• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدود اللہ کی عظمت تو جانور بھی پہچانتے ہیں

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شذرات من الذھب

حدود اللہ کی عظمت تو جانور بھی پہچانتے ہیں

قاری عبدالھادی

بشکریہ: ماخذ مجلۂ حطین، شمارہ ۷

حافظ ابن عساکر اپنی کتاب ’’تاریخ دمشق‘‘ میں ایک انوکھا اور سبق آموز واقعہ نقل کرتے ہیں۔ سیدنا ابو عبداللہ عمرو بن میمون الاَودِی رحمہ اللہ کا شمار اکابر تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے زہد وتقوی کے سبب معروف تھے۔ آپ کی وفات سن ۷۴ہجری میں ہوئی۔ ایک دن کوفہ کی ایک مسجد میں لوگ آپ کے گرد اکھٹے تھے۔ مجلس میں موجود ایک شخص نے پوچھا کہ دورِ جاہلیت میں آپ کے ساتھ سب سے عجیب واقعہ کیا پیش آیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”دورِ جاہلیت میں میرے ساتھ سب سے عجیب معاملہ یہ پیش آیا کہ میں نے انسانوں کے سوا بھی کسی مخلوق کو رجم (سنگساری) کی سزا پر عمل کرتے دیکھا۔ معاملہ یوں ہوا کہ میرے گھروالوں نے مجھے کھجوروں کے باغ کی حفاظت پر مامور کر رکھا تھا تاکہ میں بندروں کو باغ خراب نہ کرنے دوں۔ ایک دن میں باغ میں ہی تھا کہ اچانک کچھ بندر نمودار ہوئے؛ کچھ درختوں پر چڑھ گئے اور کچھ آرام کرنے کے لیے باغ ہی میں اِدھر اْدھر بکھر گئے۔ اتنے میں ایک بندر اور بندریا آئے اور آرام کرنے کے لیے اکٹھے لیٹ گئے، بندریا نے بندر کے سر کے نیچے ہاتھ رکھا اور وہ اس پر سر رکھ کر گہری نیند سو گیا۔ اسے سوتا دیکھ کر، ایک اور بندر اس بندریا کے قریب آیا اور اسے چٹکی کاٹی۔ بندریا نے نہایت آہستگی سے پہلے بندر کے سر کے نیچے سے ہاتھ نکالا اور دوسرے بندر کے ساتھ چل پڑی۔ دونوں نے کچھ دور جا کر باہم مجامعت کی۔

میں یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ پھر بندریا واپس پہلے بندر کے پاس لوٹی اور دوبارہ آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے سر کے نیچے گھسانا چاہا، لیکن اس کی آنکھ کھل گئی۔ بندر کو کچھ شک ہوا اور اس نے بندریا کو سونگھا، اور سونگھنے کے بعد زور زور سے چلاّنے لگا۔ اس کی آواز سن کر سب بندر جمع ہوگئے۔ پھر ان میں سے ایک ان کے درمیان یوں کھڑا ہوا گویا وہ کوئی خطبہ دے رہا ہو۔ پھر وہ سب اس بندر کی تلاش میں نکل پڑے جو بندریا کے پاس آیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے پکڑ کر لے آئے اور میں بھی اسے پہچان گیا۔ پھر سب بندروں نے مل کر ان دونوں کے لیے گڑھے کھودے اور انہیں سنگسار کر کے مار ڈالا“!

جبکہ دوسری روایت میں آتا ہے کہ آپ نے یہ واقعہ سنا کر فرمایا:

’’اللہ کی قسم! میں نے رجم کی سزا دیکھی، حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث بھی نہیں فرمایا تھا‘‘۔

پس ہلاکت ہو جانوروں سے بھی بدتر ان انسانوں کے لیے؛ ان صحافیوں، کالم نگاروں اور ’حقوقِ انسانی‘ کے علمبرداروں کے لیے جو اس دین ِ فطرت کی مقرر کردہ حدود پر معترض ہوتے ہیں، اور انہیں ’وحشیانہ سزائیں‘ اور ’دقیانوسی قوانین‘ قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ بندر وہ جانور ہے جو اپنی شہوت پرستی کے سبب بدنام ہے۔ عربی زبان میں کسی شخص کی بدکرداری ظاہر کرنی ہو تو یہ مثال دی جاتی ہے کہ ”فلان أزنی من القرد“ یعنی یہ کہ فلاں تو بندر سے بھی زیادہ بدکار ہے۔ لیکن اس کے باوجود بندروں کے یہاں بھی کچھ فطری اخلاقیات پائی جاتی ہیں، جن کی مخالفت کرنے پر وہ بھی سخت سزا دیتے ہیں۔ پس اسلام کی مقرر کردہ حدود اور سزاؤں پر وہی انسان نما چوپائے معترض ہوسکتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ انسانی معاشرہ ہر قسم کے اخلاق وآداب سے عاری ہو جائے، کسی کی عزت وعفت کے لیے کوئی حرمت باقی نہ بچے اور وہ جانوروں کی طرح، یا شاید ان سے بھی بڑھ کر، جہاں چاہیں جیسے چاہیں اپنی شہوات پوری کرتے پھریں۔ یقیناً اسلام ایسی فاسد تہذیب (بدتہذیبی) کو ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ اسلام تو عزتوں وعصمتوں کا محافظ ہے اور اولادِ آدم علیہ السلام کے شایانِ شان، اعلیٰ اخلاق سے آراستہ ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے۔

پی ڈی ایف،یونی کوڈ
Zip Format
http://www.box.com/s/63eeb5aa1eb74028eb58

پی ڈی ایف
http://www.box.com/s/69f4c41b763f63bd92f0

یونی کوڈ (ورڈ)
http://www.box.com/s/610a84f99b64f192f520

انصار اللہ اردو​
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اسلام کی مقرر کردہ حدود بھی درست اور ان حدود کی پامالی کرنے والے بھی گناہ گار ، یہ بھی درست۔ لیکن ان حدود کی پامالی پر انہیں سزا دینے کا اختیار ریاست کا ہے یا ہر مسلمان پر حسب استطاعت فرض ہے؟

میرے گھر میں چوری ہوئی۔ یہ بھی حقیقت۔
چور کی سزا شریعت میں ہاتھ کاٹنا ہے۔ یہ بھی تسلیم۔

لیکن اس چور کے ہاتھ کاٹنے کا اختیار بھی مجھے حاصل ہے، اس پر کوئی کیوں بات نہیں کرتا؟
جسے دیکھیں وہی حدود کی پامالی پر جذباتی تقاریر کر کے مسلمانوں کے ہاتھوں کو مسلمانوں ہی کے خون سے رنگین کرنے کی تبلیغ میں مصروف ہے۔

کسی کلمہ گو مسلم کی جان لیتے وقت حدود کی پاسداری کہاں چلی جاتی ہے؟
 
Top