’اختلافی معاملات‘ کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، نہ کہ ان پر شک کرتے ہوئے مصلحت تلاش کرنے کا۔ اگر آپ کو مثلاً علم غیب، غیر اللہ سے استعانت اور سماعِ موتیٰ وغیرو وغیرہ سے متعلّق اختلاف پیدا ہو جائے اور
ان کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود ہو، تو کیا ایسی صورت میں ان آیات کریمہ کی نسبت اللہ کی طرف مشکوک ٹھہرا کر مصلحت تلاش کرنے پر زور دینا چاہئے؟؟!!
بھائی انس صاحب
کیوں مجھے گناہ گار کرتے ہیں بھائی
موجودہ صورتحال میں ایک ایسا اختلاف سامنے ایا ہے جس کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود نہیں ہے
کیا رجم کی کوئی آیت قرآن پاک میں موجود ہے ؟؟ یا پھر ہمیں منسوخ شدہ آیات کو بھی قرآنی آیات سمجھنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے ؟
عزیز بھائی! سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ فلاں بات اللہ تعالیٰ کی ہے، یا رسولِ کریمﷺ کی ہے یا نہیں؟؟؟
اگر ہے تو وہ دین ہے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اور اگر نہیں تو پھر اس کی دینی حیثیت نہیں ہوتی کہ اس پر عمل کرنے پر زور دیا جائے۔
جب یہ ثابت ہوجائے کہ فلاں بات قرآن یا حدیث ہے تو ثابت ہونے کے بعد اس کے بارے میں شک کرنا بالکل غیر عقلی بات ہے، اور کم از کم ایک مسلمان کا یہ کام نہیں ہو سکتا۔
ہونا ہو یہ چاہئے تھا کہ رجم والی احادیث مبارکہ کے بارے میں پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ وہ حدیث رسولﷺ بھی ہیں یا نہیں۔
اگر نہیں تو ان کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔
اور اگر وہ حدیث ثابت ہوچکی ہیں اور پوری امت انہیں حدیث تسلیم کرتی ہے تو پھر حکمت کے نام پر ان کے بارے میں شک کرنا نہایت غیر مناسب بات ہے۔
یہی بات میں نے اپنے اوپر دئیے ہوئے اقتباس سے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ آج ہمارے سامنے دو گتوں کے درمیان اللہ کی کلام موجود ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جس سے ہمارا علم غیب، غیر اللہ سے استعانت اور سماعِ موتیٰ وغیرو پر اختلاف ہے، جب اسے ان مخصوص عقیدوں کے بارے میں موجود آیات قرآنی پیش کی جائیں تو وہ ان پر - حکمت تلاش کرنے کے نام پر - شکوک وشبہات شروع کر دے تو یہ ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہوگا۔
ہاں البتہ یہ ضرور ڈسکس کیا جا سکتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ نہیں بلکہ یہ ہے۔
جب یہ بات ثابت ہو جائے کہ وہ بات اللہ یا رسول کی ہے، تب پھر آگے اس پر عمل کی بات آتی ہے۔
محترم بھائی! میں تو آپ کو گناہ نہیں کر رہا، جو کچھ کر رہے ہیں اپنے بارے میں، وہ آپ خود ہی کر رہے ہیں۔
جہاں تک آپ کا فرمانا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایک ایسا اختلاف (یعنی رجم) سامنے آیا ہے
جس کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود نہیں ہے
تو میں عرض کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کوئی شے ناقص نہیں چھوڑی:
﴿ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ﴾ ... الأنعام: 38
سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریمﷺ نے رجم کیا یا نہیں؟؟؟
کیا ہے اور بالکل کیا ہے جو صحیح بخاری ومسلم کی
احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
جب یہ ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ نے رجم فرمایا تو ہمارے لئے قرآن کریم کا صریح حکم موجود ہے:
﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ ... النساء: 65
کہ ’’نہیں، اے محمد (ﷺ)، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔‘‘
جب یہ طے ہوگیا کہ رجم کرنا نبی کریمﷺ کا فیصلہ ہے تو قرآن کی صریح آیت کریمہ کے مطابق لوگ اس وقت تک مؤمن ہی نہیں ہو سکتے جب تک وہ نبی کریمﷺ کے فیصلوں (جن میں رجم بھی شامل ہے) کو تسلیم نہ کریں اور صرف یہی نہیں، بلکہ اس فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کسی قسم کا کوئی انقباض یا تنگی بھی محسوس نہ کریں۔
پیارے بھائی! اب آپ ہی بتائیے کہ رجم قرآن پاک کا صریح فیصلہ ہے یا نہیں؟؟؟
گویا جب آپ کو مصلحت بتائی جائے گی اور وہ آپ کے ذہن کے مطابق بھی ہوگی تو آپ اس حدیث مبارکہ کو شرفِ قبولیت سے نوازیں گے ورنہ نہیں؟؟
بھائی میرے
میں نے آپ سے عرض کیا تھا کے کچھ مباحث کے دوران ایک حدیث کو مشکوک ٹھیرایا گیا
لہذا میرے ذہن میں بھی اس بارے کچھ شبہات پیدا ہوئے
اب میں اس کی تصدیق کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا
تو آپ نے مجھے ہی مشکوک ٹھیرانا شروع کردیا اور قرآنی آیات ثبت کرکے مجھے "منافق " تک کہہ دیا۔
عزیز بھائی! یہی تو وضاحت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ حکمت یا سمجھ نہ آنے کی بناء طے شدہ حدیث مبارکہ کو مشکوک نہ کریں۔
البتہ سند کے حوالے سے اگر آپ کو اس کے حدیث (نبی کا فیصلہ) ہی ہونے پر اعتراض ہے تو وجۂ اعتراض ذکر کریں...
کیونکہ اگر سند کے لحاظ سے یہ احادیث صحیح ہیں تو گویا یہ ثابت ہے کہ یہ نبی کریمﷺ کا حکم ہے، تو نبی کریم ﷺ کے حکم کو حکمت یا سمجھ نہ آنے کی بناء پر مشکوک ٹھہرانا بہت بڑا گناہ ہے۔
جہاں تک آپ کا کہنا ہے کہ میں نے آپ کو ’منافق‘ کہا ہے، تو میرے عزیز بھائی! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا، آپ دوبارہ میرا اقتباس پڑھ لیں، میں نے تو لکھا تھا:
محترم بھائی! آپ نے اپنے درج بالا اقتباس میں ایک حدیث مبارکہ کو بغیر کسی سند کے قبول کر لیا اور دوسری کو بغیر کسی تحقیق کے (مصلحت معلوم نہ ہونے پر) تسلیم نہیں کیا۔ یہ رویّہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اور آیت کریمہ سے میں نے قرآن وحدیث کے متعلّق مؤمنوں کا رویہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے (طے شدہ) حکم پر سمعنا واطعنا کہتے ہیں۔ ان کا رویہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس بات کو نہ چایا نہ مانا اور جو اپنے مطلب کی بات ہوئی وہ مان لی۔
محترم بھائی! آپ نے اپنے درج بالا اقتباس میں ایک حدیث مبارکہ کو بغیر کسی سند کے قبول کر لیا اور دوسری کو بغیر کسی تحقیق کے (مصلحت معلوم نہ ہونے پر) تسلیم نہیں کیا۔ یہ رویّہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جناب دین کسی حد تک ہم کم ذہنوں کا بھی ہے
اگر کوئی صاحب یہ کہیں کے" اللہ ایک ہے " تو اس کے لئے کسی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے
میرا دل خود ہی اس کی تصدیق کردیتا ہے
یہی مثال میری درج کی ہوئی حدیث کے مفہوم پر بھی صادق آتی ہے
ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں
کیا آپ اوپر درج کئے ہوئے مفہوم حدیث سے صرف اس لئے انکار کرسکتے ہیں کے اس کی "سند " یا" صحت " درست نہیں ؟؟
بھائی اللہ آپکو جزائے خیر دے
یہ الفاظ کی پکڑم پکڑائی کا کھیل مجھے نہیں آتا
شاید اس کھیل ماہر کو "عالم" کہا جاتا ہے۔
محترم بھائی! آپ نے پھر خلطِ مبحث کر دیا۔
کسی بات کا صحیح ہونا بالکل الگ بات ہے اور کسی بات کا وحی (قرآن وحدیث) ہونا الگ بات ہے۔
ہم اس وقت اللہ تعالیٰ کی کلام اور رسول کریمﷺ کی احادیث مبارکہ کی بات کر رہے ہیں۔
اپنی اوپر کی پوسٹ میں، میں نے تفصیل سے یہ عرض کیا تھا کہ مشاہدہ کے علاوہ علم کا ذریعہ صرف اور صرف خبر ہے۔ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو جو قرآن کریم واحادیث مبارکہ سنائیں، انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا، لہٰذا یقین کر لیا۔ ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کے پاس اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے خبر جس کی تصدیق یا تکذیب کیلئے سند ہوتی ہے، کہ متصل ہے یا نہیں۔ یا اس سند میں موجود راوی ثقہ ہیں یا ضعیف، وغیرہ وغیرہ؟؟
کوئی بھی بات اس وقت تک قرآن یا حدیث نہیں ہو سکتی جب تک اسے صحیح خبر کے ذریعے ثابت نہ کر دیا جائے۔
جبکہ آپ کا کہنا ہے کہ
ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں
اگر آپ اسے بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتے ہیں تو ازراہ کرم اسے حدیث کا نام نہ دیں۔
کیا میں آپ سے پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ درج ذیل باتوں کو بغیر صحت یا سند کے حدیث سمجھتے ہیں یا نہیں:
لولاك لما خلقت الأفلاك
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
میرے بعد میری امت میں ائمہ اربعہ (ابو حنیفہ، مالک، شافعی، احمد) آئیں گے۔
وغیرہ وغیرہ
آپ نے پوچھا کہ
کیا آپ اوپر درج کئے ہوئے مفہوم حدیث سے صرف اس لئے انکار کرسکتے ہیں کے اس کی "سند " یا" صحت " درست نہیں ؟؟
جی بھائی! اگر اس کی سند موجود ہی نہ ہو یا ہو لیکن درست نہ ہو تو میں اسے کبھی
نبی کریمﷺ کی حدیث تسلیم نہ کروں گا۔
البتہ نبی کریمﷺ کی طرف نسبت کیے بغیر یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟ یہ ایک بالکل الگ مسئلہ ہے۔
جہاں تک آپ کا کہنا ہے کہ
یہ الفاظ کی پکڑم پکڑائی کا کھیل مجھے نہیں آتا
شاید اس کھیل ماہر کو "عالم" کہا جاتا ہے۔
تو میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ...
علماء انبیائے کرام کے وارث ہیں اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
« من سلك طريقا يطلب فيه علما ، سلك الله به طريقا من طرق الجنة ، وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا بما يصنع ، وإن العالم ليستغفر له من في السموات ، ومن في الأرض ، والحيتان في جوف الماء ، وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب ، وإن العلماء ورثة الأنبياء ، وإن الأنبياء ، لم يورثوا دينارا ، ولا درهما ، إنما ورثوا العلم ، فمن أخذه أخذ بحظ وافر » ... صحيح الجامع: 6297
کہ ’’جو بندہ علم حاصل کرنے کے راستے پر نکلتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں پر چلا دیتے ہیں۔ اور فرشتے طالبعلم کے اعمال پر خوش ہوتے ہوئے اس کے قدموں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اور عالم کیلئے زمین وآسمان میں موجود ہر شے استغفار کرتی ہے حتیٰ کہ سمندر کے پیٹ میں موجود مچھلیاں بھی۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر (نہ کہ عام دنیا دار پر) ایسے ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر۔ اور بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور یقیناً انبیائے کرام نے درہم ودینار نہیں بلکہ علم کی وراثت چھوڑی ہے، تو جو اسے (علم کو) حاصل کر لے، اس نے بہت ہی عظیم شے پالی۔‘‘
نیز فرمایا:
« فضل العالم على العابد ، كفضلي على أدناكم . ثم قال رسول الله : إن الله و ملائكته و أهل السماوات و الأرض حتى النملة في جحرها ، و حتى الحوت ، ليصلون على معلمي الناس الخير » ... صحيح الترغيب: 81
کہ ’’عالم کی فضلیت عابد (ایسے نیک شخص پر جو دن کو روزہ اور راتوں کو قیام میں گزارتا ہوں) پر ایسے ہے جیسے میری (نبی کریمﷺ کی) فضیلت تمہارے ادنیٰ شخص پر۔‘‘ مزید فرمایا کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے اور اہل سماء وزمین حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں، یہ سب لوگوں کو خیر سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔‘‘
خیر سے اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کی علمی قابلیت میں اور اضافہ فرمائے۔
آمین یا رب العٰلمین!
ابھی مجھے ایسا کوئی "فورم" ( صرف انٹر نیٹ کے فورم نہیں بلکہ معاشرے میں موجود دیگر انسٹیٹیوٹ بھی ) نہیں ملا جہاں دین سے خلوص رکھنے والے میرے جیسے بھائیوں کے ذہن میں ڈالے گئے شبہات کا ازالہ کیا جاتا ہو۔
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ!
آخر میں، میں عرض کروں گا کہ اگر آپ کو رجم کی صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ کو کوئی علمی اعتراض ہو تو ضرور بیان کیجئے گا ...
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
آمین یا رب العٰلمین!