السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی عبداللہ حیدر صاحب، ان الفاظ کے لفظی معانی کو اجمالاً اور مختصراً تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ سب برتنوں کے نام ہیں ،
جیساکہ شاکر بھائی اور بھائی ندیم احمد یار خان صاحب نے فرمایا ،
اس کی کچھ تفصیل عرض کرتا ہوں لیکن اس کے لیے میں آپ کے لکھے ہوئے ترجمے والے الفاظ کی طرف توجہ نہٰں کروں گا ، بلکہ حدیث شریف میں وارد الفاظ کی بنیاد پر معلومات مہیا کروں گا ، اِن شاء اللہ ،
صحیح البخاری میں مروی حدیث مبارک میں ہمارے زیر مطالعہ الفاظ والے حصے کا متن درج ذیل ہے :::
(((((
وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ . وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ )))))
پہلا لفظ """
الْحَنْتَمِ """ ہے ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ ایسی صراحی کو کہا جاتا تھا جس کی ایک جانب سےچیز داخل کرنے اور نکالے جانے والا سوارخ ہوتا تھا ، اور اس صراحی کو عرب کے مختلف قبیلے انگور ، اور کھجور وغیرہ کی نبیذ اور شراب بنانے کے لیے ، اور شراب کے نقل و حمل کے لیے ہی استعمال کرتے تھے ، بالخصوص طائف کے علاقے میں تیار کی جانے والی شراب انہیں برتنوں میں ادھر اُدھر ایکسپورٹ کی جاتی تھی ، اس برتن کا عموما ً کوئی اور استعمال نہیں ہوتا تھا ، اس لیے اس میں تیار کی گئی بنیذ اور شراب کو بھی اسی کا نام دیا جاتا تھا یعنی """
الْحَنْتَمِ """، جیسے آج بھی کئی معاشروں میں شرابی لوگ شراب کو """ باٹلی""" کہتے ہیں ،
دوسرا لفظ """
الدُّبَّاءِ """ ہے ، یہ لفظ عربی میں """ کدو ، لوکی ، Pumpkin""" کا نام ہے ، اس حدیث شریف میں اس کے استعمال کی تفصیل یہ ہے کہ اُس وقت عرب قبائل میں نبیذ اور شراب بنانے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ لوگ کدو میں سوراخ کر کے اُس درمیان میں سے کھوکھلا بناتے اور پھر اس میں انگور یا کھجور وغیرہ بھر کر ، اُس کے مدخل کو بند کر کے اُس کدو کو دفن کر دیتے ، اور اپنے تجربے کے مطابق ایک معینہ مدت کے بعد نکالتے اور اس میں سے وہ شراب نکال کر پیتے ، اس طریقہ پر تیار کی گئی شراب کو اسی نام """
الدُّبَّاءِ """سے جانا پہچانا جاتا تھا ،
ایک اور معاملہ یہ تھا کہ بڑے بڑے خشک کیے گئے کدوؤں کو شراب پیش کرنے ، اور پینے کے برتن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ، اور اسے بھی برتن کی نسبت سے """
الدُّبَّاءِ """کہا جاتا تھا ،
تیسرا لفظ """
النَّقِيرِ """ ہے ، یہ بھی کوئی برتن نہیں تھا بلکہ جب کھجور کی جڑوں میں کسی جڑ کو کھوکھلا کر کے اس میں انگور یا کھجور بھر کر اسے نبیذ یا شراب بنانے کے لیے تیار کیا جاتا تو اس تیار شدہ شکل والی جڑ کو """
النَّقِيرِ """ کہا جاتا تھا ، باقی معاملہ سابقہ بیان کی طرح ہی ہے یعنی ، اسی نسبت سے اس میں تیار کردہ شراب اور نبیذ کو بھی """
النَّقِيرِ """ کہا جاتا تھا ،
چوتھا لفظ """
الْمُزَفَّتِ """ ہے ، جی یہ ایسے برتن کا نام تھا ، جس پر """
الزفت """ نامی بُوٹی کے خشک ہونے کے بعد اس کو جلا کر اس سے تیار کردہ پالش کی جاتی تھی ، اور اس لیے کی جاتی تھی کہ اس بُوٹی کی موجودگی میں چیزوں کے نبیذ اور پھر شراب بننے کا عمل تیز تر ہو جاتا اور ان کی شدت بھی کافی بڑھ جاتی ،لہذا ایسے برتنوں کو بھی عموماً بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ صِرف نبیذ یا شراب بنانے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا ،اور اس میں تیار کی گئی شراب کو اسی پالش کی نسبت سے یاد کیا جاتاتھا ،
اس بُوٹی """
الزفت """ کا دوسرا نام """
القار """ بھی ہے ،
حدیث شریف کے مذکورہ بالا متن میں راوی نے جو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ کی طرف سے """
الْمُقَيَّرِ """ کہنے کا ذِکر کیا ہے تو وہ بھی دُرُست ہے اور اس میں کوئی مخالفت یا تضاد نہیں اور نہ ہی وہ کسی پانچویں چیز کا ذکر ہے بلکہ اُسی بُوٹی سے پالش شدہ برتن کا ہی نام ہے ،
اِن شاء اللہ یہ معلومات آپ کی تسلی کے لیے کافی ہوں گی ، مزید کوئی اشکال ہو تو ضرور سامنے لایے ، اور دعا بھی کیجیے گا کہ اللہ تعالی دُرُست جواب دینے کی اور جلد جواب دینے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عباد بن عباد بصری نے ، اور یہ عباد کے لڑکے ہیں ، ابوجمرہ ( نصر بن عمران ) کے ذریعہ سے ، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انھوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے ، جسے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں ، پہلے خدا پر ایمان لانے کا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا ، تیسرے زکوٰۃ دینے کا ، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے ، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم ، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں ۔
آخری جملے کی وضاحت درکار ہے۔