یہ صوفیوں کی وضع کردہ (گھڑی ہوئی ) روایت ہے ؛
صوفیاء کے شیخ ابن عربی نے۔۔فتوحات مکیہ ۔۔کی تیسری جلد میں اس روایت کو لکھا ہے ۔
14254 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ناصر الدین الألباني :
(( لا أصل له اتفاقا . قال شيخ الإسلام ابن تيمية في "مجموع الفتاوى" (18/122 ، 376) :
"ليس هذا من كلام النبي صلى الله عليه وسلم ، ولا يعرف له إسناد صحيح ، ولا ضعيف "
یعنی ۔اس بات پر سب محدثین کا اتفاق ہے کہ : اس روایت کی کوئی اصل نہیں ۔
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : یہ پیغمبر کریم ﷺ کے کلام سے ثابت نہیں۔۔اور اس کی کوئی صحیح یا ضعیف سند بھی موجود نہیں ‘‘
علامہ ناصر الدین الألباني مزید لکھتے ہیں :
قلت : وتبعه على هذا كل من جاء بعده ؛ كالزركشي في "التذكرة في الأحاديث المشتهرة" (ص 136) ، والسخاوي في "المقاصد الحسنة " (ص 327/838) ؛ فقال عقبه :
"وتبعه الزركشي وشيخنا " . يعني : ابن حجر العسقلاني . وكذا السيوطي في "الدرر المنتثرة" (ص 163/330) ، وقال في "ذيل الأحاديث الموضوعة " (ص 203) : " قال ابن تيمية : " موضوع " . وهو كما قال "
یعنی : علامہ ابن تیمیہ کے بعد آنے والے تمام محدثین نے بھی انہی کی بات دہرائی ہے ( کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں )
جیسے علامہ زرکشی نے اپنی کتاب ’’ "التذكرة في الأحاديث المشتهرة" میں ۔۔۔اور علامہ سخاوی نے اپنی کتاب "المقاصد الحسنة "میں یہی کہا ہے ۔
اور علامہ سیوطی "ذيل الأحاديث الموضوعة " میں لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ اس روایت کو ’’ موضوع ‘‘ کہتے ہیں ،اور واقعی یہ موضوع ہی ہے
[ سلسلة الأحاديث الضعيفة ح 6023 ]