• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسد ایک خطرناک بیماری ہے:

مہوش حمید

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
19
حسد ایک خطرناک بیماری ہے


انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی بیماری سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری کبھی تو جسمانی اور کبھی روحانی ہوتی ہے۔ان ہی بیماریوں میں ایک بیماری حسد بھی ہے،اس کا شمار دل کی بیماری میں ہوتا ہے ،کیونکہ اس کا تعلق دل سے ہی ہے، یہ بیماری بہت قدیم ہے اور اتنی ہی خطر ناک بھی۔اس کا شکار انسان طبعی موت سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔جو انسان کسی کے وسائل کو دیکھ کر یہ خواہش کرے کہ اس انسان سے یہ نعمتیں چھین کر مجھے مل جائیں یا اگر مجھے نہ ملے تو اس کے پاس بھی نہ رہے وہ تباہ ہوجائے تو یہ حسد کہلاتا ہے اور یہ دل کی ایک خطرناک بیماری ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
"الحسد مرض من امراض النفس" حسد دل کی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور بڑا عام مرض ہے بہت ہی کم لوگ اس سے خلاصی پاتے ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے "ما خلا جسد من حسد"کوئی جسد حسد سے خالی نہیں۔لیکن کمینہ آدمی اس کو ظاہر کرتا ہے اور عزت دار آدمی اس کو چھپاتے ہوئے ختم کردیتا ہے۔[فتاوی ابن تیمیہ ۱۰۴/۱۰]
حسد اتنی خطرناک بیماری ہے کہ زمین پہ سب سے پہلا قتل ہی حسد کی وجہ سے ہوا۔جب قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔اللہ نے ہابیل کی قربانی کو قبول فرمایا تھا کیونکہ وہ پرہیزگار تھا جبکہ قابیل کی قربانی کو اللہ نے قبول نہیں کیا تھا کیونکہ وہ پرہیزگار نہیں تھا یہ دونوں آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے ،جب قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی تو اس کے دل میں اپنے بھائی ہابیل کے لیے حسد کی آگ پیدا ہوئی اور اس نے اپنے بھائی کو کہا۔

لاقتلنک ،قال انما یتقبل اللہ من المتقین۔[میں تجھے قتل کردوں گا۔ہابیل نے کہا،اللہ تو صرف متقین سے قبول کرتا ہے،
اگر تم مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر ہاتھ نہیں اٹھاوں گا۔میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو سارے جہان کا رب ہے۔[سورۃ مائدہ۔۲۷]
پتہ چلا کہ حاسد قتل جیسے عظیم گناہ کا بھی مرتکب ہوجاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی ،صحابہ نے پوچھا پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟آپّ نے فرمایا،غرور ،تکبر،کثرت حرص دنیا میں محو ہونا،ایک دوسرے سے بیزار رہنا،اور ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہوگی ور پھر قتل بہت زیادہ ہوگا۔[المعجم الاوسط ۹۰۱۶ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ۶۸۰]
بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے

[ولا تباغضو،ولا تحاسدوا،ولاتدابروا،و کونوعباد اللہ اخوانا۔]
"ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرواور نہ ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں ان کی عزت کے خلاف باتیں کرو بلکہ اللہ کےبندوں بھائی بھائی بن جاو۔کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے اوپر تک چھوڑے رکھے۔[بخاری،کتاب الادب ۶۰۶۵]
نبیّ کا ارشاد ہے۔

لا یزال الناس بخیر مالم یتحاسدوا۔
[لوگ ہمیشہ خیر سے رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے،] [کنزالعمال ۷۴۴۹ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ۳۳۸۶]
اس حدیث سے پتہ چلا کامیابی تبھی ملے گی جب انسان ایک دوسرے سے حسد نہیں کرینگے اور جب حسد کرنے لگے گے تو خیر کے دروازے بند ہوجاینگے۔آج ہمارا حال یہی ہے کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ایک دوسرے سے بیزار نظر آتے ہیں دوسروں کی خوبیوں سے جلتے ہیں کسی کے پاس زیادہ پیسہ آجائے تو اس سے حسد کرنے لگتے ہیں ،اسی برائی کی وجہ سے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت بڑھتی جارہی ہے اور قتل و غارت گری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہ تب ہی ختم ہوگا جب دلوں سے حسد ختم ہوگی محبت پیدا ہوگی۔
ابو ھریرہ رض فرماتے ہیں، بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بندے کے دل میں دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوتی الایمان والحسد۔ایمان اور حسد۔[نسائی ۳۱۱۱ صحیح ابن حبان ۴۶۰۶]
اس حدیث سے پتہ چلا ایمان دار آدمی حاسد نہیں ہوتا اور حاسد ایمان دار نہیں ہوتا۔

عبد اللہ بن عمر رض بیان کرتے ہیں کہ
آپّ سے پوچھا گیاکہ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتر کون ہے؟تو آپّ نے فرمایاہر مخموم القلب اور صدوق اللسان ،صحابہ کرام نے کہا کہ صدوق القلب تو ہم جانتے ہیں[زبان کا سچا]لیکن یہ مخموم القلب کیا ہے؟آپّ نے فرمایا وہ پاک صاف متقی شخص جسکے دل میں گناہ،بغاوت،خیانت،اور حسد نہ ہو،۔[ ابن ماجہ ،۴۲/۶ ،سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ۹۴۸]
ایک روز صحابہ کرام نبیّ کے پاس موجود تھے آپّ نے فرمایا ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص آنے والا ہےتھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک انصاری صحابی تشریف لائے انکے ہاتھ میں جوتا تھا اور داڑھی مبارک سے وضو کے قطرات گر رہے تھے تو انہوں نے آکر سلام کیا دوسرے دن پھر آپّ نے یہی ارشاد فرمایا؛کہ ابھی ایک جنتی آنے والا ہے اور وہ ہی انصاری صحابی تھے،تیسرے دن پھر آپّ نے بشارت دی اور وہی انصاری صحابی تھے۔مجلس میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی عنہ بھی موجود تھے انکے دل میں شوق پیدا ہوا کیوں نہ میں اس آدمی کا پیچھا کروں اور چند دن اور چند راتیں ان کے پاس گزاروں اور اس میں موجود وہ امتیازی خوبی اپنے اندر پیدا کرلوں تاکہ مجھے بھی اللہ کی جنت کا داخلہ مل سکے۔چناچہ عبد اللہ بن عمرو تین راتیں ان کے پاس رہےاور رات گئے تک چپکے چپکے دیکھتے رہےکہ یہ انصاری صحابی کونسا خاص عمل کرتا ہے جس کی وجہ سے نبیّ نے اسے تین بار جنت کی بشارت دی۔سیدنا عبد اللہ کہتے ہیں تین راتیں گزارنے کے باوجود مجھے کوئی خاص عمل نظر نہ آیا۔رات بھر وہ لیٹَے رہتے جب کروٹ بدلتے تو الحمد اللہ اور اللہ اکبرکہتے اور فجر ہوتے ہی نماز کے لیے نکل پڑتے۔میں نے تین راتوں کے بعد اجازت لی اور کہا بھائی مجھے اصل مقصد حاصل نہیں ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے تین بار جنتی قرار دیا ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں تجھ میں ایسا کو ن سا خاص عمل ہے کہ تجھے دنیا وآخرت کا سب سےعظیم مرتبہ حاصل ہوا ۔انصاری صحابی کہنے لگا میرے بھائی مجھ میں کوئی ایسا خاص عمل نہیں ہے جو معمول سے ہٹ کر ہو،معمولی سا مسلمان ہوں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ اتنی بات سن کر عبد اللہ بن عمرو چل دیئے،جب وہ تھوڑا سا دور گئے تو اس انصاری صحابی نے بلایا اور کہنے لگے مجھے کوئِی خاص عمل تو یاد نہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ میرے دل میں مسلمانوں میں سے کسی کے لیے بھی کوئی دھوکااور حسد نہیں اس بھلائی پر جو اللہ نے انہیں عطا کر رکھی ہے۔عبد اللہ بن عمرو فرمانے لگے یہی وہ بات ہے جس کو میں نے تجھ سے پالیا ہےاور اسی کی تو ہم طاقت نہیں رکھتے۔ [ مسنداحمد،۱۲۶۹۷،]

حضرت یوسف علیہ سلام کے بھایئوں نے بھی حسد کی بناء پہ اپنے بھائی پہ ظلم کیا تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اکثر کرتے تھے۔[واھد قلبی واسلل سخیمة صدری۔ترمذی ۳۵۵۱]اے اللہ میرے دل کو سیدھا رکھاور میرے دل کے حسد کو کھرچ دے۔

ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا حسد کتنی خطرناک بیماری ہے اور آج یہ بیماری تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے قتل وغارت گری کا بازار جو آج ہمارے معاشرے میں گرم ہے لڑائی جھگڑے جو ہر گھر میں ہونے لگے ہیں بھائی بھائی سے بیزار نظر آتا ہے یہ سب اسی حسد کا نتیجہ ہے اس بیماری کو دور کیسے کیا جاَئے؟یہ تب ہی ختم ہوگی جب دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت ہوگی،محبت کیسے پیدا ہوگی؟اس کے لیے ہمارے نبیّ نے فرمایا ایک دوسرے کو سلام کیا کرو ۔ سلام کو پھیلاو،ایک دوسرے کو تحائف بھیجو۔ایک دوسرے کی تکلیف میں کام آو اس سے مھبت بڑھتی ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس بیماری سے بچائے اور ایک دوسر کے لیے ہمارے دلوں میں محبت پیدا کردے آمین۔وما علینا الا البلغ المبین۔واللہ اعلم۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حسد نہ تو ان لوگوں سے پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں انسان اپنے سے بہتر سمجھتا ہوں اور نہ ان سے جو اس سے کمتر ہوں۔ حسد عموما ہم مرتبہ لوگوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا بہترین علاج یہی بتلایا جاتا ہے کہ جس سے حسد محسوس ہو، انسان اس کے حق میں اس کی غیر موجودگی میں کثرت سے دعا کرے۔ ان شاء اللہ، حسد دور ہو جائے گا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حسد نہ کرو !!!
حوالہ:
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ». أَوْ قَالَ « الْعُشْبَ »﴿سنن ابی داؤد 4905﴾
1780897_362670927204508_1607943645_n.jpg
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حسد ایک خطرناک بیماری ہے


انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی بیماری سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری کبھی تو جسمانی اور کبھی روحانی ہوتی ہے۔ان ہی بیماریوں میں ایک بیماری حسد بھی ہے،اس کا شمار دل کی بیماری میں ہوتا ہے ،کیونکہ اس کا تعلق دل سے ہی ہے، یہ بیماری بہت قدیم ہے اور اتنی ہی خطر ناک بھی۔اس کا شکار انسان طبعی موت سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔جو انسان کسی کے وسائل کو دیکھ کر یہ خواہش کرے کہ اس انسان سے یہ نعمتیں چھین کر مجھے مل جائیں یا اگر مجھے نہ ملے تو اس کے پاس بھی نہ رہے وہ تباہ ہوجائے تو یہ حسد کہلاتا ہے اور یہ دل کی ایک خطرناک بیماری ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ


حسد اتنی خطرناک بیماری ہے کہ زمین پہ سب سے پہلا قتل ہی حسد کی وجہ سے ہوا۔جب قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔اللہ نے ہابیل کی قربانی کو قبول فرمایا تھا کیونکہ وہ پرہیزگار تھا جبکہ قابیل کی قربانی کو اللہ نے قبول نہیں کیا تھا کیونکہ وہ پرہیزگار نہیں تھا یہ دونوں آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے ،جب قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی تو اس کے دل میں اپنے بھائی ہابیل کے لیے حسد کی آگ پیدا ہوئی اور اس نے اپنے بھائی کو کہا۔



پتہ چلا کہ حاسد قتل جیسے عظیم گناہ کا بھی مرتکب ہوجاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے



نبیّ کا ارشاد ہے۔



اس حدیث سے پتہ چلا کامیابی تبھی ملے گی جب انسان ایک دوسرے سے حسد نہیں کرینگے اور جب حسد کرنے لگے گے تو خیر کے دروازے بند ہوجاینگے۔آج ہمارا حال یہی ہے کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ایک دوسرے سے بیزار نظر آتے ہیں دوسروں کی خوبیوں سے جلتے ہیں کسی کے پاس زیادہ پیسہ آجائے تو اس سے حسد کرنے لگتے ہیں ،اسی برائی کی وجہ سے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت بڑھتی جارہی ہے اور قتل و غارت گری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہ تب ہی ختم ہوگا جب دلوں سے حسد ختم ہوگی محبت پیدا ہوگی۔
ابو ھریرہ رض فرماتے ہیں، بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اس حدیث سے پتہ چلا ایمان دار آدمی حاسد نہیں ہوتا اور حاسد ایمان دار نہیں ہوتا۔

عبد اللہ بن عمر رض بیان کرتے ہیں کہ

ایک روز صحابہ کرام نبیّ کے پاس موجود تھے آپّ نے فرمایا ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص آنے والا ہےتھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک انصاری صحابی تشریف لائے انکے ہاتھ میں جوتا تھا اور داڑھی مبارک سے وضو کے قطرات گر رہے تھے تو انہوں نے آکر سلام کیا دوسرے دن پھر آپّ نے یہی ارشاد فرمایا؛کہ ابھی ایک جنتی آنے والا ہے اور وہ ہی انصاری صحابی تھے،تیسرے دن پھر آپّ نے بشارت دی اور وہی انصاری صحابی تھے۔مجلس میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی عنہ بھی موجود تھے انکے دل میں شوق پیدا ہوا کیوں نہ میں اس آدمی کا پیچھا کروں اور چند دن اور چند راتیں ان کے پاس گزاروں اور اس میں موجود وہ امتیازی خوبی اپنے اندر پیدا کرلوں تاکہ مجھے بھی اللہ کی جنت کا داخلہ مل سکے۔چناچہ عبد اللہ بن عمرو تین راتیں ان کے پاس رہےاور رات گئے تک چپکے چپکے دیکھتے رہےکہ یہ انصاری صحابی کونسا خاص عمل کرتا ہے جس کی وجہ سے نبیّ نے اسے تین بار جنت کی بشارت دی۔سیدنا عبد اللہ کہتے ہیں تین راتیں گزارنے کے باوجود مجھے کوئی خاص عمل نظر نہ آیا۔رات بھر وہ لیٹَے رہتے جب کروٹ بدلتے تو الحمد اللہ اور اللہ اکبرکہتے اور فجر ہوتے ہی نماز کے لیے نکل پڑتے۔میں نے تین راتوں کے بعد اجازت لی اور کہا بھائی مجھے اصل مقصد حاصل نہیں ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے تین بار جنتی قرار دیا ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں تجھ میں ایسا کو ن سا خاص عمل ہے کہ تجھے دنیا وآخرت کا سب سےعظیم مرتبہ حاصل ہوا ۔انصاری صحابی کہنے لگا میرے بھائی مجھ میں کوئی ایسا خاص عمل نہیں ہے جو معمول سے ہٹ کر ہو،معمولی سا مسلمان ہوں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ اتنی بات سن کر عبد اللہ بن عمرو چل دیئے،جب وہ تھوڑا سا دور گئے تو اس انصاری صحابی نے بلایا اور کہنے لگے مجھے کوئِی خاص عمل تو یاد نہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ میرے دل میں مسلمانوں میں سے کسی کے لیے بھی کوئی دھوکااور حسد نہیں اس بھلائی پر جو اللہ نے انہیں عطا کر رکھی ہے۔عبد اللہ بن عمرو فرمانے لگے یہی وہ بات ہے جس کو میں نے تجھ سے پالیا ہےاور اسی کی تو ہم طاقت نہیں رکھتے۔ [ مسنداحمد،۱۲۶۹۷،]

حضرت یوسف علیہ سلام کے بھایئوں نے بھی حسد کی بناء پہ اپنے بھائی پہ ظلم کیا تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اکثر کرتے تھے۔[واھد قلبی واسلل سخیمة صدری۔ترمذی ۳۵۵۱]اے اللہ میرے دل کو سیدھا رکھاور میرے دل کے حسد کو کھرچ دے۔

ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا حسد کتنی خطرناک بیماری ہے اور آج یہ بیماری تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے قتل وغارت گری کا بازار جو آج ہمارے معاشرے میں گرم ہے لڑائی جھگڑے جو ہر گھر میں ہونے لگے ہیں بھائی بھائی سے بیزار نظر آتا ہے یہ سب اسی حسد کا نتیجہ ہے اس بیماری کو دور کیسے کیا جاَئے؟یہ تب ہی ختم ہوگی جب دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت ہوگی،محبت کیسے پیدا ہوگی؟اس کے لیے ہمارے نبیّ نے فرمایا ایک دوسرے کو سلام کیا کرو ۔ سلام کو پھیلاو،ایک دوسرے کو تحائف بھیجو۔ایک دوسرے کی تکلیف میں کام آو اس سے مھبت بڑھتی ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس بیماری سے بچائے اور ایک دوسر کے لیے ہمارے دلوں میں محبت پیدا کردے آمین۔وما علینا الا البلغ المبین۔واللہ اعلم۔
جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حسد نہ تو ان لوگوں سے پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں انسان اپنے سے بہتر سمجھتا ہوں اور نہ ان سے جو اس سے کمتر ہوں۔ حسد عموما ہم مرتبہ لوگوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا بہترین علاج یہی بتلایا جاتا ہے کہ جس سے حسد محسوس ہو، انسان اس کے حق میں اس کی غیر موجودگی میں کثرت سے دعا کرے۔ ان شاء اللہ، حسد دور ہو جائے گا۔
جزاک اللہ خیرا
بہت اچھے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حسد نہ کرو !!!
حوالہ:
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ». أَوْ قَالَ « الْعُشْبَ »﴿سنن ابی داؤد 4905﴾
بھائی کیا اس روایت کی سند صحیح ہے؟
حافظ عمران الٰہی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بھائی کیا اس روایت کی سند صحیح ہے؟
حافظ عمران الٰہی

" الحسد يأكل لحسنات كمأ تأكل النار الحطب . ، والصدقة تطفيء الخطئة كما تطفيء الماء النار ، والصلاة نور المؤمن ، والصيام جنة من النار " .
أخرجه ابن ماجة ( 4210 ) وأبو يعلى في ( مسنده ) ( 6 / 330 ) والبزار في ( مسنده ) (2 / 271 ) والقضاعي في ( مسند الشهاب ) (1049 ) من طريق : عيسى بن أبي عيسى الحناط عن أبي الزناد ، عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ... ) .
قلت : هذا إسناده ضعيف جداً ؛ فيه عيسى بن أبي عيسى الحناط ،قال الحافظ في ( التقريب ) : ( متروك ) .
وأخرجه ابن أبي شيبة في ( المصنف ) ( 9 / 93 ) وابن بشران في ( الأمالي ) ( 959 ) والبيهقي في ( الشعب ) ( 5 / 267 ) وأبو الشيخ الأصبهاني في ( التوبيخ ) ( 57 ) من طريق : يَزِيدَ يَعْنِي الرَّقَاشِيَّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَالْحَسَدُ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ " ، وهذا لفظ البيهقي .
قلت : هذا إسناد ضعيف ؛ فيه يزيد بن أبان الرقاشي قال الحافظ : ( ضعيف زاهد ) .
وأخرجه أبو الشيخ في ( التوبيخ ) :
58 - حدثنا عبد الرحمن بن الحسن ، ثنا إسحاق بن وهب العلاف ، ثنا يعقوب الزهري ، ثنا ابن أبي فديك ، عن عيسى بن أبي عيسى ، عن الشعبي ، عن أنس بن مالك ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « الحسد يأكل الحسنات ، كما تأكل النار الحطب ».
وأخرجه أبو الشيخ في ( التوبيخ ) أيضاً :
69 - حدثنا محمد بن يحيى ، ثنا عبد الوهاب بن زكريا ، ثنا الحسين ، نا أبو مسلم ، عن الأعمش ، عن يزيد الرقاشي ، عن الحسن ، عن أنس ، قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : « إن الغل والحسد يأكلان الحسنات ، كما تأكل النار الحطب » .
وأخرجه هناد في ( الزهد ) :
1391 - حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن يزيد الرقاشي عن الحسن قال : قال رسول الله : ( إن الغل والحسد يأكلان الحسنات كما تأكل النار الحطب ) .
قال الإمام الدارقطني في ( العلل ) :
(
2492 - وسُئِل عَن حَديث الشعبي ، عن أنس قال رسول الله صَلَّى الله عَلَيه وسَلم : الحسد يأكل الحسنات ، كما تأكل النار الحطب.
فقال : يرويه عيسى بن أبي عيسى الخياط ، عن أبي الزناد ، واختُلِفَ عنه ؛
فرواه يعقوب بن محمد الزُّهْرِي ، عن ابن أبي فديك ، عن عيسى ، عن أبي الزناد ، عن الشعبي ، عن أنس.
وخالفه أصحاب ابن أبي فديك ؛ فلم يذكروا في الإسناد : الشعبي.
وكذلك رواه أبو خالد الأحمر ، عن عيسى.
ورواه أبو معاوية ، عن عبد الرحمن بن قيس ، عن أبي الزناد ، قال : سمعتُ أنساً.
ووقف الحديث ولم يرفعه.
وهذا الاضطراب فيه من عيسى ؛ لأنه ضعيف ، وذكر الشعبي في الحديث الأول وهم من يعقوب بن محمد الزُّهْرِي. ) .
وأخرجه القضاعي في ( مسند الشهاب ) :
1048 - أخبرنا محمد بن منصور التستري أبنا أبو سهل محمود بن عمر بن جعفر العكبري ثنا عمر بن محمد بن حفصة أبو حفص الخطيب ثنا محمد بن معاذ بن المستهل بحلب ثني القعنبي عن مالك عن نافع عن بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الحسد يأكل الحسنات كما تأكل النار الحطب " .
قال الألباني في ( الضعيفة ) ( 1901 ) :
(وعمر هذا ، لا يعرف ، ذكره في " الميزان " ولم يذكر فيه شيئا
سوى هذا الحديث من طريق القضاعي ، وقال : " فهذا بهذا الإسناد باطل " وأقره

الحافظ في " اللسان " . قلت : ومحمد بن معاذ بن المستملي ، لم أعرفه ، ويحتمل أن يكون هو محمد بن معاذ بن فهد الشعراني أبو بكر النهاوندي الحافظ ، فقد كان يقول إنه لقي جماعة من القدامة منهم القعنبي ، فإن يكن هو ، فهو واه كما قال الذهبي .
وله شاهد يرويه محمد بن الحسين بن حريقا البزار قال : أنبأنا الحسن
بن موسى الأشيب : حدثنا أبو هلال عن قتادة عن أنس مرفوعا به .
أخرجه ابن شاذان
الأزجي في " الفوائد المنتقاة " ( 1 / 126 / 2 ) والخطيب في " التاريخ " ( 2 /
227 ) . قلت : وهذا إسناد ضعيف ، أبو هلال اسمه محمد بن سليم الراسبي ، قال
الحافظ : " صدوق ، فيه لين " . ومحمد بن الحسين هذا لم أعرفه ، وفي ترجمته
أورده الخطيب ، ولم يذكر فيها شيئا سوى هذا الحديث ، ومع ذلك فقد حسن العراقي
إسناده في " تخريج الإحياء " ( 1 / 45 ) ! واقتصر على تضعيف إسناد ابن ماجه ! ) .
وأخرجه أبو داود ( 4903 ) والبزار ( 2 / 433 ) وعبد بن حميد في ( مسنده ) ( 1430 ) والبيهقي في ( الشعب ) ( 5 / 266 ) وابن بشران في ( الأمالي ) ( 712 و 867 ) والخرائطي في ( مساوئ الأخلاق ) ( 722 ) من طريق : إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِى أَسِيدٍ عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ». أَوْ قَالَ « الْعُشْبَ ».
قلت : هذا إسناد ضعيف ، جد إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِى أَسِيدٍ قال الحافظ في ( التقريب ) : ( لا يعرف ) .
قلت : ذكره البخاري في «التاريخ الكبير» (1/272) وقال : لا يصح.

ان تمام تصريحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ غیر مستند ہے ، لیکن حسد ایک کبیرہ گناہ ہے اس لیے اس اجتناب بہت ضروری ہے اللہ ہمیں حسد کی بیماری سے محفوظ رکھے آمین
 
Top