• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسنات الابرار سئیات المقربین

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
یہ صوفیا کی اصطلاح ہے اگرچہ بعض صوفیوں نے اسے حدیث مرفوع کے طور پر بھی نقل کیا ہے لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الضعیفۃ میں کہا ہے کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے یعنی بطور روایت یہ باطل ہے۔ یہ بعض صوفیا کا قول ہے۔

اس قول کا معنی صوفیا نے یہ بیان کیا ہے کہ بعض اوقات ایک شخص ایمان میں ترقی کے درجات طے کرتے کرتے اللہ کے اس قدر قریب ہوجاتا ہے کہ اگر اس سے کوئی صغیرہ گناہ بھی ہو جائے تو اللہ کی طرف اس بندہ مومن اور مقرب الی اللہ کی اس دنیا میں ہی پکڑ آ جاتی ہے اور ایسا اللہ کی رحمت و لطف کے سبب ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالی یہ چاہتے ہیں کہ آخرت میں یہ بندہ اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہو۔ اس معنی کے اعتبار سے یہ قول صحیح نہیں ہے۔
 
Top