• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث محمد رسول اللّٰہﷺ‎ اور عصرِ حاضر

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
حدیث محمد رسول اللّٰہﷺ‎ اور عصرِ حاضر


ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

1• ”اللّٰہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی“ یا فرمایا: ”میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں،
یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی،

2/3• مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو
میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے، گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں،
البتہ ایسا ہوگا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے،

4• اور میں اپنی امت پر گمراہ کر دینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں،

5• اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی،

6• اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں،

7• اور عنقریب میری امت میں تیس (۳۰) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے،
حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا،

8• میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا (ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے) وہ غالب رہے گا، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللّٰہ کا حکم آ جائے“۔

عربی متن حدیث
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، ومحمد بن عيسى، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي اسماء، عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله زوى لي الارض، او قال: إن ربي زوى لي الارض فرايت مشارقها ومغاربها وإن ملك امتي سيبلغ ما زوي لي منها واعطيت الكنزين الاحمر والابيض، وإني سالت ربي لامتي ان لا يهلكها بسنة بعامة ولا يسلط عليهم عدوا من سوى انفسهم فيستبيح بيضتهم؟ وإن ربي قال لي: يا محمد إني إذا قضيت قضاء فإنه لا يرد ولا اهلكهم بسنة بعامة ولا اسلط عليهم عدوا من سوى انفسهم فيستبيح بيضتهم ولو اجتمع عليهم من بين اقطارها، او قال: باقطارها حتى يكون بعضهم يهلك بعضا، وحتى يكون بعضهم يسبي بعضا، وإنما اخاف على امتي الائمة المضلين وإذا وضع السيف في امتي لم يرفع عنها إلى يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من امتي بالمشركين وحتى تعبد قبائل من امتي الاوثان وإنه سيكون في امتي كذابون ثلاثون كلهم يزعم انه نبي وانا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من امتي على الحق"، قال ابن عيسى: ظاهرين ثم اتفقا لا يضرهم من خالفهم حتى ياتي امر الله.

https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?hadith_number=4252&bookid=3&tarqeem=1

تخریج الحدیث:
«‏‏‏‏صحیح مسلم/الإمارة 53 (1920)، والفتن 5 (2889)، سنن الترمذی/الفتن 14 (2176)، سنن ابن ماجہ/الفتن 9 (3952)، (تحفة الأشراف: 2100)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/278، 284) سنن الدارمی/المقدمة 22 (205) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2889)

مشكوة المصابيح (5394، 5406)

~~~~~~~~~~~~~؛

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل


الف
~~~؛
مولانا عطا الله ساجد حفظہ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3952


اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:

(1)؛
زمین سمیٹے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ لے لیے زمین اس طرح منکشف فرمائی کہ آپ نے اس کے مشرقی اور مغربی علاقے بیک وقت ملاحظہ فرما لیے۔

(2)؛
جہاں تک زمین سمیٹی گئی ہے اس میں اشارہ ہے کہ زمین کے بعض حصے اس کشف میں شامل نہیں تھے۔
ممکن ہے کہ صرف وہ علاقے دکھائیں گئے ہوں جہاں تک ایک وقت میں اسلامی حکومت قائم ہونا مقدور ہو یعنی اسلامی سلطنت اپنی وسیع ترین حدود میں دکھائی گئی۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ پوری زمین دکھائی گئی ہو کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں پوری دنیا میں اسلام غالب ہوگا کیونکہ وہ جزیہ قبول نہیں کریں گے بلکہ ان کا مطالبہ ہوگا کہ یا تو مسلمان ہو جاؤ یا تو مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

(3)؛
نبیﷺ کو سونے چاندی کے خزانے دیے جانے کا مطلب امت کا ان خزانوں پر قابض اور متصرف ہونا ہے جیسے خلافت راشدہ کے دور میں قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں ملیا میٹ ہوئیں اور ان کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔

(4)؛
تمام امت کا بھوک سے ہلاک نہ ہونے کا مطلب یہ ہے نہیں کہ ان پر جزوی طور پر ایسا عذاب نہیں آئے گا بلکہ امت کے جرائم کی وجہ سے مقامی طور پر مختلف انداز کے عذاب آئے ہیں اور آئندہ بھی آسکتے ہیں۔

(5)؛
مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت واقع ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے ناگزیر سمجھ کر قبول کرلیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ مسلمانوں کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے جو کچھ ممکن ہو عملی طور پر کریں۔

(6)؛
گمراہ کرنے والے قائدین کے شر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن اور احادیث شریفہ کا علم حاصل کریں تاکہ دین کی اصل تعلیمات کو جان کر ان پر عمل کرسکیں۔

(7)؛
وثن سے صرف بت (صنم)
مراد نہیں بلکہ اللہ کے سوا جس چیز کی بھی پوجا کی جائے وہ وثن ہے:
مثلاً بزرگوں کی قبریں، تصویریں، تبرکات، بزرگوں کی طرف منسوب درخت، پتھر اور غار وغیرہ۔
ان سب چیزوں سے نام نہاد عقیدت کے جو مظاہرے اور شرکیہ اعمال کیے جاتے ہیں ان کی وجہ سے یہ سب اشیاء وثن بن گئی ہیں۔
لہٰذا ان سے دور رہنا ہر توحید پرست کا فرض ہے۔

(8)؛
مسلمانوں کا مشرکین سے ملنا اس طرح بھی ہے کہ وہ اسلام چھوڑ کر مرتد ہو جائیں اور یہ بھی ہے کہ جنگ و جدل اور جھگڑے فساد کے موقع پر وہ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی مدد کریں اور یہ بھی ہے کہ ان کے کافرانہ رسم و رواج اور الحاد کے مظاہر کو ” تہذیب“ قرار دے کر اختیار کرلیں جیسے ہندؤں کی بسنت اور عیسائیوں کا ویلن ٹائن ڈے اور اپریل فول وغیرہ.

(9)؛
حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔
آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا ہر شخص دجال اور کذاب ہے جیسے کہ مرزا غلام قادیانی یا عالی جاہ محمد وغیرہ.

(10)؛
اہل حق کی ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی جو قرآن و حدیث کو مشعل راہ بنائے گی اور نت نئے اٹھنے والے گمراہ فرقوں کی گمراہی واضح کرے گی .

(11)؛
امام ابن ماجہؒ نے اس حدیث کو اس لیے خوف زدہ کرنے والی قرار دیا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے کفر و شرک اکبر میں ملوث ہو جانے کا ذکر ہے۔
یہ بات یقیناً خطرناک ہے کہ انسان خود کو مسلمان سمجھتا رہے اوراللہ کے ہاں وہ اسلام سے خارج ہو چکا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3952

~~~~~~~~~~~~~؛

ب
~~~؛
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4252


فوائد و مسائل:
1) اس مضمون کی احادیث میں بشارت ہے کہ امتِ مسلمہ کی عملداری مشرق و مغرب کی انتہاؤں تک پہنچے گی .
اس کا کسی قدر اظہار ہو چکا ہے اور انشا اللہ مزید بھی ہو گا۔

2) سرخ و سفید سے مراد سونے چاندی کی دولت ہے۔
اور فی الواقع دنیا میں مجموعی طور پر دولت کے مصادر و منابع جس قدر مسلمانوں کے پاس ہیں کسی اور امت کے پاس نہیں ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان اپنی نادانی اور اللہ کے عقاب (مجھے لگتا ہے سے عتاب ہونا چاہیئے لیکن جیسا فائل میں لکھا ہے میں ویسا ہی لکھ رہی ہوں) کی وجہ سے اس میں فتنے میں مبتلا ہیں اور دوسری قومیں ان کی دولت سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔

3) اس امت میں کلی اور اجتماعی قحط نہیں پڑے گا جزوی ہو سکتا ہے۔

4) اس امت پر براہِ راست کوٰی دوسری قوم مسلط نہیں ہوگی وہ ہمیشہ مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگ ان کے خلاف استعمال کر کے ان کو مغلوب کریں گے۔
تاریخ میں یہ حقائق نمایاں اور موجودہ حالات اس کی گواہی دے رہے ہیں .

5) ائمہ مُضلین (گمراہ امام) دینی ہوں یا سیاسی یہی امت کے لیئے سب سے بڑا فتنہ ہیں.
اور عوام کالانعام بالعموم اپنے ائمہ و حکام ہی کے پیرو ہوا کرتے ہیں۔

6) اور اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جب سے امت میں تلوار پڑی ہے اُتھ نہیں سکی۔
لا حول ولاقوة إلابالله۔

7) بالآخر امت سے علم اُٹھا لیا جائے گا جہالت عام ہو جائے گی حتی کہ لوگ صریح شرک جلی بلکہ بت پرستی میں مبتلا ہو نگے۔
ونسال اللہ السلام

8) مسیلمہ کذاب سے لیکر اب تک وقتاََ فوقتاََ جھوٹے نبی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور شائد اور بھی ہونگے، جیسے کہ ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی اپنے وقت کا ایک طاغوت ہو گزرا ہے ان کی مجموعی تعداد تو نا معلوم کتنی ہو مگر ان میں سے تیس بہت نمایاں ہونگے۔

9) امت میں سے حق اور اہلِ حق کبھی ناپید نہیں ہونگے۔
تھوڑے بہت ہر جگہ اپنے آپ کو ظاہر اور نمایاں رکھیں گے جو ایک تاریخی حقیقت ہے اور زبانِ نبوت سے آ ئیندہ کے لیئے پیشین گوئی بھی۔

والحمد للہ علٰی ذلك۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4252

.
 
Top