• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرم میں گناہ ستائیس لاکھ گناہ کرنے کے برابر؟

شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
السلام عليكم ورحمۃ اللہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ ۔
میں نے متعدد بار ایک اثر سنا ہے جو کے حضرت عمرؓ رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کے حرم میں ایک دفعہ گناہ کا کام کرنا ستائیس لاکھ دفعہ گناہ کرنے کے برابر ہے ۔۔!!

کیا یہ اثر یا اس سے ملتا جلتا کوئی اثر ثابت ہے؟
جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام عليكم ورحمۃ اللہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ ۔
میں نے متعدد بار ایک اثر سنا ہے جو کے حضرت عمرؓ رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کے حرم میں ایک دفعہ گناہ کا کام کرنا ستائیس لاکھ دفعہ گناہ کرنے کے برابر ہے ۔۔!!

کیا یہ اثر یا اس سے ملتا جلتا کوئی اثر ثابت ہے؟
جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
حرم شریف میں گناہ کی سنگینی دوسرے مقامات سے بہت بڑھ کرہے ، اور اسکے دلائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں ،تاہم ایک گناہ ستر لاکھ گناہ کے برابر ہے اسکے متعلق مجھے کوئی روایت نہ مل سکی ،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول اس موضوع پر منقول ہے ، جو ستر گنا تک زیادتی کا ہے جو درج ذیل ہے :
عن عمر قال : لأن أخطئ سبعين خطيئة بركبة أحب إلى من أن أخطئ خطيئة واحدة بمكة (الأزرقى) [كنز العمال 38037]
أخرجه أيضا : عبد الرزاق (5/28 ، رقم 8871) ، والفاكهى فى أخبار مكة (2/256 ، رقم 1465

یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
میں رکبہ ( طائف میں ایک وادی ) میں ستر گناہ کروں یہ مجھے اس سے زیادہ پسند کہ میں مکہ میں ایک گناہ کروں "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حدود حرم میں گناہ کی سنگینی کے متعلق علامہ عبدالعزیز بن بازؒ کا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
هل تضاعف السيئة في مكة مثل ما تضاعف الحسنة؟ ولماذا تضاعف في مكة دون غيرها؟

الأدلة الشرعية دلت على أن الحسنات تضاغف في الزمان الفاضل مثل رمضان وعشر ذي الحجة، والمكان الفاضل كالحرمين، فإن الحسنات تضاعف في مكة مضاعفة كبيرة. وقد جاء في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام، وصلاة في المسجد الحرام أفضل من مائة صلاة في مسجدي هذا)
[رواه الإمام أحمد في (أول مسند المدنيين) حديث عبد الله بن الزبير بن العوام برقم 15685]
فدل ذلك على أن الصلاة بالمسجد الحرام تضاعف بمائة ألف صلاة فيما سوى المسجد النبوي، وفي مسجد النبي صلى الله عليه وسلم خير من ألف صلاة فيما سواه سوى المسجد الحرام، وبقية الأعمال الصالحة تضاعف، ولكن لم يرد فيها حد محدود إنما جاء الحد والبيان في الصلاة، أما بقية العمال كالصوم والأذكار وقراءة القرآن والصدقات فلا أعلم فيها نصاً ثابتاً يدل على تضعيف محدد، وإنما فيها في الجملة ما يدل على مضاعفة الأجر وليس فيها حد محدود. والحديث الذي فيه: (من صام رمضان في مكة كتب له مائة ألف رمضان) حديث ضعيف عند أهل العلم. والحاصل: أن المضاعفة في الحرم الشريف بمكة لا شك فيها (أعني مضاعفة الحسنات)، ولكن ليس في النص فيما نعلم حداً محدوداً ما عدا الصلاة فإن فيها نصاً يدل على أنها مضاعفة بمائة ألف كما سبق. أما السيئات فالذي عليه المحققون من أهل العلم أنها لا تضاعف من جهة العدد، ولكن تضاعف من جهة الكيفية، أما العدد فلا؛ لأن الله سبحانه وتعالى يقولك: مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا[2]. فالسيئات لا تضاعف من جهة العدد لا في رمضان ولا في الحرم ولا في غيرهما، بل السيئة بواحدة دائماً وهذا من فضله سبحانه وتعالى وإحسانه. ولكن سيئة الحرم وسيئة رمضان وسيئة عشر ذي الحجة أعظم في الإثم من حيث الكيفية لا
من جهة العدد، فسيئة في مكة أعظم وأكبر وأشد إثما من سيئة في جدة والطائف مثلاً، وسيئة في رمضان وسيئة في عشر ذي الحجة أشد وأعظم من سيئة في رجب أو شعبان ونحو ذلك، فهي تضاعف من جهة الكيفية لا من جهة العدد. أما الحسنات فإنها تضاعف كيفية وعدداً بفضل الله سبحانه وتعالى، ومما يدل على شدة الوعيد في سيئة الحرم، وأن سيئة الحرم عظيمة وشديدة قول الله تعالى: وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ[3] فهذا يدل على أن السيئة في الحرم عظيمة وحتى الهمَّ بها فيه هذا الوعيد. وإذا كان من همَّ بالإلحاد في الحرم يكون له عذاب أليم، فكيف بحال من فعل الإلحاد وفعل السيئات والمنكرات في الحرم؟ فإن إثمه يكون أكبر من مجرد الهمَّ، وهذا كله يدلنا على أن السيئة في الحرم لها شأن خطير. وكلمة إلحاد تعم كل ميل إلى باطل سواء كان في العقيدة أو غيرها؛ لأن الله تعالى قال: ومن يرد فيه بإلحاد بظلم فنكَّر الجميع، فإذا ألحد أي إلحاد – والإلحاد هو الميل عن الحق – فإنه متوعد بهذا الوعيد. وقد يكون الميل عن العقيدة فيكفر فيكون ذنبه أعظم وإلحاده أكبر، وقد يكون الميل إلى سيئة من السيئات كشرب الخمر أو الزنا أو عقوق الوالدين أو أحدها فتكون عقوبته أخف وأقل من عقوبة الكافر. بظلم هذا يدل على أنه إذا كان يرجع إلى الظلم فإن الأمر خطير جداً فالظلم يكون في المعاصي، ويكون في التعدي على الناس، ويكون بالشرك بالله، فإذا كان إلحاده بظلم نفسه بالمعاصي أو بالكفر فهذا نوع من الإلحاد، وإذا كان إلحاده بظلم العباد بالقتل أو الضرب أو أخذ الأموال أو السب أو غير ذلك فهذا نوع آخر، وكله يسمى إلحاداً وكله يسمى ظلماً وصاحبه على خطر عظيم. لكن الإلحاد الذي هو الكفر بالله والخروج عن دائرة الإسلام هو أشدها وأعظمها كما قال الله سبحانه: إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ[4]، والله أعلم.


[1] .

http://www.binbaz.org.sa/fatawa/712
________________________________________
ترجمہ :

سوال: کیا مکہ مکرمہ میں اسی طرح گناہ میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے جس طرح نیکی میں اضافہ کیا جاتا ہے، اور یہ اضافہ محض مکہ مکرمہ میں ہی کیونکر کیا جاتا ہے؟
جواب: اس بات پر شرعی دلائل موجود ہیں کہ فضیلت والے وقت اور فضیلت والی جگہ میں نیکیوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، جیسے رمضان، اور ذی الحجہ کے دس دنوں میں، اور فضیلت والی جگہ جیسے حرمین شریفین میں، بے شک مکہ اور مدينہ منورہ میں نیکیوں میں بڑا اضافہ کیا جاتا ہے، جیساکہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد میں ايک نماز دیگر مسجدوں میں ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے ، سوائے مسجدِ حرام کے ۔ مسجد حرام میں ایک نماز میری اس مسجد میں ایک سو نمازوں سے بہتر ہے، امام احمد اور ابن حبان نے صحیح اسناد کے ساتھ اس کی روایت کی ہے۔
یہ اس بات پر دلالت ہے کہ مسجد حرام میں نماز مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک لاکھـ نمازوں کے برابر اضافہ کی جاتی ہے، اور مسجد نبوى علیہ الصلوٰۃ والسلام میں ایک سو نمازوں کے برابر اضافہ کی جاتی ہے، اور باقی نیک اعمال بھی بڑھائے جاتے ہیں، لیکن ان میں کوئی متعین مقدار نہیں آئی ہے، بلکہ مقدار اور بیان صرف نماز کے بارے میں آیا ہے، اور جہاں تک دیگر نیک اعمال کا تعلق ہے جیسے روزہ، اذکار، قرآن کی تلاوت، اور خیرات، تو میرے علم کے مطابق ایسی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، جو متعین مقدار پر دلالت کرتی ہو، بلکہ ان کے بارے میں مجموعی طور پر ان کے ثواب کے بڑھانے پر دلالت ہے اور ان میں کوئی محدد مقدار نہیں ہے۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 389)
اور جس حدیث میں یہ آیا ہے: جو مکہ مکرمہ میں روزہ رکھے اللہ تعالی اس کےلئے ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھتا ہے، یہ حدیث اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔
الغرض مکہ مکرمہ کے حرم شریف میں اضافہ میں کوئی شک نہیں ہے، اور اضافہ سے میری مراد نیکیوں کے ثواب کا اضافہ ہے، لیکن نماز کے علاوہ کسی اور نیک عمل کے بارے میں کسی شرعی دلیل میں ایسی معلومات نہیں ہے جس سے ہم متعین مقدار جان سکیں، مگر نماز کے بارے میں دلیل موجود ہے کہ وہ ایک لاکھ نمازوں کے برابر اضافہ کی جاتی ہے جیساکہ سابق میں بیان ہوا ہے۔
اور جہاں تک گناہوں کی بات ہے تو اہل علم میں محققین کی رائے ہے کہ وہ مقدار کے اعتبار سے نہیں بڑھائے جاتے ہیں، بلکہ کیفیت کے اعتبار سے اس کا اضافہ کیا جاتا ہے، لیکن تعداد کے اعتبار سے نہیں، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﻧﯿﻚ ﰷﻡ ﻛﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺩﺱ ﮔﻨﺎ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺑﺮﺍ ﰷﻡ ﻛﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ
اور گناہ مقدار کے اعتبار سے اضافہ نہیں کیے جاتے ہیں، نہ رمضان میں، نہ حرم میں، اور نہ کسی دوسری جگہ، بلکہ گناہ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے اور یہ اللہ سبحانه وتعالى کا فضل واحسان ہے۔
لیکن حرم مکی، رمضان اور ذي الحجہ کے دس دنوں میں کیا جانے والا گناہ ان کے علاوہ دیگر دنوں میں کئے جانے والے گناہوں سے زیادہ بڑا ہے، مثال کے طور پر مکہ مکرمہ میں گناہ جدہ اور طائف کے گناہ سے زیادہ بڑا ہے، اور رمضان میں گناہ اور عشر ذی الحجہ میں گناہ، رجب اور شعبان وغیرہ کے گناہ سے زیادہ بڑا ہے۔
اور یہ گناہ کیفیت کے اعتبار سے اضافہ کیا جاتا ہے، مقدار کے اعتبار سے نہیِں، لیکن نیکیاں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے کیفیت اور مقدار دونوں اعتبار سے بڑھائی جاتی ہیں، اور حرمِ مکی میں کئے جانے والے گناہوں کے بارے میں شدید وعید پر، نیز حرم میں کئے جانے والے گناہ کے سخت شدید ہونے پر جو دلیل ہے، وہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﻇﻠﻢ ﻛﮯ ﺳﺎتھ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻟﺤﺎﺩ ﰷ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻛﺮﮮ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺩﺭﺩ ﻧﺎﻙ ﻋﺬﺍﺏ ﭼﻜﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 390)
یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ گناہ حرم میں بڑا گناہ ہے، یہاں تک کہ حرم میں گناہ کا صرف ارادہ کرنے پر بھی یہ وعید ہے۔
جب حرم میں الحاد کا ارادہ کرنے والے کے لئے دردناک عذاب کی وعید ہے، تو جو حرم میں گناہوں اور منکرات کے ذریعے ملحدانہ اعمال کرے اس کا کیا حشر ہوگا، ، بے شک اس کا گناہ محض ارادہ کرنے سے زیادہ بڑا ہوگا، اور یہ دلیل ہم کو یہ باور کراتی ہے کہ حرم میں گناہ کا بڑا خطرہ ہے۔
اور الحاد کے لفظ میں باطل کی طرف ہر میلان شامل ہے، چاہے عقیدے میں ہو، یا اس کے علاوہ دیگر امور میں، کیونکہ الله تعالى نے فرمايا ہے: ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﻇﻠﻢ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻟﺤﺎﺩ کا ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻛﺮﮮ اس آیت میں ہر قسم کے الحاد سے منع کیا، تو جب کوئی کسی بھی قسم کے الحاد کا مرتکب ہو تو وہ اس وعید کے زمرے میں شامل ہے۔
اور کھبی الحادی عقیدے سے اللہ کے کفر کی طرف میلان ہوگا، اور اس کی وجہ سے وہ کفر کا مرتکب ہوگا، تو اس کا گناہ بڑا اور اس کا الحاد خطرناک ہوگا۔
اور یہ میلان کبھی گناہوں میں کسی گناہ کی طرف ہوتا ہے، جیسے شراب پینے، زنا، والدین کی نافرمانی یا ان میں سے ایک کی نافرمانی کرنے کی طرف میلان ہو، تو اس کی سزا کافر کی سزا سے کم اور ہلکی ہوتی ہے۔
اور اگر یہ الحاد بندوں پر ظلم، جیسے قتل یا مارنے، یا مال چھیننے ، یا گالی دینے وغیرہ سے متعلق ہو، تو یہ ایک الگ قسم کا الحاد ہے، اور ان سب چیزوں کو الحاد کہا جاتا ہے، اور ان سب کو ظلم بھی کہا جاتا ہے، اور اس کا مرتکب بڑے خطرے میں ہے، لیکن وہ الحاد جو اللہ کے کفر کا باعث ہو اور اسلام کے دائرے سے نکلنے کا باعث ہو، وہ سب گناہوں سے شدید اور بڑا بھیانک ہے،
جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: بے شک شرک سب بڑا ظلم ہے ۔
باقی اللہ ہی توفيق کا مالک ہے۔ وصلى الله وسلم على نبيه وآله وصحبه۔

_______________________
 
Top