ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس معنی کا احتمال دونوں صورتوں میں پایاجاتاہے۔ان میں سے پہلا احتمال زیادہ قوی ہے۔ ’’سبعۃ أحرف، أی سبعۃ أوجہ‘‘ حضرت عمر کے قول میں دوسرے معنی کا زیادہ احتمال ہے۔ جب آپ نے فرمایا: سمعت ھشاما یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اﷲ!۔ میں نے ہشام کو سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے ہوئے سنا جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ دوسری روایت کے لفظ ہیں: سمعتہ یقرأ أحرفا لم یکن رسول اﷲ! أقرأنیھا ’’میں نے اسے ایسے احرف پڑھتے ہوئے سنا جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘
أوجہ سے لغات مرادلینے کی تائید اس بات سے بھی ملتی ہے ، کہ قرآن مجید کوسبعہ احرف پرنازل کرنے کی حکمت تخفیف اور آسانی ہے۔تاکہ اس امت کے لوگ اپنی لغت کے مطابق آسانی سے تلاوت کرسکیں۔ اس بات کی صراحت صحیح احادیث سے ملتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا :أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ ’’میں اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت اور مدد کا طلب گار ہوں۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا:إن ربی أرسل إلي أن أقرأ القرآن علی حرف واحد فرددت علیہ أن ھون علی أمتی ولم یزل یردد حتی بلغ سبعۃ أحرف ’’میرے رب نے میری طرف (حکم) نازل کیا کہ میں قرآن مجید ایک حرف پر پڑھوں۔ میں عرض کرتا رہاکہ میری امت پرآسانی فرمائیں، حتیٰ کہ سبعہ احرف تک رخصت مل گئی۔‘‘ آپﷺنے جبریل ؑ سے فرمایا: ’’ إنی أرسلت إلی أمۃ أمیۃ فیھم الرجل والمرأۃ والغلام والجاریۃ والشیخ الفاني الذی لم یقرأ کتابا قط‘‘ ’’میں اُمی (اَن پڑھ) قوم کی طرف بھیجاگیاہوں۔ ان میں مرد، عورت، بچے اور ایسے بوڑھے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔‘‘
رسول اللہﷺپوری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی زبانوں میں انتہادرجے کااختلاف ہے۔یہ تمام قرآن مجید کے مخاطب ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن‘‘ (المزمل:۲۰) اگر انہیں ایک لغت کا مکلف بنا دیا جائے تو ان کے لیے مشکل ہوجائے گی اور کچھ لوگ تو کوشش کے باوجود اپنی لغت چھوڑ نہ پائیں گے۔لہٰذا دین کی آسانی کا تقاضا ہے کہ قرآن مجید کومختلف لغات میں پڑھا جائے۔
اس معنی کا احتمال دونوں صورتوں میں پایاجاتاہے۔ان میں سے پہلا احتمال زیادہ قوی ہے۔ ’’سبعۃ أحرف، أی سبعۃ أوجہ‘‘ حضرت عمر کے قول میں دوسرے معنی کا زیادہ احتمال ہے۔ جب آپ نے فرمایا: سمعت ھشاما یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اﷲ!۔ میں نے ہشام کو سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے ہوئے سنا جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ دوسری روایت کے لفظ ہیں: سمعتہ یقرأ أحرفا لم یکن رسول اﷲ! أقرأنیھا ’’میں نے اسے ایسے احرف پڑھتے ہوئے سنا جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘
أوجہ سے لغات مرادلینے کی تائید اس بات سے بھی ملتی ہے ، کہ قرآن مجید کوسبعہ احرف پرنازل کرنے کی حکمت تخفیف اور آسانی ہے۔تاکہ اس امت کے لوگ اپنی لغت کے مطابق آسانی سے تلاوت کرسکیں۔ اس بات کی صراحت صحیح احادیث سے ملتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا :أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ ’’میں اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت اور مدد کا طلب گار ہوں۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا:إن ربی أرسل إلي أن أقرأ القرآن علی حرف واحد فرددت علیہ أن ھون علی أمتی ولم یزل یردد حتی بلغ سبعۃ أحرف ’’میرے رب نے میری طرف (حکم) نازل کیا کہ میں قرآن مجید ایک حرف پر پڑھوں۔ میں عرض کرتا رہاکہ میری امت پرآسانی فرمائیں، حتیٰ کہ سبعہ احرف تک رخصت مل گئی۔‘‘ آپﷺنے جبریل ؑ سے فرمایا: ’’ إنی أرسلت إلی أمۃ أمیۃ فیھم الرجل والمرأۃ والغلام والجاریۃ والشیخ الفاني الذی لم یقرأ کتابا قط‘‘ ’’میں اُمی (اَن پڑھ) قوم کی طرف بھیجاگیاہوں۔ ان میں مرد، عورت، بچے اور ایسے بوڑھے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔‘‘
رسول اللہﷺپوری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی زبانوں میں انتہادرجے کااختلاف ہے۔یہ تمام قرآن مجید کے مخاطب ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن‘‘ (المزمل:۲۰) اگر انہیں ایک لغت کا مکلف بنا دیا جائے تو ان کے لیے مشکل ہوجائے گی اور کچھ لوگ تو کوشش کے باوجود اپنی لغت چھوڑ نہ پائیں گے۔لہٰذا دین کی آسانی کا تقاضا ہے کہ قرآن مجید کومختلف لغات میں پڑھا جائے۔