• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حد ہو گئی !

شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
پیش لفظ
’’ حد ہو گئی ! ‘‘ ، کی ضرورت میں نے اس وجہ سے محسوس کی کہ : ’’ جب میں اٹھارہ سال کا ہوا تو ختم نہ ہونے والی زندگی کے متعلق غور و فکر کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کی قدر میرے دل و دماغ میں بٹھا دی ۔ اس کی اہمیت و فضیلت کے بعد ، میں نے سوچ و بچار کیا کہ اس لازوال حیات میں کامیابی کس طرح پائی جا سکتی ہے ؟ بدقسمتی سے ! لوگ گرو ہوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ میں نے حق و سچائی کی جستجو میں تعصب سے بالا تر ہو کر ، کتاب و سنت کو کسوٹی بنا کر تحقیق کی اور حق قبول کیا ۔ ‘‘
میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ : ’’ آپ تک بھی پیغام حق پہنچاوں ، تاکہ آپ بھی اسے تسلیم کر کے دنیا و آخرت میں فلاح یاب ہو سکیں ‘‘ ۔ میں وہی سندیسا ( Message ) ، آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں جس کی نصیحت رسول اﷲ ﷺ نے کی تھی کہ : ’’ میں تمہارے لئے دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم ان کے بعد گمراہ نہ ہو سکو گے ، ایک تو اﷲ کی کتاب ہے اور دوسری میری سنت ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : ۳۲۲ ) ۔
اتحاد المسلمین ، صرف قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے سے ہی ممکن ہے۔ بصورت دیگر تمام فرقے ایک ، دوسرے کے خلاف مناظرے ، مار کٹائی اور لعن طعن کی تلواریں چلاتے رہیں گے ۔
’’ حد ہو گئی ! ‘‘ ، ایک ناول ہے ۔ جس میں ، میں نے قران و حدیث کی سر سبز و شاداب وادی سے توحید و سنت کے پھولوں کا گلدستہ تیار کر کے پیش کیا ہے ۔ امید ہے کہ : ’’ آپ کے دل میں اس گلدستے کو دیکھ کر کتاب و سنت کی وادی کی سیاحت کا شوق پیدا ہو گا ۔ ‘‘
(جاری ہے )
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
عبدالرحمن

پکڑو ، پکڑو ! آپ اُسے روکو ، میں اِسے سنبھا لتا ہوں ! یار چھوڑ دو! کیوں لڑ رہے ہو ؟ بھائی اُس سے اینٹ چھین لو ! کہیں اِسے مار نہ دے۔برادر! آپ بھی پتھرپھینک دیں ، آپ نے کوئی زمین بانٹنی ہے ؟ لوگوں کے روکنے پر بھی دونوں ایک ، دوسرے کی طرف پلٹ پلٹ کر آ رہے تھے ، گالیوں کی بارش برسا اور طعنوں کے تیر چلا رہے تھے ۔ایک کا گریبان ( Collar ) جدا اور دوسرے کا قمیض فاش تھا ۔ لوگوں کا ہجوم ہر لمحے زیادہ ہو رہا تھا،سب مزے سے دیکھ رہے تھے اور ان کی غلط بیانی سُن کر خوش ہو رہے تھے ۔ میں نے بھی دوکان کا دروازہ بند کیا اور لڑائی ختم کروانے میں مشغول ہو گیا ۔ اتنے میں بائیک پر ایک اﷲ کا نیک بندہ آیا اُس نے موٹر سائیکل کھڑی کی اورعوام الناس ( Public)کو پیچھے ہٹا کر دونوں سے مخاطب ہوا :
’’ کیوں لڑ رہے ہو، یہ کوئی انسانیت ہے ؟ جھگڑا کرنا تو شیطانی کام ہے ! ‘‘
لڑنے والوں میں سے ایک آدمی ، دوسرے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا :
’’ یہ بے وقوف میرا دماغ چاٹتا رہتا ہے ، اس خناس نے میرا میٹر سپارک کردیا ہے ، اس بے حیا نے میرا مائنڈ ( Mind) بگاڑ دیا ہے ! یہ بڑا دین کا ٹھکیدار بنا ہوا ہے ، اِ س نے تو مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ ‘‘
دانشمند آدمی نے پوچھا :
’’ آپ کو کیا کہتا اور کیسے پریشان کرتا ہے؟ ‘‘
آدمی بولا ، یہ کہتا ہے :
’’ شرک سے بچو ، تقلید کو چھوڑ کر اتباع مصطفی ﷺ بجا لاؤ ، بدعات سے خبردار رہو ، اﷲ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر نذرونیاز نہ دو ، سنت کے مطابق نماز پڑھو ، دین کو مذاق نہ بناؤ ،الر حمٰن کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا ، نبی پاک ﷺ بشر ہیں حاضر و ناظر اور مختار کل نہیں ، اﷲ کے سوا کوئی کچھ نہیں دے سکتا ( کوئی مشکل کشا ،داتا،غوث و دستگیر، گنج بخش ، رزق دینے والا ،مصیبت دور کرنے والا، عزت یا ذلت دینے والا ، موت یا زندگی دینے والا، حاجت روا ، غریب نوازنہیں ) ۔گاڑی کے ساتھ جوتی نہ لٹکاؤ ، مکان پر ہنڈیا ( Pot) نہ رکھو اور انگلیوں میں پتھر نہ پہنوں یہ چیزیں نفع و نقصان نہیں کر سکتیں ۔ہاتھوں کی لکیروں پر اعتماد نہ کرو۔ قبروں کو پختہ ا ور سجدہ نہ کرو ، مزاروں پر چراغاں نہ کرو ، عرس و میلے نہ لگاؤ، قبروں پر مجاور بن کر نہ بیٹھو، اپنی عورتوں کو عرسوں پر نہ لے کے جاؤ ، شرکیہ قوالیوں کی بجائے تلاوتِ قرآن سنو ۔پیروں اور اولیاء کی تصاویر ہندوؤں کی طرح نہ لٹکاؤ ۔ گیارویں ، بارویں ، ختم ،جشن عید میلاد،شب برات،قبروں پر چادریں چڑھانا، قل، تیجہ، دسواں اور چالیسواں شریف ، سب بدعات ہیں ، اور مولویوں نے کھانے کابہانہ بنایا ہوا ہے۔ حتی کہ یہ کہتا ہے ، ہندو ( دیوی اور دیوتاؤں )، عیسائی (حضرت عیسی ؑ ) اور غیر مسلم جو معاملہ اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے ہیں ، وہ انبیاء ، اولیاء ، ائمہ ، شہداء اور ملائکہ کے ساتھ نہ کرو۔ اور مجھے کہتا ہے کہ تم ایک دفعہ قرآن پاک اور احادیث کا ترجمہ پڑھ لوتمہیں اصلیت کا علم ہو جائے گا ۔ میں تیرا ہمدرد ہوں ، میں برداشت نہیں کرتا کہ تم آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤ ۔ یہ مجھے بے وقوف اور پاگل سمجھتا ہے ۔ ‘‘
بائیک والا بھائی بولا :
’’ آپ کا نام کیا ہے ؟ ‘‘
’’ پیر بخش ، اس نے جواب دیا ۔ ‘‘
موٹر سائیکل والا :
’’ میرا نام عبدالرحمٰن ہے اور (جو دوسرا لڑ رہا تھا اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) آپ کا کیا نام ہے ۔ ‘‘
وہ بولا :
’’ ابوبکر ‘‘
عبدالرحمٰن :
آپ (یعنی پیر بخش )کو کس نے کہا کہ : ’’ ابوبکر ، جو باتیں کرتا ہے وہ غلط ہیں اور تمہیں احمق بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ‘‘
پیر بخش :
پہلے میں اِس کی باتوں میں آگیا تھا اور سوچا کہ یہ مجھے وہی دعوت دیتا ہے جس کی طرف انبیاء ؑ بلاتے تھے کہ: ’’ اﷲ کے علاوہ کوئی داتا نہیں ،کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نبی پاک ﷺ کے سوا کوئی پیروی کے قابل نہیں ، کسی امام کے قول کو سید المرسلین ﷺ کی بات پرفوقیت ( Priority) نہ دو ‘‘ ۔ میں نے پھر اپنے مولوی سے پوچھا ، ایک بندہ مجھے کہتا ہے کہ: ’’ کتاب و سنت پر عمل کرو‘‘ ، تو اُنہوں نے کہا: ’’ وہ گستاخ اور بے آدب ہے ،شیطان اور خبیث ہے ،جاہل اور مھلک ہے ، نقصان رساں اور ناکارہ ہے ۔ وہ اولیاء اور ائمہ کو نہیں مانتا ، وہ گمراہ اور جھوٹا ہے اُس سے دور رہو، ورنہ تمہیں بھی بری شاہراہ پر لے جائے گا ۔ قرآن و حدیث کا فہم نا ممکن ہے اس سے الگ رہنا ، تقلید واجب ہے لہذا اسے برقرار رکھنا ‘‘ ۔
عبدالرحمٰن ، پیر بخش کی بات مکمل ہونے پر بولا :
’’ حد ہوگئی ! ‘‘ ، اگر آپ کو مولوی کہے کہ دو جمع دو ، پانچ ہوتے ہیں اور ریاضی دان ( Mathematician ) کہے کہ دو جمع دو ، چار ہوتے ہیں تو آپ کیا کریں گئے ؟ یا کوئی آدمی کہے کہ آپ کی جیب میں بچھو داخل ہوا ہے اور دوسرا کہے ، کوئی بچھو داخل نہیں ہوا، تو آپ کیا کریں گے ؟ ‘‘۔
’’ میں تحقیق کروں گا ، کون سچا ہے ! پیر بخش ولولے ( Zeal) اور بلند آواز سے بولا ۔ ‘‘
’’ آپ کیسے تحقیق کریں گے ؟ عبدالرحمٰن نے پوچھا ۔ ‘‘
پیر بخش ، بڑی سنجیدگی سے :
’’ یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے ! میں دو جمع دو ، والے مسئلے کے متعلق کتابیں پڑھوں گااور مختلف ریاضی دانوں سے بات چیت کروں گا ۔ بچھو والی بات پر احتیاط کے ساتھ قمیض اتار لوں گا اور اچھے طریقے سے دیکھوں گا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
آ پ کو یہ ( ابوبکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )کہتا ہے: ’’ کتاب و سنت کے مطابق عمل کرو ، شرک و بدعات سے بچو اور سب رسموں کو چھوڑ دو ‘‘ ۔ مولوی کہتا ہے کہ: ’’ وہ(ابوبکر ) جھوٹا ہے‘‘ ۔ کیا آپ نے قرآن وحدیث پڑھ کر دیکھا اور سوچا کہ کون سچا ہے ؟
پیر بخش، افسوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ نہیں ! ‘‘
’’ دور سے دیکھنے والے بھی تیزی سے ہماری طرف آ رہے تھے ، لوگوں کی تعداد زیادہ ہو رہی تھی ، تمام لوگ خاموشی سے باتوں کو سماعت فرمارہے تھے اور ایک دوسرے کی طرف تجسس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ ‘‘ عبدالرحمٰن بولا :
بھائیوں ! میری بات غور سے سنو ، ہم لوگ اگر کپڑا خریدنے جائیں تو دس دوکانوں سے دیکھ کر جو اچھا ہو لیتے ہیں ۔ موبائل گارنٹی والا ڈھونڈتے ہیں ، بلکہ دنیا کی ہر چیز اچھی لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دین کے معاملے میں کہتے ہیں ، سارے ہی ٹھیک ہیں ۔ دنیا کی دولت کے لئے موٹی موٹی کتابیں پڑھتے ہو ، جنت کی بہاروں کے لیے قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کر سکتے ؟یہی وجہ ہے مولوی حضرات آپ کو دھوکے میں رکھتے ہیں اور آپ تصور کرتے ہیں ہمارے علاوہ کوئی بھی حق پر نہیں ہے ۔اگر کوئی قرآن و حدیث کی بات کرے اُس سے لڑتے ، جھگڑتے ہو ۔اﷲ کے لئے کچھ سوچو مسلمانو ! تمہیں کتاب و سنت کی ہی دعوت دیتے ہیں ، گنگا اور جمنا کی طرف تو نہیں بلاتے ؟
مجھے بھی ابوبکر ، کی طرح ایک آدمی نے کہا تھا کہ قرآن و حدیث کا ترجمہ پڑھو ، میں نے اُسی وقت کتاب و سنت کو ایک دفعہ پڑھنے کا ارادہ کرلیا ۔ میں نے مختلف مسلکوں کے علماء سے ملاقات کی ، ہر کوئی اپنے فرقے کو ہی ٹھیک اور حق والا کہتا ہے ۔ آخر کار میں نے کتاب اﷲ اور حدیث مصطفی ﷺ کا مطالعہ کیا ، سچ میں بات درست تھی ۔ پھر میں اپنی مسجد کے امام کے پاس گیا اور کہا : ’’ مولوی صاحب آپ ہمیں غلط بتاتے ہیں ، قرآن و حدیث میں کچھ اور ہی لکھا ہے ؟ ‘‘ مولوی صاحب گھبرا گئے اور کہنے لگے : ’’ بھائی ! تمہیں معلوم ہو گیا ہے ، اب تم عمل کر لینا کسی اور کو نہیں بتانا ، اگر کسی اور کو علم ہو گیاتو مجھے مسجد سے نکال دیں گے‘‘ ۔ میں نے کہا : ’’ جھوٹے ! تم پر اﷲ کی لعنت ہو ، اُس کے بعد میں کتاب و سنت پر عمل کرنے لگ گیا ‘‘ ۔ پہلے میرا نام’’ عبدالنبی‘‘ ، تھا ۔ مجھے خبر ملی کہ مشرکین مکہ بھی ایسے ہی نام رکھتے تھے ، میں نے نام بدل کر ’’ عبدالرحمٰن‘‘ ، رکھ لیا ۔(پیر بخش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) آپ بھی کتاب و سنت کو ایک مرتبہ پڑھ لیں ، حق بات سامنے آ جائے گئی ۔
پیر بخش ، غمگین اور پریشان لگ رہا تھا ، حتٰی کہ بول پڑا :
’’ میں آج سے ہی نہیں بلکہ ابھی سے تحقیق شروع کردوں گا ۔ ‘‘
’’ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں ، ہم کیا کریں ؟لوگوں میں سے کچھ آدمی بولے ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن سے پہلے ہی پیر بخش بول پڑا :
’’ میں نے تحقیق شروع کردی ہے ! آپ ہی سب سے پہلے ہمیں کتاب و سنت کے مطابق کچھ نہ کچھ سمجھائیں ۔ ‘‘
(جاری ہے )
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
امت مسلمہ میں شرک

عبدالرحمٰن :
تمام حضرات قریب آ جائیں ، تھوڑا اور نزدیک ہو جائیں (لوگ قریب ہو گئے ) بس ! ٹھیک ہے اب توجہ فرمائیں ۔’’سب سے بڑا گناہ شرک ہے ۔مشرک کو اﷲ تعالیٰ نے معاف نہیں کرنا ، باقی جسے چاہیے گا بخش دے گا ۔ شرک امت مسلمہ میں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے ‘‘ ۔ ’’دیکھو لوگو ! یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ ا مت مسلمہ تو شرک کر ہی نہیں سکتی‘‘ ۔ ایک ضعیف آدمی ، عبدالرحمٰن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔ عبدالرحمٰن نے تھوڑی اونچی آواز کرتے ہوئے کہا :
’’ کون کہتا ہے مسلمان شرک کے مرتکب نہیں ہوسکتے ؟ ‘‘
بوڑھا شخص تھوڑا غصے میں بولا :
’’ میں پاگل ہو ں ؟ بچپن سے سُن رہا ہوں مسلمان جو مرضی کریں شرک سے بچے رہیں گے‘‘ ۔ میرے سفید بال نہانے سے نہیں ہوئے ؟ ۵۶ سال عمر گزاری ہے میں نے ۔ ہمارا عالم کہتا ہے : ’’ جو چاہو عمل میں لاؤ ! اولیاء کو سجدہ کرو ، قبروں پر نذرونیاز چڑھاؤ اور ماتھا ٹیکو ، پیروں کے پاؤں چومو، مزاروں کے درختوں کے پتے کھاؤ، درباروں پر مجاور بن کر بیٹھو ، گیارویں شریف دو ، غیر ا ﷲ سے مدد طلب کرو ، اولیاء کے بارے میں غلط نہ سوچو کیونکہ وہ دلوں کے حال تک جانتے ہیں ، پیر جو کہے وہ مانو، اگر مرشد قرآن کے خلاف بھی بات کرئے تو کتاب اﷲکو چھوڑ دو ۔ کیونکہ قرآن شریعت بتاتا ہے اور پیر عشق ، جہاں عشق آجائے وہاں شریعت کا زور بھی نہیں چلتا ۔ زکوۃ چاہے نہ دو گیارویں ضرور دو ، کیونکہ اگر یہ نہ دی تو پیر صاحب تمہیں نقصان پہچائیں گئے ۔ ہاں ! اﷲ کے غضب سے تو گیارویں والے پیر چھوڑوا لیں گئے لیکن پیر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ جہاں سے پکارو گے بزرگ تمہاری سنیں گئے اور مدد کریں گئے ۔حج بیت اﷲ کی بجائے پاکپتن ، اجمیر ، لاہور ، ملتان ، شرقپور ، گولڑہ ، قصور اور بغداد شریف جاؤ ، حج سے زیادہ ثواب ملے گا ۔ قوالیاں سنتے رہو ، بزرگوں سے ہی اولاد مانگو ، کیونکہ اﷲ ہماری سنتا نہیں اور اُن کی موڑتا نہیں ۔ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، رب جانے اور مرشد جانے ، بس ہر تنخوا اور ہر فصل میں سے پیر صاحب کو حصہ پہنچا دو۔ حتی کہ جو مر ضی کرو شرک نہیں ہو گا ‘‘ ۔ لوگو ! مجھے بتاؤ کہ : ’’ جو نماز پڑھے ، روزے رکھے ، زکوۃ دے ، حج کرے اور سارے نیک اعمال کرے وہ کیسے مشرک ہوسکتا ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن ’’ انا اﷲ وانا الیہ رجعون ‘‘ ، پڑھتے ہوئے :
بابا جی ! یہ بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے کہ : ’’ مسلمانوں میں شرک نہیں ہوگا ‘‘ ۔ قرآن و حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ : ’’ امت مسلمہ شرک کرے گی ‘‘ ۔ سب بھائی توجہ فرماؤ :
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وما ےؤمن اکثرھم باللّہ الّا وھم مّشرکون : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اﷲ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ‘‘ ، (یوسف : ۶۰۱ ) ۔
نبی پاک ﷺ سے کثیر التعداد احادیث مروی ہیں جن سے واضح ہے کہ : ’’ مسلمان بھی پہلی قوموں کی طرح شرک کریں گئے ‘‘ ۔ جیسا کہ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے اور قیامت کے قریب تقریباََ تیس جھوٹے اور دجال ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میری امت میں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے گا ‘‘ ، (ابن ماجہ :۲۵۹۳ ) ۔سیدنا ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ )آیا ۔ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہوتو وہ جنت میں جائے گا ‘‘ ، (بخاری : ۷۳۲۱ ) ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے ، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ’’ان شاء اﷲ‘‘ ، میری امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ‘‘ ، (مسلم:۱۹۴) ۔
سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔۔۔اے ابن آدم ! اگر تو روئے زمین کے برابر بھی گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ تو میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں روئے زمین کے برابر ہی تجھے مغفرت عطا کر دوں گا‘‘ ، (ترمذی : ۰۱۳۳) ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اسلام لائے پھر شرک کرے اسلام کے بعد اﷲ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ شرک کرنے والوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں شامل ہوجائے ‘‘ ، (ابنِ ماجہ :۶۳۵۲ ) ۔ اور سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے ، جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں (ظلم ) کی آمیزش نہیں کی ، تو آپ ﷺ کے اصحاب نے کہا یا رسول اﷲ ! ﷺ یہ تو بہت ہی مشکل ہے ۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ (ظلم ) نہیں کیا ۔ تب ا ﷲ پاک نے سورۃ لقمان کی یہ آیت اتاری ’’ ان الشرک لظلم عظیم ‘‘ ، کہ بیشک شرک بڑا ظلم ہے ‘‘ ، (بخاری :۲۳) ۔
موسم بھی حیرت انگیز نظارہ پیش کر رہا تھا ۔ جاڑے (Winter ) میں دھوپ کی کرنیں تحفے سے کم نہ تھیں ۔ سورج کی حرارت سے دھند (Fog) کا زوال بھی ہم سے کھیل رہا تھا ۔ آفتاب کا جوش جکڑے ہوئے جسم کے لہو کو اپنی موٹر وے پر گشت کرنے میں آرام مہیا کر رہا تھا ۔ تپتا ہوا سماں ، گرمیوں میں شام ( Evening) کو سمندر کے کنارے بیٹھنے کے مترادف تھا ۔ عبدالرحمن بھی کتاب و سنت کی چاشنی سے دل و روح کے ٹمپریچر ( Temperature ) کو بڑھا رہا تھا :
سلف صالحین کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ : ’’ مسلمان مشرک ہو سکتے ہیں ‘‘ ۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ جو لوگ انبیا ؑ اور نیک لوگوں کی قبور کی زیارت کرنے آتے ہیں اور انہیں پکارنے اور ان سے سوال کرنے کی غرض سے آتے ہیں یا اس لیے آتے ہیں کہ ان کی عبادت کریں اور انہیں اﷲ کے علاوہ پکاریں تو ایسے لوگ مشرک ہیں ‘‘ ، (الرد علی الاخنائی :۲۵ ) ، (کلمہ گو مشرک ، ص : ۲۹ )۔ امام مالک ؒ کے دور میں بھی مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہوچکے تھے ، اس وقت کے قدریہ ، جو تقدیر کے منکر تھے جب ان کے ساتھ شادی کے بارے میں امام مالک ؒ سے پوچھا گیا تو انہوں نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی : ’’ ایمان والا غلام ، آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو مشرک تمہیں اچھا لگے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۲۲) ، (کلمہ گو مشرک ، ص : ۱۹ )۔
قرآن و حدیث اور محدثین کے اقوال سے نمایاں ( Clear) ہے کہ : ’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں ‘‘ ۔ میرے ذہن میں مولانا الطاف حسین حالی ؒ کے وہ اشعار ہتھوڑے کی طرح ٹکرا رہے ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں :
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دُعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اِسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں وہ بدلہ گیا آکے ہندوستان میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
فرق جامی بھی فرماتے ہیں :
سر بتوں کے سامنے غیروں کا جھکنا کافری
اور مسلمانوں کے سجدے سجدھائے احترام
دین کی تعلیم جنس خا م ہو کر رہ گئی
حق پرستی کفر کا پیغام ہو کر رہ گئی
برادران ! اتنی باتوں کا مقصد یہ ہے کہ :’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں ‘‘ ۔ جس کے زیادہ ہونے کی خاص وجہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا علم حاصل نہیں کرتے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے امت کو نصیحت کی تھی کہ : ’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوسکو گے ، ایک کتاب اﷲ (قرآن ) اور دوسری میری سنت (حدیث ) ‘‘ ۔ ہم نے قرآن و حدیث پر نہ تو عمل کیا بلکہ اس پر غورو فکر کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ ہم تحقیق کرتے نہیں لیکن لڑائی جگڑے ، مناظرے ، گالی گلوچ ،مار کٹائی ، لعن طعن اور مار دھاڑ کی تلواریں چلاتے رہتے ہیں ۔ اگر ہم قرآن و حدیث کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں تو مولوی حضرات ہمیں غلط بات نہیں سمجھا سکتے ۔ ہمارا تو حال ایسا ہے کہ اگر کوئی شرکیہ بات کرے ، اسے ٹوکنے کی بجائے اونچی آواز میں ’’ سبحان اﷲ‘‘ ، کہہ دیتے ہیں ۔دن بہ دن توحید و سنت سے دوراور شرک و بدعت سے تعلق جوڑ رہے ہیں ۔
کیا یہی رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات تھی ؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا اور میں تمھیں ایک ایسی دعا بتاتا ہوں کہ اگر تم اسے پڑھتے رہے تو اﷲ تعالیٰ تم سے چھوٹے بڑے شرک کو دور کردے گا ۔ تم یہ دعا پڑھنا : اللّھمّ انّی أعوذبؤ أن أشرأ بأ وأنا أعلم ، وأستغفرأ لما لا أعلم ‘‘ ، (صحیح الجامع للالبانی : ۱۳۷۳ ) (زاد الخطیب ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۱۵ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ :’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا‘‘ ، مسلمان سمجھتے ہیں امت مسلمہ جو چاہیے کرے شرک کی مرتکب ہی نہیں ہو سکتی ۔ ہم لوگ جو زنا کرے اسے بدکار ، جو چوری کرے اسے چور ، جو جھگڑا کرے اور لڑاکا اور جو ہلاک کرے اسے قاتل کہتے ہیں ؟ جب کوئی شرک کرے تو کہتے ہو نیک اعمال کرنے والا یا مسلمان مشرک نہیں ہو سکتا ۔ عبدالرحمٰن کی بائیں طرف کھڑا ہوا ایک لڑکا بولا :
ہمیں اس بات کا علم تو ہوگیا ہے کہ : ’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں ۔ لیکن شرک ہے کیا ؟ ‘‘
(جاری ہے )
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
ذات میں شرک

’’ شرک کی دو قسمیں ہیں ۔ شرک اکبر اور شرک اصغر ، پھر ہر ایک کی کئی اقسام ہیں ‘‘ ۔ پہلے میں شرک اکبر کی تفصیل بیان کروں گا (ان شاء اﷲ ) عبدالرحمن نے ہلکا سا جوشیلے ( Enthusiast ) انداز میں کہا ۔
اﷲ پاک اپنی ذات ، صفات اور عبادات میں یکتا اور بے مثل (Unique ) ہے ۔ اس کی ذات ، صفات اور عبادات میں کسی کو حصہ دار یا ہمسر سمجھنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ شرک اکبر کی تین بڑی اقسام ہیں : ’’ ذات میں شرک ، صفات میں شرک اور عبادات میں شرک ۔ ‘‘
’’ مخلوقات میں سے کسی کو اﷲ کا بیٹا ، بیٹی یا خدا میں سے قرار دینا ، ذات میں شرک کہلاتا ہے ‘‘ ۔مثلاََ: ’’عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ اور یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ کو اﷲ کا بیٹا کہااور مشرکین مکہ نے فرشتوں کو اﷲ کی بیٹیاں قرار دیا‘‘ ۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ یہود کہتے ہیں عزیر اﷲ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اﷲ کا بیٹا ہے ‘‘ ، (التوبہ : ۳۰ ) ۔ اﷲ پاک نے فرمایا : ’’ کہہ دیجئے ساری تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۱۱۱) ۔ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مشرکین کے متعلق اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ ان سے دریافت کیجئے ! کہ کیا تمہارے رب کے لئے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لئے بیٹے ؟ کیا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ۔ آگاہ رہو ! کہ یہ لوگ صرف اپنی افترا پردازی سے کہہ رہے ہیں ۔ کہ اﷲ تعالیٰ کی اولاد ہے ۔ یقیناًیہ محض جھوٹے ہیں ۔ کیا اﷲ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو ؟ کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے ؟ یا تمہارے پا س اس کی کوئی صاف دلیل ہے ۔ تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ ‘‘ ، (الصٰفٰت : ۱۴۹ تا ۱۵۷ ) ۔یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح مسلمان بھی ذات میں شرک سے باز نہیں آئے ۔
ہندوستان میں کچھ علماء نے باطل رائے کو فروغ دیتے ہوئے ایک بالکل نیا عقیدہ متعارف کروایا جس کا اسلام کے ساتھ سرے سے ہی تعلق نہ تھا ۔ اُنہیں علم تھا ابن اﷲاور بنٰت اﷲ کا عقیدہ ، عیسائیوں ، یہودیوں اور مشرکین مکہ کی وجہ سے بد نام ہو چکا ہے کیوں نہ کسی نئے طریقے سے لوگوں کو گمراہ کیا جائے ۔ پہلے انہوں نے کم علم لوگوں کو بتایا کہ نبی پاک ﷺ بشر نہیں نور ہیں ، نبیوں میں ساری خوبیاں فرشتوں والی ہوتی ہیں اور انسان پر وحی نہیں اتر سکتی، وغیرہ وغیرہ ۔ پھر آخر کار عقیدت و محبت کے نام پرسید المرسلین ﷺ کے بارے میں کہا گیا : ’’ آپ ﷺ ، نور من نور اﷲ : یعنی اﷲ کے نور میں سے نور ہیں ‘‘ ، نعوذبااﷲ ۔
یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ (ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ‘‘ ، (الکھف : ۱۱۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اﷲ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا ؟ ، آپ (ﷺ ) کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۹۴ تا ۹۵ ) ۔ کتابُ اﷲ کی بہت زیادہ آیات سے واضع ہے کہ تمام انبیاء ؑ بشر تھے ، مثلاََ : ’’ (البقرۃ : ۱۵۱ ) ، (الانعام : ۵۰ ) ، (الاعراف : ۶۹ ) ، (یوسف : ۱۰۹ ) ، (ابراہیم : ۱۰ تا ۱۱ ) ، (النحل : ۴۳ ) ، (الحجر : ۳۲ تا ۳۳ ) اور (بنی اسرائیل : ۹۳ ) ‘‘ ۔
کافی وقت گزرنے کے بعد چپ چاپ کھڑے ابوبکر نے اپنی زبان کا تالا کھولا اور باغ باغ ہوتے ہوئے بولا :
’’ یہی تو میں کہتا تھا ! نبی پاک ﷺ کو نو ر کہنا ، آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے ، کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور فرشتوں نے اﷲ کے حکم سے بشر کو سجدہ بھی کیا تھا ۔ کیا نور ، انسانوں کے گھر پیدا ہوتے ہیں ؟ کیا نور کھاتے پیتے اور شادیاں کرواتے ہیں ؟ کیا نور کی قبر مبارک ہوتی ہے ؟‘‘
جزاک اﷲ خیر، عبدالرحمن نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی بات جاری رکھی :
قرآنی دلیلوں کو پڑھنے کہ بعد کچھ لوگ کہتے ہیں : ’’ ہم فرشتوں والے نور کی نہیں بلکہ اﷲ کے نور کی بات کرتے ہیں ‘‘ ۔ اﷲ پاک پر بہتان باندھنے والو ! کیا آپ نے قرآن پاک غور سے نہیں پڑھا؟ آپ کے پاس اخبارات ، ڈائجسٹوں ، میگزینوں اور فحش سائن بورڈوں کے مطالعے کا تو وقت ہے ، کیا کتاب اﷲ میں غور و فکر نہیں کر سکتے ؟آپ ریڈیو ، ٹی وی ، وی سی آر ، ڈش ، انٹینا ، فلمیں ، ڈرامے اور شرکیہ قوالیاں دیکھ اور سُن سکتے ہو ، کیا الفرقان کی تحقیق نہیں کرسکتے ؟ کیا آپ فضول باتیں کرنے کی بجائے ترجمے کے ساتھ تلاوت نہیں سماعت فرما سکتے ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ ایک (ہی ) ہے ۔ اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ نہ اس میں سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ‘‘ ، (الا خلاص : ۱ تا ۴ ) ۔ اس سے واضع ہوا ، نہ الرّحمّن میں سے کوئی نکلا ہے اور نہ ہی اﷲ پاک کسی سے نکلے ہیں ۔ مثلاََ : ’’ اگر دودھ میں سے تھوڑا سا دودھ نکال لیا جائے تو بقیہ دودھ بھی نکلے ہوئے دودھ ہی جیسا ہوتا ہے ‘‘ ۔ ’’ دنیا کی کسی بھی چیز میں سے کچھ حصہ نکال دیں تو وہ بقیہ چیز ہی کی طرح کا ہوتا ہے ‘‘ ۔ اسی طرح اگر ہم سید المرسلین ﷺ کو ’’ نور من نور اﷲ‘‘ سمجھیں تو ، اﷲ کے نور میں سے نور ، الرحمن جیسا ہی ہو گا ۔ جبکہ یہ عقیدہ قرآن کے الٹ ہے ،رب کعبہ فرماتے ہیں : ’’لیس کمثلہ شیء: اس (اﷲ ) جیسی کوئی چیز نہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۱۱ ) ۔ اب قرآن و حدیث سے حق عیاں ہونے کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ : ’’ حضرت محمد ﷺ نور من نور اﷲہیں‘‘ ، وہ بھی یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح ہی اﷲ پر بہتان باندھ رہا ہے ۔ ’’ بیٹا تم نور والی آیت کیوں نہیں پڑھتے ؟ ضعیف آدمی تھوڑا نرم لہجے میں بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن:
’’ بابا جی ، کونسی نور والی ؟ ‘‘
بوڑھا شخص :
جس میں اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ قد جا کم من اﷲ نور و کتب : یعنی اﷲ نے نور اور کتاب اتاری ‘‘ ، نور سے مراد نبی پاک ﷺ ہے ۔
عبدالرحمٰن:
بابا جی ، آیت جس طرح آپ نے پڑھی ہے اس طرح نہیں بلکہ : ’’ قد جاء کم من اﷲ نور و کتب مبین ‘‘ ، ہے ۔ جس کا مطلب ہے : ’’ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے ۔ ‘‘
بھائیوں ! توجہ فرمانا اور بابا جی آپ بھی ’’نوراور کتاب مبین دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان واؤ ، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ، یھدی بہ اﷲ ،کہ اس کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے ۔ اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ، یھدی بھما اﷲ ہوتے ’’ یعنی اﷲ پاک ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے ‘‘ ۔ قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہو گیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت ﷺ اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے ‘‘ ، (تفسیر احسن البیان ، المائدۃ : تفسیر آیت ۱۵) ۔
قرآن پاک میں کئی مقام پر نور سے مراد قرآن مجید ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر نور قرآن مجید کی صفت بیان ہوئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ و انز لنا الیکم نورا مبینا : اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے ‘‘ ، (النساء : ۱۷۴ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ فامنو ا باﷲ ورسولہ و النور الذی انزلنا : سو تم اﷲ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ ‘‘ ، (التغابن : ۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ : آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنایا ، اس سے راہنمائی کرتے ہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۵۲ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ فالذین امنوا بہ وعزروہ ونصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون : سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان پر نازل کیا گیا ، ایسے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ ، (الاعراف : ۱۵۷ ) ۔
مسلمانو ! کیوں آپ سید المرسلین ﷺ کو اﷲ کا حصہ کہتے ہو حالانکہ قرآن میں بڑا واضح ہے کہ : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔کیا آپ اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہیں بننا چاہتے ؟ میرے عزیز دوستو ! کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ نبی ﷺ بشر نہیں نور ہیں ؟ بہت زیادہ لوگوں نے بلند آواز میں جواب دیا :
’’ نہیں ! اب ہم ساری زندگی اتنا بڑا گناہ نہیں کریں گے ۔ ‘‘
(جاری ہے )
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
( ۲ )

پولیس والوں نے اگر کوئی مجرم پکڑنا ہو تو وہ ناکا لگاتے ہیں ۔ اگر گنا ہ گار بڑا ہوتو وہ بہت زیادہ ناکے لگاتے ہیں تاکہ خطا کار ایک جگہ نہ بھی پکڑا گیا تو دوسرے مقام پر قابو آ جائے گا ۔ شیطان نے بھی بد عقیدگی کو عام کرنے کے لیے ایسے ہی جال بچھائے ہیں ۔ جس کی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے ۔ ’’ عبدالرحمٰن صاحب قطع کلامی کی معذرت ، عقیدہ وحدۃ الوجود کیا ہے ؟ ایک نوجوان ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ عقیدہ وحدۃ الوجود کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں ہے یعنی ہر چیز اﷲ ہی ہے ، (نعوذ با ﷲ )۔لغت میں وحدت الوجود : اصطلاح صوفیت میں ہرمخلوق کو خالق مطلق کا وجود سمجھنا ، (فیروز اللغات ) ۔ کچھ مسلمانوں نے یہود و نصاری اور ہندوؤں کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ان کے عقائد کو اپنانا شروع کر دیا ۔ایسی ہی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے۔ یہ عقیدہ یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بعد بد قسمتی سے مسلمانوں کے بعض گروہوں کا بھی ہے ۔ جو صوفیوں ، درباری مجاوروں ، مزاری ملنگوں اور طریقتی پیروں کا گھڑا ہوا عقیدہ ہے ۔ یہ اتنا برا عقیدہ ہے کہ اس کے ماننے والے سور ، بندر ، گندگی اور دنیا کی ہر چیز کو اﷲ مانتے ہیں ، (نعوذ باﷲ ) ۔ وہ صوفی جو ہر مخلوق کو خالق کا وجود قرار دیتا ہے اسے وحدت الوجودی کہتے ہیں ‘‘ ، (فیروز اللغات ) ۔
آئیے ! ہم اس مسئلے کا فیصلہ قرآن و حدیث سے کروا لیتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو ا ، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام ) ایک ایسے دن میں اس (اﷲ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ‘‘ ، (السّجدۃ : ۴ تا۵) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما ےؤمرون : وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ‘‘ ، (النحل : ۵۰ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اور یہ ذکر (قرآن ) ہم نے آپ (ﷺ ) کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بیان کردیں کہ ان کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ‘‘ ، (النحل : ۴۴ ) ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اﷲ پاک ہی کی ساری عزت ہے (یعنی عزت دینے والا وہی ہے ) ، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ، اور ان کا یہ مکربرباد ہو جائے گا ‘‘ ، (الفاطر : ۱۰ ) ۔ اور فرمایا : ’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘ ، (الملک : ۱۶ ) ۔ عقیدہ وحدت الوجود قرآن مجید کی کئی اور آیات کے بھی خلاف ہے ، مثال کے طور پر : ’’ (الاعراف : ۵۴ ) ،(یونس : ۳ ) ، (الرعد : ۲ ) ، (الفرقان : ۵۹ ) ، (الحدید : ۴ ) ، (الملک : ۱۷ ) ، (المعارج : ۱ تا ۴ ) ، ( المؤمن : ۳۶ تا ۳۷ ) اور (النحل : ۶۴ ) ‘‘ ۔ یہ عقیدہ ۔۔۔ ’’ دیکھو بیٹا اس مرتبہ پھر آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی جس میں لکھا ہے کہ ہر چیز میں اﷲ ہے ، بوڑھے آدمی نے عبدالرحمٰن کی بات کاٹ کر دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ محترم ! کونسی آیت ، عبدالرحمٰن نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’تم غلطیاں نکال دیتے ہو ! ‘‘ ، آیت تو میں نہیں پڑھوں گا لیکن اس کا ترجمہ ہے کہ : ’’ اے انسان ہم تیری شہ رگ میں ہیں یا رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
جناب عالیٰ ! آیت اس طرح ہے : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس قرب سے مراد ہے کہ اﷲ تعالیٰ علم کے لحاظ سے انسان کے قریب ہے ۔ یعنی اﷲ پاک دلوں میں اٹھنے والے خیالوں سے بھی واقف ہے اور وہ (اﷲ ) انسان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے ، جتنا وہ (انسان ) خود اپنے بارے میں علم نہیں رکھتا ۔
مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں :’’ انٹرنیٹ کے فوائد (Internet Benefits) ‘‘ ، کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے عالمی دنیا ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے ‘‘ ۔ کیا سارا جہان ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے ؟ ’’جی نہیں !‘‘ ، اس کا تو مطلب یہ ہے کہ : ’’ ہم جس جگہ بھی ہوں ، اپنے کمپیوٹر یا موبائل سے جو چاہیں تلاش (Search) کرسکتے اور اپنی پسندیدہ چیزیں دیکھ ، پڑھ ، سن اور دنیا کی سیر کر کے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ اکثر خبر چینل سے وقفہ کے وقت یہ بات سننے میں آتی ہے کہ : ’’ ناظرین یہاں پے لینا ہے ایک چھوٹا سا وقفہ ہمارے ساتھ رہیے گا ‘‘ ۔ کیا ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں ؟ بلکہ ان کا مقصد ہوتا ہے کہ : ’’ ہم ان کا چینل دیکھتے رہیں ‘‘ ، اسی طرح اﷲ اپنے عرش پر مستوی ہے ، لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے کوئی بھی چیز اس سے غائب نہیں ، اور وہ دلوں کے حال تک جانتا ہے ۔
یہود و نصاری کی طرح مسلمانوں نے بھی محکمات آیات کو چھوڑ اور متشابہات آیات کے پیچھے لگ کر بے شمار خود ساختہ عقائد بنائے ۔متشابہات آیات کو اس طرح سمجھو ، جس طرح صحابہ کرامؓ نے ان آیات میں فکر کیا ۔ متشابہات آیتوں کی اپنی سمجھ کے مطابق پیروی سے امت مسلمہ میں بہت زیادہ فتنوں نے جنم لیا ۔ جن میں سب سے بڑا فتنہ فرقہ واریت ہے ۔ ’’ بھائی ! معاف کرنا ، محکمات اور متشابہات آیات سے کیا مراد ہے ؟ ایک نو عمر لڑکے نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامرو نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے ، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آیات متشابہات وہ ہیں جو ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ‘‘ ، (احسن البیان ، تفسیر العمران : ۷ ) ۔ مثال کے طور پر : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ اس آیت میں تاویل کی وسعت نہیں ہے ، یہ محکم ہے ۔ اس کے برعکس : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس آیت کے ذریعے عوام کو گمراہی کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، یہ متشابہ آیت ہے۔
جو لوگ صرف متشابہات آیات کو اپنا منہج ، مسلک ، عقیدہ اور مذہب بنا لیتے ہیں ، وہ فتنے کی طلب سے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ وہی اﷲ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح محکم (مضبوط ) آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو ان متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اﷲ پاک کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پا س سے رحمت عطا فرما ، یقیناًتو ہی بہت عطا دینے والا ہے ‘‘ ، (العمران : ۷ تا ۸ ) ۔
عوام وافر مقدار میں عبدالرحمٰن کے اردگرد جمع تھی ۔ توجہ کی وجہ سے ہمارے کان ، آنکھیں اور دل بھی سماعت فرما رہے تھے ۔ الفاظ پر اتنا مرکز نگاہ (Focus ) تھا کہ جیسے ذہن میں تصویر کشی کر رہے ہوں ۔ہم عبدالرحمٰن کا احساس ، دل و روح کے راستے سے محسوس کر رہے تھے ۔لوگ دنیا کے ٹی وی کو بند کرکے صرف عبدالرحمٰن کی قرآن و حدیث پر مبنی باتیں سننا پسند کر رہے تھے ۔ عبدالرحمٰن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا :
اس آیت (یعنی ، ق : ۱۶ ) کا معنی و مفہوم وہی ہوگا جو نبی پاک ﷺ نے صحابہ اکرمؓ کو بتایا ۔ رسول اﷲ ﷺ کی احادیث تو عقیدہ وحدۃ الوجود کی تردید میں ہیں اور تائید کرتیں ہیں کہ اﷲ پاک آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جب اﷲ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب میں جو ’’ اس کے پاس عرش پر موجود ہے ‘‘ ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ‘‘ ، (بخاری : ۳۱۹۴ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺ نے فرمایا : ’’ رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو ’’ آسمان والا‘‘، تم پر رحم کرے گا ‘‘ ، (ترمذی : ۱۷۵۴ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بچھونے کی طرف بلائے اور وہ انکار کرے ، تو وہ پروردگار جو ’’ آسمان کے اوپر ہے ‘‘ ، غصہ میں رہتا ہے جب تک وہ (یعنی شوہر ) اس عورت سے راضی نہ ہو ‘‘ ، (مسلم : ۳۵۴۰ ) ۔
سیدنا معاویہ بن حکم سلمیؓ نے کہا میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام ہے ) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں آنکلا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے گیا ہے ۔ آخر میں بھی آدمی ہوں مجھ کو بھی غصہ آ جاتا ہے ۔ جیسے دوسرں کو غصہ آتا ہے میں نے اس کو ایک طمانچہ مارا پھر میں رسول اﷲ ﷺ کے پاس آیا تو سیدالمرسلین ﷺ نے میرا یہ فعل بہت برا قرار دیا ۔ میں نے کہا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں ؟ ‘‘ ، آپ نے فرمایا : ’’ اس کو میرے پاس لے کر آ ‘‘ ۔ میں آپ ﷺ کے پاس لے کر گیا ۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : ’’ اﷲ کہاں ہے ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آسمان پر ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں کون ہوں ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آپ ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ‘‘، تب آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تو اس کو آزاد کر دے یہ مومنہ ہے‘‘ ، (مسلم : ۱۱۹۹ ) ۔ کثیر تعداد احادیث، اس عقیدے کو مسترد (Reject) کرتیں ہیں ، مثلاََ : ’’ ( بخاری : ۱۱۴۵ ) ، (بخاری : ۵۵۵ ) ، (بخاری : ۴۳۵۱ ) ، (بخاری : ۷۴۳۰ ) ، ( بخاری : ۲۷۹۰ ) ، ( بخاری : ۷۴۲۱ ) اور ( مسلم : ۶۸۳۹ ) ‘‘ ۔
کیوں نہ ! صحابہ کرامؓ کے اقوال کے ترازو سے عقیدہ وحدۃ الوجود کی پیمائش کریں ؟ کون صحابہؓ ! جو حقیقی مومن تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن سے اﷲ تعالیٰ محبت کرتا ہے ۔ وہ صحابہؓ ! جو کامیاب ہو گئے اور جن کے لیے اجر عظیم ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جنہوں نے دین کے لیے بے شمار تکالیف برداشت کیں ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جو کفار کے لیے سخت اور آپس میں محبت کرنے والے تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کا کردار نجات کے لیے معیار ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کے بارے میں رسول ﷲ نے فرمایا کہ : ’’ وہ بہترین لوگ ہیں ۔ ‘‘
آؤ ! صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے اقوال سماعت فرما ؤ ۔ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد ، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ اے لوگو ! اگر تو محمد ﷺ تمہارے معبود تھے جن کی تم عبادت کرتے تھے تو پھر جان لو کہ تمہارے (وہ ) معبود (محمد ﷺ ) فوت ہوگئے ہیں اور اگر تم لوگوں کا معبود وہ ہے ’’ جو آسمان پر ہے ‘‘ ، تو پھر تمہارا معبود نہیں مرا ‘‘ ، (التاریخ الکبیر : ۶۲۳ ) ۔ سیدنا انسؓ کا کہنا ہے کہ (ام المومنین ) زینب بنت حجشؓ ، سید المرسلین ﷺ کی دوسری بیگمات کو فخر کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ : ’’ تم لوگوں کی شادی تمہارے گھر والوں نے کی اور میری اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے شادی کی ‘‘ ، (بخاری : ۷۴۲۰ ) ۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے مرض الوفات میں حضرت ابن عباسؓ نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی ، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے ، میں نے ان کے بھتیجے سے کہا کہ حضرت ابن عباسؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ، ان کے بھتیجے نے جھک کر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا وہ کہنے لگیں کہ رہنے دو ( مجھ میں ہمت نہیں ہے ) اس نے کہا کہ اماں جان ! ابن عباس تو آپ کے بڑے نیک فرزند ہیں ، وہ آپ کو سلام کرنا اور رخصت کرنا چاہتے ہیں ، انہوں نے اجازت دے دی ۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اندر آ کر کہا : ’’ آپ ( یعنی عائشہؓ ) نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب رہیں ، اور سید المرسلین ﷺ اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو ، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گرپڑا تھا نبی ﷺ نے وہاں پڑاؤ کر لیا لیکن صبح ہوئی تو مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا ، اﷲ نے آپ کی برکت سے پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا حکم نازل فرما دیا ، جس میں اس امت کے لئے اﷲ نے رخصت نازل فرما دی ، اور آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہو گئی تھیں ’’ جو سات آسمانوں کے اوپر سے جبریل لے کر آئے ‘‘ ، (مسند احمد : ۲۴۹۶ ) ۔
تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ دین ؒ بھی عقیدہ وحدت الوجود کے خلاف تھے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ‘‘ ، امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ تو اس نے کفر کیا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے‘‘ ، اور اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے ۔ اس نے پھر پوچھا : ’’ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اﷲ کا عرش آسمان پر ہے یا زمین پر (تو پھر اسکا کیا حکم ہے ) ؟ ‘‘ ، تو امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اس نے اس بات سے انکار کیا کہ اﷲ کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے اور جو اس بات سے انکار کرے وہ کافر ہے ‘‘ ، (شرح عقیدہ الطحاویہ ، صفحہ : ۲۸۸ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۴ ) اور آپ یوٹیوب ( YouTube) پر بھی اس حوالہ (Reference) کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں ، تلاش (Search )کریں (Wahdatul wajood ka Rad Imam Abu Hanifa se) ۔
عبداﷲ بن نافع ؒ کا کہنا ہے کہ امام مالک ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز خارج نہیں ‘‘ ، (اعتقاد اہل السنۃ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۷ تا ۳۸ ) ۔ امام الشافعی ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان سے اوپر اپنے عرش سے اوپر ہے ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ ) ۔ امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا گیا : ’’ کیا اﷲ عزو جلّ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش سے اوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے اور اسکی قدرت اور علم ہر جگہ ہے ؟ ‘‘ تو امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا : ’’ جی ہاں ! اﷲ عرش پر ہے اور اس (کے علم ) سے کچھ خارج نہیں ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ تا ۳۹ ) ۔ ’’ انکل ! (Uncle) میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ ۱۰ سے ۱۲ سال کے بچے نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔ ‘‘
’’ جی ! کیوں نہیں ، عبدالرحمٰن نے جواب دیا ۔ ‘‘
بچہ :
’’ انکل ! مجھے بلال کہتے ہیں ‘‘ ۔ مجھے افسوس ہے ان پر جو اس (یعنی عقیدہ وحدۃالوجود ) کے قائل ہیں ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں : ’’ اگر ہر شے اﷲ ہے تو جنت اور جہنم کس لیے ؟اگرتمام چیزیں اﷲ ہیں توپھر مریم کے پیٹ میں کون تھا ؟ اگر سب جگہ اﷲ تعالیٰ ہے تو نبی پاک ﷺ کو اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اﷲ پاک نے قرآن مجید نازل کیا ، اگر ہر جگہ ہوتا تو دے دیتا ؟ اگر ہر چیز اﷲ ہے تو پھر ہم دعا کے لیے ہاتھ اوپر کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ کل من علیھا فان *ویبقی وجہ ربک ذوالجلل والاکرام : (یعنی) ہر چیز نے ختم ہو جانا ہے ۔ صرف آپ کے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ‘‘ ،(الرحمن : ۲۶ تا ۲۷ ) ۔ میں سوال کرتا ہوں کہ : ’’ سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف اﷲ کی ذات باقی رہے گی ۔ اگر تمام چیزوں میں اﷲ ہے یااﷲ ہیں تو پھر ختم کون ہو گا ؟ ‘‘ ، انکل ! یہ عقیدہ اتنا برا ہے کہ عقل کے بھی خلاف ہے ’’ کیا مسلمانوں نے ا س عقیدے کو تقریری (Oral) طور پر پھیلایا ہے یا تحریری (Written) نشرو اشاعت کی ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ بلال بیٹا ! اﷲ آپ کو اجر دے اور استقامت عطا فرمائے ‘‘ ۔ لوگوں نے اس عقیدے کو تقریری اور تحریری طور پر وسعت دی ہے ۔ ایسے ایسے لوگ اس عقیدے کے قائل ہیں جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ مثال کے طور پر ، منصور حلاج کے بارے میں لکھا ہے : ’’ حضرت مرشد ؒ سے سنا تھا کہ ابن المنصور کو نماز پڑھتے کسی نے دیکھ کر پوچھا کہ جب تم خود حق (یعنی اﷲ ) ہو تو نماز کس کی پڑھتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے ‘‘ ، (سیرت منصور حلاج ، صفحہ : ۱۴ ) ۔
ایک صاحب نے اپنے بیان (Speech) میں عقیدہ وحدت الوجود کا پرچار اس طریقے سے کیا کہ : ’’ لا کی تلوار عرش کے اوپر سے چلی ہے ، عرش زیرو زبر ، عرش کے فرشتے زیرو زبر ، عرش کے نیچے زیرو زبر۔ ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا ، دوسرا ، پہلا آسمان لا اور ہوا ، فضا ، خلا لا اور زمین ،آسمان ، چاند ، سورج ، تارے لا ، اور انسان ، جنات ، جن ، پرند ،چرند ، آبی ، خاکی ، ناری ، نوری ، ہوائی ، فضائی ، خلائی سب لا ہیں ، لا ہیں ۔ کوئی کچھ نہیں ہے ، کوئی کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ، جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ‘‘ ،( یوٹیوب : Wahdat-ul-wajood - Molana Tariq Jameel ) ۔ آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ ایک کتاب میں اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ : ’’ ایک موحد (وحدت الوجودی ) سے لوگوں نے کہا کہ اگر حلوا و غلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ۔ انہوں نے بشکل خنزیر ہو کر گُوہ کو کھا لیا ۔ پھر بصورت آدمی ہو کر حلوہ کھا لیا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے ‘‘ ، (شمائم امدادیہ ، حصہ دوم ، ص : ۷۵ ) ، ( الدیوبندیۃ ، صفحہ : ۲۰۰ ) ۔
استغفر اﷲ ، نعوذ باﷲ ، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اور سبحن اﷲ عما یشرکونکی آوازیں ، چاروں طرف گھونج رہی تھیں اور لوگ حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں ۔ عبدالرحمن کی آنکھوں سے ضبط کی جدوجہد کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ عوام الناس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر عبدالرحمن بول پڑا :
میرے بھائیوں ! میرامقصد باطل کو بے نقاب کرنا اور حق بات سمجھانا تھا ، کسی کو دکھ پہنچانا میرا مشن نہیں ہے ۔ یہ عقیدہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسا مفسراس کی زد میں آ گیا تھا ۔عقیدہ وحدت الوجود کو مسلمانوں میں ’’ابن عربی ‘‘ ، نے متعارف کیا جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم ‘‘ ، اسی غلیظ ترین عقیدے سے لبریز ہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب بھی لکھتے ہیں :
’’ میرے نزدیک اس کا اصل حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی ؒ نے دیا ہے ، جو میں بیان کر چکا ہوں کہ حقیقت و ماہیت وجود کے اعتبار سے خالق و مخلوق کا وجود ایک ہے ، کائنات میں وہی وجودِ بسیط سرایت کیے ہوئے ہے لیکن جہاں تعین ہو گیا تو وہ پھر غیر ہے ، اس کا عین نہیں ۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات کا وجود ایک اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کے وجود کا عین اور دوسرے اعتبار سے اس کا غیر ہے ۔ یہ ابن عربی کا فلسفہ ہے ‘‘ ، (ام المسبحات یعنی سورۃ الحدید کی مختصر تشریح ، صفحہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر لکھتا ہے : ’’ شیخ ابن عربی کے بارے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیتِ وجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے ، میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے ‘‘ ، (ام المسبحات ۔۔۔، صفحہ : ۹۱ )۔ یوٹیوب پر آپ ان کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں ، تلاش کریں (Dr. Israr Aur Aqeedah Wahdat ul Wajood) ۔
ایک اور مفسر ، سورۃ المک کی آیت نمبر ۱۶ ، جس میں ہے کہ ’’ اﷲ آسمان پر ہے ‘‘ ، کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آ سمان میں رہتا ہے ‘‘۔لونڈی جس سے نبی پاک ﷺنے دو سوال کیے تھے اور وہ واقعہ جو حضرت خولہؓ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ،یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ، بھی بیان کیا۔پھر کہا اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن ، اﷲ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے ‘‘ ، ( تفہیم القرآن ) ۔
ایک وجودی نے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ایک قصہ بیان کیا ، کہا : ’’ رب عزوجل اس پر قادر نہیں کہ اپنے بندے پر تجلی فرما کر کلام فرمائے جو اس کی زبان سے سننے میں آئے بلا شبہ اﷲ قادر ہے اور معترض کا اعتراض باطل ، اس کا فیصلہ خود حضرت با یزید بسطامیؓ کے زمانے میں ہوچکا ، ظاہر بینوں بے خبروں نے ان سے شکایت کی کہ آپ سبحانی ما اعظم شانی (میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے )کہا کرتے ہیں ، فرمایا : حاشا میں نہیں کہتا ، کہا : آپ ضرور کہتے ہیں ہم سب سنتے ہیں ، فرمایا : جو ایسا کہے واجب القتل ہے میں نجوشی تمھیں اجازت دیتا ہوں جب مجھے ایسا کہتے سنو بے دریغ خنجر ماردو ، وہ سب خنجر لے کر منتظر وقت رہے یہاں تک کہ حضرت پر تجلی وارد ہوئی اور وہی سننے میں آیا سبحانی ما اعظم شانی مجھے سب عیبوں سے پاکی ہے میری شان کیا ہی بڑی ہے ۔ وہ لوگ چار طرف سے خنجر لے کر دوڑے اور حضرت پر وار کئے ، جس نے جس جگہ خنجر مارا تھا خود اس کے اسی جگہ لگا اور حضرت پر خط بھی نہ آیا ۔ جب افاقہ ( Recovered) ہوا دیکھا لوگ زخمی پڑے ہیں ، فرمایا : ’’ میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ فرماتا ہے جسے فرمانا بجا ہے ‘‘ ، (فتاوی رضویہ ، جلد :۱۴، صفحہ : ۶۶۶ ) ۔آپ بتائیے ! سبحانی ما اعظم شانی ، کہنے والا ’’ پکا ولی ہے ‘‘ ، تو پھر فرعون کا کیا گناہ تھا ؟ ‘‘
مشرکین مکہ اور یہود و نصاری نے اﷲ پاک پر بیٹے اور بیٹیوں کا بہتان باندھا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔ ایک اور مقام پر فرمایا : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مسلمانو ! تم بھی ؟ آپ نے تو تمام حدیں پار کر دیں کہ کہتے ہو : ’’ لا موجود الا اﷲ : یعنی اﷲ کے سواء کچھ بھی موجود نہیں ہے ‘‘ ۔کیا آپ نے سورۃ المائدۃ کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ لوگ قطعاََ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا ، اﷲ تین میں کا تیسرا ہے ‘‘ ، (المائدۃ : ۷۳ ) ۔ وہ کافر ہیں جو تیں کہیں اور جو ہر چیز کو اﷲ کہہ دے وہ کیا ہے ؟ کیا آپ اﷲ تعالیٰ سے نڈرہو کہ : ’’ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا آسمان سے پتھر برسا دے ‘‘ ، کہ تم ہر چیز کو اس کا جز ثابت کرنے چلے ہو ؟ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا کہ الفرقان میں : ’’ من دون اﷲ ، من دونہ اور غیر اﷲ ‘‘ ، بھی استعمال ہوا ہے ۔ اگر تمام مخلوقات ، خالق کا ہی حصہ تھیں تو پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ الفاظ کیوں استعمال کیے ؟
میرے پیارو ! بہت زیادہ تعداد اس باطل عقیدے پر یقین رکھتی ہے ۔ اس کے قائل لوگوں نے بڑی موٹی موٹی کتابیں اس عقیدے کی نشرو اشاعت کے لیے شائع کیں ہیں ۔ ذات میں شرک کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں آپ نے سنیں ، اب ! ان شاء اﷲ چند گزارشات ’’ صفات میں شرک ‘‘ ، کے بارے آپ کے گوش گزار کروں گا ۔
( جاری ہے )
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
صفات میں شرک

کائنات کا حقیقی بادشاہ ، عالم الغیب ، مختار کل ،مشکل کشا و حاجت روا، زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ، ہر وقت سب کو دیکھنے اور سننے والا ، دلوں میں اٹھنے والے خیالوں کو جاننے والا ، بھلائیاں عنایت کرنے والا ، ہدایت دینے اور دلوں کو پھیرنے والا ، رزق میں تنگی یا فراخی کرنے والا ، اولاد دینے یا نہ دینے والا ، شفا بخشنے والا ، حقیقی کارساز ، اعمال صالح کرنے کی توفیق عطا کرنے والا ، نفع و نقصان اور تقدیر کا مالک ، توبہ قبول اور نگہبانی کرنے والا ، غالب و طاقتور ، عیوب و نقائص سے پاک ، ہمیشہ زندہ رہنے والا ، جو کسی کی اجازت کا محتاج نہیں، مصائب و مشکلات دور کرنے والا ، زندگی اور موت دینے والا ’’ صرف اﷲ تعالیٰ ہے ‘‘ ۔ کتاب و سنت سے ثابت تمام صفات میں اﷲ پاک کو اکیلا اور بے مثال نہ ماننا اور غیروں میں ان صفات کو سمجھنا ’’ شرک فی الصفات ‘‘ ، کہلاتا ہے ۔
( ۲ )

بد قسمتی سے اﷲ کی مخلوق نے الرحمن کی صفات کا مالک اس کی مخلوق کو بنا دیا ۔ صفات میں شرک ہمارے کم علم اور بات کو عمد ہ طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات ذاتی، ہمیشہ کے لیے اور لا محدود ہیں جبکہ تمام مخلوقات کی صفات عطائی ، فانی اور محدود ہیں ۔ مثلاََ : ’’ مخلوقات کو بھی زندگی ملتی ہے لیکن موت بھی آتی ہے، جبکہ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہیں۔ علم مخلوق کے پاس بھی ہے لیکن تھوڑا ، جبکہ اﷲ پاک کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا ‘‘ ۔ عبدالرحمٰن کی بائیں سمت موجود ایک طفل ( Boy ) بولا :
’’ ہمارے امام مسجد کے پاس درس نظامی ، ترجمہ و تفسیر ، علم حدیث، فقہ ، تجوید اور متعدد ڈگریاں ہیں ۔ لوگ انہیں علامہ ،مفتی، الشیخ ، قاری اور حافظ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ وہ تو کہتے ہیں کہ : ’’ انبیاء ، اولیاء اور شہد، غیب دان ، مختار کل ، مشکل کشا ، حاجت روا ، غریب نواز ، داتا،غوث ، اولاد دینے والے ، تقدیر بدلنے والے ، دستگیراور گنج بخش ہیں ‘‘ ۔ آپ ! کہہ رہے ہیں کہ : ’’ یہ اﷲ کی صفات ہیں ، اگر کوئی شخص ان میں کسی کو ساجھی بناتا ہے تو وہ مشرک ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمن ، تبسم کرتے ہوئے :
’’ غمگین ہونے کی ضرروت نہیں ۔ ہم ، ان کی بات کا قرآن و حدیث کی کسوٹی (Scale ) سے موازنہ کرلیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سا منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے ۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ‘‘ ، ( الانعام : ۵۰ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان سب نے کہا اے اﷲ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۳۲ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ؟ ‘‘ ، ( النمل : ۶۵ ) ۔
قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات سے یہ واضح ہے کہ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ (البقرۃ : ۳۰ ) ، ( النساء : ۱۱۳ ) ، ( المائدۃ : ۱۰۹ ) ، ( المائدۃ : ۱۱۶) ، ( الانعام : ۵۹) ، ( الاعراف : ۲۲ ) ، ( الاعراف : ۱۸۷ ) ، ( التوبۃ : ۱۰۱ ) ، ( یونس : ۲۰ ) ، ( ھود : ۳۱ ) ، ( ھود : ۴۶ تا ۴۷ ) ، ( ھود : ۴۹ ) ، ( ھود :۱۲۳ ) ، ( ابراہیم : ۹ ) ، ( الحجر : ۵۳ تا ۵۵ ) ، (النحل : ۲۰ تا ۲۱ ) ، ( الکھف : ۱۹) ، ( الکھف : ۲۳ تا ۲۶ ) ، ( مریم : ۸ ) ، ( مریم : ۲۰ ) ، ( الانبیاء : ۱۰۹ ) ، ( النمل : ۱۰) ، ( النمل : ۲۰ تا ۲۲ ) ، ( لقمان : ۳۴ ) ، ( الاحزاب : ۶۳ ) ، ( ص : ۲۱ تا ۲۲ ) ( الاحقاف : ۹ ) ، ( الجن : ۲۵ تا ۲۶ )اور ( الملک : ۲۵ تا ۲۶ ) ۔ ‘‘
عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ : ’’ جو شخص کہے کہ نبی کریم ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ جھوٹا ہے ‘‘ ۔ اس کے لیے انہوں نے آیت : ’’ و ما تدری نفس ما ذا تکسب غدا یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا ، کی تلاوت فرمائی ‘‘ ( بخاری : ۴۸۵۵ ) ۔ ام العلاء انصاریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ واﷲ ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔ حالانکہ میں اﷲ کا رسول ہوں ‘‘ ، ( بخاری : ۱۲۴۳ ) ۔ ربیع بنت معوذ ؓ سے روایت ہے کہ : ’’ میری شادی کی صبح رسول اﷲ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت دو ( کم سن ) بچیاں میرے پاس گیت گا رہی تھیں اور میرے آباء کا تذکرہ کر رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے اور گانے گانے میں وہ یہ بھی گانے لگیں ’’ اور ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل ( آئندہ ) کی بات جانتے ہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ بات مت کہو اس لئے کہ کل کی بات اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۸۹۷ ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی نجومی یا کاہن ( غیبی خبریں دینے والے ) کے پاس جائے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اسے سچا سمجھے تو وہ ( حضرت ) محمد ﷺ پر اترے دین کا انکاری ہو گا ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : کتاب الایمان ) ۔ ضعیف شخص ، طیش میں آتے ہوئے بولا :
’’ دیکھو عبدالرحمن ! میں تمہارا منہ بڑی دیر سے دیکھ رہا ہوں ۔ تم نے تو ’’ حد ہی کر دی ہے ! ‘‘ میں نے بہت برداشت کرلیا ، اب میں تمہیں لوگوں کو گمراہ نہیں کرنے دوں گا ۔ بند کرو یہ ڈرامہ بازی ! تم نے کیا سمجھا ہے ، یہاں سب کے سب جاہل ہی ہیں ؟ میں دلیل سے واضح کرتا ہوں کہ : ’’ سرکار دو عالم ﷺ غیب جانتے تھے ‘‘ ۔ اگر آقائے نامدار ﷺ غیب نہ جانتے ہوتے : ’’ تو قیامت کی نشانیاں کیسے بتاتے ، جنت و جہنم کے واقعات کیسے سناتے، قبر کے حالات سے کیسے منکشف ( Unfold) فرماتے، چھپے ہوئے خط کے بارے میں کیسے خبر دے پاتے اور فتنہ دجال سے کیسے آگاہ فرماتے ؟ انبیاء و اولیاء سب غیب جانتے ہیں جو تم حوالے دیتے ہو یہ تو صرف شریعت کا پردہ ہے ۔ میرے ذہن سے نکل گئیں ہیں ، میرے پاس بھی بہت زیادہ دلیلیں ہیں کہ : ’’ حضور اقدس ﷺ غیب جانتے تھے ۔ ‘‘
بلال جلدی اور جذبے سے بولا :
’’ انکل ! میں جواب دوں ؟ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ ضرور ! ‘‘
بلال :
پہلی بات تو یہ ہے کہ : ’’ اگر نبی پاک ﷺ غیب جانتے ہوتے تو سیدہ عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے مہینہ بھر پریشان رہتے ، مشرکین ، سید المرسلین ﷺ سے ستر صحابہؓ دھوکے سے دین سیکھنے کے بہانے لے جا کر شہید کرتے اور رسول اﷲ ﷺ اپنے ساتھوں کے ہمراہ ، یہودی عورت کے گھر سے زہر آلود کھانا کھاتے ؟ ‘‘
دوسری بات : ’’ تمام انبیاء ؑ بھی غیب نہیں جانتے تھے ‘‘ ۔ اگر انبیاء ؑ کے پاس علم غیب ہوتا تو : ’’ حضرت آدم ؑ درخت کے قریب جاتے ، حضرت نوحؑ بیٹے کے لیے دعا فرماتے ، حضرت یعقوب ؑ کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہوتیں اور موسیٰ ؑ اپنی لاٹھی سے ڈر کر بھاگتے ؟ ‘‘ اگر تمام انبیاء ؑ غیب نہیں جانتے تو کیا ملنگ اور چرسی جانتے ہیں ؟ کچھ سوچو مسلمانو !
تیسری بات آپ نے کہا ہے کہ : ’’ اگر آقائے نامدار ﷺ غیب نہ جانتے ہوتے تو قبر و قیامت کے بارے میں کیسے بتاتے ، جنت و جہنم کا حال کیسے سناتے، فتنہ دجال اور چھپے ہوئے خط کے متعلق خبر کیسے دے پاتے ؟ ‘‘ ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ کیا نبی پاک ﷺ پر وحی اترتی تھی ؟ ‘‘
’’ سرکار دو عالم ﷺ پر وحی اترتی تھی ، ضعیف آدمی نے دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ آپ ﷺ غیب جانتے تھے یا نہیں ؟ بلال نے پوچھا ۔ ‘‘
’’ جانتے تھے ! بوڑھے شخص نے جواب دیا ۔ ‘‘
بلال :
’’ اگر سید المرسلین ﷺ کو علم غیب تھا تو پھر وحی کس لیے تھی ؟ ‘‘
ضعیف آدمی نفی میں سر ہلاتے ہوئے :
’’ معلوم نہیں ! ‘‘
بلال ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے :
’’ بد قسمتی سے ! ہم نے قرآن مجید میں غور و فکر کرنے کی جگہ ہیر رانجھا کتاب کو پڑھنا دین سمجھ لیا ۔ ہم نے تلاوت سننے کی بجائے قوالیوں میں دل لگا لیا ۔ ہم نے اگر کتاب و سنت میں سوچ و بچار کیا ہوتا تو آج امت مسلمہ شرک و بدعت کی دہلیز پر نہ ہوتی ۔ ‘‘
قرآن پاک میں کتنے واضح الفاظ میں ہے کہ : ’’ اور نہ یہ ( نبی ﷺ ) اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ‘‘ ، ( النجم : ۳ تا ۴ ) ۔ اگر نبی کریم ﷺ کو غیب کا علم ہوتا تو پھر وحی کی ضرورت نہیں تھی اور اگر وحی آتی تھی تو پھر بات پہنچ جانے کے بعد غیب نہیں رہتی ۔ مثلاََ ، میرا ٹیچر ( Teacher) مجھے کہتا ہے کہ بلال آج ’’ لاہور ‘‘ ، میں بارش ہو رہی ہے ۔ میں اپنے گھر والوں کو بھی مطلع کرتا ہوں ، اس کا یہ مطلب نہیں میں غیب جانتا ہوں ۔غیب تو یہ تھا کہ : ’’ مجھے کسی نے بتایا بھی نہ ہو اور مجھے علم ہو ۔ ‘‘
چوتھی بات آپ نے کہا ہے کہ : ’’ جو حوالے تم ( یعنی عبدالرحمن ) دے رہے ہو وہ صرف شریعت کا پردہ ہے ‘‘ ۔ انکل نے تو ریفرنس دےئے ہیں ، آپ بھی کوئی شریعت کے پردے کے متعلق حوالہ دیں ؟ آپ قیامت تک بھی نہیں دیکھا سکتے ۔ قرآن و حدیث سے عداوت اچھی نہیں ۔ کتاب و سنت سے بغض ، اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ سے دشمنی کے مترادف ہے ۔
عبدالرحمن نے مسرت سے پانچ ہزار روپے ، بلال کو انعام کے طور پر دیئے اور دعا دیتے ہوئے کہا :
’’ اﷲ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت فرمائے ‘‘ ۔ آپ نے ایسا مدلل جواب دیا ہے کہ شاید ایسا میں بھی نہ دے پاتا ۔ ‘‘
( ۳ )

برادران ! توجہ فرمایئے ، اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ انبیاء و اولیاء مختار کل ، مشکل کشا اور حاجت روا ہیں ۔ رزق و اولاد دینے والے اور تقدیر بھی بدل دیتے ہیں ‘‘ ۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو مختار کل ، مشکل کشا ، حاجت روا ، رزق و اولاد دینے والا اور تقدیر بدلنے والا کہنا ایسے ہی ہے جسے کوئی رات کو دن کہہ دے ۔ کیونکہ یہ عقائد اﷲ تعالیٰ کے قرآن اور پیارے نبی ﷺ کے فرمان سے ٹکراتے ہیں ۔ اب میں یکے بعد دیگرے ان مضوعات پر روشنی ڈالتا ہوں ۔
اﷲ کے سوا کوئی مختار کل نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے پیغبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اﷲ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ‘‘ ، ( آل عمران : ۱۲۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اﷲ انہیں ہر گز نہ بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے اﷲ سے اور اس کے رسول ﷺ سے کفر کیا ہے ۔ ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا ‘‘ ، ( التوبہ : ۸۰ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے ‘‘ ، ( یوسف : ۱۰۳ ) ۔ پانچویں مقام پر ہے : ’’ اور تم جن لوگوں کی اﷲ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ( یعنی پکارتے ) ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۹۷ ) ۔ مزید پڑھیئے : ’’ (البقرۃ : ۲۷۲ ) ، ( المائدہ : ۴۰ تا ۴۱ ) ، ( یونس : ۱۵ تا ۱۶ ) ، ( یونس : ۴۹ ) ، ( الحج : ۷۳ تا ۷۴ ) ، ( الرعد : ۳۸ ) ، ( بنی اسرائیل : ۵۶ تا ۵۷ ) ، ( الکہف : ۶ ) ، ( النجم : ۵۸ ) اور ( الزمر : ۱۹ ) ‘‘ ۔
جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اﷲ ﷺ ان کے پاس آئے ، ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے ۔ نبی کرئم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ چچا ! آپ صرف کلمہ لا الہ الا اﷲ، پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اﷲ کی بار گاہ میں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس پر ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ نبی کریم ﷺ بار بار ان سے یہی کہتے رہے ( کہ آپ صرف کلمہ پڑھ لیں ) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے رہے ۔ آخر ابو طالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں ۔ انہوں نے ’’ لا الہ الا اﷲ‘‘ ، پڑھنے سے انکار کر دیا ‘‘ ۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ اﷲ کی قسم ! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تا آنکہ (Unless) مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ‘‘ ۔پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ’’ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ‘‘ ، نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔اور خاص ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم ﷺ سے کہا گیا : ’’ انک لا تھدی من احببت و لکن اﷲ یھدی من یشاء ‘‘ ، کہ جس کو آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے ، ( بخاری : ۴۷۷۲ ) ۔
( ۴ )

مشکل کشا و حاجت روا صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا مالک اﷲ ہی ہے اور اﷲ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) ۔ اور فرمایا : ’’ اور اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو مت پکارو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے ۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ اور اگر تم کو اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں ‘‘ ، ( یونس : ۱۰۶ تا ۱۰۷ ) ۔ ایک اور جگہ فرمایا : ’’ اسی ( اﷲ تعالیٰ ) کو پکارنا حق ہے ۔ جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی پکار کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں ، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۴ ) ۔ مزید فرمایا : ’’ آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار کون ہے ؟ کہہ دیجیے اﷲ ۔ کہہ دیجئے ! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خور اپنی جان کے بھی بھلے ، برے کاا ختیار نہیں رکھتے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۶ ) ۔
تمہارا مطلب ہے کہ : ’’ مولا علی مشکل کشا ، مشکل کشا نہیں ہیں؟ ‘‘ ، ضعیف آدمی نے تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
اس کی کیا دلیل ہے کہ : ’’ حضرت علیؓ ، مشکل کشا ہیں ۔ ‘‘
بوڑھے شخص نے غصے سے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا :
’’ پاگل ہے کہ نہیں ، تمہارے دماغ کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ( Software Update) ہونے والاہے ! تمہیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے باپ دادا نے کیا سبق دیا ہے ؟ ‘‘ ، یہ تو اکثر لوگ بھی کہتے ہیں کہ : ’’ مولا علیؓ ، مشکل کشا ہیں۔ ‘‘
عبدالرحمن بڑے سنجیدہ انداز میں :
’’ آباؤ اجداد کے اقوال کو قرآن و حدیث پر پیش کرو ، اگر مترادف ہو مان لو اور اگر متضاد ہو تو چھوڑ دو ‘‘ ۔ ’’ مشرک کا ہر دور میں ہی یہی جواب رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا ایسے کرتے تھے اور ہم ان کی پیروی کریں گے ‘‘ ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ، کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں ‘‘ ، ( المائدہ : ۱۰۴ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اﷲ ہی کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں ، پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۷۰ ) ۔
آپ نے کہا کہ : ’’ یہ تو اکثر لوگ بھی کہتے ہیں کہ مولا علیؓ ، مشکل کشا ہیں ‘‘ ۔ اکثریت کے کہنے سے کوئی چیز دین نہیں بن جاتی ۔ تعداد حق کو ماپنے ( Measuring) کی کسوٹی نہیں ہے ۔ مثلا : ’’ دنیا بھر میں سب سے زیادہ عیسائی ہیں ۔ کیا مسیح حق پر ہیں ؟ سود خور بے شمار ہیں ۔ کیا وہ درست ہیں ؟ ‘‘
اکثریت کے متعلق اﷲ تعالیٰ کے قرآن سے پوچھ لیتے ہیں ، الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اﷲ کی راہ سے بے راہ کر دیں وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ‘‘ ، ( الانعام : ۱۱۶ ) ۔ الرحیم فرماتے ہیں : ’’ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ اگلوں کا انجام کیا ہوا ، جن میں اکثر لوگ مشرک تھے ‘‘ ، ( الروم : ۴۲ ) ۔ الخالق مزید فرماتے ہیں : ’’ ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کے لیے ہر طرح سے تمام مثالیں بیان کر دی ہیں ، مگر اکثر لوگ انکار سے باز نہیں آتے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۸۹ ) ۔
باپ دادا کی بات اگر اﷲ کی نازل کردہ سند کے مطابق ہو تو ہم تسلیم کر لیں گے ورنہ کسی قیمت پر بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ کر دیا ہے کہ : ’’ اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لیے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ، فرمانروائی صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی ہے ، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو ، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( یوسف : ۴۰ ) ۔ ’’ اگر حضرت علیؓ ، مشکل کشا ہیں تو پھر اپنے پیارے بیٹے حضرت حسینؓ کی مشکل حل کیوں نہیں کی ؟ ‘‘
کافی ہے اﷲ سب کی حاجت روائی کے لیے نبی پیغبر امام ، ولی فقط رہنمائی کے لیے
پڑھتے ہو نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین پھرتے ہو پھر بھی در بدر مشکل کشائی کے لیے
( ۵ )

رزق و اولاد دینے اور تقدیر بدلنے والا اﷲ کے علاوہ کوئی نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ کہہ دیجئے ! کہ میرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کر دیتا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( سبا : ۳۶ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو ، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں ۔ یقیناًان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۳۱ ) ۔
بد قسمتی سے ہم تک قوالیوں کے ذریعے پیغام پہنچایا جا رہا ہے کہ انبیاء ؑ اور اولیاء ؒ رازق ہیں ۔ مثلاََ قوالی ہے کہ : ’’ میں سنی عقیدت والا ہوں ، اے تو کیوں مجھ سے جلتا ہے ۔ اک میں کیا سارا زمانہ بھی ، میرے خواجہ کے در پے پلتا ہے ۔ یہاں خواجہ کا سکہ چلتا ہے ، خواجہ کا سکہ چلتا ہے ‘‘ ۔ جبکہ الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور وہ ( مشرک ) اﷲ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں ‘‘ ، ( النحل : ۷۳ ) ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ جس وقت خواجہ نہیں تھا اس وقت سارا زمانہ کس کا دیا کھاتا تھا ؟ ‘‘
لوگ غیراﷲ سے اولادمانگتے ہیں ، مثلاََ : ’’ بابا شاہ جمال پتر دے رتا لال‘‘ ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ۔ یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے ، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے ‘‘ ، ( الشوری : ۴۹ تا ۵۰ ) ۔
جن کو اﷲ اولاد دے پھر وہ دوسروں کو اﷲ کا شریک کرے ، ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ اﷲ پاک ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر راحت حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا ۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی ، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں میاں بیوی اﷲ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ۔ سو جب اﷲ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اﷲ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اﷲ کے شریک قرار دینے لگے ، سو اﷲ پاک ہے ان کے شرک سے ۔ کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں ۔ اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے ۔ اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو ۔ واقعی تم اﷲ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو ۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں ، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں ، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے ! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو ، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔یقیناًمیرا مدد گار اﷲ تعالیٰ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ اور تم جن لوگوں کو اﷲ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۹ تا ۱۹۸ ) ۔
کہا جاتا ہے کہ : ’’ تقدیر بدلنے والے دا ہے وچ لاہور دے دیرا ‘‘ ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) کہہ دیجئے کہ تمہارے لیے اﷲ کی طرف سے کسی چیز کا بھی احتیار کون رکھتا ہے ؟ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو ، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خوب با خبر ہے ‘‘ ، ( الفتح : ۱۱ ) ۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں ایک دن میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ( سوار ) تھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اے لڑکے میں تجھے چند کلمے سکھاتا ہوں ( جو یہ ہیں ) اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر اﷲ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا ، اﷲ تعالیٰ کو یاد کر تو ، تو اسے اپنے ساتھ پائے گا ، جب سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے سوال کر ، جب مدد مانگنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے مانگ ، اور اچھی طرح جان لے کہ اگر سارے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ، قلم ( تقدیر لکھنے والے ) اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے جن میں تقدیر لکھی گئی ہے خشک ہو چکے ہیں ‘‘ ، ( ترمذی ) ، ( کتاب التوحید ، ص : ۱۳۴ ) ۔ میں یہاں پر وضاحت کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ۔۔۔ پتر جی ( Son) ! اب تمہاری چالاکی نہیں چلے گی ، ضعیف آدمی جوش سے بولا ۔
’’ کیسی چالاکی بابا جی ؟ ‘‘ ، عبدالرحمن نے پوچھا ۔
بوڑھا شخص :
سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ : ’’ دعاء سے تقدیر بدلتی ہے ‘‘ ، مگر تم کہہ رہے ہو قلم اٹھا لئے گئے ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :
’’ آپ نے مجھے بات مکمل کرنے ہی نہیں دی ، میں وضاحت تو کرنے لگا تھا ‘‘ ۔ ’’ تقدیر کی دو قسمیں ہیں پہلی تقدیر مبرم ( یعنی فیصلہ کن ) یہ کسی صورت میں نہیں بدلتی ، دوسری تقدیر معلّق ، یہ دعا ء کرنے سے بدل جاتی ہے ، اور اس کے بارے میں بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں لکھا جا چکا ہے فلاں شخص کی فلاں تقدیر فلاں دعاء کرنے سے بدل جائے گی ، تقدیر معلّق کے بارے ہی میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ : تقدیر نہیں بدلتی مگر دعاء سے ‘‘ ، ( کتاب التوحید ، ص : ۱۳۴ ) ۔
(جاری ہے )
 
Top