محمد وقاص گل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 23، 2013
- پیغامات
- 1,033
- ری ایکشن اسکور
- 1,711
- پوائنٹ
- 310
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حزب التحریر کی حقیقت
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی (رحمہ اللہ علیہ)ترجمہ
طارق علی بروہی
میرے سامنے دو سوال ہیں جو ایک ہی نقطے پر ہيں اور وہ ہے جماعت حزب التحریر۔
سوال 1: سائل کہتا ہے: میں نے حزب التحریر([1]) کے بارے میں بہت پڑھا ہے اور مجھے ان کے افکار بہت اچھے لگتے ہیں۔ پس یا شیخ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کا مختصر سا تعارف ہمارے سامنے بیان فرمائیں؟
سوال 2: اس موضوع پر کچھ کلام تو ہے مگر ہم آپ سے اس کی تفصیلی شرح چاہتے ہیں کہ حزب التحریر کے کیا اہداف وافکار ہیں اور ان کی کیا غلطیاں ہیں آیا وہ غلطیاں عقیدے میں بھی بگاڑ پیدا کرتی ہیں؟
جواب: میرا جواب ان دونوں سوالوں کے تعلق سے یہ ہےکہ:
کوئی بھی حزب (جماعت) میری مراد مختلف اسلامی احزاب، جماعتوں، گروہوں اور تنظیموں میں سے صرف حزب التحریر نہیں بلکہ ان جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت جن کی جماعتیں اور احزاب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ اور ان دو مصادر پر مزید تیسری چیز منہج سلف صالحین پر قائم نہ ہو تو بلاشبہ اس کا انجام خسارہ ہی ہے، اگرچہ وہ اپنی دعوت میں کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں۔ چناچہ ان اسلامی جماعتوں کے بارے میں تحقیق یا جواب کہ جن کے بارے میں یہ مفروضہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کے لیے مخلص اور امت کی خیرخواہ ہیں جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ: ''الدِّينُ النَّصِيحَةُ''([2])(دین تو خیرخواہی کا نام ہے)۔
اگر ان احزاب کی دعوت کتاب وسنت اور منہج سلف صالحین کے مطابق نہیں تو ان کی دعوتوں کا نتیجہ سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ بات یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا﴾
(العنکبوت: 69)
(جو ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں تو ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی جانب ہدایت فرماتے ہیں)
پس جس کی جدوجہد اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب اور اس کے نبی e کی سنت اور منہج سلف صالحین کے مطابق ہو تو ایسوں پر اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ﴾
(محمد: 7)
(اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا)
میں یہ عظیم اصول ایک بار پھر آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ جس پر ہر جماعت کی دعوت کو قائم ہونا ضروری ہے: کتاب وسنت اور منہج سلف صالحین۔ جب معاملہ ایسا ہے تو میں اس معرفت کی روشنی میں جو مجھے آج اسلامی دنیا میں موجود تمام جماعتوں اور احزاب کے بارے میں ہے وہ سب کی سب سوائے ایک جماعت کے جسے میں ایک حزب نہیں بلکہ جماعت کہوں گا کیونکہ وہ حزبیت اور انتشار کا شکار نہیں ہوتے اور سوائے مذکورہ بالا اصول کے کسی اور چیز کے لیے تعصب نہیں کرتے اور وہ اصول ہے کتاب اللہ، سنت رسول اللہ ﷺ اور منہج سلف صالحین۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس ایک جماعت کے علاوہ کوئی بھی اس اصول کی جانب دعوت نہیں دیتی جسے میں نے ابھی واضح کیا اور کئی بار پہلے بھی اسے دوہراتا رہا ہوں۔ وہ فقط قرآن وسنت کی طرف ہی دعوت دیتے ہیں وہ ہماری طرح اس میں تیسری ضروری بات یعنی منہج سلف صالحین کا اضافہ نہیں کرتے۔
اس صورتحال میں آپ کے سامنے اس تیسری قید یعنی منہج سلف صالحین کی اہمیت واضح ہوگی، نبی اکرم ﷺ سے منقول کتاب وسنت اور اسلامی جماعتوں بلکہ فرقوں کی موجودہ حالت کے لحاظ سے۔ اس دن سے لے کر جب پہلے پہل اسلامی جماعتوں میں اختلافات نے سب سے پہلے اپنی گردن اٹھائی یا سینگ ظاہر کیے یعنی جب خوارج نے امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے خلاف خروج کیا اور اس الجعد(بن درہم) والے دن سے جو معتزلہ والی دعوت دیتا تھا، اورجواس کے بعد آئے انہوں نے اعتزال میں اس کی تقلید کی، اور اس کے علاوہ جو قدیم فرقے ہیں جن کے نام معروف ہیں اور جنہوں نے آج نت نئے نام رکھ لیے ہیں۔ یہ سارے فرقے خواہ قدیم ہوں یاجدید ان میں سے کوئی فرقہ یہ اعلان نہیں کرتا کہ ہم قرآن وسنت پر نہیں ہیں۔ یہ تمام فرقے اپنی اختلافات کے باوجود چاہے وہ اصول وعقائد میں ہوں یا احکام وفروعات میں، یہ اپنے دین میں تفرقہ مچانے والے سب کے سب یہی کہتےہيں جو ہم کہتے ہیں کہ ہم کتاب وسنت پر ہیں۔ لیکن ہم سے وہ اس چیز میں الگ ہوجاتے ہیں جو ہماری دعوت کا اتمام ہے وہ یہ نہیں کہتے یعنی منہج سلف صالحین۔
و ہ کیا چیز ہے جو ان فرقوں کے مابین فیصلہ کن ہو جبکہ حالت یہ ہےکہ یہ سب کم از کم زبان یا دعوت کی حد تک اپنےکو کتاب وسنت کی جانب دعوت دینے والا کہتےہیں۔ جب سب ایک ہی بات کررہے ہیں تو آخر ان کے درمیان فیصلہ کن بات کیا ہوسکتی ہے؟
جواب: منہج سلف صالحین۔ یہاں بعض لوگوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے جیسا کہ عصر حاضر میں کہا جاتا ہے کہ کتاب وسنت پر یہ تیسرا ضمیمہ کہ"منہج سلف صالحین کے مطابق" آپ کہاں سے اٹھا لائے ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم اسے کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ اور جس پروہ آئمہ سلف چلتے آئے ہیں کہ جن کے بارے میں آج کہا جاتا ہے کہ ان کی جمہور اہل سنت والجماعت پیروی کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اللہ تعالی کا فرمان پیش کرتے ہیں:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِه جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾
(النساء: 115)
(جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہﷺ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، اور وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے)
پس آپ اس آیت میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ سنتے ہیں، یہ جملہ اللہ تعالی کے اس فرمان ﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ﴾ پر عطف ہے۔ اگر اللہ تعالی ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ ذکر نہیں فرماتے اور آیت کچھ اس طرح سے ہوتی کہ (ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی نولہ ماتولی ونصلہ جھنم وساءت مصیرا) اگر آیت کریمہ میں اس جملۂ طیبہ کا اضافہ نہ ہوتا﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ تو بھی ان قدیم اور جدید دعوتوں کے مطابق اس میں کوئی کمی نہ ہوتی کیونکہ وہ تو کہتے ہیں ہم بس کتاب وسنت پر ہی ہیں۔ اس مقولہ کہ "کتاب وسنت کی اتباع" کی تحقیق واجب ہے ،اولاً اس کی شامل وکامل تحقیق اور ثانیاً عملی تطبیق کےاعتبار سے۔ مثلاً اللہ تعالی کا یہ فرمان جو علماء مسلمین کےیہاں معروف ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾
(النساء: 59)
(اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں (حکمرانوں/علماء) کی۔ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول اللہ ﷺ کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے)
عالم اسلام میں سے تمام مقلدین کواگر اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ یعنی کتاب اللہ اور سنت نبوی کی جانب بلایا جائے تو وہ کیا کہیں گے؟
جواب: وہ کہیں گے نہیں ہم تو فلاں مذہب کی اتباع کرتے ہيں۔ یہ کہے گامیرا مذہب حنفی ہے اور وہ کہے گا شافعی اور آخر تک جو مذاہب ہیں۔ کیا جنہوں نے کتاب وسنت کی اتباع کے مقام پر اپنے آئمہ کی تقلید کو رکھا ہے انہوں نے اس آیت کریمہ کی تطبیق کی جو میں نے آخر میں بیان کی ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ﴾؟
جواب: انہوں نے ایسی کوئی چیز نہیں کی اور ان کا یہ کہنا کہ ہم کتاب وسنت پر ہیں کوئی فائدہ مند نہیں کیونکہ انہوں نے عملی طور پر کتاب وسنت کی تطبیق نہیں کی۔ اس مثال کےذریعہ میں پہلے موضوع کے قریب لانا چاہتا تھا کیونکہ اس مثال سے تو مقلد مراد تھے، جبکہ پہلی والی بحث میں میری مراد وہ اسلامی داعیان تھے جن کے بارے میں ہمارا یہ مفروضہ ہے کہ وہ مقلدین نہیں ہوں گے کہ جو اپنے غیر معصوم آئمہ کے اقوال کو اللہ تعالی اور اس کے معصوم رسول ﷺ کے اقوال پر فوقیت دیتے ہیں۔ اگر بات ایسی ہی ہےتو پھر معاملے پھر کر عقیدے کی طرف چلا جاتا ہے۔ پس عقیدہ کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے سے ماخوذ کیا جاتا ہے، کیونکہ اس آیت میں یہی سلف صالحین مراد ہیں: ﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ اللہ تعالی نے یہ جملہ آیت کے بیچ میں عبث وبےکار ذکر نہیں فرمایا بلکہ اصلاً ان کے آپس میں ربط کی تاکید فرمانے اور ایک قاعدہ قائم کرنے کوذکر فرمایا۔ اور وہ قاعدہ ہے: ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی ﷺ کی سنت کے فہم کے لیے محض اپنی زمانے کے اعتبار سے متأخر اور فہم کے اعتبار سے پست عقلوں پر بھروسہ کریں۔ بلکہ مسلمان بنیادی طور پر اورقاعدہ کےاعتبار سے کتاب وسنت کے متبعین تب ہوں گے جب وہ کتاب وسنت پر منہج سلف صالحین کے مطابق کا اضافہ کریں گے۔ کیونکہ یہ آیت جس طرح سے اس واضح نص پر مشتمل ہے کہ ہم پر واجب ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اور خلاف ورزی نہ کریں اسی طرح سے اس نص پر بھی مشتمل ہے کہ سبیل المؤمنین (مومنوں کی راہ) کی مخالفت نہ کریں اور ان کی راہ کے علاوہ کسی راہ کی پیروی نہ کریں۔ معنی اس کا یہ ہوا کہ اس آیت میں مذکور دونوں قیدوں پہلی اور دوسری سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ہم پر اتباع رسول ﷺ کرنا اوران کی مخالفت کو ترک کرنا واجب ہے اسی طرح سے سبیل المؤمنین کی اتباع کرنا اور ان کی عدم مخالفت واجب ہے۔
یہاں سے ہم کہتے ہیں کہ ہر اسلامی حزب یا جماعت کوچاہیے کہ وہ اپنی اصل بنیاد کو درست کرے یعنی کتاب وسنت اور فہم سلف صالحین پر اعتماد کریں۔ سلفی منہج کی اس قید کے مطابق فکری طور پر حزب التحریر یا اخوان المسلمین اوران جیسی دیگر جماعتوں نے اپنی بنیاد نہیں رکھی۔ ہماری یہاں جماعتوں سے مراد اسلامی احزاب (پارٹیاں) ہیں پر، البتہ جو کھلم کھلا اس اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کرتی ہیں جیسے بعثی([3]) یا کمیونسٹ سیکولر پارٹیاں تو فی الحال ان کے متعلق ہم بات نہیں کررہے۔
پس شاہد یہ ہے کہ اس تیسرے اصول یعنی سبیل المؤمنین کی اتباع پر حزب التحریر نے اپنی بنیاد نہیں رکھی اور نہ ہی دیگر احزاب نے۔ جب امر واقع اس طرح ہے تو پھر ہم مسلمان مرد اور عورت کو یہ جاننا چاہیے کہ جو لکیر سرے سے ہی صراط مستقیم سیدھی لکیر سے ہٹ کر کھینچی گئی ہو تو وہ جتنا آگے چلتی جائےگی اتنا ہی اس صراط مستقیم سے دور ہوتی جائے گی جس کا ذکر رب العالمین نے قرآن کریم میں فرمایا:
﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه﴾
(الانعام: 153)
(اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو، دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی)
یہ آیت صریح الدلالت اور قطعی الدلالت ہے اورواجب ہےجیساکہ دیگر احزاب سےہٹ کرحزب التحریر اپنی دعوت، اپنے رسائل اور تقاریر میں کہتی ہے([4])۔ کیونکہ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالی تک پہنچنے والی راہ صرف ایک ہی ہے۔ اور جودوسری راہیں ہیں وہ مسلمانوں کواللہ تعالی کی راہ سے دور لے جانے والی ہیں۔
﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه﴾
اور رسول اللہ ﷺ کی سنت نے اس کی مزید توضیح وبیان فرمایا جیسا کہ ہمیشہ سنت نبوی ایسا کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا قرآن کریم میں اپنے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے فرمان ہے:
﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ﴾
(النحل: 44)
(یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں)
پس سنت نبوی قرآن حکیم کا کامل بیان ہے اور قرآن مجید اصل اصول اور اسلام کا دستور ہے۔ جبکہ سنت اس قرآن پاک کو بیان کرنے والی اور اس کی تفصیل کرنےوالی ہے۔ میں بلامشابہت محض سمجھانے کےلیے بیان کرتا ہوں کہ جیسا کہ ہمارے دنیاوی نظام ودستور ہوتے ہیں پھر ان قوانین کی تشریح ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم ایک دستور ہےاورسنت اس کے قوانین کا تشریحی بیان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمانوں میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ قرآن کریم کا فہم رسول اللہ ﷺ کے بیان کےبغیر ناممکن ہے۔ یہ ایسی بات ہے کہ اس پر سب کا اجماع ہے۔ لیکن جس چیز میں مسلمانوں میں اختلاف تھا پھر ان کے بعد ان کے آثار بھی اختلاف کرتے چلے آئے ہیں وہ یہ کہ تمام قدیم فرقوں نے اس تیسرے اصول کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا یعنی اتباع سلف صالحین۔ لہذا اس طور پر انہوں نے آیت کریمہ کی مخالفت کی جو میں نے ابھی کئی بار تلاوت کی۔ پھر اس کےبعد سبیل اللہ (اللہ کی راہ) کی مخالفت کی کیونکہ اللہ تعالی کی راہ تو ایک ہے جس کا ذکر سابقہ آیت میں ہوا ﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه﴾ میں نے کہا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اس آیت کا مزید بیان اور وضاحت فرمائی ہے کہ آپ کے ایک جلیل القدر صحابی جو فقہ میں بہت مشہور ہیں یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود t فرماتے ہیں کہ: ''خطا لنا رسول اللہ ﷺ یوما خطا مستقیما علی الارض ثم خطط حول ھذا الخط خطوطا قصیرۃ ثم مد اصبعہ الکریمۃ علی الخط المستقیم وقرا ﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه﴾''([5]) (ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک روز زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی ، پھر اس کے ارد گرد کچھ چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچی پھر اپنی انگشت مبارک اس سیدھی لکیرپر رکھ کر یہ آیت تلاوت فرمائی: (اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو، دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی) پھر آپ ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ ﷺ اپنی انگلی مبارک کو اس خط مستقیم (سیدھی لکیر) پر پھیر رہے تھے: یہ اللہ کی راہ ہے۔ پھر ان چھوٹی چھوٹی لکیروں کی جانب اشارہ فرمایا جواس خط مستقیم کےاردگرد کھینچی گئی تھیں کہ: اوریہ مختلف راہیں جن میں سے ہر راہ کےاوپر ایک شیطان بیٹھا اپنی طرف لوگوں کودعوت دے رہاہے)۔
اور اس حدیث کی مزیدتفسیرایک اور حدیث کرتی ہے۔ مندرجہ بالاحدیث اوریہ حدیث آیت سبیل المؤمنین کی وضاحت شمارہوتی ہیں۔ یہ حدیث جسے اہل سنن جیسے ابو داود اور ترمذی اوران جیسے دوسرے آئمہ حدیث نے صحابہ کی ایک جماعت مثل سیدنا ابو ہریرہ، معاویہ، انس بن مالک y وغیرہ سے مختلف طرق کے ساتھ روایت کیا ہےکہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ''افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَافْتَرَقَتْ النَّصَارَى عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَسَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا وَاحِدَةً۔ قَالُوا: مَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ :مَا أَنَا عَلَيْهُ وَأَصْحَابِي''([6]) (یہود تفرقہ کرکے اکہتر (71) فرقوں میں بٹ گئے اور نصاری تفرقہ کرکے بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے، اور میری بھی یہ امت عنقریب تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم جائیں گے سوائے ایک کے۔ پوچھا کہ: وہ کونسی جماعت ہوگی اے اللہ کے رسولﷺ؟ فرمایا: وہ وہ جماعت ہوگی جو اس چیز پر ہوگی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں) یہ حدیث ہمارے لیے آیت میں مذکور سبیل المؤمنین (مومنوں کی راہ) کی وضاحت کرتی ہے۔ اور اس سے مراد کونسے مومنین ہیں؟
اس سے مراد وہی ہیں جن کا ذکر امت کے تفرقے والی حدیث میں ہوا کہ جب آپ ﷺ سے فرقۂ ناجیہ (نجات پانے والے فرقے) سے متعلق پوچھا گیا کہ اس کا منہج، صفات اور نقطۂ نظر کیاہوگا؟ تو آپ ﷺ نےفرمایا: ''مَا أَنَا عَلَيْهُ وَأَصْحَابِي'' (جس چیز پر میں اورمیرے صحابہ کرام ہیں)۔ یہاں میں ایک تنبیہ کرنا چاہوں گا کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کا جواب اللہ تعالی کی طرف سے وحی تو نہیں تھا مگراس وحی کو سمجھانے کا طریقہ اور آیت کریمہ میں مذکور سبیل المؤمنین کی تفسیر کرنا مقصود تھا۔ بلکہ ابھی جومیں نے بارباربیان کیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا اور سبیل المؤمنین کا بھی، اسی طرح سے آپ ﷺ نے فرقۂ ناجیہ کی علامت یہ بتائی کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگا۔ پس جیسا کہ ہم پاتے ہیں کہ آیت نے محض رسول اللہ ﷺ کے ذکر پر اکتفاء نہیں کیا اسی طرح سے اس حدیث نے بھی محض رسول اللہ ﷺ کے ذکر پر ہی اکتفاء نہیں کیا، بلکہ آیت نے ساتھ میں سبیل المؤمنین کا ذکر کیا اسی طرح سے حدیث نے بھی اصحاب رسول e کا ذکر کیا۔ لہذا یہ حدیث قرآن کریم کے ساتھ مل گئی اور موافق ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي''([7]) (میں تمہارے درمیان دو باتیں چھوڑے جارہاہوں اگر تم انہیں تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے: کتاب اللہ اور میری سنت)۔
اور سیدنا عرباض بن ساریہ ؓ کی حدیث بھی ہے([8])۔ مگر صد افسوس ہے کہ اس سے تمام اسلامی جماعتیں غافل ہیں خصوصاً حزب التحریرکہ جو دوسرے فرقوں سے اس طورپر ممتاز ہے کہ وہ انسانی عقل کو جو اسلام نے حیثیت دی ہے اس سے بڑھ کروزن دیتے ہیں۔....
(جاری ہے ۔ ۔ ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
[1] لبنان سے شروع ہونے والی ایک اسلامی جماعت جو پاکستان میں 1999ء سے متحرک ہوئی۔ حزب التحریر کو 1953ء میں بیت المقدس میں جامعہ الازہر کے تعلیم یافتہ تقی الدین نبہانی نے قائم کیا جو اس کے نظریہ ساز بھی تھے۔ حزب التحریر جب پاکستان میں سرگرم ہوئی تو اس وقت بھی یہ تمام عرب ملکوں میں اور وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں میں ممنوعہ تنظیم تھی۔ حزب التحریر پاکستان میں سنہ دو ہزار2000ء میں مکمل طور پر نمودار ہوئی جب لاہور شہر کے نمایاں مقامات پر بڑے بڑے اشتہاری بورڈ دیکھے گئے جن پر لکھا تھا خلافت وقت کا تقاضا ہے۔ اور اب کراچی میں بھی جگہ جگہ اس کے اسٹیکرز آویزاں نظر آتے ہیں۔ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نوید بٹ اس کے ترجمان تھے اور اس کے دوسرے ارکان میں روانی سے انگریزی بولنے والے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے گریجویٹ اور بظاہر خوشحال نوجوان افراد شامل رہے۔حزب التحریر پاکستان میں بظاہر کسی پُر تشدد سرگرمی میں ملوث نہیں اور نہ اس کے کسی رکن پر ایسا کوئی مقدمہ قائم ہوا لیکن ان کے نظریات میں مسلمانوں کو عقیدہ ومسلک سے بالا تر ہوکر ایک وحدت یعنی خلافت پر جمع کرنے کا مشن موجود ہے۔ اس سلسلے میں وہ شریعت کے عدم نفاذ کے سبب سے مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کے خلاف خروج کی دعوت دیتے ہیں۔ امریکی دباؤ کے زیر اثر 2003ء میں پاکستان میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔ اگست 2007ء میں حزب التحریر نے انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بلائی جس میں ساٹھ ہزار کے قریب مذہبی علماء اور کارکنوں نے شرکت کی۔ اکتوبر 2009 میں بنگلہ دیش میں بھی اس جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ (ویکی پیڈیا سے کچھ ترمیم کے ساتھ ماخوذ) (ط ع)
[2] صحیح: البخاری فی الایمان (1/166 فتح) معلقاً باب قول النبی ﷺ "الدین النصیحۃ"، ومسلم فی الایمان (55/95)، وابوداود فی الادب (24944)۔
[3] عراق کی عربی سوشلسٹ پارٹی، صدام حسین کا تعلق بھی اسی پارٹی سے تھا۔ (ط ع)
[4] اس کا کچھ تفصیلی ذکر آگے چل کر شیخ " کے بیان میں آئے گا۔ یہ دلائل کی مختلف اقسام ہیں جیسے قطعی الثبوت، قطعی الدلالت، ظنی الثبوت، ظنی الدلالت۔ قطعی الثبوت: کا مطلب ہے جس کی سند یقینی ہو جو اہل سنت والجماعت کے نزدیک قرآن اورتمام صحیح وحسن وغیرہ مقبول احادیث ہیں جبکہ بعض حزب التحریر سمیت بعض گمراہ فرقوں کے نزدیک قعطی الثبوت محض قرآن اور متواتر احادیث(جس کے ہر دور میں اس کثرت سے روای ہوں کہ جن کا عقلاً جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو) ہیں لیکن آحاد احادیث (جن کے متواتر کی طرح راوی نہ ہو بلکہ فرد واحد سے مروی ہو) اگرچہ صحیح ترین ہوں یقینی نہیں بلکہ ظنی الثبوت ہیں۔ قطعی الدلالت: کا مطلب ہے کہ جو دلیل ہے وہ اس مسئلے میں بالکل صریح ہو جس کے اور معنی کرنا ممکن نہ ہو۔ ظنی الثبوت: جس کی سند صحیح نہ ہو جیسے اہل سنت والجماعت کے نزدیک ضعیف احادیث اور گمراہ فرقوں کے یہاں خبر آحاد صحیح حدیث بھی ظنی الثبوت ہے۔ ظنی الدلالت: جس صحیح ثابت شدہ دلیل کے ایک سے زائد معنی لینا ممکن ہو یا مختلف تاویلیں ہوں تو وہ ظنی الثبوت ہے۔ حزب التحریر کی اردو ویب سائٹ میں ان کے منہج ومنشور سے متعلق کتب میں آپ کو یہی اصطلاحات جابجا ملیں گی۔ (ط ع)
[5] صحیح: احمد (3/397)وابن ماجہ فی المقدمۃ (11)، والدارمی فی المقدمۃ (202)، وصححہ الالبانی فی صحیح ابن ماجہ (11)۔ سنن دارمی 202 کے الفاظ ہیں: "خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِﷺ يَوْمًا خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: هَذَا سَبِيلُ اللَّه، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ، ثُمَّ تَلَا: ﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه﴾" (ط ع)
[6] حسن: ابو داود فی السنۃ (4569)، عن ابی ھریرۃ، والترمذی فی الایمان (2641)، عن عبداللہ بن عمرو، وقال الترمذی: "ھذا حدیث مفسر غریب لانعرفہ الا من ھذا الوجہ" وحسنہ الالبانی فی صحیح سنن الترمذی (2129)۔ (ط ع)
[7] الحاکم فی المستدرک (1/172)، و(319) ط دار الکتب العلمیۃ تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، وصححہ الالبانی فی صحیح الجامع الصغیر (2937)۔
[8] اس حدیث کی جانب اشارہ ہے ''وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذ'' (صحیح ترمذی 2676) (رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیں دوپہر کی نماز کے بعد ایک بلیغ قسم کا وعظ فرمایا جس سے آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور دل دہل گئے، پس ایک شخص نے کہا لگتا ہے کہ گویا یہ کسی الوداع کہنے والے کا وعظ ہے تو اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ ہم سے کیا عہد لیتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور(حکومت کی بات) سننے اور اطاعت کرنے کی اگرچہ (تمہارا حاکم) کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا۔ اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے بچو کیونکہ یہ گمراہی ہیں۔ تم میں سے جو کوئی ایسے حالات پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے اور اسے اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام لے)(ط ع)۔