• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی تحقیق درکار ہے۔۔؟؟

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ، سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ، يُحَدِّثُ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ، صلى الله عليه وسلم عَامَ الْفِيلِ ‏.‏ وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمُرَ بْنِ لَيْثٍ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَكْبَرُ مِنِّي وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلاَدِ وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْفِيلِ وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ قَالَ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلاً ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ‏.‏
(سنن الترمذی ، کتاب المناقب، باب ما جاء فی میلاد النبی ﷺ ، ح ۳۶۱۹)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ، سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ، يُحَدِّثُ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ، صلى الله عليه وسلم عَامَ الْفِيلِ ‏.‏ وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمُرَ بْنِ لَيْثٍ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَكْبَرُ مِنِّي وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلاَدِ وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْفِيلِ وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ قَالَ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلاً ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ‏.‏
(سنن الترمذی ، کتاب المناقب، باب ما جاء فی میلاد النبی ﷺ ، ح ۳۶۱۹)
سنن الترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب

باب ما جاء في ميلاد النبي صلى الله عليه وسلم
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت کا بیان
حدیث نمبر: 3619

حدثنا محمد بن بشار العبدي حدثنا وهب بن جرير حدثنا ابي قال:‏‏‏‏ سمعت محمد بن إسحاق يحدث عن المطلب بن عبد الله بن قيس بن مخرمة عن ابيه عن جده قال:‏‏‏‏ " ولدت انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل وسال عثمان بن عفان قباث بن اشيم اخا بني يعمر بن ليث:‏‏‏‏ اانت اكبر ام رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال:‏‏‏‏ رسول الله صلى الله عليه وسلم اكبر مني وانا اقدم منه في الميلاد ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل ورفعت بي امي على الموضع قال:‏‏‏‏ ورايت خذق الفيل اخضر محيلا ".
قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث محمد بن إسحاق.


قیس بن مخرمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں واقعہ فیل ۱؎ کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں ۲؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے، میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہو گئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۰۶۴) (ضعیف الإسناد)
(سند میں مطلب لین الحدیث راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني

المطلب بن عبد الله سے محمد بن اسحاق کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا،اور ۔۔المطلب ۔۔کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ’’ ثقہ ‘‘ نہیں کہا
اسی لئے امام الذہبی ۔۔الکاشف ۔۔میں اسکے متعلق صیغہ تمریض میں لکھتے ہیں :"وثِّق " یعنی اسکی توثیق کی گئی ہے ،
اور حافظ ابن حجر ۔۔"التقريب " میں اس کے بارے لکھتے ہیں : "مقبول ".(يعني: عند المتابعة، )
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
المطلب بن عبد الله سے محمد بن اسحاق کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا،اور ۔۔المطلب ۔۔کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ’’ ثقہ ‘‘ نہیں کہا
اسی لئے امام الذہبی ۔۔الکاشف ۔۔میں اسکے متعلق صیغہ تمریض میں لکھتے ہیں :"وثِّق " یعنی اسکی توثیق کی گئی ہے ،
اور حافظ ابن حجر ۔۔"التقريب " میں اس کے بارے لکھتے ہیں : "مقبول ".(يعني: عند المتابعة، )
دارلسلام والے ایڈیشن میں الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اور ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ کے حؤالے سے جو آپ نے کہا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟؟
اگر اس کی توثیق کی گئی ہے تو اسے ضعیف کس بناء پر قرار دیا جا رہا ہے ۔۔؟؟ اور حافظ صاحب رحمہ اللہ بھی اسے متابعت میں مقبول مانتے ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ کے حؤالے سے جو آپ نے کہا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟؟
اگر اس کی توثیق کی گئی ہے تو اسے ضعیف کس بناء پر قرار دیا جا رہا ہے ۔۔؟؟ اور حافظ صاحب رحمہ اللہ بھی اسے متابعت میں مقبول مانتے ہیں
دیگر فنون کی طرح اصطلاحات حدیث میں صیغوں کی تبدیلی سے کلمہ کی مراد تبدیل ہوجاتی ہے
مثلاً :وَثَقَہ فلان ۔معروف صیغہ ہے جس کا ترجمہ اور معنی ہے کہ یہ راوی ’’ ثقہ ‘‘ ہے
لیکن کسی کے بارے جب ’’ و’ثِقَ ‘‘ مجہول صیغہ میں کہا جائے تو مراد ۔یقینی ثقہ نہیں، بلکہ غیر معتمد ہے
کما ذكر الشيخ الألباني رحمه الله في الصحيحة (6/2/723)
قال الذهبي في الكاشف : (( وثِّق ))
قلت : [ الألباني ]
يشير إلى أن ابن حبان وثَّقه ، وأن توثيقه هنا غير معتمد ، لأنه يوثِّق من لا يعرف ، وهذا اصطلاح منه لطيف ، عرفته منه في هذا الكتاب ، فلا ينبغي أن يفهم على أنه ثقة عنده ، كما يتوهم بعض الناشئين في هذا العلم . ))

یعنی البانی فرماتے ہیں :کہ ذہبی جب اپنی کتاب ۔۔الکاشف۔۔میں (( وْثِّق ))کہتے ہیں تو ان کا مطلب ہوتا ہے کہ صرف ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے ،اور یہاں انکی توثیق معتمد نہیں ،کیونکہ وہ مجہول کو بھی ثقہ کہہ دیتے ہیں ،اور یہ (( وْثِّق )) ذہبی کی ایک لطیف اصطلاح ہے
اس اصطلاح سے ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ راوی انکے نزدیک ثقہ ہے ‘‘
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور حافظ صاحب رحمہ اللہ بھی اسے متابعت میں مقبول مانتے ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ کا تقریب التہذیب میں کسی راوی کو ’’ مقبول ‘‘ کہنے کا مطلب کہ اگر اس کی متابعت مل جائے تو اس کی روایت قبول ہوگی ،
ورنہ منفرد ہونے کی صورت میں رد کردی جائے گی:
السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ (مقبول) حيث يتابع، وإلا فلين الحديث)---إلى آخر كلامه في بيان المراتب؛ ودعنا نكتفي منه بهذا القدر، فإننا قد بلغْنا المرادَ شرحُه؛ فأقول:
الكلام على هذه المرتبة السادسة من وجوه:
الوجه الأول
استعمل ابن حجر في هذه المرتبة كلمة واحدة هي كلمة (مقبول)، ولكنه استعملها بمعنى خالف فيه الجمهور، فهو يريد بها أن من قالها فيه فحديثه مقبول عند المتابعة ومردود غير مقبول عند الانفراد، وهم يريدون بها ـ كما هو معلوم ـ القبول عند الانفراد فضلاً عن المتابعة، ولكن هذا اصطلاح له قد بين مراده به فلا محذور فيه، ولا مشاحة في اصطلاح لا محذور فيه.
حكم أحاديث هذه المرتبة واضح في الجملة، فإنها قطعاً في مرتبة فوق مرتبة المتروك كما صرح ابن حجر نفسه (1) ، ودون مرتبة الصدوق السيء الحفظ، كما يدل عليه تسلسل المراتب؛ إذ رجال السادسة دون رجال الخامسة بلا شك.
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
شیخ شعیب الارناؤط نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے، اور ان کی بات ہی صحیح معلوم ہوتی ہے:
مسند احمد ح 17891 کی تخریج میں فرماتے ہیں:
حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف من أجل المطلب بن عبد الله، فلم يرو عنه غير ابن إسحاق، وذكره ابن حبان في "الثقات"، وقد توبع.
وهو في "سيرة ابن هشام" 1/167.
وأخرجه البخاري في "التاريخ الكبير" 7/145، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 1/296، والترمذي (3619) ، وابن أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" 1/478، والطحاوي في "شرح المشكل" (5968) و (5969) ، وابن قانع في "معجم الصحابة" 2/349، والطبراني في "الكبير" 18/ (872) و (873) ، والحاكم 2/603، وأبو نعيم في "دلائل النبوة" (85) ، والبيهقي في "الدلائل" 1/76 و77 من طرق عن ابن إسحاق، به. قال الترمذي: هذا
حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث محمد بن إسحاق.
وأخرجه ابن سعد في "الطبقات" 1/101 عن حكيم بن محمد- وهو ابن قيس بن مخرمة-، عن أبيه، عن قيس بن مخرمة. وإسناده حسن، حكيم بن محمد صدوق حسن الحديث، وأبوه ثقة من رجال مسلم.
وقد ثبتت ولادة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عام الفيل عن غير واحد من الصحابة وغيرهم، انظر ابن سعد 1/100 -101، والبيهقي 1 /75 - 79.
 
Top