محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
حج و عمرہ کا مقصد کیا ہے؟
حج یا عمرے کے سفر میں انسان اپنے رب کے دربار میں جارہا ہوتا ہے۔ دنیا میں اپنے محبوب سے ملنے کے لئے انسان کیسا سج سنور کر تیار ہوتا ہے اور کیسے جوش و جذبے کے ساتھ اس کی طرف جاتا ہے۔ یہاں کائنات کے مالک سے ملنے کے لئے جس کی محبت ایک بندہ مومن کا کل اثاثہ ہے، انسان محض دو چادروں میں ملبوس انتہائی سادگی بلکہ فقیری کے عالم میں حاضری دیتا ہے۔ یہ اپنے رب کریم کے حکم کے آگے محبت سے سر جھکا دینے کا نام ہے۔ اس کی لذت وہی جانتے ہیں جو محبت کرنا جانتے ہوں۔
جھوٹے ترازو سے خداوند کو نفرت ہے مگر صحیح وزن والے باٹ اس کی خوشنودی کا باعث ہیں۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام
اب سے چار ہزار سال قبل سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کے آگے سر جھکاتے ہوئے ایسا ہی ایک سفر کیا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی بیوی ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور ننھے سے اسماعیل علیہ السلام کو اس وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا۔ اسی سر جھکانے کی یاد اب دنیا بھر سے لاکھوں افرادآ آ کر تازہ کرتے ہیں۔
اس سفر کا ترانہ "لبیک" ہے۔ لبیک اللّٰھم لبیک۔ لا شریک لک لبیک۔ ان الحمد و النعمۃ لک و الملک۔ لا شریک لک۔ "میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ، میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بے شک تعریف ،نعمتیں اور بادشاہی تیرے ہی لئے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔" حج یا عمرہ دراصل حاضر ہونے ہی کا نام ہے۔ میرے پیارے اللہ نے مجھے بلایا اور میں چلا آیا۔ اسی کا نام حج اور عمرہ ہے۔
انسان کی یہ خواہش ہے کہ جب وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو تو اس کا رب مجسم صورت میں اس کے سامنے موجود ہو۔ وہ اس کے قدموں سے لپٹے، اس کے ہاتھوں کو چومے، اس کے آگے سر بسجود ہو۔ اسی خواہش کے پیش نظر لوگوں نے اپنے معبودوں کے بت بنائے۔ اصل خدا کو ہم مجسم صورت میں اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی زیارت مقرر کر دی جہاں انسان لپٹ کر اپنے رب کے سامنے فریاد کر سکتا ہے۔ اس کے آگے گڑگڑا سکتا ہے۔ حجر اسود کے بوسے کو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ چومنے کے قائم مقام قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے، لاکھوں لوگوں کے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ اسے باقاعدہ بوسہ دیں، اس لئے ہاتھ سے اشارے کو بوسے کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔
طواف کے چکر دراصل قربانی کے پھیرے ہیں۔ انسان اپنے رب کے حضور خود کو قربانی کے لئے پیش کرتا ہے۔ یہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد ہے۔ رب کا بندہ پروانے کی طرح گھومتا ہوا اپنے رب کے حضور قربان ہونا چاہتا ہے۔ اگر خالصتاً مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ نقصان کا سودا نہیں، اپنی جان کو اپنے رب کے حضور پیش کرکے انسان وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے جس کی قیمت یہ پوری دنیا مل کر بھی ادا نہیں کر سکتی۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
حج یا عمرے کے سفر میں انسان اپنے رب کے دربار میں جارہا ہوتا ہے۔ دنیا میں اپنے محبوب سے ملنے کے لئے انسان کیسا سج سنور کر تیار ہوتا ہے اور کیسے جوش و جذبے کے ساتھ اس کی طرف جاتا ہے۔ یہاں کائنات کے مالک سے ملنے کے لئے جس کی محبت ایک بندہ مومن کا کل اثاثہ ہے، انسان محض دو چادروں میں ملبوس انتہائی سادگی بلکہ فقیری کے عالم میں حاضری دیتا ہے۔ یہ اپنے رب کریم کے حکم کے آگے محبت سے سر جھکا دینے کا نام ہے۔ اس کی لذت وہی جانتے ہیں جو محبت کرنا جانتے ہوں۔
جھوٹے ترازو سے خداوند کو نفرت ہے مگر صحیح وزن والے باٹ اس کی خوشنودی کا باعث ہیں۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام
اب سے چار ہزار سال قبل سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کے آگے سر جھکاتے ہوئے ایسا ہی ایک سفر کیا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی بیوی ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور ننھے سے اسماعیل علیہ السلام کو اس وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا۔ اسی سر جھکانے کی یاد اب دنیا بھر سے لاکھوں افرادآ آ کر تازہ کرتے ہیں۔
اس سفر کا ترانہ "لبیک" ہے۔ لبیک اللّٰھم لبیک۔ لا شریک لک لبیک۔ ان الحمد و النعمۃ لک و الملک۔ لا شریک لک۔ "میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ، میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بے شک تعریف ،نعمتیں اور بادشاہی تیرے ہی لئے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔" حج یا عمرہ دراصل حاضر ہونے ہی کا نام ہے۔ میرے پیارے اللہ نے مجھے بلایا اور میں چلا آیا۔ اسی کا نام حج اور عمرہ ہے۔
انسان کی یہ خواہش ہے کہ جب وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو تو اس کا رب مجسم صورت میں اس کے سامنے موجود ہو۔ وہ اس کے قدموں سے لپٹے، اس کے ہاتھوں کو چومے، اس کے آگے سر بسجود ہو۔ اسی خواہش کے پیش نظر لوگوں نے اپنے معبودوں کے بت بنائے۔ اصل خدا کو ہم مجسم صورت میں اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی زیارت مقرر کر دی جہاں انسان لپٹ کر اپنے رب کے سامنے فریاد کر سکتا ہے۔ اس کے آگے گڑگڑا سکتا ہے۔ حجر اسود کے بوسے کو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ چومنے کے قائم مقام قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے، لاکھوں لوگوں کے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ اسے باقاعدہ بوسہ دیں، اس لئے ہاتھ سے اشارے کو بوسے کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔
طواف کے چکر دراصل قربانی کے پھیرے ہیں۔ انسان اپنے رب کے حضور خود کو قربانی کے لئے پیش کرتا ہے۔ یہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد ہے۔ رب کا بندہ پروانے کی طرح گھومتا ہوا اپنے رب کے حضور قربان ہونا چاہتا ہے۔ اگر خالصتاً مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ نقصان کا سودا نہیں، اپنی جان کو اپنے رب کے حضور پیش کرکے انسان وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے جس کی قیمت یہ پوری دنیا مل کر بھی ادا نہیں کر سکتی۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)