• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حروف ابجد کا تاریخی پس منظر اور شریعت میں ان کا مقام

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری​
حروف ابجد کا تاریخی پس منظر اور شریعت میں ان کا مقام​


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی فردیاقوم میں سے بری رسومات اوربدعات وعادات قبیحہ کاترک کراناجوئےشیرلانے کے مترادف ہے،کیوں کہ یہ عادات اوررسومات ان کے رگ وپے میں بری طرح سے سرایت کرگئی ہوتی ہیں جیساکہ موجودہ دورمیں آیات قرآنی واسمائے باری تعالیٰ و سرورکونین ﷺکے ناموں کے اعدادبجائے حروف لکھنے کو ایک رسم بنا لیا گیاہے ۔متعددحضرات نے مختلف رسائل واخبارات کے ذریعہ ان عادات قبیحہ کوترک کرانے کی کوشش کی ہے ۔ہنوزجہاں تک مجھے معلوم ہے اس کا عوام الناس پرکوئی خاص اثر نہیں ہوا۔اس کی غالباًایک بڑی وہ یہ ہے کہ لوگوں کواس کی حقیقت سے روشناس نہیں کرایاگیا۔چنانچہ موجودہ دورمیںکسی بری رسم یابری عادت کاچھڑانااس وقت تک نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے جب تک کہ اس کی حقیقت اورمضرت سے لوگوں کو پوری طرح سے آشنا نہ کرایاجائے۔
چنانچہ اسی طرح کاایک استفسارمحترم والد(حضرت مفتی عزیزالرحمن بجنوری نوراللہ مرقدہ‘)کی خدمت میں موصول ہوا،جس کا عنوان تھا’’کیا۷۸۶بسم اللہ الرحمن الرحیم کامتبادل بن سکتاہے؟‘‘اسی کے ساتھ ایک رسالہ کی فوٹواسٹیٹ کاپی بھی منسلک تھی،جس میں صاحب مضمون نگارنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ سات سوچھیاسی کو بجائے بسم اللہ یااسمائے باری تعالیٰ وسرورکونین کوتین کوعددمیں لکھنالغواوربیہودہ حرکت ہے کیونکہ بسم اللہ اور ’’ہرکرشن‘‘کے نام کے اعداد بھی یہی یعنی سات سو چھیاسی ہوتے ہیں ۔لیکن یہ مضمون بھی دیگرمضامین کی طرح غیرواضح اورمبہم سارہا میرے خیال سے اگراس مضمون کوتاریخی پس منظر میں لکھا جاتاتوزیادہ مفیداورکارآمدثابت ہوتا۔چنانچہ مختصراً حروف ابجد کاتاریخی پس منظر اور شریعت میں اس کا کیا مقام ہے پیش خدمت کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
حروف ابجد،ہوز،حطی،کلمن،سعفص،قرشت،ثخذ،ضظغ کی ایجادکہاں ہوئی اورکس نے کی اوراس کی حقیقت کیاہے؟اس میں کافی اختلاف بعض نے ان کا موجدعربوں کوماناہے۔لیکن ان کے دلائل غیروقیع ہیں اکثرحضرات کی رائے ہے کہ عرب اس کی موجدنہیں بلکہ مجددہیں۔جیسا کہ مضمون سے واضح ہوجائے گا۔
انسائیکلوپیڈیا یاتاریخ عالم کے مطابق حروف ابجد کی ایجادقبل از مسیح اہل فونیقیہ نے کی فونیقیہ لبنان کے مغربی حصہ میں یک ساحلی علاقہ ہے۔ اہل فونیقیہ کی زبان کواگرسامنے رکھ کر دیکھاجائے تومعلوم ہوگا کہ یہ لوگ کنعانیوں کی ایک شاخ ہیں جن کی بولی مغربی ساحلی بولی تھی جوکہ کنعان کی عبرانی زبان سے مماثلت رکھتی تھی۔چنانچہ صاحب غیاث اللغات نے لکھاہے کہ ابجدکی ایجادمرامرنا نامی سامی النسل ایک شخص نے کی جو اس کے لڑکوں کے نام تھے۔
اسلامی انسائیکلوپیڈیامیں لکھاہے کہ حروف ابجددرحقیقت عبرانی اورآرامی حروف ہیں۔جن کوبعدمیں عربوں کی طرف منسوب کیاجانے لگا۔ لیکن پرانے فن تحریرسے مستنبط دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عربوں نے حروف ہجانبطیون سے اخذ کئے ہیں۔شروع میں عرب سامی زبان سے بالکل نابلدتھے۔انہیں اپنی عصبیت اورقومی حسب ونسب پربڑانازتھا۔اس نے وہ ابجدکے آٹھوں الفاظ کی اصلیت کے متعلق ادھراُدھرکی بے معنی تشریحات کرنے لگے اوریہ تشریحات ایسی تھیں جوروایتا نقل ہوتی گئیں جوکچھ انہوں نے اس بارے میں لکھاہے وہ سب لغوہے چنانچہ چند ایسی ہی تشریحات پیش خدمت ہیں۔
ایک روایت مہینہ کہ مدأن کے چھ بادشاہوں نے اپنے ناموں کے مطابق ترتیب پرحروف ہجامرتب کئے۔
صاحب غیاث اللغات نے بحوالہ ضوابطہ عظیم لکھاہے کہ بعض حضرات نے حروف ابجد کواباجادنامی بادشاہ کا مخفف ماناہے اورباقی سات حروف اس کے لڑکوں کے نام ہیں بعض نے لکھاہے کہ شروع کے چھ الفاظ شیطانوں کے نام تھے بعض نے کہاہے کہ ہفتوں کے دنوں کے نام تھے۔ چنانچہ سلوسٹرڈی ساسی نے اس طرف اشارہ کیاہے کہ یہ روایتیں پہلے چھ لفظوں کی توجیہہ بیان کرتی ہیں مثلاً،یوم الجمعۃ ثخذ نہیں بلکہ عروبہ ہے لیکن علمی طورپرہم ان روایات پراعتماد نہیں کرسکتے۔(اسلامی انسائیکلوپیڈیا)
اسی طرح صاحب غیاث اللغات نے بحوالہ صاحب مدارالافاضل کی ایک دلچسپ تشریح بیان کی ہے جوصرف قیاسی ہے مثلاً
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

(۱)ابجد۔ای وجدفی المعصیۃ۔
(۲)ہوز۔ای اتبع ھواہ(العیاذباللہ)
(۱)حضرت آدم سےگناہ کا صدورہوا۔
(۲)یعنی انہوں (حوّا)نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کی(العیاذباللہ)
یہ اسی قسم کی بے تکی تشریحات ہیں جیساکہ بعض مفسرین نے حرف مقطعات کی تشریح کی ہیں مثلاً’ ’ طہ ‘‘ کوسانپ کی شکل قراردیاہے اوریہ ہیں علامہ فراہی صاحب (نعوذباللہ)
قواعدجمل کے حساب سے حروف تہجی جن سےکلمات مرکب ہوتے ہیں وہ ۲۸حروف ہیں اورہرحروف کے لئے عددمقررہے۔تفصیل اس کی اس قطعہ سے ظاہرہوگی
ابجد ہوزاورحطی تک ایک پر ایک توبڑھاتاجا
اورکلمن سے لیکے تاسعفص دس پردس کویونہی ملاتاجا
قرشت وثخذوضظغ کے لئے سوپہ سوویسی ہی لگاتاجا​
قواعدجمل میں مکتوبی حروف شمارکئے جاتے ہیں جو حرف کہ بولاجاتا ہے مگرلکھانہیں جاتا اس کا شمار حساب میں نہیں کیا جاتا جیسے اللہ کا الف جو بعد لام کےہے اور سمٰوات کا الف جو بعدمیم ہے کہ باجود بولے جانے کے نہ لکھے جانے کی وجہ سے حساب میں شمار نہیں کیا جاتا اور جو حروف کے مخلوط التلفظ ہیں جیسے ابھارونکھارمیں یائے مخلوط التلفظ ہے ۔یاحوحروف کے ملفوظ ہیں مگرلکھے جاتے ہیں جیسے ملک الشعراء میں ملک کے بعدجوالف ولام ہے کہ لکھا جاتاہے مگرپڑھانہیں جاتاان حروف کابوجہ مکتوب ہونے کے حساب میںشمارہوگا۔ان حرفوں کا استعمال شروع میں تاریخی نام رکھنے ۔یاتاریخ پیدائش یاتاریخ وفات معلوم کرنے کے لئے ہوتاتھا۔شعراء ایران ہندوستان وعرب نے ان کا استعمال خوب کیاہے ایران میں سولہویں صدی عیسوی قبل الشعراء بابیوں اوربہائیوں نے کافی تاریخی اشعارلکھے ہیں ملاحظہ ہو’’تاریخ ادبیات ایران ‘‘،ایران سے شعراء کی کافی بڑی تعدادہندوستان آئی جوبعدمیں مستقلاًیہیں سکونت پذیرہوگئے جنہوں نے اردومیں تاریخی اشعارکہے۔ ان شعراء میں شمس ولی اللہ ولی فہرست ہیں ان کے بارے میں مولوی محمدحسین آزادلکھتے ہیں کہ یہ اردونسل کا آدم جب ملک عدم سے چلاتو اس کے سرپراولیت کا تاج رکھا گیا،(رہنمائے تاریخ اردوص،۲۳)قدیم زمانے سے صوفیوں نے ابجدی حروف کوتعویذ اورجادوطلسمات کے مقصد سےاستعمال کرناشروع کررکھاہے اس مذہب کے مطابق ان حرفوں میں سے ہرایک حرف جو الف سے شروع ہوکرغین پرختم ہوتے ہیں خدا کے ناموںمیں سے کسی ایک نام یادوسرقوائے روحانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔چنانچہ حرف اور عدد کے اس مشترک علاقہ نیزرموز مذکورہ کا لحاظ کرتے ہوئے صوفی عالموں کے ایک مسلک کی بنیاد قائم ہوئی مثلاً تعویذوں کے شروع کے طریقوں میں حرفوں کے اعداد کوباہم ملایاجاتاہے اوراوراس سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس کا تعلق وہ عالم جن سے قائم کرتے ہیں یہی طریقہ قرون وسطی کے یہودیوں میں صوفیانہ تشریح کے متعلق رائج تھا۔(ملاحظہ ہواسلامی انسائیکلوپیڈیا۔)
اصل میں ان حرفوں کی ایجاد حروف تہجی کویادکرنے کی غرض سے کیاگیاتھا اوریہی غرض وغایت عربوں اوریونانیوں اورسامیوں کی تھی لیکن بعد میں اس کا استعمال جادوگرجادو کے طلسمات میں اورشعراء حضرات اشعارمیں کرنے لگے جس کی وضاحت تاریخی کتب میں موجود ہے ہمارے علماء نے بھی اس کا استعمال تعویذوں میں شروع کردیا۔جیساکہ ذکرکیاگیاجس کاماحصل یہ ہے کہ یہ صرف قیاسی اور غیراسلامی تعبیرات ہیں لیکن ہمارے علماء وجہ جواز میں یہ فرماتے ہیں کہ آیات قرآنی کو اگرحرفالکھ کر دیاجائے تواس میں بے ادبی کااحتمال رہتا ہے اورغیرمسلموں کوتوحرفالکھ کردینے میں سرا سر بے ادبی ہے ۔اس لئے ان کو عددی شکل میں لکھ کر دینے سے وہی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو کہ حروف کے لکھنے سے ہوتے ہیں۔جب کہ یہ صرف خیال ہے جب تک کہ کسی اسلامی نص سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ آیات اورحروف کے خواص عدد کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔اس پریقین کرنا اورعمل کی تعمیرقائم کردینا غیرسنجیدہ حرکت ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

کوئی ان سے معلوم کرے کہ کیاشریعت میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟جب کہ خود نبی کریم ﷺنے جو خطوط مختلف سلاطین کوروانہ کئے ان کےابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی اور خودحضرت عمرفاروقؓ نے ایک ٹوپی کے اندر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر دی جس کے اوڑھنے سے اس کے سرکے درد کو آرام ملتا تھا۔جہاں تک اعدادکاتعلق ہے توایک جانورکے نام کے بھی وہی اعدادہوسکتے ہیں جوقرآنی الفاظ کے ہوتے ہیں ۔جیساکہ شروع میں ذکرکیاجاچکاہے۔ کہ ہندوئوں کے بھگوان ہری کرشناکے اعدادبھی ۷۸۶ہوتے ہیں اوراسی طرح نبیل جو کہ ایک بابی شاعرتھا بابیوں کے نزدیک ’’محمد‘‘ (ﷺ)کابدل ہے ا س لئے کہ ازروئے جمل دونوں کے اعداد’۹۲‘ہیں۔
ان سب وضاحتوں اورتوجیہات سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآنی آیات،یااسماء گرامی باری تعالیٰ واسماء حضورپاکﷺ کوعددی شکل میں لکھناایک غیرشرعی اورلغوہے یہودیوں اورمشرکوں کاطریقہ ہے۔ احادیث شریفہ میں صراحتاًمذکورہے کہ اجروثواب کامعاملہ حروف کی ادائیگی پر ہے جیساکہ ’’الم‘‘اس کے ہرلفظ پراللہ تعالیٰ نے ثواب دینے کاوعدہ فرمایاہے اوراسی میں خیروبرکت وبھلائی ہے ناکہ عددلکھنے پراللہ تعالیٰ صحیح طور پر سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔
 
Top