نضر الله امرأ سمع مقالتي فحفظها ووعاها وأداها كما سمعها
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ حدیث کئی محدثین نے نقل فرمائی ہے ؛
امام ابو داودؒ فرماتے ہیں :
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، حدثني عمر بن سليمان، من ولد عمر بن الخطاب، عن عبد الرحمن بن أبان، عن أبيه، عن زيد بن ثابت، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «نضر الله امرأ سمع منا حديثا، فحفظه حتى يبلغه، فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه، ورب حامل فقه ليس بفقيه»
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ (آباد و شاد ) رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۷ (۲۶۵۶)، (تحفة الأشراف: ۳۶۹۴)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۸ (۱۲۳۰)، مسند احمد (۱/۴۳۷، ۵/۱۸۳)، سنن الدارمی/المقدمة ۲۴(۲۳۵) (صحیح)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام ترمذیؒ نے روایت کیا :
حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا أبو داود قال: أخبرنا شعبة قال: أخبرنا عمر بن سليمان، من ولد عمر بن الخطاب قال: سمعت عبد الرحمن بن أبان بن عثمان، يحدث عن أبيه، قال: خرج زيد بن ثابت، من عند مروان نصف النهار، قلنا: ما بعث إليه هذه الساعة إلا لشيء يسأله عنه، فقمنا فسألناه، فقال: نعم، سألنا عن أشياء سمعناها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «نضر الله امرأ سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه غيره، فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه، ورب حامل فقه ليس بفقيه»
وفي الباب عن عبد الله بن مسعود، ومعاذ بن جبل، وجبير بن مطعم، وأبي الدرداء، وأنس: «حديث زيد بن ثابت حديث حسن»
ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ دوپہر کے وقت مروان کے پاس سے نکلے (لوٹے)، ہم نے کہا: مروان کو ان سے کوئی چیز پوچھنا ہو گی تبھی ان کو اس وقت بلا بھیجا ہو گا، پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے ہم سے کئی چیزیں پوچھیں جسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اور عقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تو رکھتے ہیں، لیکن فقیہہ نہیں ہوتے“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، جبیر بن مطعم، ابو الدرداء اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
سنن الترمذی 2656 ، سنن ابی داود/ العلم ۱۰ (۳۶۶۰)، سنن ابن ماجہ/المقدمة: ۱۸ (۲۳۰) (تحفة الأشراف: ۳۶۹۴)، و مسند احمد (۱/۴۳۷)، و (۵/۱۸۳)، وسنن الدارمی/المقدمة ۲۴ (۲۳۵)