مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 469
- پوائنٹ
- 209
سوال : گاؤں گھر میں رواج ہے کہ حج سے واپسی پہ لوگ حاجی صاحب سے ملنے جاتے ہیں اور ان سے دعا کرواتے ہیں ، لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس وقت حاجی صاحب جو دعا کرتے ہیں اور جس کے لئے بھی کرتے ہیں قبول ہوتی ہے ۔ اس کی کیا حقیقت ہے ؟
سائل : وحیدالزماں سلفى ممبئ
اللہ تعالی یقینا دعاؤں کو قبول کرنے والاہے ، جب بندہ اللہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی کو خالی ہاتھ لوٹانے میں شرم آتی ہے ۔ بندے کو دعا کے آداب بجالاتے ہوئے پروردگار سے دعا کرنی چاہئے اور اس سے دعا کی قبولیت کی امید کرنی چاہئے ۔ مذکورہ بالا سوال کے تحت میں یہ عرض کرنا چاہتاہوں۔
اولا : کسی کو حاجی کہہ کے پکارنے سے ریاونمود ٹپکتی ہے ، سننے والے کی طبیعت میں عبادت کا کبر و غرور پیداہوسکتا ہے اس وجہ سے کسی حج کرنے والے کو حاجی کے لقب سے پکارنا صحیح نہیں ہے ۔ حج ایک اہم عبادت ہے اس کو خالص اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہئے ۔ نبی ﷺ نے حج کیا کسی کتاب میں آپ ﷺ کے متعلق حاجی کا لفظ نہیں آیا جبکہ آپ جیساحج مبرور کس کا ہوگا؟ اس کے علاوہ صحابہ کرام نے حج کیا کسی صحابی کو حاجی نہیں کہاجاتا۔ آج بھی عرب میں رہنے والے کئی کئی مرتبہ حج کرتے ہیں مگر کسی کو حاجی نہیں کہاجاتا۔ یہ وہ خوشنما لقب ہے جس کے ذریعہ نہ صرف حج میں کبروفساد کا دخول ممکن ہے بلکہ دیگر اعمال و عبادات پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے ۔
ثانیا: کسی کے حج واپسی پہ ملنے کے وقت بطور خاص دعا کروانے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے ۔ پھر یہ عقیدہ رکھنا کہ اس وقت ان سے دعا کرانے پہ دعاقبول ہوتی ہے غلط عقیدہ ہے ۔ اس سلسلے میں میری یہ نصیحت ہے ۔
٭کہ حج کرنے والا بھی اللہ کے حضور اپنے اعمال اور دعا کی قبولیت کا محتاج ہے ۔ خصوصا دین اسلام کی اہم عبادت کی انجام دہی کرکے آیا ہے وہ زیادہ مستحق ہے کہ ان کے حج کی قبولیت کے لئے دعا کی جائے تاکہ ان کی محنت، روپیہ پیسہ اور وقت ضائع وبرباد نہ ہو۔
٭کہ کسی زندہ آدمی (خواہ حج کرنے والاہو، یا نمازپڑھنے والا یا روزہ رکھنے والاہوخواہ کوئی بھی اچھا مسلمان ہو)سے دعا کروانا جائزہے مگر اس کے لئے کوئی تاریخ اور وقت متعین کرناجس کی شریعت سے دلیل نہیں ملتی بدعت کے زمرے میں داخل ہے ۔
٭ کہ کسی زندہ آدمی سے دعا کراکر اللہ تعالی سے قبولیت کی امید کرنی چاہئے نہ کسی صاحب جاہ ومرتبہ سے ۔
اللہ تعالی ہمارے حال کی اصلاح فرمائے ۔آمین
کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی اسلامی سنٹر ،طائف
سائل : وحیدالزماں سلفى ممبئ
اللہ تعالی یقینا دعاؤں کو قبول کرنے والاہے ، جب بندہ اللہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی کو خالی ہاتھ لوٹانے میں شرم آتی ہے ۔ بندے کو دعا کے آداب بجالاتے ہوئے پروردگار سے دعا کرنی چاہئے اور اس سے دعا کی قبولیت کی امید کرنی چاہئے ۔ مذکورہ بالا سوال کے تحت میں یہ عرض کرنا چاہتاہوں۔
اولا : کسی کو حاجی کہہ کے پکارنے سے ریاونمود ٹپکتی ہے ، سننے والے کی طبیعت میں عبادت کا کبر و غرور پیداہوسکتا ہے اس وجہ سے کسی حج کرنے والے کو حاجی کے لقب سے پکارنا صحیح نہیں ہے ۔ حج ایک اہم عبادت ہے اس کو خالص اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہئے ۔ نبی ﷺ نے حج کیا کسی کتاب میں آپ ﷺ کے متعلق حاجی کا لفظ نہیں آیا جبکہ آپ جیساحج مبرور کس کا ہوگا؟ اس کے علاوہ صحابہ کرام نے حج کیا کسی صحابی کو حاجی نہیں کہاجاتا۔ آج بھی عرب میں رہنے والے کئی کئی مرتبہ حج کرتے ہیں مگر کسی کو حاجی نہیں کہاجاتا۔ یہ وہ خوشنما لقب ہے جس کے ذریعہ نہ صرف حج میں کبروفساد کا دخول ممکن ہے بلکہ دیگر اعمال و عبادات پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے ۔
ثانیا: کسی کے حج واپسی پہ ملنے کے وقت بطور خاص دعا کروانے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے ۔ پھر یہ عقیدہ رکھنا کہ اس وقت ان سے دعا کرانے پہ دعاقبول ہوتی ہے غلط عقیدہ ہے ۔ اس سلسلے میں میری یہ نصیحت ہے ۔
٭کہ حج کرنے والا بھی اللہ کے حضور اپنے اعمال اور دعا کی قبولیت کا محتاج ہے ۔ خصوصا دین اسلام کی اہم عبادت کی انجام دہی کرکے آیا ہے وہ زیادہ مستحق ہے کہ ان کے حج کی قبولیت کے لئے دعا کی جائے تاکہ ان کی محنت، روپیہ پیسہ اور وقت ضائع وبرباد نہ ہو۔
٭کہ کسی زندہ آدمی (خواہ حج کرنے والاہو، یا نمازپڑھنے والا یا روزہ رکھنے والاہوخواہ کوئی بھی اچھا مسلمان ہو)سے دعا کروانا جائزہے مگر اس کے لئے کوئی تاریخ اور وقت متعین کرناجس کی شریعت سے دلیل نہیں ملتی بدعت کے زمرے میں داخل ہے ۔
٭ کہ کسی زندہ آدمی سے دعا کراکر اللہ تعالی سے قبولیت کی امید کرنی چاہئے نہ کسی صاحب جاہ ومرتبہ سے ۔
اللہ تعالی ہمارے حال کی اصلاح فرمائے ۔آمین
کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی اسلامی سنٹر ،طائف