کا لحاظ نہ کرنا، پہلے چھوٹے، پھر درمیانے اور پھر بڑے جمرہ کو کنکریاں مارنے کی بجائے ترتیب اُلٹ کر دینا، چھوٹے اور درمیانے جمروں کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا نہ کرنا، قربانی کے لئے جانور کی عمر کا لحاظ نہ کرنا، عیب دار جانور قربان کرنا، ایامِ تشریق کی راتیں منیٰ میں نہ گزارنا، ۱۲ یا ۱۳ ذوالحج کو کنکریاں مارنے سے پہلے طوافِ وداع کر لینا۔ طوافِ وداع کے بعد مسجد حرام سے اُلٹے پاؤں باہر آنا۔ نبی کریم ﷺکی قبر کی زیارت کی نیت کرکے مدینہ طیبہ کا سفر کرنا، حجاج کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کو سلام بھیجنا، ہر نماز کے بعد روضہٴ رسول ﷺکی طرف چلے جانا یا اس کی طرف رُخ کرکے انتہائی ادب سے کھڑے ہوجانا، دعا میں آپ ا کو وسیلہ بنانا، مدینہ طیبہ میں چالیس نمازوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنا۔

٭٭٭٭٭
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
۔ پھر آپ اکے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر  کوسلام کہیں اور اگر دعا کرنا چاہیں تو قبلہ رُخ ہو کر کریں۔
بھائی کیا یہ حج کے مسائل میں سے ہے؟ اور کیا یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
بھائی کیا یہ حج کے مسائل میں سے ہے؟ اور کیا یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟
میں کچھ بھائیوں کوجانتا ہوں جواس برس حج کرنے کے بعد مدینہ النبویہ کی زيارت کریں گے اوروہ آپ سے نصیحت اورتوجیھات چاہتے ہيں ؟

الحمدللہ:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شھرمدینہ آنے والو، تمہارا آنا مبارک تم بہت اچھی جگہ آئے ہو اوربہت اچھی غنیمت حاصل کررہے ہو ، اورمدینہ طیبہ میں آپ کا رہنا اچھا رہے ، اوراللہ تعالی تمہارے اعمال صالحہ قبول فرمائے ، اوراللہ تعالی تمہاری اچھی امیدیں پوری کرے ، تم دارھجرت اورنبی مصطفی ومختار کے نصرت ومدد والے اورمھاجراورمختارصحابہ کرام کے شھر میں آئے ہوتمہارا آنا مبارک ہو ۔

مسجدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زيارت کرنے والے کے لیے یہ چندایک نصیحت وتوجیھات ہيں :

1 - طابہ میں آنے والو ، تم مکہ مکرمہ کے بعد افضل ترین اوراشرف المکان اورٹکڑے میں ہو ، لھذا اس کے حق کی پہچان کرلو اوراس کی حقیقی قدر بھی کرو ، اوراس کی حرمت وتقدیس کا خیال رکھو ، اوراس میں ادب واحترام اختیارکرو ، اوریہ جان لوکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس میں بدعت ایجاد کرنے والے کے لیے بہت شدید عذاب کی وعید سنائي ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( مدینہ حرم ہے ، لھذا جس نے بھی اس میں کوئي بدعت ایجاد کی یا پھرکسی بدعتی کواپنے ہاں پناہ دی اس پراللہ تعالی اورفرشتوں اورسب لوگوں کی لعنت ہو ، روز قیامت اللہ تعالی اس کا کوئي فرضي اورنفلی عمل قبول نہيں فرمائےگا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1867 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1370 ) یہ الفاظ مسلم شریف کے ہیں ۔

لھذا جوبھی مدینہ میں کوئي گناہ کرتا ہے یا پھرکسی گناہ کرنے والے کواپنے ہاں پناہ دے اوراس کی مدد ونصرت کرے تواس نے اپنے آپ کوعذاب مھین اورالہ العالمین کےغضب سے دوچارکیا ۔

اورسب سے بڑی بدعت اورگناہ یہ ہےکہ مدینہ کی صاف شفاف ماحول کوبدعات اورنئے نئے کاموں کے اظہارسے پراگندہ کرنا ، اورخرافات وغلط چيزوں کے ساتھ اس سے لڑنا ، اورمدینہ کی پاک صاف اورمقدس سرزمین کوبدعتی مضامین اورمقالہ جات ، اورشرکیہ کتب نشر کرکے پراگندہ کرنا ، اورمختلف قسم کی منکرات اورحرام اشیاء اورشرعی مخالفتیں پھیلانا ہی سب سے بڑي منکرچيز ہے ، بدعتی اوربدعتی کوپناہ دینے اوراس کی مدد کرنے والاگناہ میں برابر ہیں ان میں کوئي فرق نہيں ۔

2 - مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زيارت سنتوں میں سے ایک سنت ہے ، نہ کہ واجبات میں سے ایک واجب ، اوراس کا حج کے ساتھ کوئي تعلق نہيں اورنہ ہی یہ حج کومکمل کرنے والی اشیاء میں شامل ہے ، حج اور زيارت مسجد نبوی ، یا حج اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے مابین تعلق کے سلسلہ میں جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی ضعیف اورموضوع ہیں ۔

اورجوکوئي بھی مدینہ کی طرف مسجد نبوی کی زيارت اوروہاں نماز پڑھنے کےلیے سفر کا قصد کرتا ہے تواس کا یہ قصد اچھا اورخالص اوراس کی کوشش مشکور ہے ، اورجوکوئي اپنے سفر اورقصد کوصرف قبروں کی زيارت اورقبروں والوں سے استغاثہ اورمدد مانگنا بنائے تواس کا یہ قصد ممنوع ہے اوریہ سفرجائز نہيں اوراس کا یہ فعل بھی برائي میں شامل ہے ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تین مساجد : مسجد حرام ، اورمیری یہ مسجد ، اورمسجد اقصی کے علاوہ کسی اورجگہ کی زيارت کا قصد کرنا جائز نہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1189 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1397 ) ۔

اورجابررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بلاشبہ سب سے بہتر جن کی طرف سواریاں چلائي جاسکتی ہیں وہ میری یہ مسجد اوراللہ کا قدیم گھر بیت اللہ ہے ) مسند احمد ( 3 / 350 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ ( 1648 ) میں اسے صحیح قراردیا ہے

3 - علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کی ادائيگي کا اجروثواب کئي گنا حاصل ہوتا ہے چاہے نماز فرضي ہویا نفلی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( میری اس مسجد میں نماز کی ادائيگي مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد میں ہزار نماز کی ادائیگي سےبہتر ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1190 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1394 ) ۔

لیکن نفلی نماز مسجد کی بجائےگھرمیں افضل اوربہتر ہے اگرچہ مسجد میں کئي گنازيادہ بھی ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( بلاشبہ آدمی کی سب سےافضل نماز آدمی کی اپنے گھرمیں نماز ہے لیکن فرضی نماز نہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 731 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 781 ) ۔

4 - اس عظیم الشان مسجد کے زائرمحترم آپ کویہ علم ہونا چاہیے کہ مسجد کے کسی بھی حصہ مثلا ستونوں ، دیواروں ، دراوزوں ، محراب اورمنبر کوچھونے اوربوسہ لے کرتبرک حاصل کرنا جائزنہيں ، اوراسی طرح حجرہ نبویہ کوبھی چھونا اوراس کابوسہ لینا اورطواف کرنا جائزنہیں ، لھذہ جوکوئي بھی یہ کام کرے اس پراس کام سے توبہ کرنی اورآئندہ ایساکام نہ کرنے کا عھدکرنا واجب ہے ۔

5 - مسجد نبوی کی زيارت کرنے والے کےلیے ریاض الجنۃ میں دورکعت یا جتنی وہ چاہے نماز ادا کرنا مشروع ہے کیونکہ یہاں نماز کی ادائيگي کی فضیلت ثابت ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میرے گھر اورمنبرکے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، اورمیرا منبرمیرے حوض پرواقع ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1196 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1391 ) ۔

یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی کے ساتھ آتا اوروہ مصحف والے ستون کے پاس یعنی روضہ شریف میں آ کرنماز ادا کرتے ، تومیں نے انہيں کہا اے ابومسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس ستون کے پاس ضرورنماز ادا کرتے ہیں ! تووہ فرمانے لگے :

میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 502 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 509 ) ۔

لیکن یہ یاد رکھیں کہ ریاض الجنۃ میں نماز ادا کرنے کی حرص کی بنا پرلوگوں کوتکلیف دینا یا پھر کمزوراورضعیف لوگوں کودھکے دینا یا لوگوں کی گردنیں پھلانگنا جائز نہيں ہوجاتا ۔

6 - مدینہ النبویہ کی زيارت کرنے اوروہاں کے رہائشی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء وپیروی اوراتباع کرتے ہوئے عمرہ کا ثواب حاصل کرنے کے لیے مسجد قباء جاکرنماز ادا کرنی مشروع ہے ۔

سھل بن حنیف رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوکوئي بھی نکل کراس مسجد ( یعنی مسجد قباء ) آتا اورنماز ادا کرتا ہے اسے عمرہ کے برابر ثواب حاصل ہوتا ہے ) اسے امام احمد نے مسند احمد ( 3 / 487 ) میں اورامام نسائی نے سنن نسائی ( 699 ) میں روایت کیا ہے ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب ( 1180 - 1181 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

اورسنن ابن ماجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جس نے بھی اپنے گھر سے وضوء کیا اورپھر مسجد قباء آ کرنماز ادا کی اسے عمرہ کے برابر اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 1412 ) ۔

اورصحیحین میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرہفتہ کے دن پیدل یا سوار ہوکر مسجد قباء جایا کرتے اوروہاں دورکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1191 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1399 ) ۔

7 - اے زائرمکرم ، مدینہ شریف کی ان دو مساجد مسجد نبوی اور مسجد قباء کے علاوہ کسی اورمسجد کی زيارت کرنا مشروع نہيں ہے ، اورنہ ہی زيارت کرنے والے یا کسی اورشخص کےلیے یہ مشروع ہے کہ وہ کسی خاص جگہ جانے کا قصد کرے اوراس میں خیروبھلائي اوروہاں جاکرعبادت کرنے کا مقصد رکھے ، جس کی کتاب وسنت میں کوئي دلیل نہيں ملتی اورنہ ہی صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عہنم کے عمل سے ثابت ہو ۔

اورنہ ہی یہ مشروع ہے کہ ایسی جگہیں یا مساجد تلاش کی جائيں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام نے نمازادا کی ہوتا کہ وہاں نماز ادا کرے یا دعاء وغیرہ کے ساتھ عبادت میں مشغول ہو ، اورایسا کرنے اوروہاں جانے کا حکم بھی نہيں ہے :

معرور بن سوید رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ : ہم عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نکلے توہمارے راستے میں ایک مسجدآئي تولوگوں نے اس کی جانب جلدی بڑھ کرنماز پڑھنا شروع کردی توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :

انہيں کیا ہوا ؟ تولوگوں نے جواب دیا اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی تھی توعمررضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :

اے لوگویقینا تم سے پہلے لوگ بھی اس طرح کی اتباع کرتے ہوئے ہلاک ہوئے حتی کہ انہوں نے اسے عبادت گاہ بنالیا، لھذا جسے اس میں نماز پیش آجائے ( یعنی فرضي نماز کا وقت ہوجائے )وہ ادا کرے اورجس کے لیے نماز نہ آئے وہ چلتا رہے ) ۔ اسے ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ ( 7550 ) میں روایت کیا ہے ۔

اورجب عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کویہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس جاتےہیں جس کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت ہوئي تھی توانہوں نے اسے کاٹنے کا حکم دیا تواسے کاٹ دیا گيا ۔ اسے بھی ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت کیا ہے دیکھیں حدیث نمبر ( 7545 ) ۔

8 -

مسجدنبوی شریف کے زائرین کرام میں سے صرف مردوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے دونوں صحابہ ابوبکراورعمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہما قبروں کی زيارت کرنا مشروع ہے تا کہ سلام پڑھیں اوران کےلیے دعا کریں ، لیکن علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق عورتوں کےلیے قبروں کی زيارت کرنا جائزنہيں ہے جس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زيارت کرنے والی عورتوں پرلعنت فرمائی ہے ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3236 ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 320 ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 1575 ) ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اصلاح المساجد میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔


ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبروں کی زيارت کرنےوالی عورتوں پرلعنت فرمائي ہے ۔

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1056 ) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے ، اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسند احمد ( 2 / 337 ) میں اورابن ماجہ نے سنن ابن ماجۃ ( 1574 ) میں روایت کیا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 843 ) اورمشکاۃ المصابیح ( 1770 )میں اسےحسن کہا ہے ۔

اورزیارت کا طریقہ یہ ہے کہ زیارت کرنےوالا شخص قبرشریف کے پاس آئے اورقبرکی جانب رخ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کہے : السلام علیک یارسول اللہ ، پھر ان کی دائيں جانب تقریبادوفٹ آگے بڑھ کرابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ پربھی سلام کہتے ہوئے اسلام علیک یاابابکر کہے ، اورپھران کی دائيں جانب تقریبا دوفٹ آگے بڑھے اورعمرفاروق رضي اللہ تعالی عنہ پرسلام پڑھے اورالسلام علیک یا عمر کہے ۔

9 - مدینہ شریف کے مرد زائرین کےلیے بقیع قبرستان اورشھدائے احد کی قبروں کی زيارت کرنا بھی مشروع ہے وہ وہاں جاکرانہیں سلام کرے اوران کےلیے دعائے مغفرت کرے ۔

بریدہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ لوگ قبرستان جایا کرتےتھے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قبرستان جانے کی مندرجہ ذیل دعا سکھایا کرتے تھے کہ وہ وہاں جاکریہ دعا پڑھا کریں :

( السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ، نسأل الله لنا ولكم العافية ) اے اس گھر والے مومنوں اورمسلمانو! تم پرسلامتی ہو ، اورہم ان شاء اللہ تمہیں ملنےوالے ہيں ، ہم اپنے اورتمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔ دیکھیں : صحیح مسلم حدیث نمبر ( 974 - 975 ) ۔

10 - قبروں کی زيارت کے بہت ہی دوعظیم مقصدہیں اورانہیں مقاصد کےلیے اسے مشروع کیا گيا ہے :

پہلامقصد : زائر اس سے عبرت اورنصیحت حاصل کرے ۔

دوسرا مقصد : جن قبروالوں کی زيارت کی جارہی ہے ان کے لیے دعائے استغفار اوران کی رحم کی دعا کرنا ۔

قبروں کی زيارت کے جواز میں شرط یہ ہے کہ غلط اورقبیح قسم کی گفتگونہ کی جائے جس میں سب سے شرکیہ یا کفریہ کلمات وگفتگو ہیں :

بریدہ رضي اللہ تعالی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میں نے تمہيں قبرستان کی زيارت کرنے سے منع فرمایا تھا ، توجوکوئي بھی قبروں کي زيارت کرنا چاہے وہ زيارت کرلیا کرے لیکن غلط اورقبیح قسم کی گفتگو نہ کیا کرو ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 2033 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 886 ) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔

اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ( اورغلط وقبیح گفتگونہ کیا کرو ) کے الفاظ کے بغیر روایت کیا ہے دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر ( 977 ) ۔

لھذا ان اوراس کے علاوہ دوسری قبروں کا طواف کرنا جائز نہيں اورنہ ہی ان کی جانب منہ کرکے اورنہ ہی قبروں کے مابین نماز ادا کرنا جائز ہے ، اوراسی طرح قبرکے پاس قرآن مجید کی تلاوت یا دعاء وغیرہ جیسی عبادت کرنا بھی جائز نہيں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ مالک الملک جوافلاک اورسب املاک کا رب ہے کے ساتھ شرک کے وسائل اورانہیں مساجد کا درجہ دینے میں سے ہے اگرچہ ان پرمسجدنہ بھی تعمیر کی جائے ۔

عائشہ اورعبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہم بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوموت نے آگھیرا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرہ انور پرکپڑا ڈالنے لگے اورجب انہیں گھٹن محسوس ہوئي توآپ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اوراسی حالت میں فرمانے لگے :

( اللہ تعالی یھودیوں اورعیسائیوں پرلعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنالیا تھا ) وہ اس چيز سے ڈرا رہے تھے جس انہوں نے ارتکاب کیا تھا ۔صحیح بخاری حدیث نمبر ( 436 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 529 ) ۔

اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( یقینا لوگوں میں سب سے برے اورشریر وہ لوگ ہیں جنہیں زندگي کی حالت میں ہی قیامت آدبوچے گی اوروہ لوگ بھی جنہوں نے قبروں کومسجدیں بنا لیا ) اسے مسند احمد نے روایت کیا ہے دیکھیں مسند احمد ( 1 / 405 ) اوربخاری نے اسے تعلیقا روایت کیا ہے دیکھیں : صحیح بخاری کتاب الفتن باب ظہورالفتن حدیث نمبر ( 7067 ) اورصحیح مسلم کتاب الفتن باب قرب الساعۃ حدیث نمبر ( 2949 ) لیکن اس میں قبروں کومسجدیں بنانے کا ذکر نہيں ہے ۔

ابومرثد غنوی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :

( قبروں پرنہ بیٹھا کرو اورنہ ہی ان کی جانب رخ کرکےنماز ادا کیا کرو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 972 ) ۔

اورابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( قبرستان اوربیت الخلاء کے علاوہ ساری روئے زمین مسجد ہے ) مسند احمد ( 3 / 83 ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 317 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1 / 320 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

اورانس رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے مابین نماز ادا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ دیکھیں : ابن حبان حدیث نمبر ( 1698 ) ھیتمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد ( 2 / 27 ) میں کہا ہے کہ اس رجال صحیح کے رجال ہیں ۔

اورقبروں پرسجدہ کرنا جائزنہيں بلکہ یہ کام توجاھلیت کی بت پرستی ، اورفکری شذوذ ، کم عقلی میں شامل ہوتا ہے ، اسی طرح ان قبروں کی زیارت کرنے والے اورکسی دوسرے شخص کےلیے یہ بھی جائز نہيں کہ وہ ان کے ساتھ اپنے جسم کا کوئي حصہ یا کپڑے وغیرہ لگا کریا اسے چوم کراوراسے ہاتھ پھیرکر تبرک حاصل کرے ، یاپھر قبرکی مٹی پرلوٹ پوٹ ہوکرشفایابی چاہتا ہو یا وہاں سے کچھ حاصل کرکے اس سے غسل کرے یہ سب کچھ ناجائز ہے ۔

اسی طرح قبروں کی زيارت کرنے والے یا کسی دوسرے شخص کے لیے یہ بھی جائزنہيں کہ اس قبر کی مٹی میں وہ اپنے بال یا بدن کی کوئي چيزیا پھر کپڑا وغیرہ دفن کرے یا پھر وہاں اپنی تصویر وغیرہ رکھ تبرک حاصل کرے ، اوراسی طرح وہاں پیسے یا کھانے کی کوئي چيز مثلا دانے وغیرہ بھی پھینکنا صحیح نہيں ہے ، لھذا جوشخص بھی ان افعال میں کوئي بھی فعل کرے اس پرایسے عمل سے توبہ واستغفار کرنی اورآئندہ ایسا کام نہ کرنے کا عھد کرنا واجب ہے ۔

اوراسی طرح قبرکوخوشبولگانا بھی ناجائزہے ، اوراللہ تعالی کوقبروں والوں کی قسم دینا ، اوراللہ سبحانہ وتعالی سے ان قبروں والوں کے واسطہ اوران کے شرف ومرتبہ کے ذریعہ سوال کرنا جائز نہيں ، بلکہ یہ توحرام توسل وسیلہ اورشرکیہ وسائل میں شامل ہوتا ہے ۔

اسی طرح قبروں کواونچا اورپختہ بنانا اوران پرعمارت تعمیر کرنا بھی جائز نہيں ، کیونکہ یہ قبروں کی تعظیم اوراس کی وجہ سے فتنہ وفساد میں پڑنے کا وسیلہ ہے ، اوراسی طرح اگرکسی شخص کے بارہ میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ یہ مخالفات کا ارتکاب کرے گا تواس شخص کوان مخالفات میں استعمال ہونے والی اشیاء مثلا کھانا ، خوشبووغیرہ کی فروخت ناجائز ہے ۔

اسی طرح فوت شدگان سے استغاثہ ومدد یا ان سے استعانت وتعاون مانگنا یا فقروفاقہ اورشدیدتکلیف اورمصائب میں ان سے سوال کرنا ، اوران سے نفع وحاجات طلب کرنا یہ سب کچھ شرک اکبر مخرج عن الملۃ ہے جودائرہ اسلام سے خارج کرکے بت پرستوں میں شامل کردیتا ہے ، کیونکہ مصیبتوں سے نجات دلانے والا ، غموں کودورکرنےوالا اورفکروں سے نجات دینے والا توصرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

{ یہی ہے اللہ جوتم سب کا پروردگار ہے اسی کی سلطنت وبادشاھی ہے ، جنہیں تم اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ پکاررہے ہو وہ توکھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہيں ، اگر تم انہیں پکارو تووہ تمہاری پکارسنتے ہی نہیں ، اوراگر ( بالفرض ) سن بھی لیں توفریاد رسی نہيں کرسکتے ، بلکہ روز قیامت تووہ تمہارےاس شرک کا صاف انکارکرجائيں گے ، اورآپ کوکوئي بھی حق تعالی جیسا خبردارخبریں نہيں دے گا } فاطر ( 13 - 14 ) ۔

اوراللہ جل جلالہ ایک دوسرے مقام پرکچھ اس طرح ارشاد فرماتے ہيں :

{ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کے سوا جنہیں تم معبود سجمھ رہے ہو انہيں پکارو لیکن نہ تووہ تم سے کسی تکلیف کودور کرسکتے ہیں ، اورنہ ہی بدل سکتے ہیں ، جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زيادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اوراس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں ( بات بھی یہی ہے ) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی ہی چيز ہے } الاسراء ( 56 - 57 ) ۔ .

الشیخ صلاح البدیر امام وخطیب مسجدنبوی شریف ۔

http://islamqa.info/ur/36863


 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
عامر بھائی میں نے پوچھا ہے کہ اس کی دلیل کیا ہے؟
اورزیارت کا طریقہ یہ ہے کہ زیارت کرنےوالا شخص قبرشریف کے پاس آئے اورقبرکی جانب رخ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کہے : السلام علیک یارسول اللہ ، پھر ان کی دائيں جانب تقریبادوفٹ آگے بڑھ کرابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ پربھی سلام کہتے ہوئے اسلام علیک یاابابکر کہے ، اورپھران کی دائيں جانب تقریبا دوفٹ آگے بڑھے اورعمرفاروق رضي اللہ تعالی عنہ پرسلام پڑھے اورالسلام علیک یا عمر کہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی میں نے پوچھا ہے کہ اس کی دلیل کیا ہے؟

اورزیارت کا طریقہ یہ ہے کہ زیارت کرنےوالا شخص قبرشریف کے پاس آئے اورقبرکی جانب رخ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کہے : السلام علیک یارسول اللہ ، پھر ان کی دائيں جانب تقریبادوفٹ آگے بڑھ کرابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ پربھی سلام کہتے ہوئے اسلام علیک یاابابکر کہے ، اورپھران کی دائيں جانب تقریبا دوفٹ آگے بڑھے اورعمرفاروق رضي اللہ تعالی عنہ پرسلام پڑھے اورالسلام علیک یا عمر کہے ۔
@انس بھائی
@خضر حیات بھائی

کیا آپ اس سلسلے میں ھماری رہنمائی کر سکتے ہیں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُعلِّمُهم إذا خرجوا إلى المقابر . فكان قائلُهم يقول ( في رواية أبي بكر ) : السلامُ على أهلِ الدِّيارِ . ( وفي رواية زهير ) : السلام عليكم أهلَ الدِّيارِ ، من المؤمنين والمسلمين . وإنا ، إن شاء الله ، لَلاحقون . أسأل اللهَ لنا ولكم العافيةَ .
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم -الصفحة أو الرقم: 975

أنَّ ابنَ عمرَ كان إذا قدمَ من سفرٍ دخلَ المسجدَ ، ثُمَّ أتى القبرَ فقال : السلامُ عليكَ يا رسولَ اللهِ ، السلامُ عليكَ يا أبا بكرٍ ، السلامُ عليكَ يا أبتاهُ .

الراوي: نافع مولى ابن عمر المحدث: الألباني - المصدر: فضل الصلاة - الصفحة أو الرقم: 100
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح موقوفا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُعلِّمُهم إذا خرجوا إلى المقابر . فكان قائلُهم يقول ( في رواية أبي بكر ) : السلامُ على أهلِ الدِّيارِ . ( وفي رواية زهير ) : السلام عليكم أهلَ الدِّيارِ ، من المؤمنين والمسلمين . وإنا ، إن شاء الله ، لَلاحقون . أسأل اللهَ لنا ولكم العافيةَ .
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم -الصفحة أو الرقم: 975

أنَّ ابنَ عمرَ كان إذا قدمَ من سفرٍ دخلَ المسجدَ ، ثُمَّ أتى القبرَ فقال : السلامُ عليكَ يا رسولَ اللهِ ، السلامُ عليكَ يا أبا بكرٍ ، السلامُ عليكَ يا أبتاهُ .

الراوي: نافع مولى ابن عمر المحدث: الألباني - المصدر: فضل الصلاة - الصفحة أو الرقم: 100
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح موقوفا
انس بھائی! اس روایت سے یہ استدلال سمجھ نہیں آیا، ابھی تشنہ باقی ہے، کیا اس روایت سے محدثین نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو بعد از وفات "یا" کے صیغے سے سلام بھیجنے کا استدلال کیا ہے، اور یہ کہ اگر مسلمین و مومنین کا ذکر ہے تو جنت البقیع میں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دفن ہیں، کیا ان کا بھی نام لے کر سلام کہا جائے گا، نیز کیا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بعد از وفات اس طرح سلام بھیجا تھا، نیز ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی وفات کے بعد دیگر صحابہ کرام جیسے عثمان و علی رضی اللہ عنہما نے سلام بھیجا تھا، اور سب سے اہم بات کہ اگر کوئی اس طرح سلام نہ بھیجے تو کیا اس کا حج نامکمل اور نا قابل قبول ہو گا؟
 
Top