صفات میں شرک
کائنات کا حقیقی بادشاہ ، عالم الغیب ، مختار کل ،مشکل کشا و حاجت روا، زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ، ہر وقت سب کو دیکھنے اور سننے والا ، دلوں میں اٹھنے والے خیالوں کو جاننے والا ، بھلائیاں عنایت کرنے والا ، ہدایت دینے اور دلوں کو پھیرنے والا ، رزق میں تنگی یا فراخی کرنے والا ، اولاد دینے یا نہ دینے والا ، شفا بخشنے والا ، حقیقی کارساز ، اعمال صالح کرنے کی توفیق عطا کرنے والا ، نفع و نقصان اور تقدیر کا مالک ، توبہ قبول اور نگہبانی کرنے والا ، غالب و طاقتور ، عیوب و نقائص سے پاک ، ہمیشہ زندہ رہنے والا ، جو کسی کی اجازت کا محتاج نہیں، مصائب و مشکلات دور کرنے والا ، زندگی اور موت دینے والا ’’ صرف اﷲ تعالیٰ ہے ‘‘ ۔ کتاب و سنت سے ثابت تمام صفات میں اﷲ پاک کو اکیلا اور بے مثال نہ ماننا اور غیروں میں ان صفات کو سمجھنا ’’ شرک فی الصفات ‘‘ ، کہلاتا ہے ۔
( ۲ )
بد قسمتی سے اﷲ کی مخلوق نے الرحمن کی صفات کا مالک اس کی مخلوق کو بنا دیا ۔ صفات میں شرک ہمارے کم علم اور بات کو عمد ہ طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات ذاتی، ہمیشہ کے لیے اور لا محدود ہیں جبکہ تمام مخلوقات کی صفات عطائی ، فانی اور محدود ہیں ۔ مثلاََ : ’’ مخلوقات کو بھی زندگی ملتی ہے لیکن موت بھی آتی ہے، جبکہ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہیں۔ علم مخلوق کے پاس بھی ہے لیکن تھوڑا ، جبکہ اﷲ پاک کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا ‘‘ ۔ عبدالرحمٰن کی بائیں سمت موجود ایک طفل ( Boy ) بولا :
’’ ہمارے امام مسجد کے پاس درس نظامی ، ترجمہ و تفسیر ، علم حدیث، فقہ ، تجوید اور متعدد ڈگریاں ہیں ۔ لوگ انہیں علامہ ،مفتی، الشیخ ، قاری اور حافظ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ وہ تو کہتے ہیں کہ : ’’ انبیاء ، اولیاء اور شہد، غیب دان ، مختار کل ، مشکل کشا ، حاجت روا ، غریب نواز ، داتا،غوث ، اولاد دینے والے ، تقدیر بدلنے والے ، دستگیراور گنج بخش ہیں ‘‘ ۔ آپ ! کہہ رہے ہیں کہ : ’’ یہ اﷲ کی صفات ہیں ، اگر کوئی شخص ان میں کسی کو ساجھی بناتا ہے تو وہ مشرک ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمن ، تبسم کرتے ہوئے :
’’ غمگین ہونے کی ضرروت نہیں ۔ ہم ، ان کی بات کا قرآن و حدیث کی کسوٹی (Scale ) سے موازنہ کرلیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سا منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے ۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ‘‘ ، ( الانعام : ۵۰ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان سب نے کہا اے اﷲ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۳۲ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ؟ ‘‘ ، ( النمل : ۶۵ ) ۔
قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات سے یہ واضح ہے کہ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ (البقرۃ : ۳۰ ) ، ( النساء : ۱۱۳ ) ، ( المائدۃ : ۱۰۹ ) ، ( المائدۃ : ۱۱۶) ، ( الانعام : ۵۹) ، ( الاعراف : ۲۲ ) ، ( الاعراف : ۱۸۷ ) ، ( التوبۃ : ۱۰۱ ) ، ( یونس : ۲۰ ) ، ( ھود : ۳۱ ) ، ( ھود : ۴۶ تا ۴۷ ) ، ( ھود : ۴۹ ) ، ( ھود :۱۲۳ ) ، ( ابراہیم : ۹ ) ، ( الحجر : ۵۳ تا ۵۵ ) ، (النحل : ۲۰ تا ۲۱ ) ، ( الکھف : ۱۹) ، ( الکھف : ۲۳ تا ۲۶ ) ، ( مریم : ۸ ) ، ( مریم : ۲۰ ) ، ( الانبیاء : ۱۰۹ ) ، ( النمل : ۱۰) ، ( النمل : ۲۰ تا ۲۲ ) ، ( لقمان : ۳۴ ) ، ( الاحزاب : ۶۳ ) ، ( ص : ۲۱ تا ۲۲ ) ( الاحقاف : ۹ ) ، ( الجن : ۲۵ تا ۲۶ )اور ( الملک : ۲۵ تا ۲۶ ) ۔ ‘‘
عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ : ’’ جو شخص کہے کہ نبی کریم ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ جھوٹا ہے ‘‘ ۔ اس کے لیے انہوں نے آیت : ’’ و ما تدری نفس ما ذا تکسب غدا یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا ، کی تلاوت فرمائی ‘‘ ( بخاری : ۴۸۵۵ ) ۔ ام العلاء انصاریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ واﷲ ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔ حالانکہ میں اﷲ کا رسول ہوں ‘‘ ، ( بخاری : ۱۲۴۳ ) ۔ ربیع بنت معوذ ؓ سے روایت ہے کہ : ’’ میری شادی کی صبح رسول اﷲ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت دو ( کم سن ) بچیاں میرے پاس گیت گا رہی تھیں اور میرے آباء کا تذکرہ کر رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے اور گانے گانے میں وہ یہ بھی گانے لگیں ’’ اور ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل ( آئندہ ) کی بات جانتے ہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ بات مت کہو اس لئے کہ کل کی بات اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۸۹۷ ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی نجومی یا کاہن ( غیبی خبریں دینے والے ) کے پاس جائے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اسے سچا سمجھے تو وہ ( حضرت ) محمد ﷺ پر اترے دین کا انکاری ہو گا ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : کتاب الایمان ) ۔ ضعیف شخص ، طیش میں آتے ہوئے بولا :
’’ دیکھو عبدالرحمن ! میں تمہارا منہ بڑی دیر سے دیکھ رہا ہوں ۔ تم نے تو ’’ حد ہی کر دی ہے ! ‘‘ میں نے بہت برداشت کرلیا ، اب میں تمہیں لوگوں کو گمراہ نہیں کرنے دوں گا ۔ بند کرو یہ ڈرامہ بازی ! تم نے کیا سمجھا ہے ، یہاں سب کے سب جاہل ہی ہیں ؟ میں دلیل سے واضح کرتا ہوں کہ : ’’ سرکار دو عالم ﷺ غیب جانتے تھے ‘‘ ۔ اگر آقائے نامدار ﷺ غیب نہ جانتے ہوتے : ’’ تو قیامت کی نشانیاں کیسے بتاتے ، جنت و جہنم کے واقعات کیسے سناتے، قبر کے حالات سے کیسے منکشف ( Unfold) فرماتے، چھپے ہوئے خط کے بارے میں کیسے خبر دے پاتے اور فتنہ دجال سے کیسے آگاہ فرماتے ؟ انبیاء و اولیاء سب غیب جانتے ہیں جو تم حوالے دیتے ہو یہ تو صرف شریعت کا پردہ ہے ۔ میرے ذہن سے نکل گئیں ہیں ، میرے پاس بھی بہت زیادہ دلیلیں ہیں کہ : ’’ حضور اقدس ﷺ غیب جانتے تھے ۔ ‘‘
بلال جلدی اور جذبے سے بولا :
’’ انکل ! میں جواب دوں ؟ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ ضرور ! ‘‘
بلال :
پہلی بات تو یہ ہے کہ : ’’ اگر نبی پاک ﷺ غیب جانتے ہوتے تو سیدہ عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے مہینہ بھر پریشان رہتے ، مشرکین ، سید المرسلین ﷺ سے ستر صحابہؓ دھوکے سے دین سیکھنے کے بہانے لے جا کر شہید کرتے اور رسول اﷲ ﷺ اپنے ساتھوں کے ہمراہ ، یہودی عورت کے گھر سے زہر آلود کھانا کھاتے ؟ ‘‘
دوسری بات : ’’ تمام انبیاء ؑ بھی غیب نہیں جانتے تھے ‘‘ ۔ اگر انبیاء ؑ کے پاس علم غیب ہوتا تو : ’’ حضرت آدم ؑ درخت کے قریب جاتے ، حضرت نوحؑ بیٹے کے لیے دعا فرماتے ، حضرت یعقوب ؑ کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہوتیں اور موسیٰ ؑ اپنی لاٹھی سے ڈر کر بھاگتے ؟ ‘‘ اگر تمام انبیاء ؑ غیب نہیں جانتے تو کیا ملنگ اور چرسی جانتے ہیں ؟ کچھ سوچو مسلمانو !
تیسری بات آپ نے کہا ہے کہ : ’’ اگر آقائے نامدار ﷺ غیب نہ جانتے ہوتے تو قبر و قیامت کے بارے میں کیسے بتاتے ، جنت و جہنم کا حال کیسے سناتے، فتنہ دجال اور چھپے ہوئے خط کے متعلق خبر کیسے دے پاتے ؟ ‘‘ ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ کیا نبی پاک ﷺ پر وحی اترتی تھی ؟ ‘‘
’’ سرکار دو عالم ﷺ پر وحی اترتی تھی ، ضعیف آدمی نے دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ آپ ﷺ غیب جانتے تھے یا نہیں ؟ بلال نے پوچھا ۔ ‘‘
’’ جانتے تھے ! بوڑھے شخص نے جواب دیا ۔ ‘‘
بلال :
’’ اگر سید المرسلین ﷺ کو علم غیب تھا تو پھر وحی کس لیے تھی ؟ ‘‘
ضعیف آدمی نفی میں سر ہلاتے ہوئے :
’’ معلوم نہیں ! ‘‘
بلال ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے :
’’ بد قسمتی سے ! ہم نے قرآن مجید میں غور و فکر کرنے کی جگہ ہیر رانجھا کتاب کو پڑھنا دین سمجھ لیا ۔ ہم نے تلاوت سننے کی بجائے قوالیوں میں دل لگا لیا ۔ ہم نے اگر کتاب و سنت میں سوچ و بچار کیا ہوتا تو آج امت مسلمہ شرک و بدعت کی دہلیز پر نہ ہوتی ۔ ‘‘
قرآن پاک میں کتنے واضح الفاظ میں ہے کہ : ’’ اور نہ یہ ( نبی ﷺ ) اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ‘‘ ، ( النجم : ۳ تا ۴ ) ۔ اگر نبی کریم ﷺ کو غیب کا علم ہوتا تو پھر وحی کی ضرورت نہیں تھی اور اگر وحی آتی تھی تو پھر بات پہنچ جانے کے بعد غیب نہیں رہتی ۔ مثلاََ ، میرا ٹیچر ( Teacher) مجھے کہتا ہے کہ بلال آج ’’ لاہور ‘‘ ، میں بارش ہو رہی ہے ۔ میں اپنے گھر والوں کو بھی مطلع کرتا ہوں ، اس کا یہ مطلب نہیں میں غیب جانتا ہوں ۔غیب تو یہ تھا کہ : ’’ مجھے کسی نے بتایا بھی نہ ہو اور مجھے علم ہو ۔ ‘‘
چوتھی بات آپ نے کہا ہے کہ : ’’ جو حوالے تم ( یعنی عبدالرحمن ) دے رہے ہو وہ صرف شریعت کا پردہ ہے ‘‘ ۔ انکل نے تو ریفرنس دےئے ہیں ، آپ بھی کوئی شریعت کے پردے کے متعلق حوالہ دیں ؟ آپ قیامت تک بھی نہیں دیکھا سکتے ۔ قرآن و حدیث سے عداوت اچھی نہیں ۔ کتاب و سنت سے بغض ، اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ سے دشمنی کے مترادف ہے ۔
عبدالرحمن نے مسرت سے پانچ ہزار روپے ، بلال کو انعام کے طور پر دیئے اور دعا دیتے ہوئے کہا :
’’ اﷲ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت فرمائے ‘‘ ۔ آپ نے ایسا مدلل جواب دیا ہے کہ شاید ایسا میں بھی نہ دے پاتا ۔ ‘‘
( ۳ )
برادران ! توجہ فرمایئے ، اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ انبیاء و اولیاء مختار کل ، مشکل کشا اور حاجت روا ہیں ۔ رزق و اولاد دینے والے اور تقدیر بھی بدل دیتے ہیں ‘‘ ۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو مختار کل ، مشکل کشا ، حاجت روا ، رزق و اولاد دینے والا اور تقدیر بدلنے والا کہنا ایسے ہی ہے جسے کوئی رات کو دن کہہ دے ۔ کیونکہ یہ عقائد اﷲ تعالیٰ کے قرآن اور پیارے نبی ﷺ کے فرمان سے ٹکراتے ہیں ۔ اب میں یکے بعد دیگرے ان مضوعات پر روشنی ڈالتا ہوں ۔
اﷲ کے سوا کوئی مختار کل نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے پیغبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اﷲ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ‘‘ ، ( آل عمران : ۱۲۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اﷲ انہیں ہر گز نہ بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے اﷲ سے اور اس کے رسول ﷺ سے کفر کیا ہے ۔ ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا ‘‘ ، ( التوبہ : ۸۰ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے ‘‘ ، ( یوسف : ۱۰۳ ) ۔ پانچویں مقام پر ہے : ’’ اور تم جن لوگوں کی اﷲ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ( یعنی پکارتے ) ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۹۷ ) ۔ مزید پڑھیئے : ’’ (البقرۃ : ۲۷۲ ) ، ( المائدہ : ۴۰ تا ۴۱ ) ، ( یونس : ۱۵ تا ۱۶ ) ، ( یونس : ۴۹ ) ، ( الحج : ۷۳ تا ۷۴ ) ، ( الرعد : ۳۸ ) ، ( بنی اسرائیل : ۵۶ تا ۵۷ ) ، ( الکہف : ۶ ) ، ( النجم : ۵۸ ) اور ( الزمر : ۱۹ ) ‘‘ ۔
جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اﷲ ﷺ ان کے پاس آئے ، ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے ۔ نبی کرئم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ چچا ! آپ صرف کلمہ لا الہ الا اﷲ، پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اﷲ کی بار گاہ میں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس پر ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ نبی کریم ﷺ بار بار ان سے یہی کہتے رہے ( کہ آپ صرف کلمہ پڑھ لیں ) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے رہے ۔ آخر ابو طالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں ۔ انہوں نے ’’ لا الہ الا اﷲ‘‘ ، پڑھنے سے انکار کر دیا ‘‘ ۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ اﷲ کی قسم ! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تا آنکہ (Unless) مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ‘‘ ۔پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ’’ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ‘‘ ، نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔اور خاص ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم ﷺ سے کہا گیا : ’’ انک لا تھدی من احببت و لکن اﷲ یھدی من یشاء ‘‘ ، کہ جس کو آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے ، ( بخاری : ۴۷۷۲ ) ۔
( ۴ )
مشکل کشا و حاجت روا صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا مالک اﷲ ہی ہے اور اﷲ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) ۔ اور فرمایا : ’’ اور اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو مت پکارو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے ۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ اور اگر تم کو اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں ‘‘ ، ( یونس : ۱۰۶ تا ۱۰۷ ) ۔ ایک اور جگہ فرمایا : ’’ اسی ( اﷲ تعالیٰ ) کو پکارنا حق ہے ۔ جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی پکار کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں ، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۴ ) ۔ مزید فرمایا : ’’ آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار کون ہے ؟ کہہ دیجیے اﷲ ۔ کہہ دیجئے ! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خور اپنی جان کے بھی بھلے ، برے کاا ختیار نہیں رکھتے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۶ ) ۔
تمہارا مطلب ہے کہ : ’’ مولا علی مشکل کشا ، مشکل کشا نہیں ہیں؟ ‘‘ ، ضعیف آدمی نے تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
اس کی کیا دلیل ہے کہ : ’’ حضرت علیؓ ، مشکل کشا ہیں ۔ ‘‘
بوڑھے شخص نے غصے سے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا :
’’ پاگل ہے کہ نہیں ، تمہارے دماغ کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ( Software Update) ہونے والاہے ! تمہیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے باپ دادا نے کیا سبق دیا ہے ؟ ‘‘ ، یہ تو اکثر لوگ بھی کہتے ہیں کہ : ’’ مولا علیؓ ، مشکل کشا ہیں۔ ‘‘
عبدالرحمن بڑے سنجیدہ انداز میں :
’’ آباؤ اجداد کے اقوال کو قرآن و حدیث پر پیش کرو ، اگر مترادف ہو مان لو اور اگر متضاد ہو تو چھوڑ دو ‘‘ ۔ ’’ مشرک کا ہر دور میں ہی یہی جواب رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا ایسے کرتے تھے اور ہم ان کی پیروی کریں گے ‘‘ ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ، کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں ‘‘ ، ( المائدہ : ۱۰۴ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اﷲ ہی کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں ، پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۷۰ ) ۔
آپ نے کہا کہ : ’’ یہ تو اکثر لوگ بھی کہتے ہیں کہ مولا علیؓ ، مشکل کشا ہیں ‘‘ ۔ اکثریت کے کہنے سے کوئی چیز دین نہیں بن جاتی ۔ تعداد حق کو ماپنے ( Measuring) کی کسوٹی نہیں ہے ۔ مثلا : ’’ دنیا بھر میں سب سے زیادہ عیسائی ہیں ۔ کیا مسیح حق پر ہیں ؟ سود خور بے شمار ہیں ۔ کیا وہ درست ہیں ؟ ‘‘
اکثریت کے متعلق اﷲ تعالیٰ کے قرآن سے پوچھ لیتے ہیں ، الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اﷲ کی راہ سے بے راہ کر دیں وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ‘‘ ، ( الانعام : ۱۱۶ ) ۔ الرحیم فرماتے ہیں : ’’ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ اگلوں کا انجام کیا ہوا ، جن میں اکثر لوگ مشرک تھے ‘‘ ، ( الروم : ۴۲ ) ۔ الخالق مزید فرماتے ہیں : ’’ ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کے لیے ہر طرح سے تمام مثالیں بیان کر دی ہیں ، مگر اکثر لوگ انکار سے باز نہیں آتے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۸۹ ) ۔
باپ دادا کی بات اگر اﷲ کی نازل کردہ سند کے مطابق ہو تو ہم تسلیم کر لیں گے ورنہ کسی قیمت پر بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ کر دیا ہے کہ : ’’ اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لیے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ، فرمانروائی صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی ہے ، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو ، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( یوسف : ۴۰ ) ۔ ’’ اگر حضرت علیؓ ، مشکل کشا ہیں تو پھر اپنے پیارے بیٹے حضرت حسینؓ کی مشکل حل کیوں نہیں کی ؟ ‘‘
کافی ہے اﷲ سب کی حاجت روائی کے لیے نبی پیغبر امام ، ولی فقط رہنمائی کے لیے
پڑھتے ہو نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین پھرتے ہو پھر بھی در بدر مشکل کشائی کے لیے
( ۵ )
رزق و اولاد دینے اور تقدیر بدلنے والا اﷲ کے علاوہ کوئی نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ کہہ دیجئے ! کہ میرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کر دیتا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( سبا : ۳۶ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو ، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں ۔ یقیناًان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۳۱ ) ۔
بد قسمتی سے ہم تک قوالیوں کے ذریعے پیغام پہنچایا جا رہا ہے کہ انبیاء ؑ اور اولیاء ؒ رازق ہیں ۔ مثلاََ قوالی ہے کہ : ’’ میں سنی عقیدت والا ہوں ، اے تو کیوں مجھ سے جلتا ہے ۔ اک میں کیا سارا زمانہ بھی ، میرے خواجہ کے در پے پلتا ہے ۔ یہاں خواجہ کا سکہ چلتا ہے ، خواجہ کا سکہ چلتا ہے ‘‘ ۔ جبکہ الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور وہ ( مشرک ) اﷲ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں ‘‘ ، ( النحل : ۷۳ ) ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ جس وقت خواجہ نہیں تھا اس وقت سارا زمانہ کس کا دیا کھاتا تھا ؟ ‘‘
لوگ غیراﷲ سے اولادمانگتے ہیں ، مثلاََ : ’’ بابا شاہ جمال پتر دے رتا لال‘‘ ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ۔ یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے ، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے ‘‘ ، ( الشوری : ۴۹ تا ۵۰ ) ۔
جن کو اﷲ اولاد دے پھر وہ دوسروں کو اﷲ کا شریک کرے ، ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ اﷲ پاک ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر راحت حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا ۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی ، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں میاں بیوی اﷲ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ۔ سو جب اﷲ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اﷲ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اﷲ کے شریک قرار دینے لگے ، سو اﷲ پاک ہے ان کے شرک سے ۔ کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں ۔ اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے ۔ اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو ۔ واقعی تم اﷲ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو ۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں ، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں ، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے ! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو ، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔یقیناًمیرا مدد گار اﷲ تعالیٰ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ اور تم جن لوگوں کو اﷲ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۹ تا ۱۹۸ ) ۔
کہا جاتا ہے کہ : ’’ تقدیر بدلنے والے دا ہے وچ لاہور دے دیرا ‘‘ ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) کہہ دیجئے کہ تمہارے لیے اﷲ کی طرف سے کسی چیز کا بھی احتیار کون رکھتا ہے ؟ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو ، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خوب با خبر ہے ‘‘ ، ( الفتح : ۱۱ ) ۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں ایک دن میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ( سوار ) تھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اے لڑکے میں تجھے چند کلمے سکھاتا ہوں ( جو یہ ہیں ) اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر اﷲ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا ، اﷲ تعالیٰ کو یاد کر تو ، تو اسے اپنے ساتھ پائے گا ، جب سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے سوال کر ، جب مدد مانگنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے مانگ ، اور اچھی طرح جان لے کہ اگر سارے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ، قلم ( تقدیر لکھنے والے ) اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے جن میں تقدیر لکھی گئی ہے خشک ہو چکے ہیں ‘‘ ، ( ترمذی ) ، ( کتاب التوحید ، ص : ۱۳۴ ) ۔ میں یہاں پر وضاحت کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ۔۔۔ پتر جی ( Son) ! اب تمہاری چالاکی نہیں چلے گی ، ضعیف آدمی جوش سے بولا ۔
’’ کیسی چالاکی بابا جی ؟ ‘‘ ، عبدالرحمن نے پوچھا ۔
بوڑھا شخص :
سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ : ’’ دعاء سے تقدیر بدلتی ہے ‘‘ ، مگر تم کہہ رہے ہو قلم اٹھا لئے گئے ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :
’’ آپ نے مجھے بات مکمل کرنے ہی نہیں دی ، میں وضاحت تو کرنے لگا تھا ‘‘ ۔ ’’ تقدیر کی دو قسمیں ہیں پہلی تقدیر مبرم ( یعنی فیصلہ کن ) یہ کسی صورت میں نہیں بدلتی ، دوسری تقدیر معلّق ، یہ دعا ء کرنے سے بدل جاتی ہے ، اور اس کے بارے میں بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں لکھا جا چکا ہے فلاں شخص کی فلاں تقدیر فلاں دعاء کرنے سے بدل جائے گی ، تقدیر معلّق کے بارے ہی میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ : تقدیر نہیں بدلتی مگر دعاء سے ‘‘ ، ( کتاب التوحید ، ص : ۱۳۴ ) ۔
(جاری ہے )