• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث ابن عباس تفسیر {فصل لربك وانحر}

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام إبراهيم بن إسحاق الحربی (المتوفی285) نے کہا:
حدثنا أبو بكر بن أبى الأسود حدثنا أبو رجاء الكليبى عن عمرو بن مالك عن أبى الجوزاء عن ابن عباس : فصل لربك وانحر قال : وضع يده عند النحر
مفسرقران عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) ہاتھوں کوسینے پررکھنامراد ہے ۔[غريب الحديث للحربي 2/ 443 واخرجہ البیھقی ج 2 ص44 من طریق ابی رجاء بہ]


حوالہ جات:
غريب الحديث للحربي 2/ 443۔
سنن البیہقی الکبریٰ (تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـ ج 2ص31،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2168۔
سنن البیہقی الکبریٰ (أبوعبداللہ عبدالسلام بن محمد):ـ ج 2ص44،کتاب الحیض::باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2387۔

امام سیوطی رحمہ اللہ نے کہا:
وأخرج ابن أبي حاتم من طريق أبي الجوزاء عن ابن عباس في قوله: {وَانْحَرْ}قال وضع اليمين على الشمال عند النحر في الصلاة، ففي الآية مشروعية ذلك
مفسرقران عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) ہاتھوں کوسینے پررکھنامراد ہے ۔ لہٰذا اس آیت میں اس بات کی مشروعیت ہے۔[الإكليل في استنباط التنزيل ص: 300]


اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابوالجوزاء أوس بن عبد الله الربعي

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
بصرى ثقة
آپ بصری اورثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 304 واسنادہ صحیح]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 304]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے آپ کو ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
كان عابدا فاضلا
آپ عابد اورفاضل تھے۔[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 4/ 42]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
الثقة
آپ ثقہ ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 577]

ایک شبہہ کاازالہ:
بعض لوگوں نے بغیرکسی بنیاد کے یہ دعوی کردیا کہ ابوالجوزاء کا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے[درهم الصرة في وضع اليدين تحت السرة:ص28]۔

عرض ہے کہ احناف نے یہ بات امام ابن عدی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے اخذ کی ہے جس میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی تفسیر پیش کی ہے۔حالانکہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کی اس عبارت میں بھی ایسی بات ہرگزنہیں ہے۔اس کی تفصیل ہم آگے پیش کریں گے لیکن اس سے قبل ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کے سماع کا ثبو ت پیش کرتے ہیں ۔چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا وكيع ، حدثنا سليمان بن علي الربعي ، قال : سمعت أبا الجوزاء ، قال : سمعت ابن عباس يفتي في الصرف ۔۔۔
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ سونے چاندی کی خریدوفرخت کے سلسلے میں فتو ی دے رہے تھے ۔۔۔[مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 48 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]

اس روایت میں ابوالجوزاء نے صراحت کردی ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس سے سنا ہے اورابوالجوزاء تک اس کی سند بالکل صحیح ہے ۔اورابوالجوزاء بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے زبردست ثقہ راوی ہے ۔لہذا ان کا بیان معتبرہے۔
اس دلیل سے اظہر من الشمس ہوگیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کا سماع ثابت ہے ۔
نیز:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا يونس، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن مالك، قال: سمعت أبا الجوزاء يقول: جاورت ابن عباس ثنتي عشرة سنة، وما من القرآن آية إلا وقد سألته عنها
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ میں بارہ سال تک عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس رہا اورقرآن کی کوئی آیت نہیں ہے جس کے بارے میں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا نہ ہو۔[العلل للأحمد، ت الأزهري: 2/ 43 واسنادہ صحیح رجالہ رجال الشیخین عداالنکری وھوثقہ،واخرجہ ایضا ابن سعدفی الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 224 من طریق عارم بہ واسنادہ صحیح ایضا]

اس روایت میں ابوالجوزاء رحمہ اللہ نے کہا کہ میں بارہ سال تک عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس رہاہوں۔
یہ روایات اس بات کی بین اورواضح دلیل ہیں کہ ابوالجوزاء رحمہ اللہ کا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے۔
اس لئے کئی محدثین نے صراحت کی ہے کہ ابوالجوزاء نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے چنانچہ:

محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
أوس بن عبد الله ............ . سمع ابن عباس رضي الله عنه روي عنه ابوالأشهب جعفربن حيان عندالبخاري وسمع عائشه رضي الله عنها
اوس بن عبداللہ۔۔۔۔نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سناہے ،ان سے ابوالاشہب جعفربن حیان نے بخاری میں روایت کیا ہے اورانہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہاسے بھی سناہے[الجمع بين رجال الصحيحين 1/ 46]

أبو بكر الحازمي الهمداني(المتوفى584) فرماتے ہیں:
أبو الجوزاء أوس بن عبد الله الرَّبعي سمع عائشة وابن عباس
ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ الربعی انہوں نے عائشہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سناہے۔[عجالة المبتدي وفضالة المنتهي في النسب ص: 19]

امام بخاری رحمہ اللہ بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کے سماع کے قائل ہیں بلکہ امام بخاری نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کی روایت صحیح بخاری میں نقل کی ہے چنانچہ کہا:
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا أبو الأشهب، حدثنا أبو الجوزاء، عن ابن عباس رضي الله عنهما، في قوله: {اللات والعزى}(النجم: ١٩) «كان اللات رجلا يلت سويق الحاج»
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاشھب جعفر بن حیان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالجوزاء نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ لات ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لیے ستو گھولتا تھا۔[صحيح البخاري 6/ 141 رقم 4859]

ان دلائل سے قطعی طور پرثابت ہوگیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کاسماع ثابت ہے۔

اب آئیے احناف کے اس دعوی کی حقیقت دیکھتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کاسما ع ثابت نہیں ہے چنانچہ محمدہاشم ٹھٹھو ی حنفی صاحب نے نھایۃ التقریب میں منقول ابن عدی کی بعض عبارت کاحاصل کلام نقل کرتے ہوئے کہا:
وابوالجوزاء روی عن الصحابۃ وارجوانہ لاباس بہ ،ولایصح روایتہ عنھم ،ولاانہ سمع منھم ،وقول البخاری :فی اسنادہ نظر یریدانہ لم یسمع شیئامنھم انتھی مامحصلہ
یعنی ابن عدی نے کہاکہ: ابوالجوزاء نے صحابہ سے روایت کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ان میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور صحابہ سے ان کی روایت صحیح نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات صحیح ہے کہ صحابہ سے انہوں نے سناہے۔اورامام بخاری کے قول” فی اسنادہ نظر“ میں امام بخاری کی مراد یہ ہے کہ انہوں نے صحابہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔[درهم الصرة في وضع اليدين تحت السرة:ص28]۔

عرض ہے کہ اس عبارت میں امام ابن عدی اورامام بخاری دونوں کے کلام میں تحریف کی گئی ہے اور دونوں کی طرف غلط بات منسوب کی گئی ہے۔اورسچائی یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس سے ابوالجوزاء کے سماع کاانکارنہ تو امام ابن عدی نے کیا ہے اور نہ ہی امام بخاری نے کیا ہے ۔ہم سب سے پہلے امام ابن عدی کے الفاظ دیکھتے ہیں:
چنانچہ :امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وأبو الجوزاء روى عن الصحابة: ابن عباس، وعائشة، وابن مسعود، وأرجو أنه لا بأس به، ولا تصحح روايته عنهم أنه سمع منهم. وقول البُخاري: في إسناده نظر، أنه لم يسمع من مثل ابن مسعود، وعائشة، وغيرهما، لا أنه ضعيف عنده، وأحاديثه مستقيمة
ابوالجوزاء نے صحابہ میں عبداللہ بن عباس ،عائشہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔اورمیں سمجھتا ہوں کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔اورصحابہ میں ان لوگوں سے ان کی روایت اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انہوں نے ان سے سناہے۔اورامام بخاری نے( ابوالجوزاء کی ایک روایت کے سلسلے میں )جو یہ کہا کہ اس کی سند میں نظر ہے تواس کامطلب یہ ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود اوراماں عائشہ رضی اللہ عنھما جیسے لوگوں سے(یعنی ان کے طبقہ والوں سے) نہیں سنا ہے،نہ کہ یہ مطلب ہے کہ ابوالجوزاء ان کے نزدیک ضعیف ہیں ۔اوران کی احادیث درست ہیں[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 2/ 331]

غورکریں اس عبارت میں نہ توامام ابن عدی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کے سماع کاانکار کیا ہے اور نہ ہی امام بخاری رحمہ اللہ سے ایساکچھ نقل کیا ہے۔
امام ابن عدی نے صرف یہ کہا ہے کہ صحابہ سے ابوالجوزاء کی محض روایت اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انہوں نے ان سے سنا ہے۔یعنی ابن عدی صحابہ سے ابوالجوزاء کی محض روایت ہی کو صحابہ سے ا ن کے سماع کے ثبوت کے لئے کافی نہیں سمجھتے لیکن اس سے یہ کہاں لازم آیا کہ ابن عدی صحابہ سے ان کے سماع ہی کے منکرہیں؟ انہوں نے صرف ایک چیزکے بارے میں کہا ہے کہ یہ چیز سماع کی دلیل نہیں ہے یہ تو نہیں کہا ہے ان کے سماع پرکوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے! بلکہ آگے بعض صحابہ سے ان کے سماع کی طرف خودانہوں نے اشارہ کیا ہے چنانچہ آگے انہوں نے مطلق صحابہ سے ا ن کے سماع کا انکار نہیں کیا بلکہ امام بخاری کے قول کی روشنی میں صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے طبقہ والوں سے ابوالجوزاء کے سماع کی نفی کی ہے اور یہ نفی بھی خو د نہیں کی ہے بلکہ اسے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ۔
اورعبداللہ بن عباس ، اما ں عائشہ اورابن مسعود رضی اللہ عنہم کے طبقہ کے نہیں ہیں ۔اسی لئے امام ابن عدی نے ان کانام نہیں لیا ہے حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے کماسیاتی ۔لیکن امام ابن عدی نے انکار سماع کی با ت کو صرف اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے طبقہ تک محدود رکھاہے۔اسی لئے اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا حالانکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کاذکرامام بخاری کے قول میں نہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کے سماع کے منکر نہیں بلکہ قائل ہیں۔

اوریہ ساری بات اس صورت میں کہی جائے گی جب ہم یہ با ت مان لیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے قول میں فی” اسنادہ نظر “ سے بعض صحابہ سے ابوالجوزاء کاعدم سماع مراد لیا ہے ۔جیساکہ ابن عدی نے سمجھا ہے ۔لیکن تحقیق کی روشنی میں امام ابن عدی کی طرف سے امام بخاری کے قول کی یہ تفسیر بھی درست نہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے ”ابوالجوزاء“ کا ذکر کرتے ہوئے کہا :
قال لنا مسدد عن جعفر بن سليمان عن عمرو بن مالك النكري عن أبي الجوزاء قال أقمت مع بن عباس وعائشة اثنتي عشرة سنة ليس من القرآن آية إلا سألتهم عنها قال محمد في إسناده نظر
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس اوراماں عائشہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ بارہ سال گذارے ۔اس دوران قران کی کوئی آیت ایسی نہیں بچی جس کے بارے میں میں نے ان سے پوچھا نہ ہو ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند میں نظر ہے[التاريخ الكبير للبخاري 2/ 16]

یہاں ”فی اسنادہ نظر“ (اس کی سند میں نظر ہے) سے امام بخاری رحمہ اللہ کی کیامراد ہے اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہاہے[مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 392]
چنانچہ بعض نے کہا کہ اس سے مراد عمروبن مالک النکری کی تضعیف ہے ۔یہ غلط ہے اس کی تردید آگے آرہی ہے۔
بعض نے کہا :اس سے مراد یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ابوالجوزاء کی تضعیف کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بات بھی باطل ہے کیونکہ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری میں اصولا ابوالجوزاء کی روایات درج کی ہیں ۔مزید یہ کہ امام بخاری نے ضعفاء میں ابوالجوزاء کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
بعض لوگوں نے کہا کہ : اس سے مراد یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اوراس طبقہ کے صحابہ سے ابوالجوزاء کے سماع کاانکارکررہے ہیں ۔یہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کا موقف ہے چناچہ :

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويقول البخاري في إسناده نظر انه لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما لا انه ضعيف عنده
امام بخاری کے قول ” فی اسنادہ نظر“ (اس کی سند میں نظر ہے)سے امام بخاری کی مراد یہ ہے کہ ابوالجوزاء نے ابن مسعود اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہما اوران کے طبقہ والوں سے نہیں سنا ہے ۔امام بخاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابوالجوزاء ان کے نزدیک ضعیف ہے[الكامل في الضعفاء 1/ 411]

عرض ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی یہ تفسیر بھی درست نہیں ہے کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ابولجوزاء کا سماع ثابت ہے۔چنانچہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کی حدیث صحیح مسلم میں ہے۔دیکھئے:[صحيح مسلم 2/ 357 رقم 498]
اوربہت سارے ائمہ نے اماں عائشہ سے ابوالجوزاءکی حدیث کو صحیح کہا ہے۔نیز کئی ائمہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابوالجوزاء کے سماع کی صراحت کی ہے جیساکہ پیچھے محمد بن طاهر ابن القيسراني اورأبو بكر الحازمي الهمداني نقل کئے جاچکے ہیں اورایک مزید دلیل آگے آرہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول میں سماع کاانکار بھی مراد نہیں ، ابوالجوزاء اور نکری کی تضعیف بھی مراد نہیں تو پھرکیا مراد ہے؟
توعرض ہے کہ ابوالجوزاء کا یہ بیان بسند صحیح ثابت کہ وہ بارہ سال تک عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس رہے جیساکہ پیچھے روایت گذری ۔
لیکن یہاں اس روایت میں ان کی یہی صحبت ومجاورت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بھی بیان کردی گئ ہے۔یعنی اس روایت میں آگیا کہ ابوالجوزاء ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرح اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی بارہ سال تک تھے۔یہ بات محل نظرہے کیونکہ ابوالجوزاء کا یہ بیان ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ہے نہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے اس لئے اس روایت میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے بھی ان کا یہی بیان نقل کیا جانامحل نظر ہے اسی لئے امام بخاری نے یہاں ”فی اسنادہ نظر“کہاہے ۔
چنانچہ پیچھے روایت گذرچکی ہے کہ ابوالجوزاء کے اسی بیان کو عمروبن مالک النکری ہی کے طریق سے حمابن زیدنے بھی صحیح سند سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے یہ بات صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کےتعلق سے نقل کیا ہے۔بلکہ حمادبن زید ہی کی ایک روایت میں اس بات کی صراحت بھی ہے کہ ابوالجوزاء اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نہیں رہے ہیں بلکہ ان کے آس پاس رہے ہیں چنانچہ:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حدثنا علي بن الفضل، قال: ثنا محمد بن أيوب، قال: ثنا سليمان بن حرب، قال: ثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن مالك، عن أبي الجوزاء، قال: " جاورت ابن عباس اثنتي عشرة سنة في داره، وما من القرآن آية إلا وقد سألته عنها، وكان رسولي يختلف إلى أم المؤمنين غدوة وعشية، فما سمعت من أحد من العلماء ولا سمعت أن الله تعالى يقول لذنب: إني لا أغفره إلا الشرك به "
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ میں بارہ سال تک عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس رہا اورقرآن کی کوئی آیت نہیں ہے جس کے بارے میں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا نہ ہو۔اورمیراقاصد صبح وشام اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتاجاتاتھا۔تو میں نے نے کسی بھی عالم سے اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنا کہ اللہ تعالی نے کسی گناہ کے بارے میں کہا ہو کہ میں اسے نہیں بخشوں گا سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 3/ 79 واسنادہ صحیح]
حمادبن زید کی ان روایات سے معلوم ہواکہ ابوالجوزاء کا صحیح بیان یہی ہے کہ انہوں بارہ سال کی مدت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کے ساتھ گذاری ہے نہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہاکے ساتھ ۔اس لئےجعفر بن سليمان نے اس معاملہ میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل کے کرکےغلطی کی ہے۔لہٰذاان کی سندمحل نظرہے اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا فی ”اسنادہ نظر“۔
موخرالذکرروایت سے یہ بھی ثابت ہواکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابوالجوزاء نے لازما سنا ہوگا کیونکہ جب ان کو نہ صرف یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا دور ملا، بلکہ وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے اتنے قریب رہتے تھے کہ ان کا قاصدان کے حکم سے صبح وشام اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس مسائل پوچھنے کے لئے آتاجاتا تھا۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خود براہ راست اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کبھی نہ ملے ہوں ؟
۔
الغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول سے مراد نہ تو ابوالجوزاء یا عمروبن مالک النکری کی تضعیف ہے اور نہ ہی اماں عائشہ یا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوالجوزاء کے سماع کاانکار ہے بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابولجوزاء کی روایت تو خود امام بخاری نے صحیح بخاری میں پوری سند کے ساتھ ذکر کی ہے کمامضی ٰ۔اورامام ابن عدی رحمہ اللہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابولجوزاء کے سماع کا انکار نہیں کیا ہے۔
نہ ہی امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی تفسیر میں امام بخاری کی طرف یہ بات منسوب کی ہے۔
لہٰذا محمدہاشم ٹھٹھوی حنفی صاحب کا امام ابن عدی کے کلام میں تحریف کرکے خودساختہ مفہوم کوامام ابن عدی اور پھرامام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنا باطل ہے۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عمرو بن مالك النکری:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں [سؤالات ابن الجنيد ص: 420]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے آپ کو ثقاہت میں ذکر کیا ہے دیکھئے: [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 7/ 228]
اور ایک دوسری کتاب میں کہا:
هو في نفسه صدوق اللهجة
یہ بذات خود صدوق ہیں[مشاهير علماء الأمصار ص: 155]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 286]


درج ذیل اقوال سے تضعیف ثابت نہیں ہوتی:

عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى 290)نے کہا :
سمعت أبي يقول لم تثبت عندي صلاة التسبيح وقد اختلفوا في إسناده لم يثبت عندي وكأنه ضعف عمرو بن مالك البكري
میں نے اپنے والد سے کہتے ہوئے سنا کہ : میرے نزدیک صلاۃ تسبیح ثابت نہیں ہے اس کی سند میں اختلاف ہے اور یہ میرے نزدیک ثابت نہیں ہے گویا کہ آپ نے عمربن مالک کو ضعیف قراردیا[مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ص: 89]

عرض ہے کہ اس تضعیف سے مراد عمروبن مالک پر معمولی جرح بھی ہوسکتی ہے یعنی ممکن ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے خاص صلاۃ التسبیح والی حدیث میں عمروبن مالک پر اعتماد نہ کیا ہو ۔ کیونکہ اس کے اندر نکارت ہے ۔نیز امام احمد رحمہ اللہ کے ایک دوسرے شاگر ”علي بن سعيد بن جرير النسوي“نے امام احمد کی اس جرح کو ”وفيه مقال“ (عمروبن مالک کے بارے میں کلام ہے) کے الفاظ سے پیش کیا ہے[اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة: 2/ 38]۔اوریہ الفاظ معمولی جرح پر دلالت کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی جرح کی کوئی تفسیر بھی نہیں کی ہے بلکہ امام احمد نے اپنے الفاظ میں عمرو بن مالک پر جرح بھی نہیں کی ہے یہ تو ان کے شاگردوں نے سیاق وسباق سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے۔لہٰذا ثابت شدہ صریح توثیق کے مقابلہ میں جرح غیرمفسر قابل قبول نہیں ہے۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے ”ابوالجوزاء“ کا ذکر کرتے ہوئے کہا :
قال لنا مسدد عن جعفر بن سليمان عن عمرو بن مالك النكري عن أبي الجوزاء قال أقمت مع بن عباس وعائشة اثنتي عشرة سنة ليس من القرآن آية إلا سألتهم عنها قال محمد في إسناده نظر
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس اوراماں عائشہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ بارہ سال گذارے ۔اس دوران قران کی کوئی آیت ایسی نہیں بچی جس کے بارے میں میں نے ان سے پوچھا نہ ہو ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند میں نظر ہے[التاريخ الكبير للبخاري 2/ 16]

یہاں ”فی اسنادہ نظر“ (اس کی سند میں نظر ہے) سے امام بخاری رحمہ اللہ کی کیامراد ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويقول البخاري في إسناده نظر انه لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما لا انه ضعيف عنده
امام بخاری کے قول ” فی اسنادہ نظر“ (اس کی سند میں نظر ہے)سے امام بخاری کی مراد یہ ہے کہ ابوالجوزاء نے ابن مسعود اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہما وغیرہما سے سنا نہیں ہے ۔امام بخاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابوالجوزاء ان کے نزدیک ضعیف ہے[الكامل في الضعفاء 1/ 411]

مگرحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
وقول البخاري في إسناده نظر ويختلفون فيه إنما قاله عقب حديث رواه له في التاريخ من رواية عمرو بن مالك النکری, والنکری "ضعيف عنده"
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ کہنا : ”فی اسنادہ نظر(اس کی سند محل نظرہے) اس میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بات ایک حدیث کے بعد کہی ہے جسے اپنی کتاب تاریخ میں عمروبن مالک النکری سے روایت کیا ہے ۔ اورالنکری امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہے۔[تهذيب التهذيب 3/ 377]۔

عرض ہے کہ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ”ابوالجوزاء “ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے یہ روایت درج کی ہے اور اس کے بعد مذکورہ کلام کیا ہے ۔اگرامام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں عمرو بن مالک النکری ضعیف ہوتے تو امام بخاری رحمہ اللہ اسی کا ترجمہ پیش کرکے مذکورہ کلام کرتے ۔
نیز اوپر امام ابن عدی رحمہ اللہ کے حوالے سے بتایا جاچکا ہے کہ مذکورہ کلام سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود کسی راوی کی تضعیف نہیں ہے ۔

بلکہ خود حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں کہا:
شرح بن عدي مراد البخاري فقال يريد أنه لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما لا أنه ضعيف عنده
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے امام بخاری کی مراد کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ: امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ابوالجوزاء نے ابن مسعود اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہما وغیرہما سے سنا نہیں ہے ۔امام بخاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابوالجوزاء ان کے نزدیک ضعیف ہے[فتح الباري لابن حجر: 1/ 392]

لہٰذا جب خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی امام بن عدی کی تشریح سے راضی ہیں تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول میں کسی کی تضعیف کے پہلو کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
اوس بن عبد الله أبو الجوزاء هذا يحدث عنہ عمرو بن مالك النكري، يحدث عن أبي الجوزاء هذا أيضا عن بن عباس قدر عشرة أحاديث غير محفوظة
اوس بن عبداللہ ابوالجوزاء ان سے عمروبن مالک النکری سے روایت کرتے ہین۔ اور النکری یہ بھی ابوالجوزاء سے تقریبا دس غیرمحفوظ احادیث روایت کرتے ہیں[الكامل في الضعفاء 1/ 411]۔

عرض ہے تقریبا دس احادیث کوئی بہت بڑی تعداد نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اس طریق کو ضعیف کہہ دیا جائے نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی رحمہ اللہ کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ ان سے نیچے کے رواۃ کا ہو جیساکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے صراحت کرتے ہوئے کہا:
عمرو بن مالك النكري أبو مالك والد يحيى بن عمرو وقعت المناكير في حديثه من رواية ابنه عنه وهو في نفسه صدوق اللهجة
عمروبن مالک النکری ابومالک ، یہ یحیی بن عمرو کے والد ہیں ان کی حدیث میں نکارت ان سے ان کی بیٹے روایات میں ہے اور یہ فی نفسہ صدوق ہیں۔[مشاهير علماء الأمصار ص: 155]۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمروبن ملک کی ان روایات میں نکارت ہے جنہیں ان سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے ۔لہٰذا ہم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک پر نہیں ڈال سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الاطلاق ثقہ کہا ہے۔

علاوہ بریں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے جن احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ اور زیر بحث روایت ان میں سے ہر گز نہیں ہوسکتی کیونکہ اس روایت میں عمرو بن مالک کی مخالفت کسی بھی دوسرے طریق سے ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ :
امام ابن عدی فرماتے ہیں:
عمرو بن مالك النكري بصري منكر الحديث عن الثقات ويسرق الحديث
عمروبن مالک النکری بصری یہ ثقات سے منکر احادیث بیان کرتا ہے اور حدیث چوری کرتا ہے[الكامل في الضعفاء 5/ 150]۔

اس کے بعدامام ابویعلی سے ''عمرو بن مالك النكري'' تضعیف نقل کرتے ہوئے ،فرماتے ہیں:
سمعت أبا يعلى يقول عمرو بن مالك النكري كان ضعيفا
میں نے ابویعلی کو کہتے ہوئے سنا کہ : عمروبن مالک النکری ضعیف تھا[الكامل في الضعفاء 5/ 150]۔

امام ابن حبان فرماتے ہیں:
عمرو بن مالك النكري من أهل البصرة يروى عن الفضيل بن سليمان ثنا عنه إسحاق بن إبراهيم القاضى وغيره من شيوخنا يغرب ويخطىء
عمروبن مالک النکری یہ اہل بصرہ میں سے ہے جو فضیل بن سلیمان سے روایت کرتا ہے ہم سے اس کے واسطے سے ہمارے شیوخ میں اسحاق بن ابراہیم قاضی وغیرہ نے بیان کیا ہے یہ غریب احادیث بیان کرتا ہے اور غلطی کرتا ہے[الثقات لابن حبان 8/ 487]۔

بعض اہل علم نے ان تینوں جروح کو مذکورہ حدیث میں موجود راوی ''عمرو بن مالک '' کے سلسلے میں سمجھ لیا ہے ، لیکن ہماری نظر میں یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ ان تینوں جروح کا تعلق ''عمروبن مالک الراسبی '' سے ہے۔
حافظ ذہبی نے فرماتے ہیں:
عمرو بن مالك الراسبى البصري لا النكرى.هو شيخ. حدث عن الوليد بن مسلم. ضعفه أبو يعلى.وقال ابن عدى: يسرق الحديث.وأما ابن حبان فذكره في الثقات
عمروبن مالک راسبی یہ بصری ہے نکری نہیں ہے یہ شیخ ہے ۔ اس نے ولیدبن مسلم سے روایت کیا ہے اسے ابویعلی نے ضعیف کہا ہے اور امام ابن عدی نے کہا: یہ حدیث چوری کرتا ہے اور ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے[ميزان الاعتدال 3/ 285]۔

اس عبارت میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ تینوں جروح‌ کو ''عمرو بن مالك الراسبى'' پرفٹ کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
حافظ ابن حبان کی جرح ''يغرب ويخطىء'' کو مذکورہ سندمین موجود راوی پرفٹ کرنے میں میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو بھی وہم ہوا ہے ، جیساکہ تہذیب سے معلوم ہوتا ہے، اورغالبا انہیں کی متابعت میں حافظ زبیرعلئ زئی سے بھی غلطی ہوئی ا اورانہوں نے بھی اس جرح کو أبو الجوزاء کے شاگر ''عمروبن مالک'' پرفٹ کیا ہے دیکھیں (ابن ماجہ بتحقیق حافظ زبیرعلی زئی ، حاشیہ رقم الحدیث 1046‌‌‌)۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
روح بن المسيب البصری

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
أبو رجاء الكليبي ثقة
ابورجاء کلیبی ثقہ ہیں[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 80]

إسحاق بن أبى إسرائيل رحمه الله (المتوفى 245)نے کہا:
الثقة
آپ ثقہ ہیں[تاريخ أسماء الثقات ص: 87 واسنادہ صحیح]

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
"بصري"، ثقة
یہ بصری اورثقہ ہیں[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 162]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
ليس به بأس
ان میں کوئی حرج کی بات نہین[سؤالات أبي عبيد الآجري للإمام أبي داود السجستاني - الفاروق ص: 173]

امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
ثقة
یہ ثقہ ہیں[مسند البزار: 13/ 339]


تنبیہ اول:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قال ابن عدي: أحاديثه غير محفوظة
امام ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی احادیث غیرمحفوظ ہیں[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 61]

عرض ہے کہ امام ابن عدی کے اصل الفاظ یہ ہیں:
يروي عن ثابت ويزيد الرقاشي أحاديث غير محفوظة.
یہ ثابت اور یزید رقاشی سے غیرمحفوظ احادیث روایت کرتے ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 58]
یعنی امام عدی نے یہ جرح روح بن المسیب کی ان روایت پر کی ہے جو ثابت اور یزید الرقاشی کے طریق سے ہیں ۔ اور زیرتحقیق روایت اس طریق سے نہیں ہے۔
علاوہ بریں یہ جرح بھی دیگر محدثین کے خلاف ہے۔

تنبیہ ثانی:
اسحاق بن منصور نے امام ابن معین سے نقل کیا:
أبو رجاء صويلح
ابورجاء ٹھیک ٹھاک ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 496]

عرض ہے کہ اول تو یہ جرح نہیں بلکہ ہلکی توثیق کا صیغہ ہے۔ دوسرے یہ کہ ابن معین سے اس صیغہ میں توثیق صرف ان کے ایک شاگرد اسحاق بن منصور نے نقل کی اور اس کے برخلاف ابن معین نے کے دو شاگردوں نے لفظ ’’ثقۃ‘‘ کے ساتھ توثیق نقل کی ہے چنانچہ:

امام ابن معین کے مشہور شاگر د عباس دوری فرماتے ہیں:
سمعت يحيى يقول أبو رجاء الكليبي ثقة
میں نے امام ابن معین کو کہتے ہوئے سنا کہ : ابورجاء کلیبی ثقہ ہیں[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 80]

نیز امام ابن معین کے دوسرے شاگرد ابن ابی خیثمہ کہتے ہیں:
سمعت يحيى بن معين يقول: أبو رجاء الكلیبی ثقة
میں نے امام ابن معین کو کہتے ہوئے سنا: ابورجاء کلیبی ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 9/ 370]

تنبیہ ثالث:
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا:
وكان روح ممن يروى عن الثقات الموضوعات ويقلب الاسانيد ويرفع الموقوفات۔۔۔الخ
روح یہ ثقہ رواۃ سے موضوع احادیث نقل کرتے تھے اورسندوں کو پلٹ دیتے تھے ، موقوف کو مرفوع کردیتے تھے ۔۔۔الخ[المجروحين - ابن حبان 1/ 299]

عرض ہے کہ اول تو امام ابن حبان جرح میں متشدد ہیں اس لئے موثقین کے خلاف ان کی جرح نامقبول ہے۔
دوسری بات یہ کہ ابن حبان رحمہ اللہ ایک دوسرے راوی ’’ابورجاء عبد الله بن واقد الخراسانی‘‘ کو بھی ’’ابورجاء روح بن المسیب ‘‘ سمجھ لیا اور اس کی غلطیوں کو بھی اسی روح بن المسیب کے حصہ میں ڈال دیا۔چنانچہ ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک مقام پر کہا:
أخبرناه عمران بن موسى بن مجاشع قال حدثنا إبراهيم بن عيسى الأبلي قال حدثنا أسباط بن محمد قال حدثنا أبو رجاء الخرساني عن عباد بن كثير عن الحسن وأبو رجاء هذا روح بن المسيب أيضا لا شيء
یعنی اس سند میں موجود ابورجاء الخراسانی یہ ابورجاء روح بن المسیب ہے ،جس کی کوئی حیثیت نہیں [المجروحين لابن حبان: 2/ 168]

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ابن حبان رحمہ اللہ کے اس وہم کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
أبو رجاء: عبد الله بن واقد الهروي.وروح بن المسيب لا يحدث عن الجريري، ولم يرو عنه أسباط بن محمد.وروح بن المسيب بصري، يكني أبا رجاء، يعرف بالكليبي، يحدث عن ثابت البناني
اس سندمیں ابورجاء یہ عبداللہ بن واقد ہروی ہے۔اور روح بن المسیب ، (عباس)جریری سے روایت کرنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے اسباط بن محمد نے روایت کیا ہے۔نیز روح بن المسیب یہ بصری ہیں ان کی کنیت بھی ابورجاء ہے، یہ کلیبی سے معروف ہیں۔ اوریہ ثابت البنانی سے روایت کرنے والے ہیں[تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان ص: 200]

معلوم ہوا کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنے نزدیک ایک دوسرے مجروح راوی کی غلطیوں کو بھی اسی روح بن المسیب کی غلطیاں سمجھی ہیں ۔لہٰذا ایسی صورت میں روح ابن المسیب پر ان کی طرف سے کی گئی جرح قطعا قابل قبول نہیں۔

تنبیہ رابع:
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله نے کہا:
صالح ليس بالقوي
یہ صالح ہیں اور بہت زیادہ قوی نہیں ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 496]

عرض ہے کہ صالح سرے سے جرح کا صیغہ نہیں ہے اور لیس بالقوی کا صیغہ بھی تضعیف پر دلالت نہیں کرتا بلکہ دیگر ثقہ رواۃ کی بنست کم تر حافظہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس سے راوی کی ثقاہت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جیساکہ ہم نے اس کی پوری تفصیل اپنی کتاب ''یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 677 تا 679 '' میں پیش کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عبد الله بن أبي الأسود البصري
آپ صحیح بخاری کے راوی اور زدست ثقہ اور حافظ ہیں۔کسی بھی امام نے ان پر جرح نہیں کی ہے۔نیز

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے دیکھئے:[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 8/ 348]

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان حافظا متقنا
آپ حافظ اور متقن تھے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 10/ 62]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإمام، الحافظ، الثبت
آپ امام ، حافظ اور ثبت ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 648]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حافظ
آپ ثقہ اورحافظ ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3578]

تنبیہ:
ابن بی خیثمہ کہتے ہیں:
كان يحيى بن معين سيء الراى في أبى بكر بن أبى الأسود
یحیی بن معین ابوبکربن الاسود کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 10/ 62]

عرض ہے کہ یہ سرے سے جرح ہے ہی نہیں بلکہ غیرمفسر کلام ہے۔لہٰذا صریح توثیق کے مقابل میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اور ابن معین ہی سے اس جرح کی تفصیل یوں مروی ہے کہ:
ما أرى به بأسا ولكنه سمع من أبى عوانة وهو صغير
میں ان کے بارے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا لیکن انہوں نے ابوعوانہ سے چھوٹی عمر میں سنا ہے[معرفة الرجال لابن معين: 1/ 90 وابن محرز لایعرف]

بلکہ ابن معین ہی سے ابن ابی الاسود کی توثیق بھی یوں منقول ہے:
لا باس به
آپ میں کوئی حرج نہیں ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 10/ 62 وفی اسنادہ بکر بن سھل]

اور ابن معین کے نزدیک لاباس بہ ثقہ کے معنی میں ہے۔

بہرحال امام ابن معین رحمہ اللہ کی جرح غیرمفسر ہے اس لئے نامقبول ہے اور جس روایت مین تفسیر آئی ہے اس کی روشنی میں یہ جرح قادح ہی نہیں ہے ، اور بالفرض قادح مان بھی لیں تو جرح اس روایت کے ساتھ خاص ہے جس میں ابوعوانہ سے روایت کریں اور زیربحث روایت میں ان کی روایت ابوعوانہ سے نہیں ہے۔
مزید براں یہ کہ ابن معین ہی سے توثیق کا قول بھی مروی ہے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل (2/ 527)
بہرحال یہ ثقہ راوی ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ان سے روایت لی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top