ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 649
- ری ایکشن اسکور
- 197
- پوائنٹ
- 77
حدیث کے دشمن منیر شاکر کی جہالت کا پردہ فاش!
از قلم : مفتی اعظم حفظہ اللہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
منیر شاکر کہتا تھا اور اپنے عقیدت مندوں سے حلف لینے کے انداز میں کہلواتا تھا کہ بخاری ہماری کتاب نہیں ہے مسلم ہماری کتاب نہیں ہے ترمذی ابن ماجہ نسائی ہماری کتب نہیں ہیں!
پہلی بات
بخاری اور مسلم کی صحت پر تمام امت کا اتفاق ہے، وہ امت جس میں لاکھوں افراد منیر شاکر سے ہزار دس ہزار لاکھ گناہ زیادہ قرآن و حدیث کا علم رکھتے تھے رکھتے ہیں اس امت کے کروڑوں لوگ بشمول علماء، فقہاء، محدثین اور مفسرین ان کتب کی صحت پر متفق ہیں ایسے علماء مفسرین، محدثین و فقہاء جو قرآن کو منیر شاکر سے زیادہ جانتے تھے حدیث کو اس سے زیادہ جانتے تھے فقہ کو اس سے زیادہ جانتے تھے عربی کے ماہر تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے قریب ترین تھے ان کے درس میں بغداد، حجاز، شام کے ہزاروں علماء فقہاء محدثین شریک ہوتے تھے انہوں نے ان احادیث کی کتب کا انکار نہیں کیا ان کو صحیح قرار دیا تو پھر اس اوسط درجہ کے عام سے دیوبندی مدارس سے پڑھے عجمی پر کونسی وحی آئی جو اس کا انکار کر دیا اور اس پر منکشف ہوا کہ یہ قرآن کے مخالف ہیں؟
اگر آپ کو ان کتب کی ایک، دو، تین، دس یا چلو پچاس روایات پر اعتراض ہو آپ کو اس کی سند میں متن میں کہیں گڑ بڑ معلوم ہوتی ہو آپ اس پر جرح کریں تخریج کریں نشاندہی کریں علمی دلائل سے اس روایت کو نہ ماننے کی وجوہات بیان کریں پھر لوگ اس کو قبول کریں یا مسترد کریں وہ الگ مسئلہ ہے لکن ایک ایسی کتاب کو مکمل مسترد کرنا جس پر آج تک تمام امت متفق ہے انتہا درجے کی فتنہ انگیزی ہے اور صرف مسترد نہیں کرنا اس کے مصنف کو مجوسی ایرانی سازشی قرار دینا تو خباثت کی انتہاء ہے۔
آج تک اس امت کے لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ دونوں کتب صحت کے لحاظ سے بلکل درست ہیں اور مسلمانوں کے اتفاق اور اجماع کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
"اور جو کوئی ھدایت واضح ہونے کے باوجود رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کی راہ کے علاوہ کسی راہ پر چلے ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھیر چکا اور اس کو جھنم میں داخل کریں گے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔"
دوسری بات
جو بہت ضروری طور پر سمجھنے کی ہے کہ بخاری اور مسلم کا دفاع یا اس کو صحیح ماننے کا ان کتب کو جمع کرنے والوں کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی شخصیت پر تو بات تب آتی اگر یہ دونوں ان کتب میں اپنی رائے سے مسائل بتاتے لیکن ان دونوں کا تو اس میں دخل ہی نہیں جو ان کی کتب میں ہیں وہ تو نقل کرتے ہیں کہ میں نے سنا فلاں سے اس نے فلاں سے اس نے فلاں سے اور اس نے رسول اللہ سے کہ ۔۔۔۔۔
اب اگر آپ کہتے ہو کہ نہیں بخاری یا مسلم جھوٹ بول رہے انہوں نے یہ نہیں سنا تو یہ بات اس وقت مانی جاسکتی ہے جب یہ دونوں ایسی شخصیات سے نقل کریں جو کسی کو معلوم نہ ہو جیسے زکریا اپنی کتاب فضائل اعمال میں کہتا ہے کہ "ایک بزرگ سے روایت ہے" اب اس میں اگر آپ کہو کہ زکریا جھوٹ بول رہا تو یہ بات مانی جاسکتی ہے اور اس کا امکان زیادہ ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس نے یہ واقعہ خود سے گھڑ کر پھیلایا ہو بزرگ کی طرف منسوب کر کے!
لیکن بخاری و مسلم کے معاملے میں یہ بات اس لئے ممکن نہیں کہ وہ جن سے نقل کرتے ہیں وہ مجہول لوگ نہیں ہیں جن کو کوئی جانتا نہیں وہ سب معروف ہیں ان کو ان دونوں کے سوا دیگر تمام محدثین بھی جانتے ہیں وہ جن شہروں میں رہتے جہاں پڑھتے رہے جن کے استاد رہے جن کے شاگرد رہے سب معلوم ہے یہ بھی کہ وہ عبادت میں کیسے تھے کیا وہ کھبی جھوٹ تو نہیں بولتے تھے کیا وہ کھبی بات بھول تو نہیں جاتے تھے کیا وہ کھبی خود سے باتیں تو نہیں بناتے تھے یہ تمام باتیں بھی بخاری و مسلم کے علاوہ تمام محدثین اور ایک زمانے کو معلوم ہیں پھر ان کا جھوٹ بولنے کا امکان ہی ختم ہوگیا۔
آپ کو بخاری و مسلم پر اعتراض ہے ان کی شخصیت پسند نہیں تو ٹھیک ہے یہ جن سے نقل کرتے ہیں ان سے دوسرے محدثین بھی نقل کرتے ہیں آپ دوسرے محدثین کو مان لو یا اگر آپ کو ان تمام لوگوں پر شک ہے جو رسول اللہ سے نقل کر رہے ہیں تو پھر تو قرآن بھی ان ہی افراد سے ہم تک پہنچا ہے پھر تو آپ نے اس پر بھی شک کا اظہار کر دیا!
اس لئے یہ بات یاد رکھو کہ بخاری و مسلم کا دفاع ان کو جمع کرنے والی شخصیات کا نہیں بلکہ ان کتب میں موجود احادیث کا دفاع ہوتا ہے جس کی سند صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بلکل صحیح پہنچتی ہے اس کا انکار بخاری و مسلم کا انکار نہیں ہوتا بلکہ قول رسول کو قبول کرنے سے انکار سمجھا جاتا ہے۔
بخاری و مسلم کی ذات پر آپ کو لاکھ اعتراض ہوں ان کی کتب پر آپ بلا دلیل اعتراض نہیں کر سکتے، دونوں الگ الگ معاملات ہیں اور دونوں الگ چیزیں ہیں، بخاری کی دیگر کتب بھی ہیں جس میں اس نے اپنی رائے پیش کی ہے آپ اس کو بلکل نہ مانیں کوئی آپ کو کچھ نہیں کہتا، بخاری تو امام ابو حنیفہ کو مرجئہ کہتا ہے اس سے حدیث قبول نہیں کرتا، احناف بخاری کی اس بات کو نہیں مانتے بلکہ صرف نہ ماننا تو کیا بخاری پر اس وجہ سے تنقید بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود احناف صحیج بخاری کا انکار نہیں کرتے اور اس کو حدیث کی مستند کتاب مان کر پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بخاری کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے نقل کرنا اور چیز ہے اور اس کی شخصیت کی تعریف و تنقید الگ چیز ہے، یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔
تیسری بات
منیر شاکر کہتا ہے کہ بخاری ایرانی تھا!
ایک تو بلکل غلط بیانی ہے کیونکہ بخاری ایرانی نہیں بلکہ ازبک تھا اور ازبک و ایرانیوں کی نسل نوح علیہ السلام پر ہی جا کر ملتی ہے یعنی دونوں بلکل الگ اقوام ہیں لکن اگر بالفرض بخاری ایرانی ہے بھی اور دیگر تمام محدثین بھی ایرانی ہیں تو کیا ہوا ؟ کیا ایرانیوں کا اسلام قبول نہیں کیا جائے گا؟ کیا ایرانی ہونا جرم ہے؟ کیا ایرانی ہونا اللہ کے ہاں گناہ ہے؟ کیا تمام ایرانی جھنمی ہیں؟ کیا ایرانیوں پر اسلام کے دروازے بند ہیں؟ کیا ایرانیوں پر اللہ تعالی نے ہدایت بند کر دی ہے؟
عجیب جہالت ہے کہ لوگوں کو ایرانی النسل ہونے پر گمراہ اور مجوسی ٹھراو، پھر تو خود منیر شاکر کونسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد بھائی ہے؟
بخاری ایرانی ہے تو یہ خود حمزہ یا عباس یا ابی طالب کا بیٹا ہے؟
یہ مکہ کا ہاشمی ہے ؟
ایرانی تو مکہ و مدینہ کے زیادہ قریب رہتے ہیں یہ تو خود خراسان و ہند کی سرحد کا پٹھان (افغان) ہے پھر خود کس منہ سے کس حیثیت سے درس دیتا تھا ؟
اگر ایرانی ہونے کی وجہ سے بخاری کی کتاب معتبر نہیں تو افغانی ہونے کی وجہ سے تمھارا درس کیسے معتبر تھا ؟
اور اس کو یہ بھی نہیں علم تھا کہ ایران تو خود سولہویں صدی میں جاکر رافضیت کے شکنجے میں آیا ہے اس سے قبل تو یہ اسلامی خلافت کا قابل فخر صوبہ ہوتا تھا یہاں خلیفہ کا گورنر ہوتا تھا اور اس کے زیر سایہ اسلامی حکومت میں علم کے ہزاروں مراکز میں لاکھوں مسلمان درس و تدریس کرتے تھے بلکہ دیگر اسلامی صوبوں سے لوگ دینی تعلیم کےلئے یہاں کا رخ کرتے تھے کیا ان سب کو بھی کافر قرار دے دیا جائے؟ کہ جاو تم ایرانی ہو؟
اور اگر ایسا ہے تو ابو حنیفہ تو کابلی ہیں پھر حدیث کی طرح فقہ کا بھی انکار کر دو بلکہ پھر تو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پھر بھی فتوی ٹھوک دو وہ تو پکے ٹکے ایرانی تھے اور اس ایرانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کا حصہ قرار دے رکھا تھا۔
چوتھی بات
چلو ہم بخاری کو نہیں مانتے مسلم کو بھی نہیں مانتے ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ کو بھی نہیں مانتے طبری کو بھی نہیں مانتے پھر ہم منیر شاکر کو کیوں مانیں؟ جیسے ان کو ماننا لازم نہیں تو تمھیں ماننا کیوں لازم ہے؟ بخاری شیعوں کا ایجنٹ تھا تو میں الزام لگا دوں گا کہ منیر شاکر یہودیوں کا ایجنٹ تھا پھر تو حساب برابر ہوا نہ تیرے پاس ثبوت نہ میرے پاس ثبوت!
یہ کیا بات ہوئی کہ مجھے مانو کسی اور کو نہ مانو، اگر وہ غلط ہوسکتے تو تم کیوں نہیں ہوسکتے ؟ یہ تو خودپرستی اور جہالت کی انتہاء ہے کہ ساری دنیا کو نہ مانو لیکن مجھے مانو!
پانچویں بات
بخاری مسلم اور صحاح ستہ کے جمع کرنے والے سب ایرانی ہیں اس لئے منیر شاکر ان کا منکر ہے تو امام احمد بن حنبل تو ایرانی نہیں ہے وہ تو عرب شیبانی ہے امام شافعی تو قریشی ہیں آپ ان کو مانتے ہو؟ انہوں نے بھی وہی احادیث نقل کی ہیں جو صحاح ستہ میں ہیں پھر آپ کیوں نہیں مانتے ؟؟؟ ایرانیوں کی نہ مانو عربوں کی حدیث مان لو۔
چھٹی بات
منیر شاکر کا یہ کہنا کہ میں صرف ان حدیث کا منکر ہوں جو قرآن کے خلاف ہیں ایک مشہور تلبیس ہے جس کی آڑ میں ہمیشہ منکرین حدیث چھپنے کی کوشش کرتے ہیں
ٹھیک ہے ہم بھی ان احادیث کو نہیں منتے جو قرآن کے خلاف ہیں لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کونسی حدیث قرآن کے خلاف ہے کونسی نہیں؟ منیر شاکر کرے گا یا کوئی اور شاکر کرے گا؟
مثال کے طور پر نماز کی حدیث ہے کہ نماز اس ٹائم اتنی اتنی رکعات پڑھو اب کوئی اٹھ کر کہتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن میں رکعات اور طریقہ کار کا تعین نہیں ہے اور اگر یہ مقصود ہوتا تو اللہ تعالی نے قرآن میں کیوں نہیں بتایا؟ اب کیا اس کی بات مانی جائے گی یا نہیں؟ اسی طرح ہر حدیث کو ایک قرآن کے موافق قرار دے گا اور دوسرا مخالف اور یہ ایک جنگ و جدل کا میدان بن جائے گا۔
آخری بات
اگر منیر شاکر کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ امت ۱۴۰۰ سال سے جتنے مسائل پر عمل کرتی آئی ہے وہ سب غلط تھے اور امت آج تک قرآن کو چھوڑ کر ایرانی کتابوں کی پیروکار رہی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے ایرانیوں کا اتباع کرتی رہی پھر تو ساری امت کا ہی صفایا ہوگیا سب کافر ہوگئے آج تک سب جھنمی ہوئے اور صحابہ کے بعد مفتی منیر شاکر پہلا مسلمان ہے بلکہ صحابہ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات پر عمل پیرا تھے وہ بھی فارغ ہوگئے اس وقت دنیا بھر میں منیر شاکر کے ماننے والوں کے علاوہ جتنے مسلمان ہیں ان سب کا بھی صفایا ہوگیا ۔۔۔۔ جی ہاں اگر منیر شاکر کے فلسفے کو تسلیم کیا جائے تو لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے۔
اب بتاو اگر یہ فتنہ نہیں ہے تو کیا فتنے کے سینگ ہوتے ہیں؟