اشاعت حدیث میں خواتین کا حصہ :
سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی مجالس کا سلسلہ مردوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ بکثرت خواتین مسجد نبوی میں حاضر ہوکر حدیث نبوی سنا کر تی تھیں علاوہ ازیں حضور کی عام مجالس مثلاً عید کے اجتماع میں شرکت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مواعظ حسنہ سے مستفید ہوتیں حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ مردود کی اگلی صفوں میں خطبہ دے کر عورتوں کی صفوں کی طرف تشریف لے جاتے اور ان کو دینی احکام سے آگاہ فرماتے ۔مگر اکثر حضور کی علمی مجالس میں مرد ہی ہوا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ خواتین کے وفد نے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ ہمارے لئے ایک دن مقرر کر کے اس میں ہمیں دینی مسائل سے آگاہ فرمائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا۔
تاہم اس کے یہ معنی نہیں کہ ان عمومی یا خصوصی مجالس سے خواتین کی دینی ضروریات پوری ہوگئی تھیں بخلاف ازیں ان کو نئے مسائل سے سابقہ پڑتا رہتا تھا اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کو اسلام کو قبول کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا ۔ جب کسی خاتو ن کو کوئی نیا مسئلہ پیش آتا تو وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حل دریافت کرتی۔ ایسا کرتے ہوئے حیا کا جذبہ ان کی راہ میں اس لئے حائل نہیں ہوا کرتا تھا کہ دینی مسائل سیکھنے میں حیاء کو مانع نہیں ہونا چاہیے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ کوئی شرمیلی خاتون دینی مسئلہ دریافت کرنے سلے پہلے یہ جملہ دہراتی ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ شرم کی بناء پر حق مسئلہ دریافت کرنے سے نہیں روکتا ''پھر بارگاہ نبوی میں عرض پرداز ہوتیں کہ''جب عورت کو احتلام ہوجائے تو اس پر غسل واجب ہے؟انصاری خواتین اس ضمن میں زیادہ بے باک واقع ہوئی تھیں ۔ حتی کہ حضرت عائشہ کو ان کی شان میں یہ فقرہ کہنا پڑا کہ''انصاری خواتین کیا خوب ہیں حیا ان کو دینی مسائل سیکھنے سے نہ روک سکی۔
(صحیح بخاری)
اگر کوئی شرمیلی خاتون براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت نہ کر سکتی تو امہات المؤمنین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر اس کو مسئلہ سے آگاہ کرتیں۔
امہات المؤمنین مبلغ احادیث کی حیثیت سے:
مسلم خواتین میں امہات المؤمنین نے حدیث نبوہ کی نشرواشاعت میں جو پارٹ ادا کیا تھا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ خصوصا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمات جلیلہ اس ضمن میں قابل ذکر ہیں ۔ آپ حد درجہ ذہن وفطین تھیں ۔آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی مسائل دریافت کرتیں اور اکثر قرآن واحادیث کی شرح وتفسیر کے بارے میں سوال کیا کرتی تھیں۔
ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ کو جو مسئلہ معلوم نہ ہوتا اور وہ کسی سے سنتیں تو اس کے بارے میں بحث تمحیص اور نقد جرح کرتیں حتیٰ کہ اس مسئلے سے آگاہ ہو جاتیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''جس شخص سے حساب لیا جائے گا اسے عذاب ہوگا '' حضرت عائشہ نے یہ سن کر سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے(فسوف یحاسب حسابا یسیرا)'' اس سے آسان حساب لیا جائے گا''۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''یہ تو اعمال کے پیش کرنے کے وقت ہوگا البتہ جس پر محاسبہ اعمال کے وقت جرح وقدح کی جائے گی اسے سخت عذاب دیا جائے گا''۔
(صحیح البخاری)
جن حکم مصالح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چار سے زیادہ ازواج دی تھیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ ازواج مطہرات فریضہ دعوت ارشاد بجا لائیں ۔خصوصا ایسے مسائل جو آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے انجام نہیں دے سکتے تھے ،اور ازواج مطہرات کے سوا کوئی ان سے آگاہ نہیں ہوسکتا تھا اسی لئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے بعد کسی مسئلہ میں مختلف الرائے ہوتے مثلاً،غسل ،حیض،اور جماع کی قسم کے مسائل تو امہات المؤمنین کی جانب رجوع کرتے اور ان کے فیصلہ کو تسلیم کرتے اسی طرح ان کا باہمی نزاع اور جدال ختم ہوتا۔
۴۔ حدیث کی نشر واشاعت میں قبائلی وفود کا کردار:
دعوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز پوشیدہ طور پر ہوااور تین سال تک یونہی رہا جب کچھ لوگ مشرف باسلام ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانیہ دعوت کا حکم ملا ۔قریش نے آپ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کچھ عرصہ تک یہی کیفیت رہی ،حتیٰ کہ اکثر اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت مدینہ کا حکم ملا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عازم مدینہ ہوگئے مدینہ اس وقت سے مہبط وحی اور مرکز اسلام ٹھرا ۔مدینہ میں مقیم رہ کر آپ نے اعدائے دین کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احا یث کی نشرو اشاعت کا فریضہ انجام دیا ۔ مگر قتال وجہاد کا سلسلہ جس طرح بہت سے قبائل کے حلقہ بگوش اسلام ہونے میں سد راہ تھا ۔اسی طرح بیرون عرب دعوت اسلامی کے پھیلنے میں بھی رکاوٹ بنا ہوا تھا ،جونہی نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا اور فریقین کو ملنے جلنے اور اس نئے دین کے بارے میں غور وخوض کرنے کے مواقع میسر آئے تو اسلام کو بیش از بیش پھیلنے کا موقع ملا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اطراف واکناف کے سلاطین کو دعوت اسلام پر مشتمل خطوط ارسال فرمائے ،جو قبیلے مشرف باسلام ہوچکے تھے ان کو دینی احکام سکھلانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف ملک میں وفود بھیجنے کا آغاز کیا ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن ،بحرین ، یمامہ ،حضرموت،عمان،اور دیگر بلاد میں مسلمانوں کے وفد بھیج کر ان کو اسلامی احکام سے آگاہ کیا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے یہ وفود لوگوں کے لئے ہدایت ورحمت کے پیامبر ثابت ہوئے اس لئے کہ یہ لوگوں تک قرآ ن و سنت کی وہ غذا پہنچاتے تھے جس پر روحانی زندگی کا مدار وانحصار ہے۔ اس کے دوش بدوش یہ وفود اطراف عرب میں حدیث نبوی کی نشرو اشاعت کا زبردست ذریعہ تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مقصد کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم کو منتخب فرمایا کرتے تھے جو کتاب وسنت میں ماہرانہ بصیرت رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کتاب وسنت کی تعلیم دیتے اور دعوت وارشاد کے مناسب طریقوں سے آگاہ فرماتے چناچہ سرورکائنات نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا:
''آپ کی ملاقات اہل کتاب کی ایک قوم سے ہوگی جب آپ ان سے ملیں تو کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر شب وروز پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ آپ کی اطاعت کرنے پر رضامند ہوں تو ان سے کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں تم پر ماہ رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اگر وہ اس کو بھی تسلیم کر لیں تو ان سے کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے جو اس کی استطاعت سے بہرہ ور ہو اگر وہ اس کی بھی اطاعت کریں تو کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مالوں میں زکوۃ فرض کی ہے جو دولتمند سے لے کر تنگدستوں میں بانٹی جاتی ہے۔''
غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا فر ستادہ شخص حسب موقع ومقام دینی احکام ومسائل جو اسے معلوم ہوتے بیان کیا کرتا تھا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی رہنمائی کا نتیجہ تھا کہ یہ وفود حدیث نبوی کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں بڑے مفید ثابت ہوئے۔
مدینہ پہنچنے والے قبائلی وفود:
جب عہد رسالت میں اسلامی فتوحات کا دائرہ پھیلا اورغزوہ تبوک سے فارغ ہوئے تو عربی قبائل کے وفد اپنے اونٹوں کو ہانکتے اور سفر کی وسعتوں کو سمیٹتے ہوئے نبی امین صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا شوق لے کر مدینہ حاضر ہوئے تاکہ دین کے اولین سرچشمہ سے اپنی علمی پیاس بجھائیں ،وہ قبائل اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہو چکے تھے کہ جب قریش نے اسلام کے جھنڈے تلے اپنا سر جھکا دیا ہے تو بھلا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیسے نبرد آزما ہو سکیں گے حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور انفرادی یا اجتماعی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بایاب ہوئے قرآن اسی ضمن میں فرماتا ہے:
''اذا جا ء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا''
جب اللہ کی مدد اور فتح آگئی اور تونے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔(النصر)
یہ وفود یکے بعد دیگر سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اسی طرح بیرونی سلاطین کے خطوط اور قاصد یہ پیغام لے کر حاضر ہوئے کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا اور شرک کو ترک کردیا ہے جو وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اکرام واحترام بجالاتے ان کی رہنمائی کرتے ان کو دینی احکام ومسائل سے آگاہ فرماتے اطاعت کی صورت میں بشارت سناتے اور ان کے حقوق فرائض اور واجبات سے مطلع فرماتے تھے ۔ یہ بیرونی وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ۹ ہجری میں حاضر ہوئے ۔اسی لئے اس کو عام الوفود (وفدوں کا سال ) کہتے ہیں ۔یہ وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عطیات لینے نہیں آتے تھے یہ دوسری بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اکرام فرماتے اور خدا کے عطا کردہ مال سے ان کو نوازتے ۔ان کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوکر اسلام کے اصول وفروع معلوم کرنا ہوتا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بات چیت کرتے ان کے سوالات کا جواب دیتے ان کو وعظ سناتے دینی احکام بیان کرتے اور خدا سے ڈرتے رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
کتب سیرت کا قاری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سر ور کائنات کی خدمت میں بہت سے وفود حاضر ہوئے حتیٰ کہ عربی قبائل میں سے کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس میں کوئی وفد بارگاہ نبوت میں شرف باریابی حاصل نہ کر چکا ہو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ان میں کے ایک ایک وفد سے آگاہ وآشنا تھے اور بخوبی جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کون کون سی احادیث سنائیں یا کون سا خطبہ دیا ۔وہ پوری طرح با خبر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کن مواعظ ونصائح اور احکام وسنن سے مستفید فرمایا ۔ حدیث نبوی اور سیر ومغازی پر مشتمل کتب ان وفود کے ذکر سے مملو ہیں ۔ ان کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ حدیث رسول کی نشرواشاعت میں ان وفود نے کیا پارٹ ادا کیا خواہ یہ وفود ۹ ہجری میں حاضر بارگاہ ہوئے ہوں یا اس سے پہلے ذیل میں چند وفود کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے مشرف ہوئے۔
وفد بنی سعد بن بکر:
اس قبیلہ کا سردار ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ ۹ ہجری میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا جب مدینہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرما پایا۔ کہنے لگا ''تم میں ابن عبدالمطلب کون ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اشارہ کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر کہنے لگا ''میں آپ سے چند باتیں پوچھوں گا اور سوال میں سختی سے کام لوں گا''فرمایا ''جوجی میں آئے پوچھو ''کہنے لگا''اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ پ کا فرستادہ ہمارے یہاں آیا اور کہنے لگا کہ آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ کو خدانے بھیجا ہے ''آپ نے فرمایا ''یہ درست ہے''ضمام نے کہا''میں آ پ کو آپ سے پہلے اور پچھلوں کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آیا یہ درست ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ہاں یہ ٹھیک ہے''ضمام نے کہا''میں آپ کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا خدا نے آپ کو پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے ؟ ''فرمایا ''جی ہاں '' اس نے پھر کہا '' میں آپ کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ دولتمند کے مال کا کچھ حصہ ان سے لے کر فقرا کو دیں ؟ ''فرمایا''بخدا بالکل درست'' ضمام نے کہا'' میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ؟'' فرمایا''جی ہاں'' ضمام نے پھر کہا'' کیا اللہ نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہو وہ بیت اللہ کا حج کرے؟'' فرمایا'' ہاں یہ درست ہے'' ضمام کہنے لگا تو میں تصدیق کرتا ہوں اور ان پر ایمان لاتا ہوں ۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے ۔ پھر ضمام اپنی قوم کی طرف لوٹ گیا اور وہ مشرف باسلام ہوگئے۔
وفد عبدالقیس:
عبدالقیس نامی قبیلہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف محرم کے مہینے میں حاض ہوسکتے ہیں (جب کہ جنگ جدال بند ہوتا ہے) ہمارے اور آپ کے درمیان مضر (کا کافر قبیلہ) حائل رہتا ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی فیصلہ کن بات بتائیں جو ہم اپنے پچھلوں کو بتلادیں اور اس پر عمل کر کے جنت کے مستحق ٹھریں ۔انہوں آپ سے پانی کے برتنوں کے بارے میں بھی سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے منع فرمایا ۔آپ نے ان کو خدائے واحد پر ایمان لانے کا حکم دیا پھر فرمایا کیا آپ کو معلوم ہے کہ خدائے واحد پر ایمان کیسے لایا جاتا ہے ؟ وہ کہنے لگے ''اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں '' آپ نے فرمایا ایمان باللہ یہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔
جن چار باتوں کا حکم دیا وہ یہ ہیں۔
۱۔اقامت الصلوۃ
۲۔ادائیگی زکوۃ
۳۔ماہ رمضان کے روزے
۴
۔ مال غنیمت میں سے خمس کی ادائیگی
مندرجہ ذیل چار برتنوں کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ۔
۱۔جس برتن میں لاخ لا روغن لگا ہو۔
۲۔ کدو کے بنے ہوئے برتن
۳۔ لکڑی کھود کر جو برتن بنائے گئے ہوں
۴۔ جن برتنوں پر رال کا روغن کیا گیا ہو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو یاد رکھو اور پچھلے لوگوں کو اس کی اطلاع دے دو۔(بخاری کتاب الایمان)
وفد تجیب:
یہ وفد تیرہ افراد پر مشتمل تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو تے وقت یہ زکوۃ کے مویشی بھی ہمراہ لائے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کی میزبانی کا حق ادا فرمایا۔ کہنے لگے ہمارے اموال پر خدا کا جو حق تھا ہم وہ بھی ساتھ لائے ہیں ۔ فرمایا ان مویشیوں کو واپس لے جائے اور آپ کے یہا ںجو تنگ دست ہوں ان میں تقسیم کردیجیے ۔ وہ کہنے لگے ہم فقراہ کو پہلے دے چکے ۔جو مال بچ گیا تھا وہ ہمراہ لائے ہیں جناب صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم :آج تک عرب بھر سے اس قسم کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آیا فرمایا ہدایت خداوند کریم کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے ساتھ وہ بھلائی کرنا چاہے اس کے سینہ کو ایمان کے لئے کھول دیتا ہے۔
وفد تجیب نے حضور سے کتاب وسنت کے مسائل دریافت کئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے ساتھ رغبت میں مزید اضافہ ہوا جب انہوں نے واپسی کا اردہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کیا چاہتے ہیں ؟ عرض کرنے لگے ۔ہم واپس جا کر لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آپ نے ہمیں فلاں فلاں دینی احکام سنائے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اجازت چاہی جب رخصت ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو بھیج کر پھر انہیں بلایا اور عمدہ قسم کے تحائف دیے۔ جو اس سے پہلے آپ نے کسی وفد کو نہ دیئے تھے ۔آپ نے دریافت کیا تم سے کوئی شخص رہ تو نہیں گیا جس کو تحفہ نہ ملا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک لڑکا باقی رہ گیا ہے جس کو ہم سامان کی حفاظت کے لئے پیچھے چھوڑ آئے ہیں فرمایا اس کو بھیج دو۔ جب وہ خدمت میں حاضر ہوا تو کہنے لگا ،حضور !میں اس قبیلہ سے تعلق رکھتا ہوں جو ابھی آپ کے یہاں آیا تھا آپ نے ان کی ضروریات پوری فرمادیں اب میری حاجت روائی فرمائے ۔فرمایا آپ کیا چاہتے ہیں ،عرض کی بارگاہ خداوندی میں دعا کیجئے کہ خدا مجھے بخشے اور مجھ پر رحم فرمائے اور میرے دل کو غنی کردے ۔حضور نے دعا فرمائی۔پھراس کو اسی قسم کا تحفہ دیا جیسا اس کے قبیلہ والوں کو دیاتھا۔
کچھ عرصہ بعد اسی قبیلہ کے لوگ ایام حج میں منیٰ کے میدان میں حضور سے ملے مگر وہ لڑ کا موجود نہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اس جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا اور نہ ہی اس سے بڑھ کر کسی کو صابر پایا۔ اگر لوگوں کو ساری دنیا بھی مل جائے تووہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اللہ کا شکر ہے مجے امید ہے کہ وہ بڑے اطمینان سے جان دے گا۔ ایک شخص نے کہا کیا اور کوئی شخص اطمینان سے نہیں مرتا فرمایا لوگوں کے خیالات امنگیں دنیا کی وادیوں میں ہر جگہ بھٹکتی پھرتی ہیں اور اسی قسم کی کسی وادی میں انسان کی موت آجاتی ہے، ایسے میں خداکو بھی اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی موت کس وادی میں آئی۔
مندرجہ صدر بیانات اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ بیرونی قبائل کے وفود علم دین کے سر چشمہ صافی سے اپنی علمی پیاس بجھانے اور دینی احکام ومسائل سے آگاہ ہونے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے ۔پھر وطن واپس لوٹتے تھے اور اپنے متعلقین کو دینی مسائل سے آگاہ کرتے صحابہ رضی اللہ عنہم کے جو وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کی جانب دعوت ارشاد کے سلسلہ میں بھیجا کرتے تھے وہ اس پر مزید ہیں خلاصہ یہ کہ ان دونوں قسم کے وفود نے حدیث نبوی کی نشرو اشاعت میں خصوصی پارٹ ادا کیا ۔ اور احادیث جزیرہ نمائے عرب کے کونے کونے تک پہنچ گئیں ۔
اشاعت حدیث میں حجۃ الوداع کے اثرات:
جب جزیرہ نمائے عر ب پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا تسلط حاصل ہوگیا تو آپ نے حج کا ارادہ فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل اسلام کو مخاطب کر کے ایک جامع خطبہ دیا جس میں اکثر احکام وسنن پر روشنی ڈالی اور جاہلی رسوم کو باطل قرار دیا لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ربیعہ بن امیہ بن خلف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز لوگوں تک پہنچا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کا آغاز الحمد للہ کے الفاظ سے فرمایا اور کہا:
اے لوگو! میری بات سنو۔ شائد اس سال کے بعد میں آپ کو یہاں کھبی نہ ملوں ۔
یہ طویل خطبہ ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک حج پر روشنی ڈالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت قریب ہے اس لئے آپ نے ہر ضروری بات بیان فرمادی اس عظیم اجتماع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جامع خطبہ حدیث نبوی کی نشرو اشاعت کے عوامل میں سے ایک عظیم عامل تھا گویا یہ دعوت اسلامی بالعموم اور حدیث نبوی بالخصوص کا آخری پروگرام تھا اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی
''الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا''
''آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا''۔