وعلیکم السلام
یہ صوفیا کی اصطلاح ہے اگرچہ بعض صوفیوں نے اسے حدیث مرفوع کے طور پر بھی نقل کیا ہے لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الضعیفۃ میں کہا ہے کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے یعنی بطور روایت یہ باطل ہے۔ یہ بعض صوفیا کا قول ہے۔
اس قول کا معنی صوفیا نے یہ بیان کیا ہے کہ بعض اوقات ایک شخص ایمان میں ترقی کے درجات طے کرتے کرتے اللہ کے اس قدر قریب ہوجاتا ہے کہ اگر اس سے کوئی صغیرہ گناہ بھی ہو جائے تو اللہ کی طرف اس بندہ مومن اور مقرب الی اللہ کی اس دنیا میں ہی پکڑ آ جاتی ہے اور ایسا اللہ کی رحمت و لطف کے سبب ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالی یہ چاہتے ہیں کہ آخرت میں یہ بندہ اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہو۔ اس معنی کے اعتبار سے یہ قول صحیح نہیں ہے۔