عبدالمجید رانا
رکن
- شمولیت
- اپریل 23، 2013
- پیغامات
- 46
- ری ایکشن اسکور
- 53
- پوائنٹ
- 31
امیر کے حقوق (رعایا کے فرائض)
مسعود صاحب نے اپنی منہاج میں عنوان بالا کے تحت چند احکامات لکھے ہیں، ان سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیر یا ا مام کسے کہتے ہیں:
۱: مسعود صاحب نے لکھا:"رعایا کو چاہئے کہ امیر کی اطاعت کرے خواہ امیر حبشی غلام ہواور بدصورت ہی کیوں نہ ہو"(منہاج ص ۶۷۲)
اس کے ثبوت میں مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر ۳ میں سورۃ نساء :۵۹ اور صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کی ہے۔
۲: اسی طرح لکھا: "امیر اگر حق تلفی بھی کرے تو رعایا کو چاہئے کہ اس کا حق اسے دے۔"(منہاج ص ۶۷۴ بحوالہ صحیح بخاری)
ان دونوں مقامات پر نقل کردہ احادیث میں امیر کا اور عایا کا ذکر ہے،امیر حاکم ہوتا ہے اور رعایا محکوم ان بلکہ کسی بھی حدیث میں تیسری قسم "محکوم حاکم" یعنی وہ شخص جو خود کسی رعایا میں شامل ہوتے ہوئے بھی "حاکم" ہونے کا مدعی ہو ، اس کا ذکر نہیں۔
من ادعی فعلیہ البیان
رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے امام اشتیاق صاحب حاکم تو نہیں اور ان کے محکوم ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ موضوف "حدود آردیننس" کے ایک کیس میں کچھ عرصہ جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں،جب پاکستانی عدالت میں ان پر کیس بنا،عدالت نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کئے تو وہ جیل میں ڈال دئیے گئے،اگر وہ حکومت پاکستان کے محکوم نہ ہوتے تو جیل میں کبھی نہ ڈالے جاتے۔تو محکوم شخص حاکم نہیں ہو سکتا۔
۳: مسعود صاحب نے لکھا:
"حکام سے دور رہے،جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے،ظلم میں ان کی مدد نہ کرے" (منہاج ص ۶۷۲)
ثبوت کے طور پر مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر : میں دو احادیث نقل کی ہیں، ایک میں "امراء" کا لفظ ہے اور دوسرے میں "سلطان" کا۔امراء امیر کی جمع ہے۔اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں۔
رعایا کے حقوق (امیر کے فرائض)
یہ عنوان بھی مسعود صاحب کا قائم کردہ ہے اس کے تحت جو احکام لکھے ہیں ان سے بھی خوب وضاحت ہوتی ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں نہ کہ محکوم کو۔
۱: اقامت صلٰوۃ.......! مسعود صاحب نے لکھا:
"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں نماز کی اقامت کا انتظام کرے،زکوۃ کی وصولیابی کا بندوبست کرے،نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔"
(منہاج ص ۶۷۵)
اس کی دلیل جو مسعود صاحب نے نقل کی حاشیہ نمبر ۴ میں وہ بھی ملاحظہ کیجئے:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ.....................(منہاج ص ۶۷۵)
مسعود صاحب نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:
"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر اللہ زمیں میں ان کو استحکام و غلبہ عطاء کرے تو یہ نماز کو قائم کریں زکوۃ ادا کریں،نیک بات کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔"
(تفسیر قرآن عزیز ۶/۸۸۶)
اور اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اس آیت میں اللہ تعالٰی نے واضح طور پر صحابہ کرام کے دور خلافت کی تعریف فرمائی ہے۔یہ آیت بتاتی ہے کہ صحابہ کرام کے دور خلافت میں اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا معقول انتظام تھا، صحابہ کرام معروف کاموں کا حکم دیتے تھے اور برے کام سے روکتے تھے۔"(حوالہ بالا ص ۹۰۷)
بلاشبہ اس آیت کا اولین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی تھے،مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" میں یہ آیت نقل کرکے انجانے میں ہی سہی ثابت کر دیا کہ امیر وہ ہوتا ہے جس کے پاس "خلافت" ہو۔ زمین پر استحکام و غلبہ حاصل ہو،جس نے صلوۃ و زکوۃ کا،امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا نظام قائم کر رکھا ہو۔اس حقیقت سے مسعود صاحب بھی بخوبی آگاہ تھے یہی وجہ ہے کہ اپنی منہاج میں"خلافت علی منہاج النبوت" کے تحت لکھا:
"خلافت علی منہاج النبوت کی علامت یہ ہے کہ دین مستحکم ہو ،امن وا مان قائم ہو،اللہ تعالٰی کا قانون نافذ ہو اور صرف اللہ اکیلے کی حکومت قائم ہو،اس کے قانون و اطاعت میں کسی دوسرے کی شرکت نہ ہو پوری سلطنت میں اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ نظام صلوۃ اور نظام زکوۃ قائم ہو نیک باتوں کا حکم دیا جائے اور بری باتوں سے روکا جائے۔"
پھر حاشیہ نمبر :۳ میں سورۃ النور:۵۵ اور الحج:۴۱ نقل کردی۔(منہاج ص ۶۷۱)
دیکھئے جو آیت (الحج:۴۱) خلیفہ و خلافت کی ذمہ داریاں ثابت کرتی ہے وہی آیت "امیر کے فرائض" بھی ثابت کرتی ہے،مسعود صاحب کے اپنے طرز عمل سے واضح ہو جاتا ہے "خلافت و امارت" یا"امیر و خلیفہ" دو مختلف و متضاد چیزوں کا نام نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ان میں فرق ثابت کرنا خود ساختہ بات ہے۔