ابن ماجہ کی حدیث پیش خدمت ہے:
إن أمتي لا تجتمع علي ضلالة فاإذا رأيتم إختلافا فعليكم بسواد ألاعظم
"بے شک میری امت (مجموعی طور پر) کبھی پر جمع نہیں ہوگی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت (کا ساتھ) اختیار کرو"
ابن ماجه في السنن 367/4، الرقم 3950
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اسناد کے ساتھ مکمل روایت حسب ذیل ہے :
حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا معان بن رفاعة السلامي ، حدثني ابو خلف الاعمى ، قال: سمعت انس بن مالك ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "إن امتي لن تجتمع على ضلالة، فإذا رايتم اختلافا فعليكم بالسواد الاعظم".
(سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر: 3950)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو“
(مصباح الزجاجة: ۱۳۸۷)
(ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا دون الجملة الأولى (شیخ البانیؒ فرماتے ہیں یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے ،البتہ اس کا پہلا جملہ "لا تجتمع امتی " صحیح روایات سے ثابت ہے )
اور شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ روایت سخت ضعیف ہے ،اس کا راوی ابو خلف متروک اور جھوٹا ہے ،
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف جدًا ¤ معان بن رفاعة : لين الحديث (تقدم:245) وأبو خلف حازم بن عطاء : متروك ورماه ابن معين بالكذب (تق:8083) وللحديث شاهد ضعيف عند أبي نعيم الأصبهاني في أخبار أصفهان (208/2) والسند ضعفه البوصيري ۔ ولحجية الإجماع انظر سنن الترمذي بتحقيقي (الأصل:2166) والحمدلله ۔
وضاحت: یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے
زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا
ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے اقلیت ہی میں تھے، اور وہ حق پر تھے، اور حق ان کے ساتھ تھا، یہی حال تمام انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین،تبع تابعین اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر، قلت اور کثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہو گا، اور اہل حق کا یہ گروہ قلت اور کثرت سے قطع نظر ہمیشہ تاقیامت موجود ہو گا، اور حق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، ان شاء اللہ العزیز۔
اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ:
«فعليكم بالسواد الأعظم» کو دلیل بنا کر ملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اور دین سے کوسوں دور والی اکثریت پر فخرکرنے والوں کو صحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں، اسی لیے وہ بے چارے اس آیت کریمہ:
«من الذين فرقوا دينهم وكانوا شيعا كل حزب بما لديهم فرحون» (سورة الروم:32) کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن و سنت والے اصلی اور فطری دین کو چھوڑ کر اپنے الگ الگ دین بنا لیے اور وہ خود کئی گروہ میں بٹ گئے، اور پھر ہر گروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں،
جب کہ قرآن کہہ رہا ہے:
«وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله إن يتبعون إلا الظن وإن هم إلا يخرصون» (سورة الأنعام: 116) ” اے نبی! آپ اگر ان لوگوں کے کہنے پر چلیں جن کی دنیا میں اکثریت ہے (سواد اعظم والے) تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں)
پھر اس سواد اعظم والی منکر اور سخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجود سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحب عقل و عدل مومن عالم نہیں کر سکتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من كذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك» ” میری امت کا ایک گروہ برابر اور ہمیشہ اللہ کے حکم (قرآن و حدیث) پرقائم رہے گا، کوئی ان کو جھٹلائے اور ان کی مدد سے دور رہے، اور ان کے خلاف کرے، ان کا کچھ نقصان نہ ہو گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آ پہنچے اور وہ اسی (قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی) حالت میں ہوں گے “ (صحیح البخاری، کتاب التوحید حدیث نمبر ۷۴۶۰)،
صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں:
«لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس» (کتاب الإمارۃ) یہاں اس روایت میں امت کی جگہ «طائفہ» کا کلمہ آیا ہے، اور طائفہ امت سے کم کی تعداد ظاہر کرتا ہے (بلکہ دوسری روایات میں «عصابہ» کا لفظ آیا ہے، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتا ہے) یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق، کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابر ہو گی، کسی دور میں کسی جگہ «طائفہ» کے برابر اور کسی زمانہ میں «عصابہ» کے برابر۔ اور یہ کہ «
وهم ظاهرون على الناس» ” اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے “ سبحان اللہ، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن و سنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام و علمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہر اجتہاد و رائے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہو یا باہر کا، دین حق پر ہونے کے اعتبار سے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پر غالب نظر آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: یہ گروہ اگر اہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہیں؟
اب اہل بدعت و ضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ، جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
(عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا النَّاسُ كَالإِبِلِ المِائَةِ، لاَ تَكَادُ تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً» سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کی مثال اونٹوں کی سی ہے، سومیں بھی ایک تیز سواری کے قابل نہیں ملتا۔( صحیح بخاری 6498 و مسلم )
اور اس امت میں فرقوں کے وجود کی پیشنگوئی کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے اس میں "سواد اعظم "کا مطلب و معنی سمجھنے میں مدد ملتی ہے ،:
عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي» . رواه الترمذي))
وفي رواية أحمد وأبي داود عن معاوية: «ثنتان وسبعون في النار وواحدة في الجنة وهي الجماعة وإنه سيخرج في أمتي أقوام تتجارى بهم تلك الأهواء كما يتجارى الكلب بصاحبه لا يبقى منه عرق ولا مفصل إلا دخله» مشکوٰۃ المصابیح ،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ
" سیدنا عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ایک جیسے ہوتے ہیں یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ بدفعلی کی ہوگی تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا! یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)! جنتی فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔جو جماعت اس راہ پر ہوگی جس پر میں اور میرے صحاب ہوں گے۔ (جامع ترمذی )
اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے جو روایت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ بہتر گروہ دوزخ میں جائیں گے اور ایک گروہ جنت میں جائے گا اور وہ جنتی گروہ " جماعت" ہے اور میری امت میں کئی قومیں پیدا ہوں گی جن میں خواہشات یعنی عقائد و اعمال میں بدعات اسی طرح سرائیت کر جائیں گی جس طرح ہڑک والے میں ہڑک سرایت کر جاتی ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے باقی نہیں رہتا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث نبوی کے مطابق اب بھی اہل اسلام میں ایک جماعت باقی ہے جو
« ما أنا عليه وأصحابي » یعنی قرآن و سنت اور منہج صحابہ کی پیروی پر قائم ہے، اور اہل توحید، اہل حدیث اور موحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ جماعت قرآن اور حدیث پر قائم ہے،اور باوجود صدہا ہزارہا فتنوں کے یہ طائفہ (گروہ اور جماعت) بدعت و گمراہی سے اب بھی بچا ہوا ہے، اور اس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔