• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرمت رسالتمآب ﷺ اور مسئلہ فلسطین کے تناظر میں منهج جہاد، دعوتی ماڈرنزم، حکام عرب، مدخلیت اور روایتی علماء

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرمت رسالتمآب ﷺ اور مسئلہ فلس طین کے تناظر میں (۱) منهج جہاد (۲) دعوتی ماڈرنزم (۳) حکام عرب (۴) مدخلیت اور (۵) روایتی علماء

تحریر : حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی [قسط-۱]

پہلے چند شگوفے سُنیے
.. ”عرب حکمران کیا کریں؟ زمینی حقائق موافق نہیں“، ”پہلے سب مسلمان ایمان مضبوط کریں پھر دفاع مسجد اقصی کے بارے میں سوچیں“، ”مسجد اقصی جلتی رہے، مسلمان مرتے رہیں اور عرب حکمران ٹس سے مس نہ ہوں تو بھی اُنکی سمع و طاعت ضروری ہے“، ”یہود سے قتال کی بات رد عمل کی سوچ ہے“ وغیرہ وغیرہ..

اور یہ کہنے والوں میں روایتی علماء بشمول بعض متخرجین مدینیہ یونیورسٹی، مغرب سے مرعوب داعی، دعوتی ادارے اور کثیر عوام شامل ہیں جو عموما اول الذکر سے سوچ لیتے ہیں یا اُنکے جہل مسئلہ کو دین سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سوچ اور اسکا ابلاغ ایک بہت خطرناک فتنہ ہے کیونکہ حرمات و شعائر دینیہ کا تحفظ اور انکے دفاع کے لیے جہاد ایک اصولی واعتقادی مسئلہ ہے جس میں انحراف ایک مسلمان کے دین کی بنیاد کو منہدم کرسکتا ہے۔ اور اس میں بغیر تحقیق و تثبت بولنے والے علماء یا کسی مدرسے میں دو چار سال لگانے والے مُفتیوں اور جگہ جگہ podcast اور talks کے نام پر فری راہنمائی بانٹنے والوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ جہاں گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں کے حساب سے حالات کی سنگینی تبدیل ہورہی ہو اور اُمت کا خُون بہ رہا ہو وہاں علم کے بغیر بات برائے بات یا کمپنی کی مشہوری کرنے والوں کو رب ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرنا چاہیے؟؟

عرب حکمرانوں کا ذکر خصوصیت سے اس لیے کیا کہ اُنکو بعض حضرات پاک و پوتر ثابت کرنے پر تُلے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ یہاں کی مقتدر قوتیں بھی برابر کی مُجرم ہیں اور ناصحین انہیں حق سُناتے ہوئے عذاب الہی سے ڈراتے رہتے ہیں لیکن پاکستانی حکمرانوں نے ان عربوں کی طرح کبھی خلیفة المسلمين ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ نہ ہی بعض عربوں کی طرح شرعی سمع واطاعت کے نام پر احکامات الہیہ سے کھلواڑ کیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہتے ہیں اور اسی کے اصولوں کے مطابق چلنے کا دعوی کرتے ہیں۔ لہذا اگر ظُلم کرتے ہیں تو گالیاں بھی کھاتے ہیں کیونکہ جمہوریت کا حُسن ہے۔ اور اگر یہاں اسلام کی بجائے الحاد فروغ پارہا ہے تو یہ بھی جمہوریت اور اس کی معاشی فرع کیپیٹلزم کا ہی "حسن" ہے کیونکہ جمہوریت کا اسلامی نظام حکومت یا نظام عدل سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ جبر کے باوجود پاکستانی جمہوری نظام میں جتنی آزادی اظہار رائے ہے اور حق گوئی کا امکان ہے ان "خلافت اسلامیہ" والے عرب ملکوں میں اسکا عُشر عشیر بھی نہیں۔ پاکستانی جمہوری حکمرانوں کو "خلیفة المسلمين" کہنے کا فتنہ حال ہی میں ایک عرب مُلک سے درآمد ہوا ہے۔ یہ مدخلی حضرات ہیں جن کی فکر کو پہلے پہل یہاں کُچھ دوغلی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جس پر اہل علم نے رفق سے کام لیا لیکن اب یہ حرمت رسالتمآب ﷺ اور حرمات دینیہ کے تحفظ کے لیے مبارک اور وجوبی جہاد پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے تیار ہورہے ہیں۔ اور اس کے لیے حکمرانوں کو کُچھ ایسا تقدس دینے کی کوشش کررہے ہیں جو صرف اللہ کے رسول ﷺ کو حاصل ہے۔ ان کی اس حرکت پر ایوان میں بیٹھے جمہوری حکمران بھی ہنستے ہونگے جو حزب اختلاف کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن مدخلیوں کو اس کی پروا نہیں، وہ منھج سلف کے نام پر شہوات دُنیا کی خوب تسکین کررہے ہیں۔ ہر امر بالمعروف یا ججهاد اسلامی کے قائل و فاعل کو خروجی اور خارجی جیسے القاب دینا ان کا ہتھیار ہے۔

کوئی شک نہیں کہ جہاد کے نام پر فساد اور چندہ خوری بھی کی جاتی رہی، کلمہ گو مسلمانوں کو قتل بھی کیا جاتا رہا جس کے تصور سے روح کانپتی ہے، لیکن منافقین کا آلہ کار بن کر جہاد شرعی کو معطل کردینا اور کفار یہود و ہنود کو حرمت رسالتمآب ﷺ یا اُمت مسلمہ کی عصمت و آبرو کو پامال کرنے اور زمین پر بدترین فتنہ وفساد بپا کرنے کی راہ دینا کونسا دین ہے؟

حقیقت ہے کہ ان لوگوں کو منھج جہاد کا علم ہے نہ اُمت کی سطح پر سوچنے کی تربیت۔ پہلے تقوی اختیار کرو ، مکی دور ہے وغیرہ ہر مسئلے کا حل دو گولی ڈسپرین تجویز کرنے والی اس طرح کی ہر سوچ کا جہل واضح کرنا اب اہل علم پر واجب ہے۔ اور جو خاموش ہیں یا دھیمے سُروں میں ان کی حمایت کرنے والے ہیں وہ بھی شریک جُرم ہیں۔ ہم ان شاء اللہ جہاد خصوصاجہا د فلس طین کے قضیے میں ان تمام شگوفوں نہ کہ دلائل کا جہل واضح کریں گے اور اُس عظیم امر الہی جسے اللہ کے رسول نے دین کی چوٹی کہا کی حقانیت کو واضح کریں گے۔

جاری ہے...
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
[قسط -2]

اسلام دین فطرت ہے۔ قران كريم کے مطابق یہ شریعت اور منھاج کا مجموعہ ہے جیسا کہ سابقہ ادیان بھی ان ہی سے مرکب تھے لیکن اسلام اکمل و اتم ہے۔ فرمان الہی ہے (فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم عَمّا جاءَكَ مِنَ الحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلنا مِنكُم شِرعَةً وَمِنهاجًا)۔ چنانچہ اسلام صرف عقائد اور حرام وحلال کی معرفت نہیں کرواتا بلکہ ان شرائع کو ایک مومن نے اپنی زندگی اور کُل دُنیا میں جاری کیسے کرنا ہے یہ بھی سکھاتا ہے اور اسے منھاج کہتے ہیں۔ منھاج کے عظیم ترین ارکان میں سے دعوت الی اللہ، امر بالمعروف والنھی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ ہیں۔ تکمیل دین کے بعد یہ تینوں اپنی جنس کے اعتبار سے ہر انسان پر شرعا واجب ہیں۔ لیکن جنس کا کونسا فرد کب اور کس پر واجب ہے اس کا شرعی حکم حالات و افراد کے اعتبار سے متعین ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی ایک کو مکی مدنی تقسیم یا حاکم وقت کی اطاعت کے نام پر اُمت میں کلیتہً معطل کردینا یا کسی ایک کو دوسرے کا متبادل سمجھ لینا جیسے ”جہاد چھوڑو صرف دعوت“ یہ شرعا اور اجماعا باطل ہے۔ مثلا اگر کسی ریاست کی طرف رسول اللہ ﷺ کی حُرمت یا حرم اسلامی پر حملہ ہوجائے تو شریعت کا مطالبہ جہاد ہے۔ اس مطالبے کو اُمت کا ہر فرد اپنی اپنی استطاعت کے مطابق وجود میں لانے کا پابند ہے۔ نہ حاکم کو رُخصت ہے نہ عامی کو۔ بلکہ اگر حاکم شرعی بھی رُکاوٹ بنے تو حق حکومت کھو بیٹھتا ہے کیونکہ وہ اللہ کی حدود کو قائم کرنے کے لیے حاکم بنا تھا نہ کہ معطل کرنے کے لیے۔ اور اگر عالم بیان حق سے گریز کرے تو عزت کی بجائے لعنت کا مستحق بنتا ہے۔ اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

نبی کریم نے کلمہ حصر کے ساتھ فرمایا کہ امام وُہی ہے جو اہل اسلام کے لیے ڈھال ہو جس کے پیچھے قتال کیا جائے اور جس کے ذریعے جان و مال کا تحفظ ممکن ہو (انما الامام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به..الحديث)

اسی لیے علامہ شوکانی فرماتے ہیں (ملاك أمر الإمامة وأعظم شروطها وأجل أركانها أن يكون قادرا على تأمين السبل وإنصاف المظلومين من الظالمين ومتمكنا من الدفع عن المسلمين إذا دهمهم أمر يخافونه كجيش كافر أو باغ فإذا كان السلطان بهذه المثابة فهو السلطان الذي أوجب الله طاعته وحرم مخالفته بل هذا الأمر هو الذي شرع الله له نصب الأئمة وجعل ذلك من أعظم مهمات الدين) [إكليل الكرامة از نواب صدیق حسن خان ]

مفہوم
: امر خلافت کی بنیاد ہی اس شرط پر ہے کہ وہ امن عام کے قیام، حمایت مظلوم اور حُرمت مسلم کے دفاع کے ساتھ ساتھ کافروں اور ظالموں کے مقابلے میں مسلمانوں کا تحفظ کرے اور جو حاکم ایسا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے صرف اُسی کی اطاعت واجب ہے۔

اسی طرح علامہ عبد الرحمان بن حسن بن الامام محمد بن عبد الوہاب فرماتے ہیں کہ (لا يكون الإمام إماما إلا بالجهاد لا أنه لا يكون جهاد إلا بإمام۔ الدرر السنیہ) یعنی “امام کا وجود جہاد کا محتاج ہے، جہاد امام کا محتاج نہیں”۔ جبکہ یہاں یہ مُفتی حضرات اُلٹی چال چل رہے ہیں۔ پھر یہ تو حدود اور عام جہاد کی بابت ہے جس میں اقدامی جہاد بھی شامل ہے یعنی جس میں دعوت، جزیہ اور قتال کے مراحل ہوتے ہیں، کہ اگر حاکم ان کے قیام کا اہل نہیں تو امامت شرعیہ کا اہل نہیں، جبکہ ہم تو فی الحال دفاعی جہاد کی بات کررہے ہیں جس کا معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔

جاری ہے...
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
[قسط-3]

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم شاہبازی

اللہ رب العزت نے ہر مخلوق کی جبلت میں ظلم وعدوان کے خلاف مدافعت رکھی ہے۔ ایک جانور بھی اپنی جان اور اولاد پر حملہ کرنے والے سے لڑجاتا ہے۔ پھر کس طرح ممکن ہے کہ نوع انسان کے شرف و فضل کے باوجود اس کی جان کو ظالم حملہ آور کے بھبھوڑنے کے لیے پیش کردیا جائے۔

قران متقین کی صفات میں کہتا ہے (والذين اذا اصابهم البغي هم ينتصرون) یعنی (وہ لوگ کہ جب اُنہیں بغاوت پہنچے بدلہ لیتے ہیں

صحیح مسلم میں حدیث ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرا مال لوٹنے کے لیے مجھ پر حملہ آور ہو تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا اُس سے قتال کرو۔ پوچھا اگر میں مرجاؤں؟ فرمایا تو تُو شہید ہے۔ پوچھا اگر وہ مارا جائے تو فرمایا وہ آگ میں ہے۔ اسی طرح کتب سنن کی صحیح احادیث میں دین، جان، مال، عزت اور خاندان کے تحفظ کے لیے قتال کرنے کا حُکم اور اس میں مرنے والے کو شہادت کی بشارت موجود ہے۔ غور کیجیے کہ یہ کسی ایک مسلمان کے جان و مال کی حرمت ہے، گرچہ وہ فاسق و فاجر ہو اور حملہ آور پانچ وقت کا نمازی، تو کیا خیال ہے کہ اگر حملہ آور قرانی اصطلاح میں روئے زمین کا بدترین جانور(شر الدواب) کافر ہو اور جس پر حملہ کیا جائے وہ حُرمت نبی پاک ہو یا مسلمانان اُمت کا ایک عظیم حصہ؟؟ اصول شریعت کہتے ہیں کہ مسلمان کافر حملہ آور کے مقابلے میں کسی صورت حُرمت و نفوس کے دفاع سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ محض ”ذاتی“ حق نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی طرف سے ”واجب و محتم“ ہے۔ کتاب و سُنت اور سیرت صحابہ سے بھی صرف اسی کا سبق ملتا ہے۔ اس کے برعکس کُچھ نہیں۔ خوب سمجھ لیجیے۔ اس سے غامدی جیسے شرارتیوں کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے جو خود کی طرح دیگر مسلمانوں کو بھی یہودی استعمار کی غلامی کا درس دیتے رہتے ہیں۔

صحیح البخاری میں عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ موجود ہے جنہوں نے مقابلے کی صورت میں کُفار کے ہاتھوں اپنا قتل تقریبا یقینی ہونے کے باوجود خُود کو اُن کے حوالے نہیں کیا بلکہ ساتھوں سمیت قتال کرتے ہوئے شہادت حاصل کی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں (ويكون قتاله دفعا للأمر عن نفسه أو عن حرمته ، وإن غلب على ظنه أنه يقتل إذا كان القتال يحصل المقصود ، وإما فعلا لما يقدر عليه من الجهاد) یعنی اگر ایسے دفاع کی صورت میں جان بچنے کی بجائے تلف ہونے کا امکان غالب ہو تب بھی صرف مقصود جہاد کے لیے کافر سے لڑنا مومن کی شان ہے کیونکہ یہ بذات خود عبادت ہے۔

یہ امام صاحب کی بصیرت ہے اور اوپر بیان کردہ احادیث مبارکہ کا مقتضی بھی۔ واضح رہے کہ حضرت عاصم بن ثابت کے اس واقعہ میں کفار ابھی حملہ آور نہیں ہوئے تھے بلکہ عہد و امان کی پیشکش کر رہے تھے۔ لیکن صحابی رسول نے اسے بھی قبول نہ کیا کیونکہ (لله العزة ولرسوله وللمؤمنين)۔ اس کے برعکس اگر کُفار حملہ آور ہوں اور مظلوم اہل ملت مدد کی دہائیاں دے رہے ہوں تو اُن کی نصرت کے لیے ہر صورت میں قتال کرنا واجب موکد اور حاکم سمیت کسی مسلمان کا اسے ترک کرنا اللہ ذوالجلال کے یقینی غضب کو دعوت دینا ہے۔ فرمان الہی ہے ﴿وما لكم لا تقاتلون في سبيل الله والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا أخرجنا من هذه القرية الظالم أهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا﴾ مفہوم: اور (اے مسلمانو ! ) ”تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے حالانکہ بعض کمزور مرد ‘ عورتیں اور بچے یہ دعا کر رہے ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں ‘ اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا دے اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا دے۔“ قران و سُنت کی ان نصوص کے بالمقابل یہ عرب خلیفے کہاں کھڑے ہیں کہ مدخلیت زدہ دن رات جن کی معصیت الہی میں بھی اطاعت کا دم بھرتے ہیں؟؟

جاری ہے...
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
[قسط-4]

قران کریم کا فیصلہ ہے کہ حرمتیں بدلہ ہیں(الحرمات قصاص)، یعنی کسی انسان کی حرمت کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اور نبی کریم کی حُرمت کے مقابلے میں تو دُنیا و مافیہا کی تمام حرمتیں کہیں کمتر و فروتر ہیں۔ کیا اس کا شرعی بدلہ میری اور آپ کی زبانی مذمت ہوسکتی ہے؟ اور یہ لکھتے ہوئے میری آنکھیں نہ جانے کیوں ڈبڈبا گئی ہیں، شاید ندامت، غم اور بے بسی کے ملے جُلے آنسو ہیں۔ تب تک رہیں گے جب تک فرانس نجسہ کی اُنہی عمارتوں پر شاتمین سولی نہیں دے دیے جاتے۔ لیکن تمام عرب ریاستوں کے یہ ”خلیفے“ چارلی ہیبڈو کے مُردار ملعونوں کا ”جنازہ“ پڑھنے فرانس پہنچ گئے تھے۔ آج جب فرانس نے میرے نبی کی عرض پر حملہ کیا تو یہ خلیفے سُن کیوں ہوگئے؟ مسجد اقصی کا فرش روز خون مسلم سے رنگین ہوتا ہے لیکن خلیفے مدہوش ہیں، کیوں؟ کیا اس مدہوشی میں ان کی اطاعت مدخلیوں کی معصیت صریحہ میں اطاعت نہیں؟ ہمیں عرب حکمرانوں سے کوئی ذاتی بغض نہیں، نہ ہی آج تک کبھی اس طرح سوشل میڈیا پر لکھنا پسند کیا، لیکن جب حرمات مقدسہ پر حملے پر ان خلیفوں کی خاموشی بلکہ یہود کی خوشنودی کو شریعت قرار دے دیا جائے تو پھر خاموش رہنا اپنے دین کا قتل کرنا ہے۔ خصوصا جب معاملہ فرد کا نہیں بلکہ اُمت کا ہو۔ فرد کا دفاع بھی کافر مقاتل سے واجب ہے، اسے فقہی اصطلاح میں ”دفع الصائل“ کہتے ہیں۔ لیکن جب نشانہ اُمت ہو تو ”دفع الصائل“ پر بطریق اولی قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے قتال دفاعی کو ایمان باللہ کے بعد سب سے اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں (والعدو الصائل الذي يفسد الدين والدنيا لا شيء أوجب بعد الإيمان من دفعه ، فلا يشترط له شرط)، یعنی ایمان باللہ کے بعد دفاع اُمت کے لیے قتال کے وجوب مرتبہ ہے۔ یہاں تک کہ فرض نمازوں سے بھی زیادہ موکد ہے۔ غزوہ خندق کے دفاعی جہاد کے موقع پر رسول اللہ نے عشاء کے وقت میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں بالترتیب ادا کیں، جس کا آپ کو شدید رنج تھا، اور معلوم ہے کہ نمازوں خصوصا عصر کی نماز کا وقت مقررہ پر ادا کرنا کتنا تاکیدی حکم ہے۔امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اسی حقیقت کو بیان کیا، فرماتے ہیں (فقتال الدفع أوسع من قتال الطلب وأعم وجوبا ولهذا يتعين على كل أحد يقم ويجاهد فيه العبد بإذن سيده وبدون إذنه والولد بدون إذن أبويه والغريم بغير إذن غريمه وهذا كجهاد المسلمين يوم أحد والخندق
ولا يشترط في هذا النوع من الجهاد أن يكون العدو ضعفي المسلمين فما دون فإنهم كانوا يوم أحد والخندق أضعاف المسلمين فكان الجهاد واجبا عليهم لأنه حينئذ جهاد ضرورة ودفع لا جهاد اختيار ولهذا تباح فيه صلاة الخوف بحسب الحال في هذا النوع


اس کلام سے کئی باتیں معلوم ہوئیں، مثلا جہاد دفاعی میں عدد شرط نہیں۔ حملہ آور کئی گنا بڑا ہو تب بھی لڑنا لازم ہے۔ جیسا کہ ابن قیم رحمہ نے غزوات خندق و اُحد کی مثالیں دیں۔ اسی طرح اوپرحضرت عاصم بن ثابت والی روایت میں سات لوگوں کا دو سو تیر اندازوں کے مقابلے میں قتال مذکور ہے جو بیس گُنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے یہ کمزوری اور مجبوری والا ڈھونگ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اسیطرح جہاد دفاعی کے وجوب کا ذکر ہے کہ اگر حملہ کیے گئے مسلمان اپنا دفاع کرنے سے عاجز ہوں تو یہ وجوب اردگرد کے مسلمان علاقوں پر متعین ہوتا چلا جائے گا تاوقتیکہ دفاع کے لیے کافی ہوجائیں بصورت دیگر اُمت کے ہر فرد پر واجب عینی ہوجائے گا کفائی نہیں رہے گا، ایسا واجب کہ جس کا تقاضا ایمان باللہ کے فورا بعد ہے۔ پھر اگر حاکم شرعی اس کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو اُس کی اطاعت لازم ہے اور اگر بیٹھا رہے تو فریضہ جہاد دفاعی معطل نہیں ہوگا کیونکہ وہ حاکم کا محتاج نہیں، بلکہ ہر فرد اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اسے انجام دینے کا پابند ہوگا۔ موجودہ حالات میں علماء، داعی حضرات اور عوام جو نہ تو جاسکتے ہیں نہ اُن کے پاس توپ وتفنگ ہے اُن پر کم ازکم فریضہ جہاد باللسان ہے کہ اُمت کو اور مقتدر قوتوں کو حق تو بتائیں کہ یہود اور اُس کے پروردہ یا معاون صلیبوں فرانس وغیرہ کے خلاف قتال واجب ہے، نہ کرنا لعنت و ذلت ہے، سورت مائدہ آیت 54 میں ہے (اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ((بعثت بین یدی الساعة بالسیف، حتیٰ یعبداللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ وجعل رزقی تحت ظل رمحی، وجعل الذّل والصغار علیٰ من خالف امری، ومن تشبہ بقوم فھو منھم ))
’’مجھے قیامت تک کے لئے’’تلوار ‘‘ کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے۔ اور جس نے میرے (اس) امر کی مخالفت کی، اُس کے لئے ذلت اور پستی رکھ دی گئی اور جس نے (میرے طریقے کو چھوڑکر)کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اُنہی میں (شمار) ہوگا‘‘۔

یہ حکم شرعی اور اسی طرح شاتمین فرانس نجسہ کے خلاف قتال کا وجوب کا حکم شرعی امت کو کون بتائے گا؟ علماء کو نجانے کون سی سیاسی اور ”دینی“ مصلحتیں سمجھ آرہی ہیں جو محمد ﷺ اور عرض امت کے دفاع سے بھی بڑی دینی مصلحتیں ہیں؟؟ میں نے تو کئی بار سوال کیا جواب میں یا تو خاموشی یا دلیل شرعی کی بجائے عرب خلیفوں کی مجبوریاں بصورت زمینی حقائق سُننے کو ملے، اور زمینی حقائق بھی ادھورے، مصر کے فرعون کی اسرائیل کے ساتھ گُٹھ جوڑ کی زمینی حقیقت اس میں نہیں تھی، ایک عرب لونڈے کے ہاتھوں vision 2030 کے نام پر سرزمین مقدس میں الحاد پھیلانے اور ہزاروں جید علمائے عرب کو زندان خانوں میں پھینکنے کی مجبوری بھی نہیں تھی، اردن اور ہمسایہ خلیفوں کا اہنی سرحدوں کے ذریعے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور اسرائیل کا سہولت کار بننے کی مجبوری بھی نہیں تھی جس کا اظہار اسرائیلی انٹیلی جنس کے سربراہ نے بھی کیا، حالانکہ یہ بھی کشمیر کے لاک ڈاؤن کی طرح سلبی جنایت ہے جو یہود کی ثبوتی جنایت و جُرم سے کم نہیں۔ اس طرح کے کثیر زمینی حقائق تھے جو پورے سچ میں ہی آسکتے تھے ادھورے میں نہیں۔ اس طرح کے علماء یاد رکھیں کہ جس طرح ظالم کی حمایت جُرم عظیم ہے، اسی طرح ظالم کے جُرم میں تخفیف کا تاثر دینا بھی جُرم عظیم، کتمان حق اور تلبیس ہے۔ بلکہ بڑے شر کی طغیانی کے موقع پر اس کے بارے میں مطلق خاموشی اور اُس کے مقابلے میں کہیں چھوٹے شرور پر بولنا بھی کتمان حق کی ایک شکل ہے، فرمان الہی ہے (واذا قلتم فاعدلوا)۔ لہذا اللہ کا خوف کرو، اب کُفر جب میرے نبی ﷺ کی حُرمت کے خلاف یورپی اتحاد بنا چُکا ہے تمہیں تب بھی مصلحتیں نظر آرہی ہیں۔ کل جب تمہاری داڑھیاں نوچنے پہنچ جائے گا پھر کس مُنہ سے مقابلہ کروگے؟؟حوض نبی پر کیا مُنہ دکھانے کے قابل رہوگے، کہ حضور آپ کی عزت پر غیرت نہیں آئی لیکن اپنی مار پر آگئی؟ کہتے ہیں کہ ہمارے بولنے سے کیا ہوجائے گا؟ گھر میں ڈاکو گھس آئے عزت پر حملہ کردے تو کیا خاموشی سے لُٹواتے اور اُس کو اخلاق حسنہ کے فضائل بیان کرتے رہو گے یا جو بن پڑا کر گزرو گے؟؟ تغییر منکر کے لیے جہاد بالید کے بعد کیا جہاد باللسان کا درجہ نہیں؟؟ (فان لم یستطع فبلسانہ) فرمان رسول ﷺ نہیں، اور جب قتال دفاعی میں آپ کے لیے جہاد باللسان کی عدم استطاعت کی علت موجود نہیں یا شرعا معتبر نہیں جیسا کہ اوپر کے دلائل سے واضح کیا تو پھر نہ بولنا کیا بنص قرانی موجب لعنت نہیں؟؟ کہتے ہیں بولنے سے کیا ہوگا۔ بولنا اور اُمت کو اس سنگین ترین مسئلہ پر علم دینا ہی تو عمل کی بنیاد ہے، امام بخاری رحمہ اللہ کا ہی ترجمہ باب ہے (العلم قبل القول والعمل)، جب اُمت میں علماء منبر و محراب سے آگاہی دیں گے اور ہر خاص و عام میں حق پھیلے گا ہر جگہ سے الجہاد کی آواز بلند ہوگی تو یقینا عمل بھی وجود میں آئے گا کہ یہی طریقہ نبوی اور اللہ سبحانہ کی سُنت ہے۔ اس اُمت میں احیائے دین اور احیائے جہاد کا پہلا مرحلہ تعلیم و تعلم ہی ہے۔ اسی کی برکت سے حق کے انقلاب آیا کرتے ہیں۔ صحیح البخاری میں حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جہنمی شخص کے بارے میں جس کا نام قزمان بتایا گیا فرمایا کہ اللہ نے اس سے دین کی نصرت کا کام لیا ہے (وإنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هذا الدِّينَ بالرَّجُلِ الفاجِرِ )، بلکہ یہ عام قاعدہ بیان فرمادیا۔ تو کیا اُمت مسلمہ کے جمیع افراد و اہل اقتدار اس قزمان سے بھی بدتر ہوچُکے ہیں؟ یہ مایوسی صرف تکفیری یا مدخلی سوچ کی ہی پیداوار ہوسکتی ہے۔

بولو کہ کم از کم درجہ جہاد اس وقت یہی ہے، شعور حق کو عام کرو تاکہ اللہ کی نصرت آئے ورنہ خاموشی سب کو لے ڈوبے گی جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے نہی عن المنکر کے باب میں کشتی والی مثال سے سمجھایا۔

جاری ہے...
 
شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
207
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
[قسط-3]

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم شاہبازی

اللہ رب العزت نے ہر مخلوق کی جبلت میں ظلم وعدوان کے خلاف مدافعت رکھی ہے۔ ایک جانور بھی اپنی جان اور اولاد پر حملہ کرنے والے سے لڑجاتا ہے۔ پھر کس طرح ممکن ہے کہ نوع انسان کے شرف و فضل کے باوجود اس کی جان کو ظالم حملہ آور کے بھبھوڑنے کے لیے پیش کردیا جائے۔

قران متقین کی صفات میں کہتا ہے (والذين اذا اصابهم البغي هم ينتصرون) یعنی (وہ لوگ کہ جب اُنہیں بغاوت پہنچے بدلہ لیتے ہیں

صحیح مسلم میں حدیث ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرا مال لوٹنے کے لیے مجھ پر حملہ آور ہو تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا اُس سے قتال کرو۔ پوچھا اگر میں مرجاؤں؟ فرمایا تو تُو شہید ہے۔ پوچھا اگر وہ مارا جائے تو فرمایا وہ آگ میں ہے۔ اسی طرح کتب سنن کی صحیح احادیث میں دین، جان، مال، عزت اور خاندان کے تحفظ کے لیے قتال کرنے کا حُکم اور اس میں مرنے والے کو شہادت کی بشارت موجود ہے۔ غور کیجیے کہ یہ کسی ایک مسلمان کے جان و مال کی حرمت ہے، گرچہ وہ فاسق و فاجر ہو اور حملہ آور پانچ وقت کا نمازی، تو کیا خیال ہے کہ اگر حملہ آور قرانی اصطلاح میں روئے زمین کا بدترین جانور(شر الدواب) کافر ہو اور جس پر حملہ کیا جائے وہ حُرمت نبی پاک ہو یا مسلمانان اُمت کا ایک عظیم حصہ؟؟ اصول شریعت کہتے ہیں کہ مسلمان کافر حملہ آور کے مقابلے میں کسی صورت حُرمت و نفوس کے دفاع سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ محض ”ذاتی“ حق نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی طرف سے ”واجب و محتم“ ہے۔ کتاب و سُنت اور سیرت صحابہ سے بھی صرف اسی کا سبق ملتا ہے۔ اس کے برعکس کُچھ نہیں۔ خوب سمجھ لیجیے۔ اس سے غامدی جیسے شرارتیوں کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے جو خود کی طرح دیگر مسلمانوں کو بھی یہودی استعمار کی غلامی کا درس دیتے رہتے ہیں۔

صحیح البخاری میں عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ موجود ہے جنہوں نے مقابلے کی صورت میں کُفار کے ہاتھوں اپنا قتل تقریبا یقینی ہونے کے باوجود خُود کو اُن کے حوالے نہیں کیا بلکہ ساتھوں سمیت قتال کرتے ہوئے شہادت حاصل کی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں (ويكون قتاله دفعا للأمر عن نفسه أو عن حرمته ، وإن غلب على ظنه أنه يقتل إذا كان القتال يحصل المقصود ، وإما فعلا لما يقدر عليه من الجهاد) یعنی اگر ایسے دفاع کی صورت میں جان بچنے کی بجائے تلف ہونے کا امکان غالب ہو تب بھی صرف مقصود جہاد کے لیے کافر سے لڑنا مومن کی شان ہے کیونکہ یہ بذات خود عبادت ہے۔

یہ امام صاحب کی بصیرت ہے اور اوپر بیان کردہ احادیث مبارکہ کا مقتضی بھی۔ واضح رہے کہ حضرت عاصم بن ثابت کے اس واقعہ میں کفار ابھی حملہ آور نہیں ہوئے تھے بلکہ عہد و امان کی پیشکش کر رہے تھے۔ لیکن صحابی رسول نے اسے بھی قبول نہ کیا کیونکہ (لله العزة ولرسوله وللمؤمنين)۔ اس کے برعکس اگر کُفار حملہ آور ہوں اور مظلوم اہل ملت مدد کی دہائیاں دے رہے ہوں تو اُن کی نصرت کے لیے ہر صورت میں قتال کرنا واجب موکد اور حاکم سمیت کسی مسلمان کا اسے ترک کرنا اللہ ذوالجلال کے یقینی غضب کو دعوت دینا ہے۔ فرمان الہی ہے ﴿وما لكم لا تقاتلون في سبيل الله والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا أخرجنا من هذه القرية الظالم أهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا﴾ مفہوم: اور (اے مسلمانو ! ) ”تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے حالانکہ بعض کمزور مرد ‘ عورتیں اور بچے یہ دعا کر رہے ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں ‘ اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا دے اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا دے۔“ قران و سُنت کی ان نصوص کے بالمقابل یہ عرب خلیفے کہاں کھڑے ہیں کہ مدخلیت زدہ دن رات جن کی معصیت الہی میں بھی اطاعت کا دم بھرتے ہیں؟؟

جاری ہے...
ما شاء اللہ ۔۔۔ بہت خوب ۔ جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
207
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
[قسط-4]

قران کریم کا فیصلہ ہے کہ حرمتیں بدلہ ہیں(الحرمات قصاص)، یعنی کسی انسان کی حرمت کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اور نبی کریم کی حُرمت کے مقابلے میں تو دُنیا و مافیہا کی تمام حرمتیں کہیں کمتر و فروتر ہیں۔ کیا اس کا شرعی بدلہ میری اور آپ کی زبانی مذمت ہوسکتی ہے؟ اور یہ لکھتے ہوئے میری آنکھیں نہ جانے کیوں ڈبڈبا گئی ہیں، شاید ندامت، غم اور بے بسی کے ملے جُلے آنسو ہیں۔ تب تک رہیں گے جب تک فرانس نجسہ کی اُنہی عمارتوں پر شاتمین سولی نہیں دے دیے جاتے۔ لیکن تمام عرب ریاستوں کے یہ ”خلیفے“ چارلی ہیبڈو کے مُردار ملعونوں کا ”جنازہ“ پڑھنے فرانس پہنچ گئے تھے۔ آج جب فرانس نے میرے نبی کی عرض پر حملہ کیا تو یہ خلیفے سُن کیوں ہوگئے؟ مسجد اقصی کا فرش روز خون مسلم سے رنگین ہوتا ہے لیکن خلیفے مدہوش ہیں، کیوں؟ کیا اس مدہوشی میں ان کی اطاعت مدخلیوں کی معصیت صریحہ میں اطاعت نہیں؟ ہمیں عرب حکمرانوں سے کوئی ذاتی بغض نہیں، نہ ہی آج تک کبھی اس طرح سوشل میڈیا پر لکھنا پسند کیا، لیکن جب حرمات مقدسہ پر حملے پر ان خلیفوں کی خاموشی بلکہ یہود کی خوشنودی کو شریعت قرار دے دیا جائے تو پھر خاموش رہنا اپنے دین کا قتل کرنا ہے۔ خصوصا جب معاملہ فرد کا نہیں بلکہ اُمت کا ہو۔ فرد کا دفاع بھی کافر مقاتل سے واجب ہے، اسے فقہی اصطلاح میں ”دفع الصائل“ کہتے ہیں۔ لیکن جب نشانہ اُمت ہو تو ”دفع الصائل“ پر بطریق اولی قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے قتال دفاعی کو ایمان باللہ کے بعد سب سے اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں (والعدو الصائل الذي يفسد الدين والدنيا لا شيء أوجب بعد الإيمان من دفعه ، فلا يشترط له شرط)، یعنی ایمان باللہ کے بعد دفاع اُمت کے لیے قتال کے وجوب مرتبہ ہے۔ یہاں تک کہ فرض نمازوں سے بھی زیادہ موکد ہے۔ غزوہ خندق کے دفاعی جہاد کے موقع پر رسول اللہ نے عشاء کے وقت میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں بالترتیب ادا کیں، جس کا آپ کو شدید رنج تھا، اور معلوم ہے کہ نمازوں خصوصا عصر کی نماز کا وقت مقررہ پر ادا کرنا کتنا تاکیدی حکم ہے۔امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اسی حقیقت کو بیان کیا، فرماتے ہیں (فقتال الدفع أوسع من قتال الطلب وأعم وجوبا ولهذا يتعين على كل أحد يقم ويجاهد فيه العبد بإذن سيده وبدون إذنه والولد بدون إذن أبويه والغريم بغير إذن غريمه وهذا كجهاد المسلمين يوم أحد والخندق
ولا يشترط في هذا النوع من الجهاد أن يكون العدو ضعفي المسلمين فما دون فإنهم كانوا يوم أحد والخندق أضعاف المسلمين فكان الجهاد واجبا عليهم لأنه حينئذ جهاد ضرورة ودفع لا جهاد اختيار ولهذا تباح فيه صلاة الخوف بحسب الحال في هذا النوع


اس کلام سے کئی باتیں معلوم ہوئیں، مثلا جہاد دفاعی میں عدد شرط نہیں۔ حملہ آور کئی گنا بڑا ہو تب بھی لڑنا لازم ہے۔ جیسا کہ ابن قیم رحمہ نے غزوات خندق و اُحد کی مثالیں دیں۔ اسی طرح اوپرحضرت عاصم بن ثابت والی روایت میں سات لوگوں کا دو سو تیر اندازوں کے مقابلے میں قتال مذکور ہے جو بیس گُنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے یہ کمزوری اور مجبوری والا ڈھونگ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اسیطرح جہاد دفاعی کے وجوب کا ذکر ہے کہ اگر حملہ کیے گئے مسلمان اپنا دفاع کرنے سے عاجز ہوں تو یہ وجوب اردگرد کے مسلمان علاقوں پر متعین ہوتا چلا جائے گا تاوقتیکہ دفاع کے لیے کافی ہوجائیں بصورت دیگر اُمت کے ہر فرد پر واجب عینی ہوجائے گا کفائی نہیں رہے گا، ایسا واجب کہ جس کا تقاضا ایمان باللہ کے فورا بعد ہے۔ پھر اگر حاکم شرعی اس کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو اُس کی اطاعت لازم ہے اور اگر بیٹھا رہے تو فریضہ جہاد دفاعی معطل نہیں ہوگا کیونکہ وہ حاکم کا محتاج نہیں، بلکہ ہر فرد اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اسے انجام دینے کا پابند ہوگا۔ موجودہ حالات میں علماء، داعی حضرات اور عوام جو نہ تو جاسکتے ہیں نہ اُن کے پاس توپ وتفنگ ہے اُن پر کم ازکم فریضہ جہاد باللسان ہے کہ اُمت کو اور مقتدر قوتوں کو حق تو بتائیں کہ یہود اور اُس کے پروردہ یا معاون صلیبوں فرانس وغیرہ کے خلاف قتال واجب ہے، نہ کرنا لعنت و ذلت ہے، سورت مائدہ آیت 54 میں ہے (اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ((بعثت بین یدی الساعة بالسیف، حتیٰ یعبداللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ وجعل رزقی تحت ظل رمحی، وجعل الذّل والصغار علیٰ من خالف امری، ومن تشبہ بقوم فھو منھم ))
’’مجھے قیامت تک کے لئے’’تلوار ‘‘ کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے۔ اور جس نے میرے (اس) امر کی مخالفت کی، اُس کے لئے ذلت اور پستی رکھ دی گئی اور جس نے (میرے طریقے کو چھوڑکر)کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اُنہی میں (شمار) ہوگا‘‘۔

یہ حکم شرعی اور اسی طرح شاتمین فرانس نجسہ کے خلاف قتال کا وجوب کا حکم شرعی امت کو کون بتائے گا؟ علماء کو نجانے کون سی سیاسی اور ”دینی“ مصلحتیں سمجھ آرہی ہیں جو محمد ﷺ اور عرض امت کے دفاع سے بھی بڑی دینی مصلحتیں ہیں؟؟ میں نے تو کئی بار سوال کیا جواب میں یا تو خاموشی یا دلیل شرعی کی بجائے عرب خلیفوں کی مجبوریاں بصورت زمینی حقائق سُننے کو ملے، اور زمینی حقائق بھی ادھورے، مصر کے فرعون کی اسرائیل کے ساتھ گُٹھ جوڑ کی زمینی حقیقت اس میں نہیں تھی، ایک عرب لونڈے کے ہاتھوں vision 2030 کے نام پر سرزمین مقدس میں الحاد پھیلانے اور ہزاروں جید علمائے عرب کو زندان خانوں میں پھینکنے کی مجبوری بھی نہیں تھی، اردن اور ہمسایہ خلیفوں کا اہنی سرحدوں کے ذریعے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور اسرائیل کا سہولت کار بننے کی مجبوری بھی نہیں تھی جس کا اظہار اسرائیلی انٹیلی جنس کے سربراہ نے بھی کیا، حالانکہ یہ بھی کشمیر کے لاک ڈاؤن کی طرح سلبی جنایت ہے جو یہود کی ثبوتی جنایت و جُرم سے کم نہیں۔ اس طرح کے کثیر زمینی حقائق تھے جو پورے سچ میں ہی آسکتے تھے ادھورے میں نہیں۔ اس طرح کے علماء یاد رکھیں کہ جس طرح ظالم کی حمایت جُرم عظیم ہے، اسی طرح ظالم کے جُرم میں تخفیف کا تاثر دینا بھی جُرم عظیم، کتمان حق اور تلبیس ہے۔ بلکہ بڑے شر کی طغیانی کے موقع پر اس کے بارے میں مطلق خاموشی اور اُس کے مقابلے میں کہیں چھوٹے شرور پر بولنا بھی کتمان حق کی ایک شکل ہے، فرمان الہی ہے (واذا قلتم فاعدلوا)۔ لہذا اللہ کا خوف کرو، اب کُفر جب میرے نبی ﷺ کی حُرمت کے خلاف یورپی اتحاد بنا چُکا ہے تمہیں تب بھی مصلحتیں نظر آرہی ہیں۔ کل جب تمہاری داڑھیاں نوچنے پہنچ جائے گا پھر کس مُنہ سے مقابلہ کروگے؟؟حوض نبی پر کیا مُنہ دکھانے کے قابل رہوگے، کہ حضور آپ کی عزت پر غیرت نہیں آئی لیکن اپنی مار پر آگئی؟ کہتے ہیں کہ ہمارے بولنے سے کیا ہوجائے گا؟ گھر میں ڈاکو گھس آئے عزت پر حملہ کردے تو کیا خاموشی سے لُٹواتے اور اُس کو اخلاق حسنہ کے فضائل بیان کرتے رہو گے یا جو بن پڑا کر گزرو گے؟؟ تغییر منکر کے لیے جہاد بالید کے بعد کیا جہاد باللسان کا درجہ نہیں؟؟ (فان لم یستطع فبلسانہ) فرمان رسول ﷺ نہیں، اور جب قتال دفاعی میں آپ کے لیے جہاد باللسان کی عدم استطاعت کی علت موجود نہیں یا شرعا معتبر نہیں جیسا کہ اوپر کے دلائل سے واضح کیا تو پھر نہ بولنا کیا بنص قرانی موجب لعنت نہیں؟؟ کہتے ہیں بولنے سے کیا ہوگا۔ بولنا اور اُمت کو اس سنگین ترین مسئلہ پر علم دینا ہی تو عمل کی بنیاد ہے، امام بخاری رحمہ اللہ کا ہی ترجمہ باب ہے (العلم قبل القول والعمل)، جب اُمت میں علماء منبر و محراب سے آگاہی دیں گے اور ہر خاص و عام میں حق پھیلے گا ہر جگہ سے الجہاد کی آواز بلند ہوگی تو یقینا عمل بھی وجود میں آئے گا کہ یہی طریقہ نبوی اور اللہ سبحانہ کی سُنت ہے۔ اس اُمت میں احیائے دین اور احیائے جہاد کا پہلا مرحلہ تعلیم و تعلم ہی ہے۔ اسی کی برکت سے حق کے انقلاب آیا کرتے ہیں۔ صحیح البخاری میں حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جہنمی شخص کے بارے میں جس کا نام قزمان بتایا گیا فرمایا کہ اللہ نے اس سے دین کی نصرت کا کام لیا ہے (وإنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هذا الدِّينَ بالرَّجُلِ الفاجِرِ )، بلکہ یہ عام قاعدہ بیان فرمادیا۔ تو کیا اُمت مسلمہ کے جمیع افراد و اہل اقتدار اس قزمان سے بھی بدتر ہوچُکے ہیں؟ یہ مایوسی صرف تکفیری یا مدخلی سوچ کی ہی پیداوار ہوسکتی ہے۔

بولو کہ کم از کم درجہ جہاد اس وقت یہی ہے، شعور حق کو عام کرو تاکہ اللہ کی نصرت آئے ورنہ خاموشی سب کو لے ڈوبے گی جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے نہی عن المنکر کے باب میں کشتی والی مثال سے سمجھایا۔

جاری ہے...
ماشاء اللہ
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
ما شاء الله، الله تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد کا مفہوم جان کر اس پر کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
jazak Allah
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
[قسط-5]

سابقہ اقساط میں گزر چُکا ہے کہ جہاد دفاعی کے لیے حاکم شرعی کی اجازت، اور طاقت کے موازنہ سمیت کوئی شرط نہیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے اسے (لا یشترط لہ شرط) اور ابن قیم نے بھی اپنے کلام کے ذریعے واضح کردیا ہے۔ لہذا جو عملا کے لیے جانے کی قدرت رکھتا ہے جائے، جو ترغیب دلاسکتا ہے تحریک بیدار کرسکتا ہے ضرور کرے اس کے لیے کسی مقروض کو قرض خواہ سے، بیوی کو شوہر سے، عوام کو حاکم سے یا غلام کو آقا سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، سوائے اسکے کہ یہ جہاد حاکم شرعی یا علمائے اُمت کی راہنمائی میں ہورہا ہو کہ (اولوا الامر منکم) میں یہ دونوں بالاولی داخل ہے، وگرنہ بہرصورت قتال دفاعی کو وجود میں لایا جائے گا، کسی شرط کا تحقق ضروری نہیں، اور عدم کفایت کی صورت میں یہ قتال جمیع پر واجب العین ہوگا۔ اور یہ صرف ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمھما اللہ کا موقف نہیں بلکہ اس پر اُمت کا اجماع ہے۔ کبار ائمہ امت مثل مفسر قرطبی، فقیہ ابن قدامہ، مفسر ابن عطیہ، امام ابن حزم رحمھم اللہ جمیعا سب اسی کے قائل ہیں۔

ابن رشد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اطاعت امام شرعی صرف تب تک ہے جب تک وہ جہاد وجوبی سے روکنے کی معصیت کا مرتکب نہ ہو: (طاعة الإمام لازمة وإن کان غير عدل ما لم يأمر بمعصية، ومن المعصية النهي عن الجهاد المتعين )

امام ماوردی کہتے ہیں(ومن حضر الصف من أهل فرض الجهاد, أو حضر العدو بلده تعین عليه الجهاد بلا نزاع)

المرغياني "الهداية شرح البداية" میں کہتے ہیں"فإن هجم العدو على بلد وجب على جميع الناس الدفع، تخرج المرأة بغير إذن زوجها، والعبد بغير إذن المولى؛ لأنه صار فرض عين، وملك اليمين، ورق النكاح لا يظهر في حق فروض الأعيان كما في الصلاة والصوم".

امام نووی في شرح صحيح مسلم میں فرماتے ہیں (قال أصحابنا ومن الشافعیة الجهاداليوم فرض كفاية إلا أن ينزل الكفار ببلد المسلمين فيتعين عليهم الجهاد فإن لم يكن في أهل ذلك البلد كفاية وجب على من يلهيم تتميم الكفاية) اسی طرح المجموع میں فرماتے ہیں( والجهاد فرض عين على كل مسلم إذا انتهكت حرمة المسلمين في أي بلد فيه لا إله إلا الله محمد رسول الله .... لقول الله تعالى (انفروا خفافا وثقالا) ولقول معمر كان مكحول يستقبل القبلة ثم يحلف عشر أيمان أن الغزو واجب، ثم يقول ان شئتم زدتكم ).

علامة حمود بن عقلاء الشعيبي فرماتے ہیں(وحكم الجهاد في وقتنا الحاضر أنه فرض عين على كل قادر عليه وقد أجمع علماء الأمة قديما وحديثا على أن الجهاد يكون فرض عين في ثلاث حالات :
الأولى : إذا حصر العدو بلدا من بلاد المسلمين أو احتلها والحالة الثانية : إذا حضر الصف في معركة بين المسلين والكفار والحالة الثالثة : إذا استنفره الإمام الشرعي
).

یہ اور اس طرح دیگر تصریحات کوتاہ بین کو بھی دکھانے کے لیے کافی ہیں کہ کسی صورت میں جہاد دفاعی کے فریضہ کو ترک نہیں کیا جا سکتا، اور اگر امام شرعی اس میں علانیہ کوتاہی کا مُرتکب ہوتا ہے تو نہی عن المنکر کے تحت ہر صورت اُسے روکا اور ٹوکا جایے گا، منبر و محراب سے بھی اور دیگر ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے بھی۔
 
Top