ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرمت رسالتمآب ﷺ اور مسئلہ فلس طین کے تناظر میں (۱) منهج جہاد (۲) دعوتی ماڈرنزم (۳) حکام عرب (۴) مدخلیت اور (۵) روایتی علماء
تحریر : حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی [قسط-۱]
پہلے چند شگوفے سُنیے.. ”عرب حکمران کیا کریں؟ زمینی حقائق موافق نہیں“، ”پہلے سب مسلمان ایمان مضبوط کریں پھر دفاع مسجد اقصی کے بارے میں سوچیں“، ”مسجد اقصی جلتی رہے، مسلمان مرتے رہیں اور عرب حکمران ٹس سے مس نہ ہوں تو بھی اُنکی سمع و طاعت ضروری ہے“، ”یہود سے قتال کی بات رد عمل کی سوچ ہے“ وغیرہ وغیرہ..
اور یہ کہنے والوں میں روایتی علماء بشمول بعض متخرجین مدینیہ یونیورسٹی، مغرب سے مرعوب داعی، دعوتی ادارے اور کثیر عوام شامل ہیں جو عموما اول الذکر سے سوچ لیتے ہیں یا اُنکے جہل مسئلہ کو دین سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سوچ اور اسکا ابلاغ ایک بہت خطرناک فتنہ ہے کیونکہ حرمات و شعائر دینیہ کا تحفظ اور انکے دفاع کے لیے جہاد ایک اصولی واعتقادی مسئلہ ہے جس میں انحراف ایک مسلمان کے دین کی بنیاد کو منہدم کرسکتا ہے۔ اور اس میں بغیر تحقیق و تثبت بولنے والے علماء یا کسی مدرسے میں دو چار سال لگانے والے مُفتیوں اور جگہ جگہ podcast اور talks کے نام پر فری راہنمائی بانٹنے والوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ جہاں گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں کے حساب سے حالات کی سنگینی تبدیل ہورہی ہو اور اُمت کا خُون بہ رہا ہو وہاں علم کے بغیر بات برائے بات یا کمپنی کی مشہوری کرنے والوں کو رب ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرنا چاہیے؟؟
عرب حکمرانوں کا ذکر خصوصیت سے اس لیے کیا کہ اُنکو بعض حضرات پاک و پوتر ثابت کرنے پر تُلے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ یہاں کی مقتدر قوتیں بھی برابر کی مُجرم ہیں اور ناصحین انہیں حق سُناتے ہوئے عذاب الہی سے ڈراتے رہتے ہیں لیکن پاکستانی حکمرانوں نے ان عربوں کی طرح کبھی خلیفة المسلمين ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ نہ ہی بعض عربوں کی طرح شرعی سمع واطاعت کے نام پر احکامات الہیہ سے کھلواڑ کیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہتے ہیں اور اسی کے اصولوں کے مطابق چلنے کا دعوی کرتے ہیں۔ لہذا اگر ظُلم کرتے ہیں تو گالیاں بھی کھاتے ہیں کیونکہ جمہوریت کا حُسن ہے۔ اور اگر یہاں اسلام کی بجائے الحاد فروغ پارہا ہے تو یہ بھی جمہوریت اور اس کی معاشی فرع کیپیٹلزم کا ہی "حسن" ہے کیونکہ جمہوریت کا اسلامی نظام حکومت یا نظام عدل سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ جبر کے باوجود پاکستانی جمہوری نظام میں جتنی آزادی اظہار رائے ہے اور حق گوئی کا امکان ہے ان "خلافت اسلامیہ" والے عرب ملکوں میں اسکا عُشر عشیر بھی نہیں۔ پاکستانی جمہوری حکمرانوں کو "خلیفة المسلمين" کہنے کا فتنہ حال ہی میں ایک عرب مُلک سے درآمد ہوا ہے۔ یہ مدخلی حضرات ہیں جن کی فکر کو پہلے پہل یہاں کُچھ دوغلی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جس پر اہل علم نے رفق سے کام لیا لیکن اب یہ حرمت رسالتمآب ﷺ اور حرمات دینیہ کے تحفظ کے لیے مبارک اور وجوبی جہاد پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے تیار ہورہے ہیں۔ اور اس کے لیے حکمرانوں کو کُچھ ایسا تقدس دینے کی کوشش کررہے ہیں جو صرف اللہ کے رسول ﷺ کو حاصل ہے۔ ان کی اس حرکت پر ایوان میں بیٹھے جمہوری حکمران بھی ہنستے ہونگے جو حزب اختلاف کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن مدخلیوں کو اس کی پروا نہیں، وہ منھج سلف کے نام پر شہوات دُنیا کی خوب تسکین کررہے ہیں۔ ہر امر بالمعروف یا ججهاد اسلامی کے قائل و فاعل کو خروجی اور خارجی جیسے القاب دینا ان کا ہتھیار ہے۔
کوئی شک نہیں کہ جہاد کے نام پر فساد اور چندہ خوری بھی کی جاتی رہی، کلمہ گو مسلمانوں کو قتل بھی کیا جاتا رہا جس کے تصور سے روح کانپتی ہے، لیکن منافقین کا آلہ کار بن کر جہاد شرعی کو معطل کردینا اور کفار یہود و ہنود کو حرمت رسالتمآب ﷺ یا اُمت مسلمہ کی عصمت و آبرو کو پامال کرنے اور زمین پر بدترین فتنہ وفساد بپا کرنے کی راہ دینا کونسا دین ہے؟
حقیقت ہے کہ ان لوگوں کو منھج جہاد کا علم ہے نہ اُمت کی سطح پر سوچنے کی تربیت۔ پہلے تقوی اختیار کرو ، مکی دور ہے وغیرہ ہر مسئلے کا حل دو گولی ڈسپرین تجویز کرنے والی اس طرح کی ہر سوچ کا جہل واضح کرنا اب اہل علم پر واجب ہے۔ اور جو خاموش ہیں یا دھیمے سُروں میں ان کی حمایت کرنے والے ہیں وہ بھی شریک جُرم ہیں۔ ہم ان شاء اللہ جہاد خصوصاجہا د فلس طین کے قضیے میں ان تمام شگوفوں نہ کہ دلائل کا جہل واضح کریں گے اور اُس عظیم امر الہی جسے اللہ کے رسول نے دین کی چوٹی کہا کی حقانیت کو واضح کریں گے۔
جاری ہے...
Last edited: