• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ’’نیک خواب نبوت کے چھیالیسویں حصے میں سے ایک حصہ ہے‘‘ پر اعتراض

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اعتراض:


امام بخاری رحمت اللہ علیہ اپنی صحیح میں حدیث ذکر فرماتے ہیں:
’’انہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: الرؤیا الصالحة جزء من ستة واٴربعین جزءاً من النبوة‘‘ (کتاب التفسیر ، رقم: ۶۹۸۹)
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :نیک خواب نبوت کے چھیالیسویں حصوں میں سے ایک ہے۔‘‘
اس حدیث پر منکرین حدیث نے اعتراض چسپاں کیا کہ قرآن کریم کی رو سے نبوت ختم ہو چکی ہے، اگر اس حدیث کو مان لیں تو آج بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہو اہے۔ کیونکہ اگر ایک محل میں جانے کے بیس یا چالیس دروازے ہوں اور سب بند ہوں سوائے ایک کے تو یہ بھی محل ہی کا رستہ کہلائے گا۔
جواب:


مذکورہ حدیث سنداً بالکل صحیح ہے اس میں کوئی غبار نہیں ، غبار تو ان لوگوں کے ذہنوں میں ہے جو صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں۔
قارئین کرام! احادیث کے مجموعے میں واضح طور پر نبوت کے ختم ہونے پر دلائل و براہین موجود ہیں، جہاں تک بات اس حدیث کی رہی کہ نیک خواب نبوت کے چھیالیسویں حصوں کا ایک حصہ تو اس سے ہر گز نبوت ثابت نہیں ہوتی۔ اس حدیث سے مراد صرف یہ ہے کہ قیامت تک ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ اچھے خواب کے ذریعے سے خوشخبری دے گا۔ حدیث سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس خواب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنائے گا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ نبوت کے لیے یہ تمام چھیالیس حصے شرط ہیں کہ تمام کے تمام اقسام نبی کو میسر آئیں جس میں سے جبرئیل علیہ سلام کا آنا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبرئل کو دیکھنا، اللہ تعالیٰ کا کلام اتارنا، وحی کا نزول ، وحی خفی ہو یا وحی جلی ، اللہ تعالیٰ کا اس نبی پر الہام کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا (مزید وضاحت کے لیے دیکھے : فتح الباری، جلد۱۲، صفحہ ۴۵۴) الغرض کئی شرائط ہیں ۔ نبی بننے کی اور نبی کے مرتبے پر فائز ہونے کی لہٰذا صرف خواب سے کوئی نبی نہیں بن سکتا۔ معترضین کی بات تو ایسی ہے کہ ایک آدمی کسی کو انجکشن لگاتا ہے تو اسے کیا ہم (M.B.B.S) ڈاکٹر کہیں گے ۔ ہر گز نہیں، ہم جانتے ہیں کہ انجکشن لگانا میڈیکل کے شعبے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے مگر صرف انجکشن سے کوئی ڈاکٹر نہیں بنتا اور اگر کوئی اسے ڈاکٹر کہے تو وہ شخص باولےپن کا علاج کروائے۔
بعینہ اسی طرح سے اگر کوئی نیک خواب دیکھتا ہے تو اس کا نبی ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ اس نیک خواب کو وہ اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کا شکر بجا لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں اپنے اوقات گزارے۔ اس میں سب سے بڑی ضروری اور اہم بات یہ بھی ہے کہ انبیاء oکو جو خواب دکھائے جاتے ہیں ان خوابوں کو وحی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بات نص صریح سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو خواب کے ذریعے سے بھی حکم دیتا ہے اور نبی کے خواب وحی ہوا کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ سلام کے واقعہ کو قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے:
﴿ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ فَبَشَّرْنٰھُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَھُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَا۬ئَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصافات: ۱۰۲-۹۹)
ترجمہ: ’’انھوں نے ابراہیم کے خلاف تدبیر کی مگر ہم نے انھیں نیچا دکھایا۔ نیز ابراہیم نے کہا: میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کرے گا، اے میرے رب! مجھے صالح (بیٹا) عطا فرما، چنانچہ ہم نے انھیںبردبار بیٹے کی بشارت دی پھر جب وہ بیٹا ان کے ہمراہ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں۔ اب بتلاؤ تمھاری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘
اب اگر کوئی شخص نیک خواب دیکھتا ہے تو وہ صحیح بھی ہوتا اور بسا اوقات غلط بھی ہو جایا کرتا ہے۔ کیونکہ اس صالح بندے کا خواب قطعاً وحی نہیں ہوتا۔ امام الزرقانی رحمت اللہ علیہ نے اپنی شرح میں ایک بڑا بہترین واقعہ ذکر فرمایا ہے، جس کا تعلق ہماری گفتگو سے ہے:
’’ان رجلا راٴی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی النوم فقال ل: اذھب الی موضع کذا فاحفرہ فان فیہ رکازاً فخذہ لک ولا خمس علیک فیہ، فلما اصبح ذھب الی ذالک الموضع فحفرہ فوجد الرکاز فیہ فاستفتی علماء عصرہ فاٴفتوہ باٴنہ لا خمس علیہ لصحة الرؤیا، واٴفتی العز بن عبدالسلام باٴن علیہ الخمس، وقال، وقال اٴکثر ما ینزل منامہ منزلة حدیث روی باسناد صحیح، وقد عارضہ ما ھو اٴصح منہ وھو حدیث الرکاز‘‘ (شرح الزرقانی، ج۲، ص۱۳۹)
ترجمہ: ’’ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ فلاح جگہ پر جاؤ اور اس کو کھو دو اس میں رکاز j[1] کا مال ہے اس کو لے لو اور اس مال پر خمس نہیں ہے۔ جب صبح ہوئی تو اس شخص نے اسی جگہ کو کھودا تو رکا زکا مال پایا، تو اس نے علما عصر سے فتوی مانگا تو علما نے فرمایا کہ تم پر اس مال پر خمس نہیں ہے، اس خواب کی صحت کی وجہ سے، پھر فتوی مانگا گیا عز بن عبدالسلام سے تو آپ نے جواب دیا کہ اس پر خمس ہوگا (کیونکہ کسی آدمی کے خواب سے شریعت ثابت نہیں ہوتی، صحیح حدیث میں خمس دینے کا ذکر ہے۔ لہٰذا آپ کو خمس ادا کرنا ہوگا۔)‘‘
یہ واقعہ صاف اس مسئلہ پر دال ہے کہ کسی کا خواب شریعت نہیں بن سکتا شریعت کا تعلق صرف نبی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ ایک اور مثال:
فرض کریں کہ کسی جگہ کوئی شخص یہ کلمہ ادا کرتا ہے کہ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ تو کیا آپ اس کلمے کو سننے کے بعد یہ کہیں گے کہ اذان دی جا رہی ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ اذان کا تعلق اس کے وقت کے ساتھ اور اس کے مکمل جملوں کے ساتھ خاص ہے۔
بعینہ اسی طرح سے اگر کوئی شخص (آدمی) اچھا خواب دیکھتا ہے تو وہ خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ جس طرح سے اذان کے کچھ کلمات کہنے ولاا موذن نہیں ہو سکتا، یا جیسے کوئی بھی انجکشن لگانے والا ڈاکٹر نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ کو قیامت تک کے لیے صاف فرما دیا کہ نبوت اور رسالت کا قیامت تک کے لیے سلسلہ ختم کر دیا گیا تاکہ کوئی شخص کسی بھی اعتبار سے کسی صحیح حدیث کا غلط معنی نہ اختیار کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:


’’ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی قال: فشق ذالک علی الناس فقال لکن المبشرات قالوا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وما المبشرات؟ قال: رؤیا المسلم وھی جزء من اجزاء النبوة‘‘
(جامع الترمذی، ج۶، رقم الحدیث ۲۲۷۲)

ترجمہ: ’’یقیناً رسالت اور نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ پس اب نہ کوئی رسول آئے گا نہ ہی کوئی نبی آئے گا۔ یہ بات لوگوں پر شاق گزری تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لیکن مبشرات باقی ہیں، تو کہا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلم کا خواب دیکھنا یہ نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے( نبوت ختم ہو چکی ہے، لہٰذا خواب کے ذریعے اب کوئی نبی یا رسول نہیں بن سکتا)۔‘‘
امام الطحاوی فرماتے ہیں:



’’فدل ذالک ان الرؤیا انما ھی من مبشرات النبوة اٴی: مما یبشرہ زو والنبوة من اتبعھا علی ما ھی علیہ لا اٴنھا نفسھا نبوة‘‘
(تحفة الاٴخیار بترتیب شرح مشکل الآثار، ج۶، ص۱۶)

یعنی امام طحاوی نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا کہ نیک خواب دراصل ان لوگوں کو دکھائے جاتے ہیں جو نبوت کی اتباع کرنے والے ہوتے ہیں۔ دراصل یہ اپنی ذات کے اعتبار سے نبوت نہیں ہے۔
لہٰذا نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے اور حدیث خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اس کا تعلق خوشخبری کے ساتھ ہے۔

jرکاز کا مال اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی زمین سے کھود کر نکالا جائے یعنی جو زمین میں دفن ہو۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
حدیث خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے
یہ حدیث اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ رؤیائے صالحہ اتنے سچے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک نبی کا قول سچا ہوتا ہے اب چونکہ کہ نبوت تو ختم ہوگئی اس لیے کسی خاص امر کی اطلاع من جانب اللہ کیسے حاصل ہو ۔وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا اور جب کہ وحی یہ خاص ہے انبیاء ورسل کے ساتھ البتہ ’’الہام‘‘ ’’القاء‘‘’’کشف‘‘ اور رؤیائے صالحہ سے اللہ کے نیک بندوں کو اطلاع دی جاتی ہے ۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو وحی کا لفظ غیر نبی پر بھی استعمال ہوا ہے جیسے :
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْہِ۝۰ۚ
اور ہم نے موسٰی کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ
اور اسی طرح وحی کا لفظ غیر انسان پر بھی استعمال ہوا
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا
تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ نبی ہوگئیں یا شہد کی مکھی نبی ہوگئی
اور وحی کی ابتدا بھی رؤیائے صالحہ سے ہوئی اورآپ کی آمد یا ولادت کے بارے میں کافی لوگوں کو رؤیائے صالحہ دکھائے گئے ۔تو معلوم ہوا کہ یہ فرمان
خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے
اس سے مراد خواب کی صحت ہے نہ کہ نبوت ۔فقظ واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
یہ حدیث اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ رؤیائے صالحہ اتنے سچے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک نبی کا قول سچا ہوتا ہے اب چونکہ کہ نبوت تو ختم ہوگئی اس لیے کسی خاص امر کی اطلاع من جانب اللہ کیسے حاصل ہو ۔وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا اور جب کہ وحی یہ خاص ہے انبیاء ورسل کے ساتھ البتہ ’’الہام‘‘ ’’القاء‘‘’’کشف‘‘ اور رؤیائے صالحہ سے اللہ کے نیک بندوں کو اطلاع دی جاتی ہے ۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو وحی کا لفظ غیر نبی پر بھی استعمال ہوا ہے جیسے :
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْہِ۝۰ۚ
اور ہم نے موسٰی کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ
اور اسی طرح وحی کا لفظ غیر انسان پر بھی استعمال ہوا
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا
تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ نبی ہوگئیں یا شہد کی مکھی نبی ہوگئی
اور وحی کی ابتدا بھی رؤیائے صالحہ سے ہوئی اورآپ کی آمد یا ولادت کے بارے میں کافی لوگوں کو رؤیائے صالحہ دکھائے گئے ۔تو معلوم ہوا کہ یہ فرمان

اس سے مراد خواب کی صحت ہے نہ کہ نبوت ۔فقظ واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ خیر
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447

اعتراض:


امام بخاری رحمت اللہ علیہ اپنی صحیح میں حدیث ذکر فرماتے ہیں:
’’انہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: الرؤیا الصالحة جزء من ستة واٴربعین جزءاً من النبوة‘‘ (کتاب التفسیر ، رقم: ۶۹۸۹)
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :نیک خواب نبوت کے چھیالیسویں حصوں میں سے ایک ہے۔‘‘
اس حدیث پر منکرین حدیث نے اعتراض چسپاں کیا کہ قرآن کریم کی رو سے نبوت ختم ہو چکی ہے، اگر اس حدیث کو مان لیں تو آج بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہو اہے۔ کیونکہ اگر ایک محل میں جانے کے بیس یا چالیس دروازے ہوں اور سب بند ہوں سوائے ایک کے تو یہ بھی محل ہی کا رستہ کہلائے گا۔
جواب:


مذکورہ حدیث سنداً بالکل صحیح ہے اس میں کوئی غبار نہیں ، غبار تو ان لوگوں کے ذہنوں میں ہے جو صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں۔
قارئین کرام! احادیث کے مجموعے میں واضح طور پر نبوت کے ختم ہونے پر دلائل و براہین موجود ہیں، جہاں تک بات اس حدیث کی رہی کہ نیک خواب نبوت کے چھیالیسویں حصوں کا ایک حصہ تو اس سے ہر گز نبوت ثابت نہیں ہوتی۔ اس حدیث سے مراد صرف یہ ہے کہ قیامت تک ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ اچھے خواب کے ذریعے سے خوشخبری دے گا۔ حدیث سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس خواب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنائے گا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ نبوت کے لیے یہ تمام چھیالیس حصے شرط ہیں کہ تمام کے تمام اقسام نبی کو میسر آئیں جس میں سے جبرئیل علیہ سلام کا آنا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبرئل کو دیکھنا، اللہ تعالیٰ کا کلام اتارنا، وحی کا نزول ، وحی خفی ہو یا وحی جلی ، اللہ تعالیٰ کا اس نبی پر الہام کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا (مزید وضاحت کے لیے دیکھے : فتح الباری، جلد۱۲، صفحہ ۴۵۴) الغرض کئی شرائط ہیں ۔ نبی بننے کی اور نبی کے مرتبے پر فائز ہونے کی لہٰذا صرف خواب سے کوئی نبی نہیں بن سکتا۔ معترضین کی بات تو ایسی ہے کہ ایک آدمی کسی کو انجکشن لگاتا ہے تو اسے کیا ہم (M.B.B.S) ڈاکٹر کہیں گے ۔ ہر گز نہیں، ہم جانتے ہیں کہ انجکشن لگانا میڈیکل کے شعبے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے مگر صرف انجکشن سے کوئی ڈاکٹر نہیں بنتا اور اگر کوئی اسے ڈاکٹر کہے تو وہ شخص باولےپن کا علاج کروائے۔
بعینہ اسی طرح سے اگر کوئی نیک خواب دیکھتا ہے تو اس کا نبی ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ اس نیک خواب کو وہ اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کا شکر بجا لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں اپنے اوقات گزارے۔ اس میں سب سے بڑی ضروری اور اہم بات یہ بھی ہے کہ انبیاء oکو جو خواب دکھائے جاتے ہیں ان خوابوں کو وحی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بات نص صریح سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو خواب کے ذریعے سے بھی حکم دیتا ہے اور نبی کے خواب وحی ہوا کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ سلام کے واقعہ کو قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے:
﴿ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ فَبَشَّرْنٰھُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَھُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَا۬ئَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصافات: ۱۰۲-۹۹)
ترجمہ: ’’انھوں نے ابراہیم کے خلاف تدبیر کی مگر ہم نے انھیں نیچا دکھایا۔ نیز ابراہیم نے کہا: میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کرے گا، اے میرے رب! مجھے صالح (بیٹا) عطا فرما، چنانچہ ہم نے انھیںبردبار بیٹے کی بشارت دی پھر جب وہ بیٹا ان کے ہمراہ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں۔ اب بتلاؤ تمھاری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘
اب اگر کوئی شخص نیک خواب دیکھتا ہے تو وہ صحیح بھی ہوتا اور بسا اوقات غلط بھی ہو جایا کرتا ہے۔ کیونکہ اس صالح بندے کا خواب قطعاً وحی نہیں ہوتا۔ امام الزرقانی رحمت اللہ علیہ نے اپنی شرح میں ایک بڑا بہترین واقعہ ذکر فرمایا ہے، جس کا تعلق ہماری گفتگو سے ہے:
’’ان رجلا راٴی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی النوم فقال ل: اذھب الی موضع کذا فاحفرہ فان فیہ رکازاً فخذہ لک ولا خمس علیک فیہ، فلما اصبح ذھب الی ذالک الموضع فحفرہ فوجد الرکاز فیہ فاستفتی علماء عصرہ فاٴفتوہ باٴنہ لا خمس علیہ لصحة الرؤیا، واٴفتی العز بن عبدالسلام باٴن علیہ الخمس، وقال، وقال اٴکثر ما ینزل منامہ منزلة حدیث روی باسناد صحیح، وقد عارضہ ما ھو اٴصح منہ وھو حدیث الرکاز‘‘ (شرح الزرقانی، ج۲، ص۱۳۹)
ترجمہ: ’’ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ فلاح جگہ پر جاؤ اور اس کو کھو دو اس میں رکاز j[1] کا مال ہے اس کو لے لو اور اس مال پر خمس نہیں ہے۔ جب صبح ہوئی تو اس شخص نے اسی جگہ کو کھودا تو رکا زکا مال پایا، تو اس نے علما عصر سے فتوی مانگا تو علما نے فرمایا کہ تم پر اس مال پر خمس نہیں ہے، اس خواب کی صحت کی وجہ سے، پھر فتوی مانگا گیا عز بن عبدالسلام سے تو آپ نے جواب دیا کہ اس پر خمس ہوگا (کیونکہ کسی آدمی کے خواب سے شریعت ثابت نہیں ہوتی، صحیح حدیث میں خمس دینے کا ذکر ہے۔ لہٰذا آپ کو خمس ادا کرنا ہوگا۔)‘‘
یہ واقعہ صاف اس مسئلہ پر دال ہے کہ کسی کا خواب شریعت نہیں بن سکتا شریعت کا تعلق صرف نبی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ ایک اور مثال:
فرض کریں کہ کسی جگہ کوئی شخص یہ کلمہ ادا کرتا ہے کہ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ تو کیا آپ اس کلمے کو سننے کے بعد یہ کہیں گے کہ اذان دی جا رہی ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ اذان کا تعلق اس کے وقت کے ساتھ اور اس کے مکمل جملوں کے ساتھ خاص ہے۔
بعینہ اسی طرح سے اگر کوئی شخص (آدمی) اچھا خواب دیکھتا ہے تو وہ خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ جس طرح سے اذان کے کچھ کلمات کہنے ولاا موذن نہیں ہو سکتا، یا جیسے کوئی بھی انجکشن لگانے والا ڈاکٹر نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ کو قیامت تک کے لیے صاف فرما دیا کہ نبوت اور رسالت کا قیامت تک کے لیے سلسلہ ختم کر دیا گیا تاکہ کوئی شخص کسی بھی اعتبار سے کسی صحیح حدیث کا غلط معنی نہ اختیار کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:


’’ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی قال: فشق ذالک علی الناس فقال لکن المبشرات قالوا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وما المبشرات؟ قال: رؤیا المسلم وھی جزء من اجزاء النبوة‘‘
(جامع الترمذی، ج۶، رقم الحدیث ۲۲۷۲)

ترجمہ: ’’یقیناً رسالت اور نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ پس اب نہ کوئی رسول آئے گا نہ ہی کوئی نبی آئے گا۔ یہ بات لوگوں پر شاق گزری تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لیکن مبشرات باقی ہیں، تو کہا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلم کا خواب دیکھنا یہ نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے( نبوت ختم ہو چکی ہے، لہٰذا خواب کے ذریعے اب کوئی نبی یا رسول نہیں بن سکتا)۔‘‘
امام الطحاوی فرماتے ہیں:



’’فدل ذالک ان الرؤیا انما ھی من مبشرات النبوة اٴی: مما یبشرہ زو والنبوة من اتبعھا علی ما ھی علیہ لا اٴنھا نفسھا نبوة‘‘
(تحفة الاٴخیار بترتیب شرح مشکل الآثار، ج۶، ص۱۶)

یعنی امام طحاوی نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا کہ نیک خواب دراصل ان لوگوں کو دکھائے جاتے ہیں جو نبوت کی اتباع کرنے والے ہوتے ہیں۔ دراصل یہ اپنی ذات کے اعتبار سے نبوت نہیں ہے۔
لہٰذا نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے اور حدیث خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اس کا تعلق خوشخبری کے ساتھ ہے۔

jرکاز کا مال اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی زمین سے کھود کر نکالا جائے یعنی جو زمین میں دفن ہو۔
جزاک اللہ خیرا
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
منکرین حدیث کا یہ سوال منکرین تصوف کی طرح کا ہے ،جیسے منکرین تصوف کہتے ہیں کہ وحی کےعلاوہ اطلاع عن الغیب نہیں ہو سکتی، جہلا کی آپس میں مشابہت ہوتی ہے۔ماشا اللہ مفتی صاحب اور محترمہ نے بہترین جواب دیئے ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
منکرین حدیث کا یہ سوال منکرین تصوف کی طرح کا ہے ،جیسے منکرین تصوف کہتے ہیں کہ وہی کےعلاوہ اطلاع عن الغیب نہیں ہو سکتی، جہلا کی آپس میں مشابہت ہوتی ہے۔ماشا اللہ مفتی صاحب اور محترمہ نے بہترین جواب دیئے ۔
السلام علیکم
جزاک اللہ خیراً
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
منکرین حدیث کا یہ سوال منکرین تصوف کی طرح کا ہے ،جیسے منکرین تصوف کہتے ہیں کہ وحی کےعلاوہ اطلاع عن الغیب نہیں ہو سکتی، جہلا کی آپس میں مشابہت ہوتی ہے۔ماشا اللہ مفتی صاحب اور محترمہ نے بہترین جواب دیئے ۔
اسلام و علیکم -

صحیح بخاری جلد دوئم میں ہے کہ حضرت عبّاس رضی الله عنہ نے ابو لہب (جس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا ...خواب میں بڑی بری حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ تیرا کیا حال ہے - کہنے لگا جب سے تم سے جدا ہوا ہوں بڑی مصیبت میں ہوں- بس ہفتے میں ایک دن (پیر والے دن) ایک انگلی سیراب کی جاتی ہے - جس کے ذریے میں نے اپنے بھتیجے محمّد بن عبدللہ (نبی کریم صل الله علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا -

ہمارے ہاں اہل بدعت اس حدیث کو عید میلاد النبی صل الله علیہ وسلم منانے کے جواز میں پیش کرتے ہیں -کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا اہل تصوف کے خواب اور الہامات روز مرہ کی زندگی میں دین اور دنیوی معاملات میں جواز بن سکتے ہیں- اور کیا اہل تصوف کے خوابوں کی بنیاد پر غیبی معاملات پر ا عتبا ر کیا جا سکتا ہے -یا دین کا حصّہ بنایا جا سکتا ہے ؟؟؟
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
اسلام و علیکم -

صحیح بخاری جلد دوئم میں ہے کہ حضرت عبّاس رضی الله عنہ نے ابو لہب (جس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا ...خواب میں بڑی بری حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ تیرا کیا حال ہے - کہنے لگا جب سے تم سے جدا ہوا ہوں بڑی مصیبت میں ہوں- بس ہفتے میں ایک دن (پیر والے دن) ایک انگلی سیراب کی جاتی ہے - جس کے ذریے میں نے اپنے بھتیجے محمّد بن عبدللہ (نبی کریم صل الله علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا -

ہمارے ہاں اہل بدعت اس حدیث کو عید میلاد النبی صل الله علیہ وسلم منانے کے جواز میں پیش کرتے ہیں -کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا اہل تصوف کے خواب اور الہامات روز مرہ کی زندگی میں دین اور دنیوی معاملات میں جواز بن سکتے ہیں- اور کیا اہل تصوف کے خوابوں کی بنیاد پر غیبی معاملات پر ا عتبا ر کیا جا سکتا ہے -یا دین کا حصّہ بنایا جا سکتا ہے ؟؟؟
آپ اس دھاگے کا باغور مطالعہ فرمائیں ،آپکی بات کا اس میں جواب مل جائے گا۔
کشف کی حقیقت
 
Top