اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
۔خلافت راشدہ کے سیاسی حالات اور فرقوں کا ظہور وشیوع:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد جب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے تو بعض قبائل دینی ذمہ داریوں کا جوا اتار کر ٓزاد منش ہوگئے ، چنانچہ بعض قبیلے ایسے تھے جنہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا بعض اسلام سے اس لئے منحرف ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی دین بھی اپنی موت مر چکا ہے حتیٰ کہ بعض گمراہ شعراء نے اس ضمن میں اشعار بھی نظم کئے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان حالات میں وہی کچھ کیا جس کی ایک غیور و جسور تجربہ کار قائد سے توقع کی جاسکتی ہے، چنانچہ آپ نے اس فتنہ کو سر اٹھاتے ہی کچل دیا اور اس کے جراثیم کو بڑا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جو لوگ دین اسلام پر حملہ آور ہوئے تھے خائب وخاسر لوٹے اوران کی گردنیں احکام خداوندی کے آگے جھک گئیں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو سال اوعرر چند ماہ مسند خلافت پر متمکن رہے اس قلیل مدت میں اسلام کا جھنڈا سر زمین فارس و روم پر لہرانے لگا آپ نے قرآن عزیز کی جمع وتدوین کا کا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نامہ سر انجام دیا اور حدیث کے بارے میں احتیاطی اقدامات کئے ۔
جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین منتخب فرمایا فاروقی عہدمیں اسلامی فتوحات کا دائرہ شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً ہر جانب وسعت پذیر ہوا ۔ ملک شام و مصر اور جزیدہ اسلامی حکومت کے زیر نگین ہوئے آپ دس سال اور چند ماہ خلافت کے منصب پر فائز رہے آپ کے عہد میں نہ قوی شخص آپ کے صبرو تحمل کا امیدوار ہو سکتا تھا اور نہ کمزور آدمی آپ کے عدل و انصاف سے مایوس رہ سکتا تھا آپ نے احدیث نبویہ کو منافقین کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھا آپ نے صحابہ کو حفظ قرآن اور حدیثیں کم روایت کرنے کا مشورہ دیا غرض یہ کہ جملہ امور و افعال سنت نبوی کے زیر اثر تھے۔
خلافت فاروقی کے دوران مسلمانوں میں حد درجہ وحدت اور شیرازہ بندی پائی جاتی تھی جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسند خلافت کو رونق بخشی تو اسلامی فتوحات کا دائرہ مزید پھیلا آپ نے جمع شدہ قرآن کریم کی نقلیں کروائیں اور ان کو اطراف ملک بھیج کر اس اختلاف کا خالتمہ کر دیا جو مسلمانوں کی تفریق کا باعث بننے والا تھا۔
آپ بارہ سال تک خلافت کے فرائض سرانجام دیتے رہے پہلے چھ سال کا مل امن وامان اور خوش حالی و فارغ البالی میں گزرے خلافت عثمانی کے نصف ثانی میں کچھ لوگوں نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ اپنے اقارب کو کلیدی مناصب تفویض کررہے ہیں غیر مسلموں نے اس زریں موقع سے فائدی اٹھایا اور مسلمانوں کو خلیفہ کے بر خلاف بغاوت پر آمادہ کر کے فتنہ کی آگ بھڑکائی۔ دراصل ان کا مقصد یہ تھا کہ ملسمانوں میںؓ نزاع وجدال پیدا کر کے ملت کا شیرازہ پرا گندہ کر دیا جائے چنانچہ ان لوگوں نے مختلف سنٹروں کے لوگوں کو حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف برانگیختہ کیا جس کے نتیجہ میں حضرت عثمان شہادت سے سرفراز ہوئے،شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قصر اسلام کی بنیادیں ایسی ہلیں کہ پھر انہیں وہ استحکام دوبارہ نصیب نہ ہوسکا ،ملت اسلامی کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شک خلیفہ بن گئے مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو ایک دن بھی امن و سکون کا میسر نہ آیا اور نہ ہی تمام اسلامی بلاد آپ کے زیر نگیں ہوئے ۔ملک شام شروع سے ہی امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر تسلط تھا جو اب قصاص عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دعویٰ لے کر کھڑے ہوگئے اور بیعت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکار کر دیا۔چنانچہ دونوں کے درمیان مہلک لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہواجن میں کثیر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مارے گئےبے پناہ لڑائیوں کا سلسلہ جنگ صفین پر جا کر ختم ہوا۔اس جنگ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رفقاء میں ایک فریق نے تحکیم کے فیصلہ کو قبول کر لیا دوسرے انکار پر مصر رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ بھائی بھائی بن کر گئے مگر جب لوٹے تو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔