• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث المضمضۃ اور حافظ دولابی رحمہ اللہ

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
حدیث المضمضۃ اور حافظ دولابی رحمہ اللہ

از:حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ
(حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اللہ رب العزت نے انھیں بہت زیادہ صلاحیتوں سے نوازا ہے اللہ رب العزت انھیں صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے آمین،ان کی کتاب مقالات اثریہ (زیر طبع)سے یہ مضون ہدیہ قارئین محدث فورم کیا جا رہا ہے ۔ابن بشیر الحسینوی)
الحمد ﷲ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی خاتم النبیین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم، وعلی آلہ وصحبہ، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد:
حافظ دولابی ''جزء من حدیث الثوري'' میں فرماتے ہیں:
''حدثنا محمد بن بشار: حدثنا عبدالرحمن بن مھدي عن سفیان، عن أبي ھاشم، عن عاصم بن لقیط، عن أبیہ، عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: إذا توضأت فأبلغ في المضمضۃ والاستنشاق ما لم تکن صائماً.''
(حدیث الثوری، بحوالہ: بیان الوھم والإیھام لابن القطان : ٥/ ٥٩٣)
''لقیط بن صبرۃ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ ''جب آپ وضو کریں تو کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کریں، بشرطیکہ روزے کی حالت میں نہ ہوں۔''
حافظ ابن القطان الفاسیؒ ٦٢٨ھ اس حدیث پر تبصرہ بایں الفاظ میں فرماتے ہیں:
''وھذا صحیح، وترک منھا زیادۃ ذکرھا الثوري في روایۃ عبد الرحمن بن مھدي عنہ، وھي الأمر بالمبالغۃ أیضا في المضمضۃ... وابن مھدي أحفظ من وکیع وأجل قدراً.''
(بیان الوہم والإیھام: ٥/ ٥٩٢۔٥٩٣)
''یہ حدیث (مضمضہ کی زیادت کے ساتھ) صحیح ہے۔ سفیان ثوری سے روایت کرتے ہوئے عبدالرحمن بن مہدی نے یہ اضافہ کیا ہے، وکیع بن جراح نے اسے ذکر نہیں کیا۔ ابن مہدی، وکیع سے زیادہ حافظ اور جلیل القدر ہیں۔''
گویا حافظ ابن القطانؒ کا مقصود یہ ہے کہ ''فأبلغ في المضمضۃ'' عبدالرحمن بن مہدی کی زیادت ہے اور وہ ثقہ ثبت حافظ عارف بالرجال والحدیث اور کتب ستہ کے راوی ہیں۔ (التقریب: ٤٤٩٧) لہٰذا ان کی زیادت، زیادۃ الثقہ کی بنا پر مقبول ہوگی، وکیع بن الجراح کا اس اضافے کو بیان نہ کرنا نقصان دہ نہیں ہے۔
حافظ ابن القطانؒ، حافظ ابن حزمa اور دیگر اصولیوں کی طرح زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں، دراستہ بیان الوھم والإیھام للدکتور حسین آیت سعید (١/ ٢٧٢۔٢٧٣)، علم علل الحدیث من خلال کتاب بیان الوھم والإیھام للاستاذ ابراہیم بن الصدیق (٢/ ١٤٥۔ ١٦١)

مگر متقدمین محدثین کے ہاں زیادت میں قرائن کا اعتبار ہوگا، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ متقدمین کی رائے پیش کرتے ہیں:
''متقدمین محدثین: امام عبدالرحمن بن مہدی، یحییٰ القطان، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، بخاری، ابو زرعہ الرازی، ابو حاتم الرازی، نسائی اور دارقطنی وغیرہ سے نقل کیا گیا ہے کہ زیادت وغیرہ میں ترجیح کا اعتبار کیا جائے گا۔ ان سے یہ معروف نہیں کہ زیادت کو مطلق طور پر قبول کیا جائے گا۔''
نزھۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر (ص: ٤٧)
اسی قسم کی رائے حافظ علائی، ابن دقیق العید، ابن حجر، بقاعی، ابن وزیر وغیرہ نے نقل کی ہے۔ جس کی تفصیل راقم کے مضمون ''زیادۃ الثقۃ اور وإذا قرأ فأنصتوا کا حکم'' اور ''زیادۃ الثقۃ اور وإذا قرأ فأنصتوا کی تصحیح کی حقیقت'' میں ملاحظہ فرمائیں۔
حافظ ابن القطانؒ نے اپنے اصول کے پیشِ نظر ابن مہدی کے تفرد اور اضافے کو قبول کیا ہے اور حدیث کی تصحیح کی ہے، مگر حافظ ابن القطان کا اس زیادت کا سبب ابن مہدی کو قرار دینا قرینِ صواب نہیں، کیونکہ یہ زیادت حافظ ابو بشر الدولابی کا وہم ہے۔ موصوف متکلم فیہ ہیں:
حافظ دولابی پر تبصرہ:
١۔ حافظ ابن یونسؒ مصری فرماتے ہیں: ''انھیں ضعیف گردانا جاتا تھا۔'' (تاریخ دمشق لابن عساکر: ٥١/ ٣١)
٢۔ حافظ ابن عدیؒ فرماتے ہیں: ''دولابی، نُعیم بن حماد پر جرح کرنے کی وجہ سے متہم ہے۔''
یہ جرح الکامل کے مطبوعہ نسخے میں نہیں، تاہم ایک مخطوط میں امام نُعیم بن حماد کے ترجمے میں موجود ہے۔ دکتور زہیر عثمان علی نور نے اس طرف توجہ مبذول کروائی ہے، ابن عدی و منھجہ في کتاب الکامل في ضعفاء الرجال (٢/ ١٨) یہ نص تاریخ دمشق (٥١/ ٣١) وغیرہ میں موجود ہے۔
٣۔ حافظ ذہبیؒ رقمطراز ہیں: ''نُعیم بن حماد نے ان پر جھوٹ کا الزام لگایا ہے۔'' (تاریخ الإسلام، حوادث و وفیات: ٣٠١۔ ٣٢٠ھ، ص: ٢٧٦)
٤۔ محدث البانیؒ نے ''متکلم فیہ'' قرار دیا ہے۔
(السلسلۃ الصحیحۃ: ٦/ ٦٥٨)
صرف حافظ دارقطنیؒ نے ان کی تعدیل فرمائی ہے وہ فرماتے ہیں:
''محدثین نے اس پر تنقید کی ہے، مگر اس کے بارے میں خیر ہی واضح ہوئی ہے۔'' (سؤالات حمزۃ السھمی، ص: ١١٥، رقم: ٨٣)
ان اقوال کی روشنی میں مضمضہ کی زیادت کا سبب ابو بشر دولابی کو قرار دینا درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس کا سبب دولابی کے شیخ محمد بن بشار بندار کو قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ وہ ثقہ اور کتب ستہ کے راوی ہیں۔ (التقریب: ٦٤٥٥) کتب ستہ کے مؤلفین کے استاذ بھی ہیں۔
(المعجم المشتمل لابن عساکر، ص: ٢٢٨)
مستزاد یہ ہے کہ تین راویان نے بندار کی متابعت کی ہے:
١۔ امام احمد بن حنبل، مسند احمد (٤/ ٣٣)
٢۔ محمد بن المثنی (ثقۃ ثبت۔ التقریب: ٧٠٥٠)، السنن الکبری للنسائي (٣/ ٢٩٢، حدیث: ٣٠٣٥)
٣۔ یزید بن سنان ابو خالد الأموی (ثقۃ، التقریب: ٨٧٠٣) شرح مشکل الآثار للطحاوي (١٤/ ٣١، حدیث: ٥٤٢٥)
لہٰذا بندار کی روایت (بدون ذکر المبالغۃ في المضمضۃ) معتبر ہے اور حافظ ابن القطان کا زیادت کا سبب عبدالرحمن بن مہدی کو قرار دینا درست نہیں، کیونکہ عبدالرحمن کی متابعت بھی ایک جماعت نے کی ہے۔ جن میں وکیع بھی ہیں۔
ابن مہدی کی متابعت:
سفیان ثوری سے روایت کرتے ہوئے ابن مہدی نے وہی روایت بیان کی ہے جو ایک جماعت نے کی ہے جن میں:
١۔ وکیع بن الجراح کی روایت سنن الترمذي (٣٨)، سنن النسائی (٨٧)، السنن الکبری للنسائی (١/ ١١٠، حدیث: ٩٩)، مسند أحمد (٤/ ٣٢، ٣٣)، المستدرک للحاکم (١/ ١٨٢) میں ہے۔
٢۔ ابو نُعیم الفضل بن دکین: ثقۃ ثبت (التقریب: ٦٠٧١)
سنن أبي بکر أحمد بن محمد بن ھانیئ الأثرم ٢٦١ھ (ص: ٢٣٤، حدیث: ٢٢) المعجم الکبیر للطبراني (١٩/٢١٦، حدیث: ٤٨٢)، أسد الغابۃ لابن الأثیر الجزري (٤/ ٢٦٦)، الإصابۃ (٥/ ١١، ترجمۃ: ٧٥٥٣) الإمتاع لابن حجر (ص: ٢٣٨)
امام ابو حاتمؒ، فضل بن دکین کے بارے میں فرماتے ہیں:
''کان یأتي بحدیث الثوري عن لفظ واحدٍ لا یغیرہ، وکان لا یلقن، وکان حافظاً متقناً.'' (الجرح والتعدیل (٧/ ٦٢)
''ابو نعیم، ثوری کی حدیث ایک ہی لفظ سے بیان کرتے ہیں، اس میں تغیر و تبدل نہیں کرتے اور لقمہ نہیں لیتے، وہ حافظ اور متقن ہیں۔''
غور کیجیے کہ ابو نعیم، سفیان ثوری سے تقریباً ساڑھے تین ہزار روایات بیان کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود انھیں اسی انداز سے بیان کرتے ہیں، جس طرح انھوں نے سفیان ثوری سے سنی ہوتی ہیں۔
٣۔ امام عبدالرزاق صاحب المصنف:
المصنف لعبد الرزاق (١/ ٢٦، ح: ٧٩) المعجم الکبیر للطبراني (١٩/ ٢١٦، حدیث: ٤٨١)
٤۔ محمد بن یوسف الفریابی: ثقۃ فاضل (التقریب: ٧٢٢٨)
المعجم الکبیر للطبراني (١٩/ ٢١٦، ح: ٤٨٢)، الفوائد لابن بشران (حدیث: ٧٢٨) ضمن: الفوائد لابن مندہ (١/ ٢٣٨۔٢٣٩)، السنن الکبری للبیہقي (٤/ ٢٦١)
٥۔ عثمان بن جبلۃ: ثقۃ.
التقریب (٥٠١٢) الکامل لابن عدي: ١/ ٩٣) المحدث الفاصل بین الراوی والواعی للرامہرمزی (ص: ٥٧٩)
٦۔ یحییٰ بن آدم: ثقۃ حافظ فاضل.
التقریب (٨٤٤٧)، سنن النسائي (١١٤)، معجم الصحابۃ لابن قانع (١٣/ ٤٥٣٦)
٧۔ محمد بن کثیر العبدی: ثقۃ.
التقریب (٧٠٣٨)، المستدرک للحاکم (١/ ١٤٧، ١٤٨) السنن الکبری للبیہقي (١/ ٥٠)
٨۔ قبیصۃ بن عقبۃ ابو عامر الکوفی: صدوق ربما خالف.
التقریب (٦١٩٣) المستدرک (١/ ١٨٢)
٩۔ الحسین بن حفص الہمدانی: صدوق.
التقریب (١٤٥١) المستدرک للحاکم (١/ ١٨٢)
سفیان ثوری بھی ابو ہاشم اسماعیل بن کثیر سے اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں، بلکہ ایک جماعت نے ان کی متابعت کی ہے۔
سفیان ثوری کی متابعات:
١۔ عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج: ثقۃ فقیہ، فاضل وکان یدلس ویرسل.
التقریب (٤٦٩٥) مصنف عبد الرزاق (١/ ٢٦، ٢٧، ح: ٨٠)، مسند أحمد (٤/ ٣٣، ٢١١)، سنن أبي داود (١٤٣، ١٤٤)، سنن الدارمي (١/ ١٤٤، ح: ٧١١)، شرح مشکل الآثار للطحاوي (١٤/ ٣١۔ ٣٢، ح: ٥٤٢٦)، الأوسط لابن المنذر (١/ ٣٧٦، ح: ٣٥٦، ٣٥٧)، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ (٢/ ٥١٥، ٥١٦)، المعجم الکبیر للطبرانی (١٩/ ٢١٥۔ ٢١٦، ح: ٤٧٩)، المستدرک للحاکم (١/ ١٤٨)، السنن الکبری للبیہقي (١/ ٥١، ٥٢)، معرفۃ الصحابۃ لأبي نُعیم (٥/ ٢٤١٩، ٢٤٢٠، رقم: ٥٩٢)، موضح أوھام الجمع والتفریق للبغدادی (٢/ ٣٣٤، ٣٣٥).
٢۔ یحییٰ بن سلیم: صدوق سيئ الحفظ.
التقریب (٨٥٢٠)، سنن أبي داود (١٤٢، ٢٣٦٦)، سنن الترمذي (٧٨٨)، سنن النسائي (٨٧، ١١٤)، سنن ابن ماجہ (٤٠٧، ٤٤٨)، المصنف لابن أبي شیبۃ (١/ ١٨، ح: ٨٤، ١/ ٣٢، ح: ٢٧٣)، مسند الشافعي (ص: ١٥)، دوسرا نسخہ (رقم: ٨٠)، الطھور لأبي عبید القاسم بن السلام (رقم: ٢٧٠)، شرح مشکل الآثار للطحاوي (١٤/ ٣٢، ح: ٥٤٢٧)، معجم الصحابۃ للبغوي (٥/ ١٧٣، ١٧٤، ح: ٢٠٤٩)، المنتقی لابن الجارود (ح: ٨٠)، صحیح ابن خزیمۃ (١/ ٦٨، ح: ١٥٠، ١/ ٨٧، ح: ١٦٨)، صحیح ابن حبان (٢/ ١٩٥، ح: ١٠٥١، ٢/ ٢٠٨، ح: ١٠٨٤، ٧/ ٢١، ٤٤٩٣ ۔الإحسان۔)، غریب الحدیث للحربی (١/ ٣١٠)، شرح السنۃ للبغوی (١/ ٤١٥۔ ٤١٧، ح: ٢١٣)، السنن الکبری للبیہقي (١/ ٧٦، ٧/ ٣٠٣)، السنن الصغیر، لہ (١/ ٦٤، ٦٥، ح: ٩٤)، معرفۃ السنن والآثار، لہ (١/ ١٦٥۔ ١٦٦، ح: ٦٨)، جزء فیہ أحادیث مسموعات الإمام أبي ذر الھروی (ح: ١٢٨٢، ضمن: الفوائد لابن مندہ)، المعجم الکبیر للطبراني (١٩/ ٢١٦، ح: ٤٨٠)، التمہید لابن عبدالبر (١٨/ ٢٢٣)، الامتاع لابن حجر (ص: ٢٣٥)
٣۔ قرۃ بن خالد السدوسی: ثقۃ ضابط.
التقریب (٦٢٢٢)، المعجم الکبیر للطبراني (١٩/ ٢١٦۔ ٢١٧، ح: ٤٨٣)، المعجم الأوسط، لہ أیضاً (٨/ ٢١٥، ٢١٦، ح: ٧٤٤٢)، أسد الغابۃ لابن الأثیر الجزری (٤/ ٢٦٦).
٤۔ داود بن عبدالرحمن عطار: ثقۃ.
التقریب (١٩٦٩) المستدرک علی الصحیحین للحاکم (١/ ١٤٨)
٥۔ الحسن بن ابو جعفر الجفری: ضعیف.
التقریب (١٣٥١)، مسند الطیالسی (١٣٤١، ص: ١٩١)، وترتیبہ الفقھي: منحۃ المعبود (١/ ٥٢)
٦۔ روح بن عبادۃ البصری: ثقۃ فاضل.
التقریب (٢١٤٣) أسد الغابۃ (٤/ ٢٦٦)، وقال المصنف: أخرجہ ابن مندہ وأبو نُعیم.
اسماعیل بن کثیر ابو ہاشم، عاصم بن لقیط سے روایت کرنے میں منفرد نہیں، بلکہ اسماعیل بن امیہ: ثقۃ ثبت. (التقریب: ٤٨٦) نے متابعت کی ہے۔ معجم الصحابۃ لابن قانع (١٣/ ٤٥٣٦، ح: ١٦٩٣)

قارئینِ کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حافظ ابوبشر الدولابی اس زیادت کو ذکر کرنے میں منفرد ہیں، کوئی راوی بھی ان کی متابعتِ تامہ یا ناقصہ نہیں کر رہا، دولابی کے شیخ (محمد بن بشار) کی متابعت تین راویان نے کی ہے، ابن بشار کے شیخ کی متابعت نو راویان نے کی ہے، ابن مہدی کے شیخ (سفیان ثوری) کی متابعت چھ رواۃ نے کی ہے۔ سفیان ثوری کے شیخ (اسماعیل بن کثیر ابو ہاشم) کی متابعت ایک راوی نے کی ہے، بنا بریں حافظ ابن القطانؒ کا اس زیادت کا ذمہ دار عبدالرحمن بن مہدی کو ٹھہرانا درست نہیں، بلکہ یہ اضافہ حافظ دولابی کا ہونے کی وجہ سے منکر ہے، امام ابن القطان کا اس زیادت کو درست قرار دینا منہجِ محدثین کے خلاف ہے، لہٰذا وہ قابلِ التفات نہیں۔
اس حدیث کی شرح ملاحظہ ہو: شرح الإلمام لابن دقیق العید (٤/ ١٢٩۔ ٢٠٨ ۔الحدیث السابع۔)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ حسینوی بھائی! بہت علمی مقالات آپ شیئر کرتے ہیں، اللہ آپ کو خوش رکھیں!
ایک درخواست ہے کہ اگر مضمون شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فارمیٹنگ بھی کر دیا کریں (یعنی عربی عبارات کو منتخب کرکے ان پر عربی ٹیگ اور اسی طرح ہیڈنگز وغیرہ پر ہیڈنگ ٹیگز لگادیا کریں۔) تو پڑھنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ نے لکھا ہے:
جس کی تفصیل راقم کے مضمون ''زیادۃ الثقۃ اور وإذا قرأ فأنصتوا کا حکم'' اور ''زیادۃ الثقۃ اور وإذا قرأ فأنصتوا کی تصحیح کی حقیقت'' میں ملاحظہ فرمائیں۔
اس سلسلے میں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا مضمون "صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع اور ثقہ راوی کی زیادت" (مقالات:ج2ص229) بھی ملاحظہ فرمائیں۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ نے لکھا ہے:

اس سلسلے میں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا مضمون "صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع اور ثقہ راوی کی زیادت" (مقالات:ج2ص229) بھی ملاحظہ فرمائیں۔
حافظ خبیب احمد نے (صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع اور ثقہ راوی کی زیادت")کا علمی رد سو صفحات کے قریب مکمل لکھ دیا ہے والحمد للہ ۔ضروت پر محدث فورم میں بھی آن لائن کر دیا جائے گا ان شااللہ
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
حافظ خبیب احمد نے (صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع اور ثقہ راوی کی زیادت")کا علمی رد سو صفحات کے قریب مکمل لکھ دیا ہے والحمد للہ ۔ضروت پر محدث فورم میں بھی آن لائن کر دیا جائے گا ان شااللہ
جناب بہت جلد اسے آن لائن کریں ۔ اس میں تاخیر کس بات کی ؟؟؟
 
Top