رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم
میری یہ عادت ہے کہ کسی بھی عالم کی کوئی بات یا کسی اصول کی وضاحت جو اہم ہو اور بار بار استعمال میں آتی ہو، اس کو میں علیحدہ سے ایک ورڈ فائل میں لکھ لیتا ہوں اور ضرورت پڑنے پر صرف اس کو کاپی پیسٹ کر لیتا ہوں۔ آج میں اس فائل میں سے صرف ایک مسئلہ پر تمام اکھٹا کیا ہوا مواد یہاں پر لگانے جا رہا ہوں تا کہ اس کو آئندہ کے لیے ریفرینس بنایا جا سکے اور محدثین کے طویل اقوال نقل کرنے کی بجائے صرف اس تھریڈ کا لنک دے دیا جائے۔
یہ تمام حوالہ جات شیخ کفایت اللہ السنابلی، شیخ زبیر علی زئی، اور شیخ ارشاد الحق اثری کی کتب و تحریروں سے اخذ کردہ ہے۔
۱- امام ابو الحسن ابن القطان الفاسی المغربی رحمہ اللہ نے زینب بنت کعب اور سعد بن اسحاق کے بارے میں لکھا:
وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395]۔
"اور ترمذی کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح میں اُس کی اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے، اور ثقہ راوی کو یہ بات مضر نہیں کہ اس سے صرف ایک شخص ہی روایت کرے، واللہ اعلم"
۲- امام ترمذی نے عمرو بن بجدان راوی کی حدیث کو "حسن صحیح" کہا۔ اس کے بارے میں تقی الدین ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے الامام (نامی کتاب) میں کہا:
"و أي فرق بين أن يقول: هو ثقة أو يصحح له حديث انفرد به؟"
"اس میں کیا فرق ہے کہ وہ اسے ثقہ کہیں یا اس کی انفرادی حدیث کی تصحیح کی جائے؟"
(نصب الرایہ للزیلعی ج ۱ ص ۱۴۹)
۳- امام الجرح والتعدیل شمس الدین الذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"الثقة: مَن وثَّقَه كثيرٌ، ولم يُضعَّف. ودُونَه: مَن لم يُوَثَّق ولا ضُعِّف. فإن خُرِّج حديثُ هذا في "الصحيحين"، فهو مُوَثَّق بذلك. وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة، فجيِّدٌ أيضاً. وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه."
"ثقہ وہ ہے جسے (محدثین کی) اکثریت ثقہ کہے، اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو۔ اُس سے نچلے درجے میں وہ ہے جس کی نہ توثیق کی گئی اور نہ تضعیف، پس اگر ایسے شخص کی حدیث اگر صحیحین میں مروی ہو تو اس وجہ سے وہ اس کی توثیق ہو گی، اور اگر اس کی حدیث کی ترمذی، اور ابن خزیمہ جیسے محدثین تصحیح کریں تو وہ بھی اسی طرح جید ہو گی، اور اگر الدارقطنی اور الحاکم جیسے اس کی حدیث کی تصحیح کریں تو اس کا کم سے کم حال یہ ہو گا کہ وہ حسن الحدیث ٹھہرے گا"
(الموقظة في علم المصطلح : ۱/۷۸)
۴- امام الجرح والتعدیل حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ عبد الرحمن بن خالد بن جبل العدوانی کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
"قلت صحّح بن خُزَيْمَة حَدِيثه وَمُقْتَضَاهُ أَن يكون عِنْده من الثِّقَات"
"میں کہتا ہوں: ابن خزیمۃ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقات میں سے تھے"
(تعجيل المنفعة : ۱/۷۹۳، الشاملہ)
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:
"وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة ۔"
"اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو سلام کے حوالے سے ان سے روایات لی ہیں جن میں انہوں نے تحدیث کی صراحت بھی کی ہے، اور یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ تھے"
[تعجيل المنفعة ص: 204]
۵- حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته."
"اور دوسروں نے کہا کہ اس میں جھالت ہے کیونکہ ابن خنیس کے علاوہ کوئی بھی اس سے روایت نہیں کرتا، اور ذھبی نے تو جزم کے ساتھ یہ بات المغنی میں کہی ہے کہ: وہ معروف نہیں ہے لیکن - جیسا کہ آپ نے دیکھا - الحاکم نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے، اور اسی طرح ابن حبان نے بھی اس کی تصحیح کی ہے، اور وہ اپنی معرفت اور ثقاہت کی وجہ سے پکارا جاتا ہے۔"
(البدر المنیر: ۴/۲۶۹)
۶- علامہ جمال الدین الزیلعی الحنفی عمرو بن بجدان کے بارے میں فرماتے ہیں:
"فَكَذَلِكَ لَا يُوجِبُ جَهَالَةَ الْحَالِ بِانْفِرَادِ رَاوٍ وَاحِدٍ عَنْهُ بَعْدَ وُجُودِ مَا يَقْتَضِي تَعْدِيلَهُ، وَهُوَ تَصْحِيحُ التِّرْمِذِيِّ"
"پس اسی طرح کسی ایک راوی کے ان سے روایت کرنے میں جھالتِ حال لازم نہیں آتی جبکہ ایسی چیز موجود ہو جو اس کی تعدیل پر متقاضی ہے، اور وہ ہے ترمذی کی تصحیح۔"
(نصب الرایہ: ۱/۱۴۹)
۷- محدث العصر ناصر السنہ امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي."
"اور اسی طرح ان تمام محدثین نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے جنہوں نے اس کی حدیث کی تصحیح کی چاہے وہ اس کی حدیث کو "صحیح" میں روایت کرنے کی صورت میں ہو جیسے مسلم اور ابو عوانہ، یا وہ اس کی صحت پر صراحتاََ حکم کے ساتھ ہو جیسے ترمذی"
(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16)
پس محدثین کی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے جب کوئی عالم کسی حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے تو یہ اُس کی طرف سے اُس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے، اِلا یہ کہ کوئی صریح دلیل اس کی تخصیص کر دے۔
میری یہ عادت ہے کہ کسی بھی عالم کی کوئی بات یا کسی اصول کی وضاحت جو اہم ہو اور بار بار استعمال میں آتی ہو، اس کو میں علیحدہ سے ایک ورڈ فائل میں لکھ لیتا ہوں اور ضرورت پڑنے پر صرف اس کو کاپی پیسٹ کر لیتا ہوں۔ آج میں اس فائل میں سے صرف ایک مسئلہ پر تمام اکھٹا کیا ہوا مواد یہاں پر لگانے جا رہا ہوں تا کہ اس کو آئندہ کے لیے ریفرینس بنایا جا سکے اور محدثین کے طویل اقوال نقل کرنے کی بجائے صرف اس تھریڈ کا لنک دے دیا جائے۔
یہ تمام حوالہ جات شیخ کفایت اللہ السنابلی، شیخ زبیر علی زئی، اور شیخ ارشاد الحق اثری کی کتب و تحریروں سے اخذ کردہ ہے۔
کسی محدث کی طرف سے منفرد روایت کی تصحیح یا تحسین اس روایت کے تمام راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔
۱- امام ابو الحسن ابن القطان الفاسی المغربی رحمہ اللہ نے زینب بنت کعب اور سعد بن اسحاق کے بارے میں لکھا:
وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395]۔
"اور ترمذی کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح میں اُس کی اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے، اور ثقہ راوی کو یہ بات مضر نہیں کہ اس سے صرف ایک شخص ہی روایت کرے، واللہ اعلم"
۲- امام ترمذی نے عمرو بن بجدان راوی کی حدیث کو "حسن صحیح" کہا۔ اس کے بارے میں تقی الدین ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے الامام (نامی کتاب) میں کہا:
"و أي فرق بين أن يقول: هو ثقة أو يصحح له حديث انفرد به؟"
"اس میں کیا فرق ہے کہ وہ اسے ثقہ کہیں یا اس کی انفرادی حدیث کی تصحیح کی جائے؟"
(نصب الرایہ للزیلعی ج ۱ ص ۱۴۹)
۳- امام الجرح والتعدیل شمس الدین الذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"الثقة: مَن وثَّقَه كثيرٌ، ولم يُضعَّف. ودُونَه: مَن لم يُوَثَّق ولا ضُعِّف. فإن خُرِّج حديثُ هذا في "الصحيحين"، فهو مُوَثَّق بذلك. وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة، فجيِّدٌ أيضاً. وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه."
"ثقہ وہ ہے جسے (محدثین کی) اکثریت ثقہ کہے، اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو۔ اُس سے نچلے درجے میں وہ ہے جس کی نہ توثیق کی گئی اور نہ تضعیف، پس اگر ایسے شخص کی حدیث اگر صحیحین میں مروی ہو تو اس وجہ سے وہ اس کی توثیق ہو گی، اور اگر اس کی حدیث کی ترمذی، اور ابن خزیمہ جیسے محدثین تصحیح کریں تو وہ بھی اسی طرح جید ہو گی، اور اگر الدارقطنی اور الحاکم جیسے اس کی حدیث کی تصحیح کریں تو اس کا کم سے کم حال یہ ہو گا کہ وہ حسن الحدیث ٹھہرے گا"
(الموقظة في علم المصطلح : ۱/۷۸)
۴- امام الجرح والتعدیل حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ عبد الرحمن بن خالد بن جبل العدوانی کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
"قلت صحّح بن خُزَيْمَة حَدِيثه وَمُقْتَضَاهُ أَن يكون عِنْده من الثِّقَات"
"میں کہتا ہوں: ابن خزیمۃ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقات میں سے تھے"
(تعجيل المنفعة : ۱/۷۹۳، الشاملہ)
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:
"وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة ۔"
"اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو سلام کے حوالے سے ان سے روایات لی ہیں جن میں انہوں نے تحدیث کی صراحت بھی کی ہے، اور یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ تھے"
[تعجيل المنفعة ص: 204]
۵- حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته."
"اور دوسروں نے کہا کہ اس میں جھالت ہے کیونکہ ابن خنیس کے علاوہ کوئی بھی اس سے روایت نہیں کرتا، اور ذھبی نے تو جزم کے ساتھ یہ بات المغنی میں کہی ہے کہ: وہ معروف نہیں ہے لیکن - جیسا کہ آپ نے دیکھا - الحاکم نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے، اور اسی طرح ابن حبان نے بھی اس کی تصحیح کی ہے، اور وہ اپنی معرفت اور ثقاہت کی وجہ سے پکارا جاتا ہے۔"
(البدر المنیر: ۴/۲۶۹)
۶- علامہ جمال الدین الزیلعی الحنفی عمرو بن بجدان کے بارے میں فرماتے ہیں:
"فَكَذَلِكَ لَا يُوجِبُ جَهَالَةَ الْحَالِ بِانْفِرَادِ رَاوٍ وَاحِدٍ عَنْهُ بَعْدَ وُجُودِ مَا يَقْتَضِي تَعْدِيلَهُ، وَهُوَ تَصْحِيحُ التِّرْمِذِيِّ"
"پس اسی طرح کسی ایک راوی کے ان سے روایت کرنے میں جھالتِ حال لازم نہیں آتی جبکہ ایسی چیز موجود ہو جو اس کی تعدیل پر متقاضی ہے، اور وہ ہے ترمذی کی تصحیح۔"
(نصب الرایہ: ۱/۱۴۹)
۷- محدث العصر ناصر السنہ امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي."
"اور اسی طرح ان تمام محدثین نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے جنہوں نے اس کی حدیث کی تصحیح کی چاہے وہ اس کی حدیث کو "صحیح" میں روایت کرنے کی صورت میں ہو جیسے مسلم اور ابو عوانہ، یا وہ اس کی صحت پر صراحتاََ حکم کے ساتھ ہو جیسے ترمذی"
(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16)
پس محدثین کی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے جب کوئی عالم کسی حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے تو یہ اُس کی طرف سے اُس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے، اِلا یہ کہ کوئی صریح دلیل اس کی تخصیص کر دے۔