• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث: "أفضل الإسلام الحنيفية السمحة"

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا، "کون سا دین اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟" آپ نے فرمایا: "الحنيفية السمحة

حکم: ((حسن صحیح)) یعنی اسنادہ حسن والحدیث صحیح

تخریج:
أخرجه أحمد
(2107) – ومن طريقه الضياء المقدسي في المختارة (372) – وعبد بن حميد (569) ، والبخاري في "الأدب المفرد" (287)، والطبراني في الكبير (11/227 ح 11572)، وابن المنذر في تفسيره (710) عن يزيد بن هارون، وأخرجه البزار (كشف الأستار: 78) عن عبد الأعلي بن عبد الأعلي كلاهما عن محمد بن إسحاق، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أي الأديان أحب إلى الله؟ – وفي رواية البزار: "أي الإسلام أو أي الإيمان أفضل؟" – قال: «الحنيفية السمحة»

یہ سند حسن ہے۔ البتہ بعض علماء نے اس سند کو محمد بن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ بوصیری فرماتے ہیں: "هذا إسناد ضعيف لتدليس محمد بن إسحاق" (اتحاف الخیرہ: 1/115)۔ اسی طرح علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: "رواه أحمد والطبراني في الكبير والأوسط، والبزار، وفيه ابن إسحاق، وهو مدلس ولم يصرح بالسماع" (مجمع الزوائد: 1/60)۔ اسی طرح حافظ عراقی اور ابن مفلح اور ان کے پیچھے امام البانی اور شیخ شعیب الارناؤط نے بھی اس سند کو ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دے دیا۔

حالانکہ ابن المنذر کی روایت میں محمد بن اسحاق نے "
أخبرنا داود بن الحصين" کہہ کر سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا تدلیس کا الزام رفع ہوا، اس لئے یہ سند حسن بنتی ہے لیکن شاید مذکورہ بالا علماء کو ابن المنذر کی اس روایت کا علم نہ ہوا ہو گا اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔
امام بخاری نے یہ روایت صحیح بخاری (1/93) میں تعلیقا روایت کی ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
اس کے علاوہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں جن سے یہ حدیث صحیح بن جاتی ہے۔ اس حدیث کے دیگر شواہد عائشہ رضی اللہ عنہا، ابو امامہ رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، عبد العزیز بن مروان (مرسلا)، اور حبیب بن ابی ثابت (مرسلا) وغیرہم سے مروی ہیں۔ دیکھیں سلسلة الأحاديث الصحيحة: 881، وتمام النعمة في التعليق على فقه السنة للألباني (ج 1 ص 1)۔ نیز دیکھیں صحیح الجامع: 160

شرح حدیث:
علامہ سندھی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: "أي الملة المنسوبة إلى إبراهيم يريد دين الإسلام الذي بعث به نبينا عليه الصلاة والسلام، فإنه يشارك دين إبراهيم في كثير من الفروع مع الاتحاد في الأصول، فلذلك ينسب إلى إبراهيم، والحنيف عند العرب: من كان على دين إبراهيم على نبينا وعليه الصلاة والسلام، والسمحة: بفتح السين وسكون الميم: أي التي تسهل على النفوس، لا كالرهبانية الشاقة عليها." ترجمہ: "حنیفیہ سے مراد وہ ملت ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب ہے یعنی وہ دینِ اسلام جس کے ساتھ ہمارے نبی علیہ الصلاہ والسلام کو بھیجا گیا تھا، کیونکہ اسلام نے اصولوں کے اتحاد کے ساتھ دین ابراہیم کے کئی فروعات کو یکساں برقرار رکھا، اسی لئے اسے ابراہیم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اور عربوں کے نزدیک حنیف سے مراد وہ شخص ہے جو ابراہیم اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر چلے۔​
اور سمحہ: سین پر زبر اور میم ساکن سے مراد وہ ہے جو نفس پر آسان ہو،نہ کہ خانقاہی زندگی کی طرح جو لوگوں پر بہت مشکل ہو۔"
 
Top