- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
خدمت حدیث کے پردے میں تحریف حدیث
مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
ماخوذ از : مقالات ارشاد الحق اثری جلد 1 ( ص 282 تا 287 )
دین کے دو ہی سرچشمے ہیں ۔ ایک قرآن اور دوسرا حدیث ۔ دونوں کی حفاظت کا اللہ تبارک و تعالی نے انتظام فرمایا ۔ حفظا ً بھی اور تحریراً بھی ۔ امت میں جیسے حفاظ قرآن ہیں ویسے ہی حفاظ حدیث بھی ہیں ۔ اور جیسے قرآن پاک ضبط و تحریر کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا گیا ۔ اسی طرح حدیث پاک کو صحابہ و تابعین کرام اور محدثین عظام کے ذریعے لکھوا کر محفوظ کیا گیا ۔ اور یوں قرآن اور اس کی تبیین و تفسیر دونوں کی حفاظت مکمل ہوئی جس کی ذمہ داری خود اللہ احکم الحاکمین نے اپنے ذمے لی تھی ۔
إنا نحن نزلنا الذكر و إنا له لحافظون
پھر حضرات محدثین رحمہم اللہ نے جس طرح جان جوکھوں میں ڈال کر ایک ایک حدیث کو جمع کیا اس کی داستان طویل بھی ہےاور دلچسپ بھی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے احادث مبارکہ لکھنے ، اساتذہ کی کتابوں اور احادیث کے مجموعوں کو نقل کرنے کے بھی قواعد و ضوابط مرتب کئے اور اس میں ایسا محتاط طریقہ اختیار کیا جوان کی صداقت و دیانت کی ایک واضح برہان ہے ۔
اصل نسخہ میں اگر لفظ غلط تھا تو اسے ختم نہیں کیا گیا بلکہ اس پر خط کھینچ دیا گیا ۔ یا حاشیہ میں اس کی تصحیح کی گئی ۔ اور اگر کسی جگہ کلام کی مناسبت سے کوئی لفظ گرا ہوا محسوس ہوا تو اسے کتاب کے متن میں داخل کرنے کی جسارت نہیں کی گئی جیساکہ اصول حدیث کی کتابوں میں ہے ۔ اسی سلسلہ میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ اپنی آپ بیتی میں بتلاتے ہیں کہ ایک عبارت میں جب میں نے لفظ کی کمی محسوس کی تو سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں لفظ زیادہ کروں یا نہ کروں ، میں اسی تردد میں تھا کہ غیب سے ندا آئی :
يا أيها الذين أمنوا اتقوا لله كو نوا مع الصادقين
جس کے بعد میں نے اس لفظ کو لکھنے سے گریز کیا ۔
( الکفایۃ ص 367 )
ع
أولئك آبائي فجئني بمثلهم
لیکن افسوس صد افسوس کہ جب سلف کے اسی ورثہ کو سنبھالنے اوران کی طباعت و اشاعت کی نوبت آئی تو اس میں بعض حضرات نے مخصوص مقاصد کے پیش نظر ان میں تحریف ارو ردو بدل کی ایسی بدترین مثال پیش کی جسے دیکھ کر کوئی غیرت مند اور کتاب و سنت سے وابستگی رکھنے والا برداشت نہیں کرسکتا ۔ مزید افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مذموم کردار کا ارتکاب مسلسل ان حضرات کی طرف سے ہوا جو اپنے آپ کو حدیث کے خدام ظاہر کرتے ہیں اور مدعی ہیں کہ ان کی شروح و حواشی لکھنے اور انہیں طبع کرانے میں اولیت کا شرف انہیں ہی حاصل ہے ۔
ان حضرات نے سابقہ ادوار میں '' خدمت حدیث '' کے پردہ میں کیا گل کھلائے ۔ اس کی داستان بڑی تلخ اور عبرت ناک ہے ۔ المستدرک للامام الحاکم ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ اور مسند حمیدی میں غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے الفاظ و حروف کا اضافہ ایسی ہوشیاری اور چابکدستی سے کیا ہے جس سے ان حضرات نے آج بھی گویا
يكتبون الكتب بأيديهم ثم يقولون هذا من عند الله
کی عملی تصویر پیش کردی ہے ع
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہماری اس بات کا ثبوت حال ہی میں ایک دیوبندی ادارہ '' ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی '' سے طبع ہونے والا مصنف ابن ابی شیبہ کا نیا ایڈیشن ہے ۔ اہل علم وخبر جانتے ہیں کہ اس کتاب کی طباعت کا اہتمام سب سے پہلے '' مولانا ابو الکلام اکادمی حیدر آباد ( ہند ) '' نے کیا اور پھر 1386ھ بمطابق 1966ءمیں اس کی پہلی جلد زیورطبع سے آراستہ ہو کر اہل علم و قدر کے ہاتھوں میں پہنچی۔اسی طرح اس کی دوسری اور تیسری جلد بھی اسی ادارہ کے تحت طبع ہوئی مگر نا معلوم وہ اسے مکمل کیوں نہ کرسکے ۔ پھر اس عظیم الشان کام کی تکمیل الدار السلفیہ بمبئی ( ہند ) نے کی جو پندرہ جلدوں میں پر مشتمل ہے ۔ مگر یہ نسخہ بھی من وجہ مکمل نہ تھا کیونکہ اس کی جلد نمبر 3 کے آخری صفحہ 396میں آئندہ چوتھی جلد کے بارےمیں لکھاہواہے:
ويتلوه كتاب الحج أوله بسم الله الرحمن الرحيم ما قالوا في ثواب الحج
مگرچوتھی جلد کاآغازاس محولہ باب سے نہیں بلکہ
في قوله تعالى : فصيام ثلاثة أيام في الحج
سے ہے ۔ مگر افسوس کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے ناشرین نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرف بالکل توجہ نہ دی کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے ۔
اس کے بعد اس کتاب کی طباعت کا انتظام '' ادار القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی '' نے کیا ۔ ادارہ کے بانی اور مالک و مدیر مولانا نور احمد صاحب ہیں جو حضرات مولانا مفتی محمدشفیع مرحوم کے داماد ہیں ۔ موصوف ایک عرصہ تک ان کے دار العلوم کے ناظم بھی رہے ہیں ۔ مولانا نور احمد صاحب نے بھی اس کمی کو محسوس کیا تو اس کے قلمی نسخہ ( جو پیر آف جھنڈا کے کتب خانہ کی زینت ہے ) کی مدد سے ان چھوٹے ہوئے ابواب کی تصحیح و اضافہ کے ساتھ اسے طبع کرانے کا انتظام کیا جو پہلے نسخہ میں نہ تھے ۔ ان ابواب کی مجموعی تعداد 499 ہے بلکہ کتاب الأیمان والنذور والکفارات بھی اسی جلد میں ہے ۔ اور یوں یہ کتاب سولہ جلدوں میں مکمل طور پر طبع ہوئی ۔ جس پر یہ ادارہ اور اس کے مدیر بجا طور پر شکریہ کے مستحق ہیں ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ انتہائی کرب والم کی بات یہ ہے کہ اس کی جلد اول ( ص 390 ) میں
'' باب وضع الیمین علی الشمال '' کے تحت حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه علي شماله في الصلاة
کے آخر میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ '' تحت السرۃ '' کا اضافہ کردیا ۔ إنا لله وإنا إليه رجعون .
حالانکہ اس سے قبل پہلی دونوں طباعتوں کے اسی ص390 میں یہ حدیث موجود ہے مگر اس میں'' تحت السرۃ '' کا اضافہ قطعا نہیں ۔ دیانت کا تقاضا تھا کہ اس نسخہ کے ناشرین نے جو اضافہ کیا اس کا حوالہ دیتے اور بتلاتے کہ نسخہ کی ترتیب میں اصل کونسا نسخہ ان کے پیش نظر ہے اور اختلاف میں کون کون سے نسخوں کی مراجعت کی گئی ہے مگر اس تفصیل سے ان کا کیا تعلق ان حضرات کا مقصد تو اپنے حنفی دوستوں کو اپنے مسلک کی ایک ( خود ساختہ )دلیل مہیاکرنا تھااور بس ۔ ( حاشیہ : دونوں طباعتوں کے عکس مضمون کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں ۔ اثری ) مزید تعجب کی بات یہ کہ یہ اضافہ اور زیادت بھی پورے صفحہ کے الفاظ کے مقابلہ میں جلی حروف سے کیا گیا جیساکہ اس نسخہ کی مراجعت سے عیاں ہوتا ہے ۔اس جسارت پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ :
ع
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
'' تحت السرۃ '' کی حیثیت :
اہل علم جانتے ہیں کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے اس اضافے کا ذکر سب سےپہلےحافظ قاسم بن قطلوبغا المتوفی 879ھ نے'' تخریج أحادیث الاختیار '' میں کیا ۔ ان کےبعدشیخ محمد قائم سندھی اور شیخ محمد ہاشم سندھی اور دوسرے حنفی علماء نے اس اضافے کی صحت کا دعوی کیا ۔ مگر علامہ محمد حیات سندھی نے اس کی پرزور تردیدکی اور کہا کہ جس نسخہ کی بنیاد پراس اضافے کی صحت کا دعوی کیا جارہاہے وہ نسخہ صحیح نہیں کاتب نے غلطی سے مرفوع حدیث میں '' تحت السرۃ '' کے الفاظ لکھے ہیں ۔ یہ الفاظ ابراہیم نخعی کے اثر میں ہیں جو اسی حدیث کے بعد ہے ۔ صَرفِ نظر سے نچلی سطر کے یہ حروف پہلی سطر میں لکھے گئے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ۔ علامہ محمد حیات سندھی کےموقف کی تفصیل ان کے رسالہ '' فتح الغفور فی تحقیق وضع الیدین علی الصدور '' میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ ماضی قریب کے نامور دیوبندی شیخ الحدیث اور خاتمہ الحفاظ علامہ محمد انور شاہ صاحب کشمیری نے بھی علامہ محمد حیات سندھی کے موقف کی تائید کی ہے اور ان کے الفاظ یہ ہیں :
و لا عجب أن يكون كذلك فإني راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدته في واحدمنها
( فيض الباري ج 2 ص 267 )
'' یعنی جیسے علامہ محمد حیات سندھی نے کہا ہے ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ، میں نے بھی مصنف کے تین نسخے دیکھے ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ الفاظ نہیں تھے ۔ ''
علامہ نیموی جو ماضی قریب میں حنفیت کے نامور وکیل تھے انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگرچہ یہ زائد الفاظ کئی نسخوں میں موجود ہیں مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ اضافہ غیر محفوظ اور متن کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔ ان کے الفاظ ہیں :
الإنصاف أن هذه الزيادة و إن كانت صحيحة لوجودها في أكثر النسخ من المصنف لكنها مخالفة لروايات الثقات فكانت غير محفوظة
(التعليق الحسن ص 71 )
اور مولانا بدر عالم صاحب نے بھی علامہ نیموی کی '' الدرۃ الغرۃ فی وضح الیدین تحت السرۃ '' کے حوالے سے لکھا ہے :
ولم يرتض به العلامة ظهير أحسن رحمه الله تعالى و ذهب إلى أن تلك الزيادة معلولة
( حاشية فيض الباري ص 267 ج 2 )
لہذا جب اس زیادت کا انکار اور اس کے ضعیف اور معلول ہونے کا اعتراف و اظہار یہ حنفی اکابر بھی کرچکے ہیں تو اب آپ ہی بتلائیں کہ مصنف ابن ابی شیبۃ کے اس نسخہ میں جو اضافہ دیوبندی ناشر نے کیا ہے اس کا فائدہ سوائے بدنامی اور رسوائی کے اور کیا ہے ؟
حنفی اکابرین کی ان تصریحات کے علاوہ بھی اگر کوئی انصاف پسند اس روایت پر غور فرمائے تو وہ بھی یقینا ان کی تائید کرے گا ۔ کیونکہ امام ابن ابی شیبہ نے یہ روایت حسب ذیل سند سے ذکر کی ہے ۔
حدثنا وكيع عن موسى بن عمير عن علقمة بن وائل بن حجر عن أبية ... الخ
یہی روایت امام احمد بن حنبل نے امام وکیع سے براہ راست اسی سند کے ساتھ اپنی مسند ( ص 12 ج 4 ) مین نقل کی ہے مگر اس میں '' تحت السرۃ '' کے الفاظ نہیں ہیں ۔ اسی طرح یہی روایت امام دارقطنی نے السنن ( ص 286 ج 1 ) میں امام وکیع سے ان کے شاگرد یوسف بن موسی کے واسطہ سے ذکر کی ہے مگر اس میں بھی یہ اضافہ نہیں ۔اس کے علاوہ امام نسائی نے السنن الصغری ( ص 105 ج 1 )میں یہی روایت امام عبد اللہ بن مبارک کی سند سے ذکر کی ہے اور وہ اسے موسی سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں بھی یہ اضافہ نہیں ( نسائی ، رقم الحدیث 888)
انہی حقائق کی بنا پر ہی تو علامہ نیموی نے اس اضافے کو ضعیف اور معلول قرار دیا ہے ۔ مگر کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ان حنفی بزرگوں کی صراحت کے باوجود حنفیت کے یہ موجودہ بہی خواہ بلا ثبوت اور بلا حوالہ اس بے فائدہ زیادت کا اضافہ کرنے میں کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کرتے ۔ ان کے اس کردار کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ۔ اہل علم عموما اور خصوصا اہل حدیث علماء کی خدمت میں گذارش ہے کہ وہ اس کے متعلق مؤثر چارہ جوئی کریں اور مل کر اس بشارت کے مستحق بنیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے حق پرست علماء کو یوں دی ہے :د
يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين و تأويل الجاهلين
'' کہ اس علم کو آنے والے زمانے میں صاحب دیانت اٹھاتے رہیں گے جو اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریف ، جھوٹے دعوے کرنے والوں کے جھوٹ اور جاہلوں کی تاویل کو مٹاتے رہیں گے ۔
اللہ تعالی ہمیں حق کا پاسباں بنائے اور کتاب و سنت سے سچی محبت اور پکی تابعداری کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمیں
خود بدلتے نہیں '' سنت '' کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
الاعتصام
20 ، فروری ، 1987ء