خلافت راشدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ آپ کی ہموار کردہ راہ پر گامزن رہے اور عوام کے لئے جو باتیں ناقابل فہم تھیں ان بتانے سے احتراز کرتے رہے مبادا وہ فتنے میں مبتلاء ہوکر بعض دینی فرائض کو چھوڑ بیٹھیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں
''جس قول کو بھی ایسی بات بتائیں گے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکے وہ بعض لوگوں کے لئے فتنے کا موجب ہوگی۔''(مقدمہ صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سن کر دو باتیں یاد رکھیں ایک لوگوں کو بتادی اگر دوسری بھی بتا دوں تو میرا گلا کٹ جائے
(صحیح بخاری)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
''لوگوں کو وہ باتیں بتاؤ جو ان کی سمجھ میں آجائیں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے ۔''
امام ابن عبدالبر نے اسی قسم کی ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی نقل کی ہے غرض یہ کہ حضرات صحابہ تابعین اور ائمہ کرام شروع ہی سے ایسی حدیثوں کو روایت کرنے سے روکتے رہے جو لوگوں کی کم فہم کی وجہ سے فتنہ وفساد کی موجب محرک ہو سکتی ہو۔ یا جن کو اصحابہ بدعت اور گمرہ سلاطین ان کے ظاہری الفاظ کی بناپر اپنے ناروا مقاصد اور جو روا استبداد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حجاج ثقفی کو قبیلہ عرینہ کےواقعہ پر مشتمل حدیث سنائی تو حضرت حسن بصری اس پر معترض ہوئے اس لئے کہ حجاج نے تاویل کر کے اس سے ناروا خون ریزی کا جواز نکالا ےتھا ۔ امام احمد بن حنبل ان احادیث کی نقل وروایت سے منع کیا کرتے تھے ۔جن کے ظاہری الفاظ سے حاکم وقت کے خلاف بغاوت کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ قاضی ابو یوسف ایسی احادیث کے روایت کرنے کو نا پسند کیا کرتے تھے جن میں کوئی نرالی یا انوکھی بات بیان کی گئی ہو۔
ائمہ کرام نے ایسی احادیث کی نقل و روایت سے اسی لئے منع کیا تھا تاکہ دین اصحابہ بدعت کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہے اور امت مسلمہ ان فتنہ بازوں کے دام فریب میں نہ آنے پائے اس لئے کہ باطل پرست اور اباحیت پسند لوگ احادیث کے ظاہری الفاظ سے استدلال کر کے اور دینی محرمات کو حلال ٹھہرا کر شعوری یا غیر شعوری طور پر کفر کا ارتکاب کرتے رہے ہیں یہ بات اکثر و بیشتر ان لوگوں میں پائی جا تی ہے جو اپنے آپ کو دین کا داعی ومبلغ قرار دیتے ہیں کسی نے سچ کہا ہے کہ جاہل داعیوں کی وجہ سے مذاہب آفات کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ اسی لئے صحابہ ایسی احادیث کی نشرواشاعت سے دامن بچاتے رہے جو کوتاہ نظری کے باعث غلط فہمی کی باعث بن سکتی ہوں یا جن سے اصحاب بدعات واہواء ناجائز فائدہ اٹھاسکتےہوں تاکہ اللہ کی زمین فتنہ وفساد کی آماجگاہ نہ بننے پائے۔
(فتح الباری:ج ،۱ص۱۶۰)
۶۔صحابہ کے طرز روایت پر اعتراض اور اس کا جواب:
معترض کہہ سکتا ہے کہ صحابہ روایت حدیث میں چنداں دلچسپی نہیں لیتے تھے اس لئے کہ وہ صرف نصوص قرآنی اور احادیث مشہورہ پر عمل کرتے تھے اس کے بعد اگر انہیں ضرورت لاحق ہوتی تو اپنی رائے پر عمل کرتے اسی لئے وہ حدیثیں کم روایت کرنے کا حکم دیا کرتے تھے صحابہ کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ وہ اکثر نو پید مسائل میں اپنی رائے کو معمول بہا بناتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض احادیث کو رد کردیا تھا اور بعض کی صحت کے بارے میں شہادت طلب کی یا راوی کو حلف دلایا تھا کہ اس نے فلاں روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنی ہے ۔مندرجہ صدر امور سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ اخبار احاد کو رد کرتے اور رائے کو نص کے مقابلہ میں ترجیح دیا کرتے تھے ۔
اس اعتراض کے جوابات حسب ذیل ہیں ۔
۱۔ صحابہ نے تقلیل روایت کا حکم اس لئے دیا تھا کہ کثیر الروایت راوی سے غلطی کا احتمال رہتا ہے بخلاف ازیں قلیل الروایت راوی احادیث کو زیادہ محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ صحابہ کے کثرت روایت سے روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ منافقین کو اس بات کا موقع نہ ملے کہ وہ اپنے حسب منشاء احادیث وضع کر کے احادیث صحیحہ میں شامل کردیں ۔ علاوہ ازیں کچھ لوگ ایسے بھی تھےجو اچھی طرح قرآن کریم بھی نہیں پڑھ سکتے تھےاور اس کا خطرہ دامن گیر تھا کہ وہ اگر کسی اور چیز میں مشغول ہوگئے تو قرآن کریم کی قرأت وتلاو سے محروم رہیں گے۔ حالانکہ وہ دین اسلام کا اولین ماخذ ہے۔
۲۔ جہاں تک سماع حدیث کے بارے میں گواہ طلب کرنے یا راوی کو حلف دینے کا تعلق ہے ۔ صحابہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے بخلاف ازیں ایسا اس وقت کرتے تھے جب انہیں راوی کے حفظ وضبط کے بارے شک گزرتا، اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ بعض صحابہ کی ایسی روایت بھی قبول کر لیا کرتے تھے جن کو ان کےسوا کسی دوسرے صحابی نے روایت نہ کیا ہو تا بشر طیکہ صحابہ کو راوی کے حافظہ پر اعتماد ہوتا ۔
مثلا ًحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ضحاک بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت قبول کر لی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ضحاک کو لکھا تھا کہ اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کی دیت سے ورثہ دلایا جائے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی گواہ طلب نہ کیا اسی طرح جب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت بیان کی کہ جس جگہ وبا پڑچکی ہو وہاں جانا نہیں چاہیے ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ عازم شام تھے یہ حدیث سن کر مقام سرغ سے واپس مدینہ لوٹ آئے حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو مہاجرین و انصار موجود تھے ان میں سے کسی کو بھی یہ حدیث معلوم نہ تھی جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی بھی تائیدی شہادت طلب نہ کی سابق الذکر حدیث میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ (وحدثنی ابو بکر وصدق ابو بکر) ''ابو بکر نے مجھے یہ حدیث سنائی اور ابو بکر نے سچ کہا ''۔
چونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صادق القول تصور کرتے تھے اس لئے انہوں نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حلف نہ دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو موسٰی اشعر ی کو مخاطب کر کے کہا تھا
''میں آپ پر تہمت نہیں لگاتا صرف تصدیق کرنا چاہتا ہوں اس لئے میں نے گواہ طلب کیا ہے''۔
۳۔باقی رہی یہ بات کہ صحابہ حدیث کو چھوڑ کر رائے پر عمل کیا کرتےتھے تو یہ غلط ہے اور واقعات وآثار اس کی تردید کرتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں ۔
''رائے سے احتراز کیجئے۔اس لئے کہ اصحاب الرائے سنت کے دشمن ہوتے ہیں وہ احادیث کو حفظ کر نے سے قاصر رہتے ہیں عنقریب ایک ایسی قوم ظہور پذیر ہوگی جو قرآن کی آیات و متشابہات کا سہارا لے کر تم سے جھگڑے گی ۔ احادیث کے ذریعہ ان پر گرفت کرو اس لئے کہ اصحاب الحدیث کتا ب کو زیادہ بہتر ??تے ہیں جس طرح تم قرآن سیکھتے ہو اس طرح سنت اور فرائض سیکھو۔''
رائے کے بارے میں صحابہ سے جو کچھ منقول ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب طلب تلاش کے باوجود صحابہ کو حدیث نہ ملتی تو وہ رائے سے کام لیتے اور کہا کرتے تھے۔
''یہ ہماری ذاتی رائے ہے اگر غلطی نکلی تو ہمارا اور شیطان کا قصور ہے اوراگر درست ثابت ہوئی تو عنایت خداوندی ہے۔''
اگر اس کے بعد ان کو حدیث نبوی مل جاتی تو رائے کو ترک کر کے حدیث پر عمل کرتے جناب میمون بن مہرا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں ۔
''جب کوئی نیا مسئلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا جاتا تو اس کا فیصلہ کتاب اللہ میں تلاش کرتے اگر اس کا حل مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے ورنہ حدیث رسول میں تلاش کرتے اگر تلاش کرنے میں کا میاب ہوجاتے تو اس کی روشنی میں فیصلہ کرتے اور اگر تلاش کرنے میں کامیابی نہ ہوتی تو لوگوں سے پوچھتے کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس معاملہ میں کیا فرمایا ؟ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کچھ لوگ کھڑے ہوکر کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس ضمن یہ فیصلہ دیا تھا۔ اگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اس کا حل نہ ملتا تو سرکردہ لوگوں کو جمع کرتے اور ان سے مشورہ طلب کرتے جب وہ ایک مسئلہ پر متفق ہوجاتے تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے ۔''
میمون بن مہرا ن مزید فرماتے ہیں :
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریق کار بھی یہی تھا جب کسی مسئلہ کا حق انہیں کتاب وسنت میں نہ ملتا تو پوچھتے کہ کیا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہے؟اگر کسی فیصلہ کا پتہ چلتا تو اس کے مطابق فیصلہ دیتے ورنہ اہل علم صحابہ کو جمع کر کے مشورہ کرتے جب کسی بات پر ان کے یہاں اتفاق رائے ہوجاتا تو اس کے مطابق فیصلہ صادر کرتے ۔''