حسد ایک خطرناک بیماری ہے
انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی بیماری سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری کبھی تو جسمانی اور کبھی روحانی ہوتی ہے۔ان ہی بیماریوں میں ایک بیماری حسد بھی ہے،اس کا شمار دل کی بیماری میں ہوتا ہے ،کیونکہ اس کا تعلق دل سے ہی ہے، یہ بیماری بہت قدیم ہے اور اتنی ہی خطر ناک بھی۔اس کا شکار انسان طبعی موت سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔جو انسان کسی کے وسائل کو دیکھ کر یہ خواہش کرے کہ اس انسان سے یہ نعمتیں چھین کر مجھے مل جائیں یا اگر مجھے نہ ملے تو اس کے پاس بھی نہ رہے وہ تباہ ہوجائے تو یہ حسد کہلاتا ہے اور یہ دل کی ایک خطرناک بیماری ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
حسد اتنی خطرناک بیماری ہے کہ زمین پہ سب سے پہلا قتل ہی حسد کی وجہ سے ہوا۔جب قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔اللہ نے ہابیل کی قربانی کو قبول فرمایا تھا کیونکہ وہ پرہیزگار تھا جبکہ قابیل کی قربانی کو اللہ نے قبول نہیں کیا تھا کیونکہ وہ پرہیزگار نہیں تھا یہ دونوں آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے ،جب قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی تو اس کے دل میں اپنے بھائی ہابیل کے لیے حسد کی آگ پیدا ہوئی اور اس نے اپنے بھائی کو کہا۔"الحسد مرض من امراض النفس" حسد دل کی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور بڑا عام مرض ہے بہت ہی کم لوگ اس سے خلاصی پاتے ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے "ما خلا جسد من حسد"کوئی جسد حسد سے خالی نہیں۔لیکن کمینہ آدمی اس کو ظاہر کرتا ہے اور عزت دار آدمی اس کو چھپاتے ہوئے ختم کردیتا ہے۔[فتاوی ابن تیمیہ ۱۰۴/۱۰]
پتہ چلا کہ حاسد قتل جیسے عظیم گناہ کا بھی مرتکب ہوجاتا ہے۔اگر تم مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر ہاتھ نہیں اٹھاوں گا۔میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو سارے جہان کا رب ہے۔[سورۃ مائدہ۔۲۷]لاقتلنک ،قال انما یتقبل اللہ من المتقین۔[میں تجھے قتل کردوں گا۔ہابیل نے کہا،اللہ تو صرف متقین سے قبول کرتا ہے،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےعنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی ،صحابہ نے پوچھا پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟آپّ نے فرمایا،غرور ،تکبر،کثرت حرص دنیا میں محو ہونا،ایک دوسرے سے بیزار رہنا،اور ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہوگی ور پھر قتل بہت زیادہ ہوگا۔[المعجم الاوسط ۹۰۱۶ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ۶۸۰]
نبیّ کا ارشاد ہے۔[ولا تباغضو،ولا تحاسدوا،ولاتدابروا،و کونوعباد اللہ اخوانا۔]
"ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرواور نہ ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں ان کی عزت کے خلاف باتیں کرو بلکہ اللہ کےبندوں بھائی بھائی بن جاو۔کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے اوپر تک چھوڑے رکھے۔[بخاری،کتاب الادب ۶۰۶۵]
اس حدیث سے پتہ چلا کامیابی تبھی ملے گی جب انسان ایک دوسرے سے حسد نہیں کرینگے اور جب حسد کرنے لگے گے تو خیر کے دروازے بند ہوجاینگے۔آج ہمارا حال یہی ہے کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ایک دوسرے سے بیزار نظر آتے ہیں دوسروں کی خوبیوں سے جلتے ہیں کسی کے پاس زیادہ پیسہ آجائے تو اس سے حسد کرنے لگتے ہیں ،اسی برائی کی وجہ سے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت بڑھتی جارہی ہے اور قتل و غارت گری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہ تب ہی ختم ہوگا جب دلوں سے حسد ختم ہوگی محبت پیدا ہوگی۔لا یزال الناس بخیر مالم یتحاسدوا۔
[لوگ ہمیشہ خیر سے رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے،] [کنزالعمال ۷۴۴۹ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ۳۳۸۶]
ابو ھریرہ رض فرماتے ہیں، بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس حدیث سے پتہ چلا ایمان دار آدمی حاسد نہیں ہوتا اور حاسد ایمان دار نہیں ہوتا۔بندے کے دل میں دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوتی الایمان والحسد۔ایمان اور حسد۔[نسائی ۳۱۱۱ صحیح ابن حبان ۴۶۰۶]
عبد اللہ بن عمر رض بیان کرتے ہیں کہ
ایک روز صحابہ کرام نبیّ کے پاس موجود تھے آپّ نے فرمایا ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص آنے والا ہےتھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک انصاری صحابی تشریف لائے انکے ہاتھ میں جوتا تھا اور داڑھی مبارک سے وضو کے قطرات گر رہے تھے تو انہوں نے آکر سلام کیا دوسرے دن پھر آپّ نے یہی ارشاد فرمایا؛کہ ابھی ایک جنتی آنے والا ہے اور وہ ہی انصاری صحابی تھے،تیسرے دن پھر آپّ نے بشارت دی اور وہی انصاری صحابی تھے۔مجلس میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی عنہ بھی موجود تھے انکے دل میں شوق پیدا ہوا کیوں نہ میں اس آدمی کا پیچھا کروں اور چند دن اور چند راتیں ان کے پاس گزاروں اور اس میں موجود وہ امتیازی خوبی اپنے اندر پیدا کرلوں تاکہ مجھے بھی اللہ کی جنت کا داخلہ مل سکے۔چناچہ عبد اللہ بن عمرو تین راتیں ان کے پاس رہےاور رات گئے تک چپکے چپکے دیکھتے رہےکہ یہ انصاری صحابی کونسا خاص عمل کرتا ہے جس کی وجہ سے نبیّ نے اسے تین بار جنت کی بشارت دی۔سیدنا عبد اللہ کہتے ہیں تین راتیں گزارنے کے باوجود مجھے کوئی خاص عمل نظر نہ آیا۔رات بھر وہ لیٹَے رہتے جب کروٹ بدلتے تو الحمد اللہ اور اللہ اکبرکہتے اور فجر ہوتے ہی نماز کے لیے نکل پڑتے۔میں نے تین راتوں کے بعد اجازت لی اور کہا بھائی مجھے اصل مقصد حاصل نہیں ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے تین بار جنتی قرار دیا ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں تجھ میں ایسا کو ن سا خاص عمل ہے کہ تجھے دنیا وآخرت کا سب سےعظیم مرتبہ حاصل ہوا ۔انصاری صحابی کہنے لگا میرے بھائی مجھ میں کوئی ایسا خاص عمل نہیں ہے جو معمول سے ہٹ کر ہو،معمولی سا مسلمان ہوں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ اتنی بات سن کر عبد اللہ بن عمرو چل دیئے،جب وہ تھوڑا سا دور گئے تو اس انصاری صحابی نے بلایا اور کہنے لگے مجھے کوئِی خاص عمل تو یاد نہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ میرے دل میں مسلمانوں میں سے کسی کے لیے بھی کوئی دھوکااور حسد نہیں اس بھلائی پر جو اللہ نے انہیں عطا کر رکھی ہے۔عبد اللہ بن عمرو فرمانے لگے یہی وہ بات ہے جس کو میں نے تجھ سے پالیا ہےاور اسی کی تو ہم طاقت نہیں رکھتے۔ [ مسنداحمد،۱۲۶۹۷،]آپّ سے پوچھا گیاکہ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتر کون ہے؟تو آپّ نے فرمایاہر مخموم القلب اور صدوق اللسان ،صحابہ کرام نے کہا کہ صدوق القلب تو ہم جانتے ہیں[زبان کا سچا]لیکن یہ مخموم القلب کیا ہے؟آپّ نے فرمایا وہ پاک صاف متقی شخص جسکے دل میں گناہ،بغاوت،خیانت،اور حسد نہ ہو،۔[ ابن ماجہ ،۴۲/۶ ،سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ۹۴۸]
حضرت یوسف علیہ سلام کے بھایئوں نے بھی حسد کی بناء پہ اپنے بھائی پہ ظلم کیا تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اکثر کرتے تھے۔[واھد قلبی واسلل سخیمة صدری۔ترمذی ۳۵۵۱]اے اللہ میرے دل کو سیدھا رکھاور میرے دل کے حسد کو کھرچ دے۔
ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا حسد کتنی خطرناک بیماری ہے اور آج یہ بیماری تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے قتل وغارت گری کا بازار جو آج ہمارے معاشرے میں گرم ہے لڑائی جھگڑے جو ہر گھر میں ہونے لگے ہیں بھائی بھائی سے بیزار نظر آتا ہے یہ سب اسی حسد کا نتیجہ ہے اس بیماری کو دور کیسے کیا جاَئے؟یہ تب ہی ختم ہوگی جب دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت ہوگی،محبت کیسے پیدا ہوگی؟اس کے لیے ہمارے نبیّ نے فرمایا ایک دوسرے کو سلام کیا کرو ۔ سلام کو پھیلاو،ایک دوسرے کو تحائف بھیجو۔ایک دوسرے کی تکلیف میں کام آو اس سے مھبت بڑھتی ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس بیماری سے بچائے اور ایک دوسر کے لیے ہمارے دلوں میں محبت پیدا کردے آمین۔وما علینا الا البلغ المبین۔واللہ اعلم۔