• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسبنا اللہ و نعم الوکیل - ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
حسبنا اللہ و نعم الوکیل - ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے
1780856_559424900823040_441820842_n.jpg

حسبنا اللہ و نعم الوکیل

ہر طرح کی مشکل و پریشانی میں صرف اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرنا چاہیے اور زبان پر یہ الفاظ لانے چاہیں

حسبنا اللہ و نعم الوکیل (ال عمران #١٧٣)
ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے ،،

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ،،حسبنا اللہ و نعم الوکیل ،، کا کلمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہ تھا جب انہیں آگ میں ڈالا گیا (تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈک اور سلامتی والی بنا دیا) اور (یہی کلمہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے کہ کہ کفار نے آپ کے مقابلے میں لشکر جرار تیار کیا ہے تو ان سے ڈرو مگر اس سے آپ کے ایمان میں اور بھی اضافہ ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے ،،

{ بخاری # ٤٥٦٣}
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ "(الزمر:36)
﴿ اَلَیْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَہ ﴾
================================

یہ کہ نبی ﷺ کے جاہ و منصب یا اس کے حق یاذات کو وسیلہ بنانا جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ اے اللہ !میں تجھ سے تیرے نبی کے وسیلے یا تیرے نبی کے جاہ و منصب کے ذریعےیا تیرے نبی کے حق یا انبیاء کے جاہ و حق یا اولیاء کے جاہ و حق کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں تو یہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل ہے اور ایسا کرنا نبی ﷺ کے ساتھ جائز ہےاور نہ ہی ان کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے اسے جائز قرار نہیں دیا
محمد ﷺکا وسیلہ

نبی ﷺ کا وسیلہ اختیار کرنا کہاں تک جائز ہے ؟

اگر کوئی شخص رسول کی پیروی اس کی محبت،اس کے بتائے گئے راستے پر عمل اورا س کےمنع کئے گئے کاموں سے اجتناب اور عبادت میں اخلاص کے ذریعہ رسول کو وسیلہ بناتا ہے تو یہ عین اسلام ہے اور یہی اللہ کا دین ہے جس کے ساتھ انبیاء کرام مبعوث کئےگئے۔

لیکن رسول سے دعا کے زریعےاور مدد طلب کر کےوسیلہ پکڑنا اور اس سے دشمنوں پر فتح یابی اور بیماروں کی شفایابی کی دعا کرنا تو یہ شرک اکبر ہے اور یہ ابو جہل اور اس کے جیسے دوسرے اصنام پرستوں کا دین ہے ،اسی طرح نبیﷺ کے علاوہ کسی نبی ،ولی،جنو ںملائکہ،شجروحجر اور اصنام سے مدد مانگنا یا مرادیں مانگنا بھی شرک اکبر ہے۔

عبادت کی وہی قسم جائز ہے جس کی دلیل شریعت مطہرہ میں موجود ہو۔

محمد ﷺ کی سفارش کی دلیل میں ایک اندھےآدمی کی مثال دی جاتی ہے کہ اس آدمی نے آپﷺ کو وسیلہ بنایا تو اس توسل کا معنی یہ ہے کہ نبیﷺ اس کے لئے دعا فرمادیں اور اس کی بصارت لوٹا دینے کی سفارش اللہ سے کر دیں یہ نبی کی جاہ یا حق یا ذات کا وسیلہ پکڑنا نہیں ہے ۔
فوت شدگان کےعلاوہ زندوں کا وسیلہ جائز ہے جیسے آپ کسی بھی نیک شخص سے کہیں کہ آپ اللہ سے دعاکریں کہ اللہ مجھے میری بیماری سے شفا دے یا میری بینائی لوٹا دے یا مجھے اللہ صالح اولاد عطا کر دے یا اسی طرح کی دوسری دعائیں کرائیں تو یہ صحیح ہے ۔اور بذات خود بھی اپنے لئے دعا کرے ۔

میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی اور وسیلہ بالذات نہیں۔

زندہ بزرگوں سے دعا کروانا

دعا دوسرے سے کروانی بھی اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب آپ خود بھی دعا کریں اور اللہ کا اذن ہوجائے۔ جو بزرگ فوت ہو جائیں ان کے لیے تو ہم زندوں کو دعا کرنی چاہیے۔
خود دعاکرنے اور'زندہ بزرگ'سےدعا کروانے کا عقیدہ درست ہے۔
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی تھا۔

دلیل:

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قحط پڑتا، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور کہتے:

(( اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیَّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَیُسْقَوْنَ )) (صحیح البخاري، الأستسقاء، باب سوال الناس الأمام الأستسقاء اذا قحطوا، ح: 1010)

" اے ہمارے اللہ! ہم تیری طرف اپنے نبی ﷺکا وسیلہ اختیار کرتے تھے(یعنی اُن کی زند گی میں اُن سے دعا کرواتے تھے)۔ اور تو ہمیں سیراب کرتا تھا۔ اب (آپ ﷺکی وفات کے بعد) تیری طرف اپنے نبیﷺ کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں(یعنی اُن سے دعا کرواتے ہیں) پس تو ہم کو پانی پلا۔"انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:" پس وہ سیراب کیے جاتے تھے ۔ "

I. نبی اکرم ﷺکی قبر وہاں موجود تھی۔ ان کی قبر پر ان کے وسیلہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اگر ہوتا تو قبر پر حاضر ہو جاتے۔ عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ تکلیف دے کر جنگل میں لے جانے کا کو ئی مقصد ہی نہ تھا۔

II. اگر کسی کی ذات اور جاہ کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ رسول اللہﷺ ( جو تمام مخلوقات سے افضل اور اعلی ہیں) کی ذات سے وسیلے کو چھوڑ کر حضرت عباس( جو فضیلت میں نبیﷺ سے کہیں گنا کم ہیں) کی ذا ت سے وسیلہ تلاش نہ کرتے ، کیونکہ انکو معلوم تھا کہ نبی ﷺ کی" دعا "کا وسیلہ انکی زندگی میں تھا۔کیونکہ نبی ﷺ اللہ سے دعا مانگتے تو اللہ انکی جس دعا کوچاہتا قبول کرتا تھا۔

III. انسان طبعا جس وقت اسکو سخت حاجت پیش آتی ہے کسی بڑے وسیلے ( جو اس کو مقصود تک پہنچادے ) کو تلاش کرتا ہے۔IV. اگر "ذات" کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ نبی کریم ﷺ کا وسیلہ انکی موت کے بعدچھوڑتے ؟؟؟

حالانکہ وہ خشک سالی اور قحط کی حالت میں تھے ، یہاں تک کہ اس سال کا نام قحط اور خشک سالی رکھا گیا۔

اب ہم غور کرتے ہیں کہ اس حدیث کو مخالفین کس طرح دلیل بناتے ہیں،

کیا یہاں پر مضاف جاہ (ذات) ہے یا دعا؟

I. حضرت عمر ؓ اور صحابہ اکرام اپنے اپنے گھروں میں نہیں بیٹھے اور گھروں میں بیٹھ کر یوں کہا ہو کہ ہم اپنے نبیﷺ کے چچا کے ذریعے وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ اصحابہ اکرام عید گاہ کی طرف تشریف لائے اور اپنے ساتھ حضرت عباسؓ کو لائے اور ان سے اپنے لئے دعا کروائی ۔ اس سے واضح اور روشن ہو گیا کہ یہاں مقام دعا کا مقام ہے اگر مقام ذات اور جاہ کے وسیلے کا ہوتا تو اصحابہ اکرام کے لئے یہ زیادہ لائق ہوتا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر نبیﷺ کی ذات اور جاہ سے وسیلہ پکڑتے ۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی ذات اپنے رفیق اعلی کی طرف منتقل ہونے سے تغیر نہیں ہوئی ۔
یہ سب ادلہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ اکرام نے نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ آپ کی وفات کے بعد تلاش نہیں کیا ، بلکہ وہ تو نیک، صالح ، "زندہ " اور دعا پر قادر شخص کو تلاش کرتے تھے اورا س سے اپنے لئے دعا کرواتے تھے ۔

سیدناحسین رضی اللہ عنہ ایک مقصد لے کر اٹھے تھے۔ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے۔ راستے ہی میں کربلا کے مقام پر المناک حادثہ پیش آگیا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ فوت شدہ صاحبِ قبر کے طفیل اور واسطہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ ہمارے رہبر و رہنما پیرِ کامل امامِ اعظم ﷺنے مسلمانوں کو دیا ہی نہیں۔ ورنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے گھرانے کی دنیا کو یوں داوٴ پر نہ لگاتے۔ بلکہ مدینہ میں اس قبر سے چمٹے رہتے جس میں ان کے نانا بزرگ، امام الانبیاء، فخرِ بنی آدم، سردارِ دو جہان ﷺ آرام فرما ہیں۔

قبر پرستی کی بیماری مسلمانوں میں وبا کی طرح پھیل گئی ہے

اللہ کا اِذن کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟

وہی عملِ صالح اللہ کے ہاں قابلِ قبول ہے جو خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے خوف سے نبی اکرم ﷺکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کیا جائے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (اٰل عمران:31)

"(اے میرے پیغمبر ) ان کو فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ "

گویا پیغمبر ﷺ کی پیروی ایک وسیلہ ہے۔ اسی سے اللہ کا اِذن حاصل ہو سکتا ہے۔

حضرت آدم،حضرت یونس ،حضرت زکریا،حضرت ابراھیم،حضرت ایوب،حضرت موسیٰ،حضرت لوط علیھم السلام اور سیدنا محمد ﷺ کی دعا ئیں قرآن ہمیں سنارہا ہے ،جوبنا کسی وسیلے کے خاص اللہ پر یقین اور اللہ سے امید کو ظاہر کرتی ہیں ۔

پھر اللہ کہتا ہے مفہوم

ہم نے ابراھیم،اسمعیل ،اسحق ویعقوب (علیھم السلام) کو پورے عالم میں بزرگی عطا فرمائی۔
تو پھر کیوں محمد ﷺ نے ان بزرگ ہستیوں کو بطور وسیلہ اپنی دعا میں شامل نہ کیا ؟ہے کوئی مسنون دعا آپ کے علم میں ؟

اور محمد ﷺ ۔۔۔انکی وفات کے بعد کیوں اصحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین نے ان کو بطور وسیلہ نہ لیا؟

کیوں کہ اللہ کے دین میں "اس" وسیلے کی کوئی موجودگی ہی نہیں۔

اور اتنی بڑی مثال ہے سورہ مجادلہ کی پہلی آیت۔۔۔سیدہ خولہ بنت ثعلبہ ؓ اللہ کے رسول کی زندگی میں اللہ کے رسول کے سامنے بیٹھے بیٹھے۔۔۔ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم نافذ کردینے کے بعد ۔۔۔اللہ سے اپنی بات منواتی ہیں ۔۔۔کہ جب تک وحی نہیں آتی وہ عورت وہیں بیٹھی ہے ۔۔۔ اور سورہ مجادلہ کی آیات نازل ہوتی ہیں ۔اور اللہ اپنے نبی کی بجائے اس عورت کی بات مان لیتا ہے۔۔۔
کون ہے پھر؟؟؟
اور کس کا وسیلہ ؟
 
Top