ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
حدیث غسلِ حضرت عائشہؓ پر اعتراض کا جواب
حدیث: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے ابوسلمہؓ اور آپ کے بھائی (رضاعی) عبداللہ بن یزید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ سے آپ کے بھائی نے حضورﷺ کے غسل کے بارے میں پوچھا، آپ نے ایک برتن میں پانی منگوایا جوصاع (ایک پیمانہ) کے برابر ہوگا اور اس سے غسل کیا اور اپنے سرسے پانی بہایا، ہمارے اور آپﷺ کے مابین پردہ تھا۔
(بخاری، كِتَاب الْغُسْلِ،بَاب الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ،حدیث نمبر:۲۴۳، شاملہ، موقع الإسلام)
منکرینِ حدیث اس حدیث کو نہایت تمسخر سے پیش کرتے نظر آتے ہیں اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے انکو ہم نے اس بہانے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے دیکھا۔ یہاں اس حدیث پر مختصر تبصرہ پیش ہے۔
اس حدیث پر غور کیا جائے تو اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔
1. راویِ حدیث حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ او ر حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہاکے رضاعی بھائی دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے محارم میں سے تھے’اور محارم کے سر کے بال ، کان، چہرہ ،بازو، پنڈلیاں،اور پاؤں وغیرہ کی طرف نگاہ جائز ہے ۔(بدائع الصنائع: ۶ /۴۸۹،البحر الرائق:۸ /۳۵۵، حاشیہ ابن عابدین ۵ /۲۵۹)(مواھب الجلیل لشرح مختصرالخلیل:۲ /۱۸۲)(کفایة الاخیار،ص:۴۶۹،۴۷۰، المجموع شرح المہذب :۱۷ /۲۱۵ ، ۲۱۶)(المغنی لابن قدامہ:۷ /۷۵)
2. حدیث میں صراحت سے منقول ہے کہ حضرت ام المؤمنینؓ اور ان کے بھائی اور بھانجے کے مابین پردہ تھا۔
چند توجیحات:۔
1. عرف میں جب کسی سے اس طرح کا کوئی سوال کیا جاتا ہے کہ کتنی مقدار پانی سے غسل کیا جاسکتا ہے ؟یا فلاں کتنے مقدار پانی سے غسل کرتے تھے ؟تو اس کے جواب میں اگر وہ اس مخصوص برتن میں پانی منگوا کر پردے اور حجاب میں رہ کر اتنے پانی سے عملاًغسل کر کے بتائے کہ اتنی مقدار پانی سے غسل کیا تھا ، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پوچھنے والوں نے اسے دیکھا ہو ،اسی طرح یہاں بھی ہوا ہے، مزید برآں جب راوی خودیہ کہہ رہا ہے کہ” ان کے اور ہمارے درمیان پردہ اور حجاب تھا“تو پھر اپنی طرف سے اعتراض کشید کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟یہ سوائے ان نفوسِ قدسیہ سے عداوت کے اظہار کے اور کچھ نہیں۔
2. اگران حضرات کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوئی نگاہ پڑی بھی ہے تو اس میں شرعی نقطہ نظر سے کوئی حرج بھی نہیں؛ اس لیے کہ یہ دونو ں ان کے محارم میں سے تھے اور ان کے لیے جسم کے اوپر کے حصے کی طرف نگاہ کرنا جائز تھا۔پھر شراح حدیث میں سے علامہ ابن رجب حنبلی وغیرہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ اس وقت نابالغ اور چھوٹے بچے تھے ۔ (فتح الباری لابن رجب الحنبلی:۱ /۱۴۴، الکنز المتوای:۳ / ۱۹۱)
3. علامہ احمد بن ا سماعیل بن عثمان بن محمد کورانی لکھتے ہیں کہ ممکن ہے ان کا پہلے سے غسل کا ارادہ ہو اور اتفاقی طور سے یہ دونوں حضرات بھی آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں پوچھا (دیکھیے :الکوثر الجاری :۱ /۴۰۹ ، ۴۱۰)
4. یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اس زمانے میں آج کی طرح مکمل بند غسل خانے نہیں ہوا کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام ہدایت بھی یہ تھی کہ دوران ِغسل ستر کو چھپایا جائے ،تو کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف عمل کیا ہو؟ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے؛ پھر یہ ضروری تو نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے لباس کے بغیر غسل کیا ہو ، کسی ایک بھی صحیح روایت میں نہ تو اس کی صراحت ہے اور نہ ہی کنایتاً اس بات کا اشارہ ملتا ہے ، اقرب یہ ہے کہ ان کا یہ غسل لباس پہننے کی حالت میں تھا ،لہٰذا ایک شرعی مسئلہ کی تعلیم کے لیے کپڑے پہنے ہوئے ہونے کے باوجود پردے اور حجاب کے اوٹ میں ہوجانا ، ان پر اعتراض کے بجائے ان کی حیا اور احتیاط پر دلالت کرتا ہے، اگر واقعہ حال میں معترض کے زعم باطل کے مطابق کوئی بات قابلِ اعتراض ہوئی بھی ہو اور اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ شرعاً اور عرفاًکوئی قابلِ ا عتراض بات نہیں ، اور اگر ایسا ہوتا توعقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ہے کہ خیرالقرون میں موجود صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور خود راوی اور سائل اس پر کوئی نکیر نہ کرتے اور خاموشی اختیار کرتے ، حاشا وکلا !اس کو چھوڑیے اگر اس روایت پر ایسا کوئی ا عتراض ہوتا توامت کے اساطین اہلِ علم میں سے کوئی ایک فرد ضروراس کی طرف توجہ کرتا ا ور اس کا قابلِ اعتراض ہونا بیان کرتا؛ لیکن آج تک کسی نے بھی اس روایت اور اس کے الفاظ کو قابلِ اعتراض نہیں سمجھا، تو اس کا مطلب واضح ہے کہ معترض صرف ا ورصرف اپنے دل میں موجود بغض اور کینہ کا اظہار کر نے کے سوا اور کچھ نہیں کر ر ہے ۔
ایک نیک طینت اور سلیم الفطرت آدمی کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی پاک دامنی اور حیا کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورئہ نور میں متعدد آیات نازل فرمائی ہیں اور زبانِ نبوت نے ان کی تعریف و توصیف بیان کی ہے ، ہاں کوئی کج فطرت اور ایمان کی حقیقت سے محروم ہو تو اس کے لیے نہ تو اللہ کا کلام کافی ہوسکتا ہے اور نہ ہی ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔
http://ilhaad.com/2015/06/ghusal-hadith-ahtiraz/
حدیث: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے ابوسلمہؓ اور آپ کے بھائی (رضاعی) عبداللہ بن یزید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ سے آپ کے بھائی نے حضورﷺ کے غسل کے بارے میں پوچھا، آپ نے ایک برتن میں پانی منگوایا جوصاع (ایک پیمانہ) کے برابر ہوگا اور اس سے غسل کیا اور اپنے سرسے پانی بہایا، ہمارے اور آپﷺ کے مابین پردہ تھا۔
(بخاری، كِتَاب الْغُسْلِ،بَاب الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ،حدیث نمبر:۲۴۳، شاملہ، موقع الإسلام)
منکرینِ حدیث اس حدیث کو نہایت تمسخر سے پیش کرتے نظر آتے ہیں اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے انکو ہم نے اس بہانے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے دیکھا۔ یہاں اس حدیث پر مختصر تبصرہ پیش ہے۔
اس حدیث پر غور کیا جائے تو اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔
1. راویِ حدیث حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ او ر حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہاکے رضاعی بھائی دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے محارم میں سے تھے’اور محارم کے سر کے بال ، کان، چہرہ ،بازو، پنڈلیاں،اور پاؤں وغیرہ کی طرف نگاہ جائز ہے ۔(بدائع الصنائع: ۶ /۴۸۹،البحر الرائق:۸ /۳۵۵، حاشیہ ابن عابدین ۵ /۲۵۹)(مواھب الجلیل لشرح مختصرالخلیل:۲ /۱۸۲)(کفایة الاخیار،ص:۴۶۹،۴۷۰، المجموع شرح المہذب :۱۷ /۲۱۵ ، ۲۱۶)(المغنی لابن قدامہ:۷ /۷۵)
2. حدیث میں صراحت سے منقول ہے کہ حضرت ام المؤمنینؓ اور ان کے بھائی اور بھانجے کے مابین پردہ تھا۔
چند توجیحات:۔
1. عرف میں جب کسی سے اس طرح کا کوئی سوال کیا جاتا ہے کہ کتنی مقدار پانی سے غسل کیا جاسکتا ہے ؟یا فلاں کتنے مقدار پانی سے غسل کرتے تھے ؟تو اس کے جواب میں اگر وہ اس مخصوص برتن میں پانی منگوا کر پردے اور حجاب میں رہ کر اتنے پانی سے عملاًغسل کر کے بتائے کہ اتنی مقدار پانی سے غسل کیا تھا ، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پوچھنے والوں نے اسے دیکھا ہو ،اسی طرح یہاں بھی ہوا ہے، مزید برآں جب راوی خودیہ کہہ رہا ہے کہ” ان کے اور ہمارے درمیان پردہ اور حجاب تھا“تو پھر اپنی طرف سے اعتراض کشید کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟یہ سوائے ان نفوسِ قدسیہ سے عداوت کے اظہار کے اور کچھ نہیں۔
2. اگران حضرات کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوئی نگاہ پڑی بھی ہے تو اس میں شرعی نقطہ نظر سے کوئی حرج بھی نہیں؛ اس لیے کہ یہ دونو ں ان کے محارم میں سے تھے اور ان کے لیے جسم کے اوپر کے حصے کی طرف نگاہ کرنا جائز تھا۔پھر شراح حدیث میں سے علامہ ابن رجب حنبلی وغیرہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ اس وقت نابالغ اور چھوٹے بچے تھے ۔ (فتح الباری لابن رجب الحنبلی:۱ /۱۴۴، الکنز المتوای:۳ / ۱۹۱)
3. علامہ احمد بن ا سماعیل بن عثمان بن محمد کورانی لکھتے ہیں کہ ممکن ہے ان کا پہلے سے غسل کا ارادہ ہو اور اتفاقی طور سے یہ دونوں حضرات بھی آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں پوچھا (دیکھیے :الکوثر الجاری :۱ /۴۰۹ ، ۴۱۰)
4. یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اس زمانے میں آج کی طرح مکمل بند غسل خانے نہیں ہوا کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام ہدایت بھی یہ تھی کہ دوران ِغسل ستر کو چھپایا جائے ،تو کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف عمل کیا ہو؟ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے؛ پھر یہ ضروری تو نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے لباس کے بغیر غسل کیا ہو ، کسی ایک بھی صحیح روایت میں نہ تو اس کی صراحت ہے اور نہ ہی کنایتاً اس بات کا اشارہ ملتا ہے ، اقرب یہ ہے کہ ان کا یہ غسل لباس پہننے کی حالت میں تھا ،لہٰذا ایک شرعی مسئلہ کی تعلیم کے لیے کپڑے پہنے ہوئے ہونے کے باوجود پردے اور حجاب کے اوٹ میں ہوجانا ، ان پر اعتراض کے بجائے ان کی حیا اور احتیاط پر دلالت کرتا ہے، اگر واقعہ حال میں معترض کے زعم باطل کے مطابق کوئی بات قابلِ اعتراض ہوئی بھی ہو اور اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ شرعاً اور عرفاًکوئی قابلِ ا عتراض بات نہیں ، اور اگر ایسا ہوتا توعقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ہے کہ خیرالقرون میں موجود صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور خود راوی اور سائل اس پر کوئی نکیر نہ کرتے اور خاموشی اختیار کرتے ، حاشا وکلا !اس کو چھوڑیے اگر اس روایت پر ایسا کوئی ا عتراض ہوتا توامت کے اساطین اہلِ علم میں سے کوئی ایک فرد ضروراس کی طرف توجہ کرتا ا ور اس کا قابلِ اعتراض ہونا بیان کرتا؛ لیکن آج تک کسی نے بھی اس روایت اور اس کے الفاظ کو قابلِ اعتراض نہیں سمجھا، تو اس کا مطلب واضح ہے کہ معترض صرف ا ورصرف اپنے دل میں موجود بغض اور کینہ کا اظہار کر نے کے سوا اور کچھ نہیں کر ر ہے ۔
ایک نیک طینت اور سلیم الفطرت آدمی کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی پاک دامنی اور حیا کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورئہ نور میں متعدد آیات نازل فرمائی ہیں اور زبانِ نبوت نے ان کی تعریف و توصیف بیان کی ہے ، ہاں کوئی کج فطرت اور ایمان کی حقیقت سے محروم ہو تو اس کے لیے نہ تو اللہ کا کلام کافی ہوسکتا ہے اور نہ ہی ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔
http://ilhaad.com/2015/06/ghusal-hadith-ahtiraz/