Difa-Hadees1
مبتدی
- شمولیت
- فروری 16، 2022
- پیغامات
- 6
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 5
منھج امام نسائی لا باس بہ
تو امام نسائی کے نذدیک بھی یہ راوی صدوق ہی ہے
امام ابن بشکول:
انہوں نے شیوخ عبداللہ بن وھب پر تصنیف لکھی ہے اور اس من شبیب کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں۔
ابن خلفون:
انہوں نے بخاری اور مسلم کے شیوخ پر کتاب لکھی ہے چنانچہ اس میں شبیب بن سعید کے بارے میں کیا فرماتے ہیں
امام ابن عدی
ان کا موقف تو سب کے سامنے موجود ہے
امام ذہبی:
امام ذہبی نے اس کو ثقہ بھی کہا ہے اور صدوق بھی فرمایا ہے مگر دونوں کے ساتھ یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔
الضعفاء المغنی
امام ذہبی کے حوالے سے ایک بات کی اور وضاحت ضروری ہے کہ موصوف نے یہ فرمایا ہے کہ امام ذہبی نے مستدرک الحاکم میں شبیب بن سعید سے اس کے بیٹے کی سند سے ایک روایت کو صحیح کہا ہے وہ روایت کیا ہے پہلے ملاحظہ فرمائیں
یہ وہی حدیث ہے جس میں شبیب نے اضافہ کیا ہے جس کو طبرانی نے نقل نہیں کیا ہےمگر یہاں یہ اس روایت میں وہ اضافہ بیان نہیں کر رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبیب اس واقع کو بیان کرنے میں خود تردد کا شکار تھا اور کبھی اس واقع کو غلطی اور وہم کی وجہ سے بیان کردیتا تھا اور کبھی دیگر ثقات کی متابعت میں اس واقع کو بیان نہیں کرتا چنانچہ یہ حدیث تو متعدد اسناد سے ثابت ہے یہ صرف شبیب سے ہی نقل نہیں ہوئی ہے تو اس کو صحیح کہنے میں امام ذہبی حق بجانب ہیں۔
ابن رجب الحنبلی:
امام ابن رجب الحنبلی نے شرح علل ترمذی میں اس کو ان لوگوں میں رکھا جو اگر کتاب سے روایت کریں تو صحیح ہیں مگر جب اپنے حافظہ سے بیان کرتے ہیں تو وہم اور غلطی کا شکار ہوتے ہیں
حافظ ابن حجر:
ان کے قول کے بارے میں بھی ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کے نذدیک بھی شبیب بن سعید صدوق راوی ہی ہے۔
ان کے علاوہ امام حاکم ان کو مستدرک میں ثقہ کہا ہے اور مستدرک امام حاکم کی آخری دور کی تصنیف تھی جس میں انہوں نے بہت سے رواۃ کو ثقہ وماموں فرمایا ہے مگر امام ذہبی نے اس کی تصحیح کی ہے اس لئے ان کا قول امام ذہبی کے قول کی تصحیح کا محتاج ہے اور امام ذہبی نے ان کو صدوق نقل کیا ہے
آخر میں امام ابن حبان اور امام ذھلی وغیرہ نے اس کو ثقہ کہا ہے جبکہ جمہور اس کے صدوق ہونے کے قائل ہے اور ہم نے یہی نقل کیا تھا کہ عند الجمہور محدثین شبیب بن سعید صدوق راوی ہے۔
ذیادۃ الثقات:
٘محدثین کے تمام اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شبیب بن سعید ایک صدوق درجے کا راوی ہے اور اس روایت میں اس نے ثقہ ترین رواۃ کی روایت میں اضافہ کیا ہے جو کہ اس کے وہم اور غلطی کا نتیجہ ہے چنانچہ اگر ہم اس حوالے سے اصول پر نظر ڈالیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک صدوق راوی اگر ایک روایت میں جمہور ثقات کی مخالفت یا اضافہ کو نقل کرے تو وہ قابل التفاء نہیں مانا جائے گا اور اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
اب آخر میں اس روایت کو بھی دیکھ لیتے ہیں جس میں شبیب نے اضافہ کیا ہے
113- حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَديني، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ , عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عثمان بن عفان في حاجة , فَكَانَ عُثْمَانُ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلاَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي تقضي حَاجَتِي , تَذْكُرُ حَاجَتَكَ , ثم رح حَتَّى أَرُوحَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ ذلك , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ بن عفان، فجاء البواب، فأخذ بيده فأدخله على عثمان , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , فقَالَ له: حَاجَتُكَ؟ [7/أ] فَذَكَرَ له حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا، ثم قَالَ ما فهمت حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَ السَّاعَة، وقال انظر مَا كَان لَكَ مِنْ حَاجَةٍ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِي عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ، فقال له: جزاك الله خيرًا، ما كان ينظر في حاجتي، ولا يلتفت إلي حتى كلمته، فقال عثمان بن حنيف: ما كلمته ولكني سَمِعْتُ رَسُول الله صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَه ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَتَصْبِر؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثم قل اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ، نَبِيَّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي، فَيجْلِي لي بَصَرِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ وَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي، فقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضرر قَطُّ.
508 - حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ "
( المعجم
آخر میں ایک وضاحت ضروری ہے موصوف نے ابن عدی کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے شبیب بن سعید کی چند روایات کو منکر قرار دیا اور موصوف نے اس کی متابعت ثابت کرکے یہ باور کروانا چاہا ہے کہ ابن عدی چونکہ شبیب بن سعید سے منکرات ثابت نہیں کر سکے اس لئے ان کا یہ موقف ہی غلط ثابت ہوتا ہے جبکہ ہم نےدیگر محدثین سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ شبیب بن سعید سے منکرات و غرائب کا صدور ہوا ہے تو ابن عدی کی دو روایات کی متابعت پیش کرنے سے اصول جرح ختم نہیں ہوجاتا ہے جبکہ ابن عدی کے پاس مکتبہ شاملہ کا سرچ سسٹم بھی موجود نہیں تھا کہ وہ سرچ کرکے ان روایات کی متابعت دھونڈ لیتے۔
چنانچہ اس تمام تحریر کا حاصل کلام یہی ہے کہ واقعہ ضعیف اور منکر ہے جس کو بیان کرنے میں شبیب بن سعید منفرد ہے اور اس حدیث کے ساتھ اس نے جس واقعے کا اضافہ کیا ہے وہ عند الجمہور رواۃ جو کے شبیب سے اوثق اور مرتبہ ضبط میں اس سے بہت اعلی ہیں اس میں اس شبیب نے اس واقع کا اضافہ کیا ہے جو کہ اصول ذیادۃ الثقات کی روشنی میں ضعیف اورناقابل حجت ہے اگر کسی کو ہمارے اس موقف سے اختلاف ہے تو وہ اسے دلائل سے پیش کر سکتا ہے اور اسے اگر اسے اپنے دلائل اور موقف پر اطمینان ہے تو بے شک وہ اس روایت کو صحیح مانتا رہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ہمارا موقف ہم نے دلائل کے ساتھ پیش کردیا ہے پڑھنے والے خود ان دلائل کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں.واللہ اعلم
تو امام نسائی کے نذدیک بھی یہ راوی صدوق ہی ہے
امام ابن بشکول:
انہوں نے شیوخ عبداللہ بن وھب پر تصنیف لکھی ہے اور اس من شبیب کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں۔
ابن خلفون:
انہوں نے بخاری اور مسلم کے شیوخ پر کتاب لکھی ہے چنانچہ اس میں شبیب بن سعید کے بارے میں کیا فرماتے ہیں
امام ابن عدی
ان کا موقف تو سب کے سامنے موجود ہے
امام ذہبی:
امام ذہبی نے اس کو ثقہ بھی کہا ہے اور صدوق بھی فرمایا ہے مگر دونوں کے ساتھ یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔
الضعفاء المغنی
امام ذہبی کے حوالے سے ایک بات کی اور وضاحت ضروری ہے کہ موصوف نے یہ فرمایا ہے کہ امام ذہبی نے مستدرک الحاکم میں شبیب بن سعید سے اس کے بیٹے کی سند سے ایک روایت کو صحیح کہا ہے وہ روایت کیا ہے پہلے ملاحظہ فرمائیں
یہ وہی حدیث ہے جس میں شبیب نے اضافہ کیا ہے جس کو طبرانی نے نقل نہیں کیا ہےمگر یہاں یہ اس روایت میں وہ اضافہ بیان نہیں کر رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبیب اس واقع کو بیان کرنے میں خود تردد کا شکار تھا اور کبھی اس واقع کو غلطی اور وہم کی وجہ سے بیان کردیتا تھا اور کبھی دیگر ثقات کی متابعت میں اس واقع کو بیان نہیں کرتا چنانچہ یہ حدیث تو متعدد اسناد سے ثابت ہے یہ صرف شبیب سے ہی نقل نہیں ہوئی ہے تو اس کو صحیح کہنے میں امام ذہبی حق بجانب ہیں۔
ابن رجب الحنبلی:
امام ابن رجب الحنبلی نے شرح علل ترمذی میں اس کو ان لوگوں میں رکھا جو اگر کتاب سے روایت کریں تو صحیح ہیں مگر جب اپنے حافظہ سے بیان کرتے ہیں تو وہم اور غلطی کا شکار ہوتے ہیں
حافظ ابن حجر:
ان کے قول کے بارے میں بھی ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کے نذدیک بھی شبیب بن سعید صدوق راوی ہی ہے۔
ان کے علاوہ امام حاکم ان کو مستدرک میں ثقہ کہا ہے اور مستدرک امام حاکم کی آخری دور کی تصنیف تھی جس میں انہوں نے بہت سے رواۃ کو ثقہ وماموں فرمایا ہے مگر امام ذہبی نے اس کی تصحیح کی ہے اس لئے ان کا قول امام ذہبی کے قول کی تصحیح کا محتاج ہے اور امام ذہبی نے ان کو صدوق نقل کیا ہے
آخر میں امام ابن حبان اور امام ذھلی وغیرہ نے اس کو ثقہ کہا ہے جبکہ جمہور اس کے صدوق ہونے کے قائل ہے اور ہم نے یہی نقل کیا تھا کہ عند الجمہور محدثین شبیب بن سعید صدوق راوی ہے۔
ذیادۃ الثقات:
٘محدثین کے تمام اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شبیب بن سعید ایک صدوق درجے کا راوی ہے اور اس روایت میں اس نے ثقہ ترین رواۃ کی روایت میں اضافہ کیا ہے جو کہ اس کے وہم اور غلطی کا نتیجہ ہے چنانچہ اگر ہم اس حوالے سے اصول پر نظر ڈالیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک صدوق راوی اگر ایک روایت میں جمہور ثقات کی مخالفت یا اضافہ کو نقل کرے تو وہ قابل التفاء نہیں مانا جائے گا اور اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
اب آخر میں اس روایت کو بھی دیکھ لیتے ہیں جس میں شبیب نے اضافہ کیا ہے
113- حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَديني، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ , عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عثمان بن عفان في حاجة , فَكَانَ عُثْمَانُ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلاَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي تقضي حَاجَتِي , تَذْكُرُ حَاجَتَكَ , ثم رح حَتَّى أَرُوحَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ ذلك , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ بن عفان، فجاء البواب، فأخذ بيده فأدخله على عثمان , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , فقَالَ له: حَاجَتُكَ؟ [7/أ] فَذَكَرَ له حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا، ثم قَالَ ما فهمت حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَ السَّاعَة، وقال انظر مَا كَان لَكَ مِنْ حَاجَةٍ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِي عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ، فقال له: جزاك الله خيرًا، ما كان ينظر في حاجتي، ولا يلتفت إلي حتى كلمته، فقال عثمان بن حنيف: ما كلمته ولكني سَمِعْتُ رَسُول الله صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَه ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَتَصْبِر؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثم قل اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ، نَبِيَّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي، فَيجْلِي لي بَصَرِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ وَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي، فقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضرر قَطُّ.
508 - حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ "
( المعجم
آخر میں ایک وضاحت ضروری ہے موصوف نے ابن عدی کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے شبیب بن سعید کی چند روایات کو منکر قرار دیا اور موصوف نے اس کی متابعت ثابت کرکے یہ باور کروانا چاہا ہے کہ ابن عدی چونکہ شبیب بن سعید سے منکرات ثابت نہیں کر سکے اس لئے ان کا یہ موقف ہی غلط ثابت ہوتا ہے جبکہ ہم نےدیگر محدثین سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ شبیب بن سعید سے منکرات و غرائب کا صدور ہوا ہے تو ابن عدی کی دو روایات کی متابعت پیش کرنے سے اصول جرح ختم نہیں ہوجاتا ہے جبکہ ابن عدی کے پاس مکتبہ شاملہ کا سرچ سسٹم بھی موجود نہیں تھا کہ وہ سرچ کرکے ان روایات کی متابعت دھونڈ لیتے۔
چنانچہ اس تمام تحریر کا حاصل کلام یہی ہے کہ واقعہ ضعیف اور منکر ہے جس کو بیان کرنے میں شبیب بن سعید منفرد ہے اور اس حدیث کے ساتھ اس نے جس واقعے کا اضافہ کیا ہے وہ عند الجمہور رواۃ جو کے شبیب سے اوثق اور مرتبہ ضبط میں اس سے بہت اعلی ہیں اس میں اس شبیب نے اس واقع کا اضافہ کیا ہے جو کہ اصول ذیادۃ الثقات کی روشنی میں ضعیف اورناقابل حجت ہے اگر کسی کو ہمارے اس موقف سے اختلاف ہے تو وہ اسے دلائل سے پیش کر سکتا ہے اور اسے اگر اسے اپنے دلائل اور موقف پر اطمینان ہے تو بے شک وہ اس روایت کو صحیح مانتا رہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ہمارا موقف ہم نے دلائل کے ساتھ پیش کردیا ہے پڑھنے والے خود ان دلائل کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں.واللہ اعلم