- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
السلام علیکم
کچھ عرصہ سے اپنی ایک دنیاوی مشکلات میں اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کر رہا تھا لیکن وہ مشکلات حل نہیں ہو رہی تھی جس سے رفتہ رفتہ دل میں ایک عجیب سی مایوسی کی کیفیت پیدا ہونی شروع ہو گی۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے اچانک ذہن میں کچھ ایسے خیالات پیدا کیے کہ الحمد للہ دعا قبول نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی وہ مایوسی کی کیفیت ختم ہو گئی۔
میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالی نے بغیر دعا کیے مجھے اتنی نعمتیں دی ہوئی ہیں۔ اگر ان میں سے فلاں فلاں نعمت نہ ہوتی تو میں آج اس نعمت کے کس قدر بے چین یا دعا گو ہوتا۔ پس اس طرح میں اللہ کی نعمتوں کو شمار کرتا گیا تو مجھے احساس ہوا کہ جو چیزیں مجھے مسلسل دعا کے نتیجے میں نہیں مل رہی ہیں، وہ بہت کم ہیں جبکہ جو میرے دعا کیے بغیر مجھے ملی ہوئی ہیں، ان کا کوئی شمار قطار نہیں ہے تو میری مایوسی کی کیفیت امید میں تبدیل ہو گئی اور میں نے سوچا کہ جو ایک شیئ ہمارے پاس نہیں ہوتی ہے اس کا تو ہم رونا روتے ہیں لیکن جو بیسیوں ہوتی ہیں ان کا شکر ادا نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہم صرف شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو ہر وقت ذہن میں یہ استحضار رہے گا کہ اللہ تعالی مجھے بن مانگے بہت کچھ دے رہا ہے اور اگر کبھی کوئی دعا قبول نہ بھی ہوئی تو اس احساس کی بدولت مایوسی نہیں ہو گی۔
میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم میں سے کسی ایک کے پاس بیس ہزار کی جاب یا آمدن ہوتی ہے لیکن وہ عرصہ دراز سے پچاس ہزار کی جاب یا آمدن کے لیے کوشش اور دعا کر رہا ہے لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہو رہی لہذا وہ مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے حالانکہ اگر وہ اس دعا کے ساتھ ساتھ اس بیس ہزار کی جاب یا آمدن پر شکر کا حق ادا کر رہا ہوتا تو اسے یہ سوچ کا مایوسی نہ ہوتی کہ میرے ارد گرد کتنے ایسے ہیں جو مجھ سے زیادہ قابل اور نیک ہیں لیکن ان کے پاس بیس ہزار کی آمدن یا جاب بھی نہیں ہے اور اللہ نے مجھے یہ بن مانگے دی ہوئی ہے۔
کچھ عرصہ سے اپنی ایک دنیاوی مشکلات میں اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کر رہا تھا لیکن وہ مشکلات حل نہیں ہو رہی تھی جس سے رفتہ رفتہ دل میں ایک عجیب سی مایوسی کی کیفیت پیدا ہونی شروع ہو گی۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے اچانک ذہن میں کچھ ایسے خیالات پیدا کیے کہ الحمد للہ دعا قبول نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی وہ مایوسی کی کیفیت ختم ہو گئی۔
میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالی نے بغیر دعا کیے مجھے اتنی نعمتیں دی ہوئی ہیں۔ اگر ان میں سے فلاں فلاں نعمت نہ ہوتی تو میں آج اس نعمت کے کس قدر بے چین یا دعا گو ہوتا۔ پس اس طرح میں اللہ کی نعمتوں کو شمار کرتا گیا تو مجھے احساس ہوا کہ جو چیزیں مجھے مسلسل دعا کے نتیجے میں نہیں مل رہی ہیں، وہ بہت کم ہیں جبکہ جو میرے دعا کیے بغیر مجھے ملی ہوئی ہیں، ان کا کوئی شمار قطار نہیں ہے تو میری مایوسی کی کیفیت امید میں تبدیل ہو گئی اور میں نے سوچا کہ جو ایک شیئ ہمارے پاس نہیں ہوتی ہے اس کا تو ہم رونا روتے ہیں لیکن جو بیسیوں ہوتی ہیں ان کا شکر ادا نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہم صرف شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو ہر وقت ذہن میں یہ استحضار رہے گا کہ اللہ تعالی مجھے بن مانگے بہت کچھ دے رہا ہے اور اگر کبھی کوئی دعا قبول نہ بھی ہوئی تو اس احساس کی بدولت مایوسی نہیں ہو گی۔
میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم میں سے کسی ایک کے پاس بیس ہزار کی جاب یا آمدن ہوتی ہے لیکن وہ عرصہ دراز سے پچاس ہزار کی جاب یا آمدن کے لیے کوشش اور دعا کر رہا ہے لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہو رہی لہذا وہ مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے حالانکہ اگر وہ اس دعا کے ساتھ ساتھ اس بیس ہزار کی جاب یا آمدن پر شکر کا حق ادا کر رہا ہوتا تو اسے یہ سوچ کا مایوسی نہ ہوتی کہ میرے ارد گرد کتنے ایسے ہیں جو مجھ سے زیادہ قابل اور نیک ہیں لیکن ان کے پاس بیس ہزار کی آمدن یا جاب بھی نہیں ہے اور اللہ نے مجھے یہ بن مانگے دی ہوئی ہے۔