- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر(7)
فریق ثانی کے مطابق تو ابھی تک ہمارا دعوی ہی واضح نہیں ہوا، کیونکہ زبان و بیان میں گرہ یا قلوب واذہان پر جمی تہیں اور پردے تواللہ ہی ہٹا سکتا ہے، البتہ ہم نے جو دعوی کیا تھا، ا س کے مطابق اپنی ساتویں تحریر پیش کرتے ہیں۔
یہاں ہم بطور یادہانی اپنی پہلی تحریر سے دعوی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا:
’’ حسن لغیرہ حجت ہے. اور یہ وہ حدیث ہے، جس کی دو یا اس سے زائد اسانید ہوں، اور ان میں موجود ضعف شدید نہ ہو. اور اسی طرح اس میں کوئی نکارت یا ایسی علت نہ ہو، جو اس کی تحسین کو مانع ہو. جیسا کہ بعض دفعہ ثقہ رواۃ کی روایات کو بھی علت و شذوذ کی بنا پر رد کردیا جاتا ہے۔ ‘‘
یہ دعوی اس و جہ سے دہرا دیا گیا ہےتاکہ اگر کوئی شخص ہمارے دعوی کی نوعیت اور اس میں وضوح وعدم وضوح والی بات کو جج کرنا چاہے، تو کرسکے۔
اب ہماری طرف سے نئی تحریر ملاحظہ کیجیے۔
(حصہ اول: دلائل)
ابن ابی حاتم نے جرح و تعدیل(1/ 6) کے مقدمہ میں راویوں کی چار اقسام بیان کی ہیں، جن میں پہلی دو بذاتہ قابل احتجاج راویوں کی ہیں، چوتھی قسم کذاب وغیرہ راویوں کی ہے۔ تیسری قسم کے راویوں کی تعریف میں انہوں نے درج ذیل عبارت رقم فرمائی ہے:
(الصدوق الورع المغفل الغالب عليه الوهم والخطأ والسهو والغلط ) اور پھر ان کی روایت کے حکم کے متعلق دو باتیں فرمائی ہیں،( یکتب حدیثہ)، اور (ولا یحتج بہ).
اسی بات کو انہوں نے مقدمہ میں ہی ایک اورجگہ پر مزید کھول کر بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى، وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار، واذا أجابوا في الرجل بلين الحديث فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه اعتبارا، وإذا قالوا ليس بقوي فهو بمنزلة الأولى في كتبة حديثه إلا أنه دونه، وإذا قالوا ضعيف الحديث فهو دون الثاني لا يطرح حديثه بل يعتبر به، وإذا قالوا متروك الحديث أو ذاهب الحديث أو كذاب فهو ساقط الحديث لا يكتب حديثه وهي المنزلة الرابعه. (الجرح والتعديل (2/ 37)
یہاں انہوں نے تیسرے مرتبہ میں، شیخ ، صالح الحدیث، لین الحدیث، ضعیف الحدیث وغیرہ الفاظ کی صراحت کے ساتھ اس درجے کے راویوں کو قابل اعتبار کہا ہے، اور ان کی روایات کو لکھنے کی تلقین کی ہے، کیونکہ یہ متابعات وشواہد کی بنا پر تقویت حاصل کرسکتے ہیں۔
ہاں البتہ چوتھے مرتبہ میں ضعف شدید والے راوی متروک، ذاہب و ساقط کی حدیث کو لکھنے سے بھی منع کردیا ہے، کیونکہ ایسا ضعف تقویت کے قابل ہی نہیں۔
امام سخاوی نے بھی شرح الفیہ میں مراتب رواۃ بیان کرتے ہوئے، ان کی روایات کے متعلق فرمایا ہے:
والحكم في المراتب الأربع الأول أنه لا يحتج بواحد من أهلها، ولا يستشهد به، ولا يعتبر به (وكل من ذكر من بعد) لفظ: لا يساوي (شيئا) ، وهو ما عدا الأربع (بحديثه اعتبر) أي: يخرج حديثه للاعتبار ; لإشعار هذه الصيغ بصلاحية المتصف بها لذلك، وعدم منافاتها لها. (فتح المغيث (2/ 129)
پہلے چار مراتب کی روایات کو انہوں نے قابل اعتبار بھی نہیں سمجھا، البتہ بقیہ کو قابل اعتبار بتلایا ہے، یہاں انہوں نے ضعیف، ضعفوہ، لیس بذاک، لیس بالمتین، لیس بالقوی، لیس بالحافظ، مجہول، سیء الحفظ وغیرہ کثیر الفاظ جرح کو ذکر کیا ہے، یعنی ان سب رواۃ کی روایات ضعف کے سبب قابل احتجاج تو نہیں، البتہ قابل اعتبار ہیں، یعنی متابعات وشواہد کی بنا پر یہ احتجاج کے درجہ میں آسکتی ہیں۔
سخاوی ایک جگہ پر فرماتے ہیں: يعتبر به ; أي: في المتابعات والشواهد.(فتح المغیث(2/ 119)
سخاوی کی یہ بات ایک اور اقتباس سے مزید واضح ہوجاتی ہے ، جہاں وہ تضعیف حدیث میں جلد بازی سے روکتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:
(وإن تجد متنا) أي: حديثا (ضعيف السند فقل) فيه: هو (ضعيف أي: بهذا) السند بخصوصه (فاقصد) أي: انو ذاك، فإن صرحت به فأولى (ولا تضعف) ذلك المتن (مطلقا بناء) بالمد (على) ضعف ذاك (الطريق إذ لعلـ) ـه (جاء) بالمد أيضا (بسند) آخر (مجود) يثبت المتن بمثله أو بمجموعهما. (فتح المغيث (1/ 347)
یہاں بصراحت حدیث کو فورا ضعیف کہنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ وہ دیگر متابعات و شواہد کی بنا پر ضعیف سے نکل کر ’ثابت‘ کے درجہ میں آسکتی ہے۔
اچھا محدثین کے ہاں ضعیف اور جرح کے درجات بیان کرتے ہوئے، قابل اعتبار اور ناقابل اعتبار کی تفریق بھی توجہ طلب ہے۔ اس حوالے سے ہم تحریر کے دوسرے حصے میں کچھ عرض کریں گے۔
ضعیف لیکن قابل اعتبار کے متعلق امام العلل ابن المدینی کی خاص تصنیف کا حاکم وغیرہ نے ذکر بھی کیا ہے، فرماتے ہیں:
ذكر النوع الحادي والخمسين من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين، فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح، ولم يسقطوا قد ذكرت فيما تقدم من ذكر مصنفات علي بن المديني، رحمه الله كتابا مترجما بهذه الصفة غير أني لم أر الكتاب قط، ولم أقف عليه، وهذا علم حسن، فإن في رواة الأخبار جماعة بهذه الصفة. (معرفة علوم الحديث (ص: 254)
مرسل حديث کی شروط کے متعلق امام شافعی کے کلام بھی بعض نکات یہاں قابل استدلال ہے، جسے الرسالۃ میں براہ راست دیکھا جاسکتا ہے۔ (الرسالۃ(1/461)
امام شافعی کے کلام پر ہونے والے اعتراضات کا علائی نے جامع التحصیل میں جواب دیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:
وقد اعترض الحنفية أيضا فيه على الإمام الشافعي وقالوا هذا ليس فيه إلا أنه انضم غير مقبول عنده إلى مثله فلا يفيدان شيئا كما إذا انضمت شهادة غير العدل إلى مثلها.
وجوابه أيضا بمثل ما تقدم إنه بانضمام أحدهما إلى الآخر يقوي الظن أن له أصلا وإن كان كل منهما لا يفيد ذلك لمجرده وهذا كما قيل في الحديث الضعيف الذي ضعفه من جهة قلة حفظ رواية وكثرة بالكذب إذا روي مثله بسند آخر نظير هذا السند في الرواة فإنه يرتقي بمجموعهما إلى درجة الحسن لأنه يزول عنه حينئذ ما يخاف من سوء حفظ الرواة ويعتضد كل منهما بالآخر. (جامع التحصيل (ص: 41)
یہ قول حسن لغیرہ کے متعلق بالکل واضح ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(حصہ دوم: اعتراضات)
فریق ثانی کی طرف سے کیے جانے کئی ایک اعتراضات کے جوابات ہم سابقہ تحریروں میں عرض کرچکے ہیں۔
اس تحریر میں ہم مزید دو کا تذکرہ کرتے ہیں۔
پہلا اعتراض:
امام ابن معین کی ایک عبارت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره.
فريق ثانی کا یہ دعوی ہے کہ امام ابن معین کا یہ قول حسن لغیرہ کی عدم حجیت پر دلیل ہے۔
پہلے یہ عبارت سیاق و سباق کے ساتھ ملاحظہ کرلیجیے:
قد روى شعبة أيضا في القطع في ربع دينار فصاعدا حديث الزهري لم يروه غيره وقد خالفه غيره ولم يرفعه أبو سفيان الذي يروي عن جابر وقيل له فقال ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره. (من كلام أبي زكريا يحيى بن معين في الرجال (ص: 44)
ہمارے علم کے مطابق یہ استدلال کئی اعتبار سے محل نظر ہے، مثلا:
1۔ ابن معین کی یہ بات ایک حدیث کی تعلیل میں منقول ہے، وہ حدیث جس کی سند میں اختلاف ہے، اور یہ بات ہم شروع سے کہہ چکے ہیں کہ شاذ ومنکر وجہ کے راوی ثقہ بھی ہوں، تو قابل حجت نہیں، ضعیف تو بالاولی نہیں ہوں گے۔
2۔ اس پیرے میں پیش کردہ عبارتیں بے ربط محسوس ہورہی ہیں، مثلا قیل لہ فقال... یہاں قیل اور اس کے بعد قال کا آپس میں کیا ربط ہے؟ اور لیتہ یصحح.. والے جملے میں ابن معین کا یہ تبصرہ کس کے متعلق ہے؟
شاید یہ عبارت نامکمل ہے، محقق کتاب نے بھی سقط و تصحیف کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ابن معین کی اس عبارت کو کہیں اور سے تلاش کیا جائے، تو شاید اس کا عقدہ کھل سکتا ہے۔
3۔ میں نے اس عبارت پر کافی غور کیا، سمجھ نہیں آرہی، کہ اس میں کس ضعیف نے کس ضعیف کی متابعت کی، یا کم از کم کس ضعیف کے متعلق یہ جملہ بولا گیا ہے کہ وہ تو خود قابل حجت نہیں، تو دوسرے کو کیا فائدہ دے گا؟
یہ حدیث امام احمد کی العلل ومعرفۃ الرجال ۔ روایۃ ابنہ(1/194) میں سفیان ثوری کے حوالے سے مذکور ہے، اسی طرح علل الدار قطنی میں دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، اور تفصیل سے انہوں نے اس کی مختلف وجوہ پر کلام کیا ہے۔
دوسرا اعتراض:
حسن لغیرہ کی تعریف کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے، انقطاع و ضعف کی مختلف اقسام کو ذکر کرکے احتمالات کی لائن لگادی جاتی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس قسم کے اعتراضات اور استحالے قائم کرنا یہ محدثین کا طریقہ نہیں ہے، مجرد احتمالات اور علم منطق کی رو سے اصول حدیث کو زیر بحث لایا جائے، تو صحیحین میں موجود اصح الاسانید بھی محل نظر ہوجائیں گی۔
ہاں جن احتمالات و وجوہات کو محدثین ذکر کریں، ان کو تحریر و تقریر کی زینت بنانا طالب حدیث کے شایان شان ہونا چاہیے۔
تیسرا اعتراض:
حسن لغیرہ کے منکرین ایک شبہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ متابعات و شواہد یا اعتبار سے مراد، ضعیف جمع ضعیف کی متابعت نہیں، بلکہ اس سے مراد وہ ضعیف ہے، جس کی ثقہ متابعت کرے۔
یہ توجیہ و اعتذار اس فریق کے منہجی اضطراب کی علامت ہے، کیونکہ جب ضعیف ہر حال میں ہی ضعیف رہتا ہے، تو پھر اس کی متابعت ثقہ کرے یا ضعیف، وہ قابل احتجاج کیونکر ہوگا؟
اسی وجہ سے اس فریق کے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ضعیف اور ثقہ متابعت کریں، تو اعتماد ثقہ پر ہے، ضعیف چنداں قابل التفات نہیں۔
بہر صورت یہ عذر یہ پیش کریں، یا وہ، دونوں ہی درست نہیں۔ محدثین کے ہاں دونوں طرح کی متابعت اور اعتبار کی مثالیں موجود ہیں، بعض ہم سابقہ تحریروں میں پیش بھی کرچکے ہیں۔
اور پھر محدثین نے جب اعتبار کی بات کی ہے، تو وہ ضعیف جدا وغیرہ لوگوں کی روایات اعتبار میں بھی لینے سے منع کیا ہے، حالانکہ جب اعتماد ثقہ پر ہی کرنا ہے، تو پھر ضعیف یا ضعیف جدا ایک برابر ہیں۔
محدثین کے ہاں یعتبر بہ ولا یعتبربہ والی تفریق کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حسن لغیرہ کے منکرین ، ائمہ محدثین کی تطبیقات و تاصیلات کو درست سمت میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔
(ختم شد)
نوٹ: اگر کسی وجہ سے اس مجموعہ میں بات جاری رکھنا ناممکن ہوا، تو آئندہ تحریریں، گروپ کے معروف مشارکین کو دیگر ذرائع سے ارسال کر دی جائیں گی، یا حسب ضرورت نیا گروپ بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
تحریر نمبر(7)
فریق ثانی کے مطابق تو ابھی تک ہمارا دعوی ہی واضح نہیں ہوا، کیونکہ زبان و بیان میں گرہ یا قلوب واذہان پر جمی تہیں اور پردے تواللہ ہی ہٹا سکتا ہے، البتہ ہم نے جو دعوی کیا تھا، ا س کے مطابق اپنی ساتویں تحریر پیش کرتے ہیں۔
یہاں ہم بطور یادہانی اپنی پہلی تحریر سے دعوی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا:
’’ حسن لغیرہ حجت ہے. اور یہ وہ حدیث ہے، جس کی دو یا اس سے زائد اسانید ہوں، اور ان میں موجود ضعف شدید نہ ہو. اور اسی طرح اس میں کوئی نکارت یا ایسی علت نہ ہو، جو اس کی تحسین کو مانع ہو. جیسا کہ بعض دفعہ ثقہ رواۃ کی روایات کو بھی علت و شذوذ کی بنا پر رد کردیا جاتا ہے۔ ‘‘
یہ دعوی اس و جہ سے دہرا دیا گیا ہےتاکہ اگر کوئی شخص ہمارے دعوی کی نوعیت اور اس میں وضوح وعدم وضوح والی بات کو جج کرنا چاہے، تو کرسکے۔
اب ہماری طرف سے نئی تحریر ملاحظہ کیجیے۔
(حصہ اول: دلائل)
ابن ابی حاتم نے جرح و تعدیل(1/ 6) کے مقدمہ میں راویوں کی چار اقسام بیان کی ہیں، جن میں پہلی دو بذاتہ قابل احتجاج راویوں کی ہیں، چوتھی قسم کذاب وغیرہ راویوں کی ہے۔ تیسری قسم کے راویوں کی تعریف میں انہوں نے درج ذیل عبارت رقم فرمائی ہے:
(الصدوق الورع المغفل الغالب عليه الوهم والخطأ والسهو والغلط ) اور پھر ان کی روایت کے حکم کے متعلق دو باتیں فرمائی ہیں،( یکتب حدیثہ)، اور (ولا یحتج بہ).
اسی بات کو انہوں نے مقدمہ میں ہی ایک اورجگہ پر مزید کھول کر بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى، وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار، واذا أجابوا في الرجل بلين الحديث فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه اعتبارا، وإذا قالوا ليس بقوي فهو بمنزلة الأولى في كتبة حديثه إلا أنه دونه، وإذا قالوا ضعيف الحديث فهو دون الثاني لا يطرح حديثه بل يعتبر به، وإذا قالوا متروك الحديث أو ذاهب الحديث أو كذاب فهو ساقط الحديث لا يكتب حديثه وهي المنزلة الرابعه. (الجرح والتعديل (2/ 37)
یہاں انہوں نے تیسرے مرتبہ میں، شیخ ، صالح الحدیث، لین الحدیث، ضعیف الحدیث وغیرہ الفاظ کی صراحت کے ساتھ اس درجے کے راویوں کو قابل اعتبار کہا ہے، اور ان کی روایات کو لکھنے کی تلقین کی ہے، کیونکہ یہ متابعات وشواہد کی بنا پر تقویت حاصل کرسکتے ہیں۔
ہاں البتہ چوتھے مرتبہ میں ضعف شدید والے راوی متروک، ذاہب و ساقط کی حدیث کو لکھنے سے بھی منع کردیا ہے، کیونکہ ایسا ضعف تقویت کے قابل ہی نہیں۔
امام سخاوی نے بھی شرح الفیہ میں مراتب رواۃ بیان کرتے ہوئے، ان کی روایات کے متعلق فرمایا ہے:
والحكم في المراتب الأربع الأول أنه لا يحتج بواحد من أهلها، ولا يستشهد به، ولا يعتبر به (وكل من ذكر من بعد) لفظ: لا يساوي (شيئا) ، وهو ما عدا الأربع (بحديثه اعتبر) أي: يخرج حديثه للاعتبار ; لإشعار هذه الصيغ بصلاحية المتصف بها لذلك، وعدم منافاتها لها. (فتح المغيث (2/ 129)
پہلے چار مراتب کی روایات کو انہوں نے قابل اعتبار بھی نہیں سمجھا، البتہ بقیہ کو قابل اعتبار بتلایا ہے، یہاں انہوں نے ضعیف، ضعفوہ، لیس بذاک، لیس بالمتین، لیس بالقوی، لیس بالحافظ، مجہول، سیء الحفظ وغیرہ کثیر الفاظ جرح کو ذکر کیا ہے، یعنی ان سب رواۃ کی روایات ضعف کے سبب قابل احتجاج تو نہیں، البتہ قابل اعتبار ہیں، یعنی متابعات وشواہد کی بنا پر یہ احتجاج کے درجہ میں آسکتی ہیں۔
سخاوی ایک جگہ پر فرماتے ہیں: يعتبر به ; أي: في المتابعات والشواهد.(فتح المغیث(2/ 119)
سخاوی کی یہ بات ایک اور اقتباس سے مزید واضح ہوجاتی ہے ، جہاں وہ تضعیف حدیث میں جلد بازی سے روکتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:
(وإن تجد متنا) أي: حديثا (ضعيف السند فقل) فيه: هو (ضعيف أي: بهذا) السند بخصوصه (فاقصد) أي: انو ذاك، فإن صرحت به فأولى (ولا تضعف) ذلك المتن (مطلقا بناء) بالمد (على) ضعف ذاك (الطريق إذ لعلـ) ـه (جاء) بالمد أيضا (بسند) آخر (مجود) يثبت المتن بمثله أو بمجموعهما. (فتح المغيث (1/ 347)
یہاں بصراحت حدیث کو فورا ضعیف کہنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ وہ دیگر متابعات و شواہد کی بنا پر ضعیف سے نکل کر ’ثابت‘ کے درجہ میں آسکتی ہے۔
اچھا محدثین کے ہاں ضعیف اور جرح کے درجات بیان کرتے ہوئے، قابل اعتبار اور ناقابل اعتبار کی تفریق بھی توجہ طلب ہے۔ اس حوالے سے ہم تحریر کے دوسرے حصے میں کچھ عرض کریں گے۔
ضعیف لیکن قابل اعتبار کے متعلق امام العلل ابن المدینی کی خاص تصنیف کا حاکم وغیرہ نے ذکر بھی کیا ہے، فرماتے ہیں:
ذكر النوع الحادي والخمسين من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين، فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح، ولم يسقطوا قد ذكرت فيما تقدم من ذكر مصنفات علي بن المديني، رحمه الله كتابا مترجما بهذه الصفة غير أني لم أر الكتاب قط، ولم أقف عليه، وهذا علم حسن، فإن في رواة الأخبار جماعة بهذه الصفة. (معرفة علوم الحديث (ص: 254)
مرسل حديث کی شروط کے متعلق امام شافعی کے کلام بھی بعض نکات یہاں قابل استدلال ہے، جسے الرسالۃ میں براہ راست دیکھا جاسکتا ہے۔ (الرسالۃ(1/461)
امام شافعی کے کلام پر ہونے والے اعتراضات کا علائی نے جامع التحصیل میں جواب دیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:
وقد اعترض الحنفية أيضا فيه على الإمام الشافعي وقالوا هذا ليس فيه إلا أنه انضم غير مقبول عنده إلى مثله فلا يفيدان شيئا كما إذا انضمت شهادة غير العدل إلى مثلها.
وجوابه أيضا بمثل ما تقدم إنه بانضمام أحدهما إلى الآخر يقوي الظن أن له أصلا وإن كان كل منهما لا يفيد ذلك لمجرده وهذا كما قيل في الحديث الضعيف الذي ضعفه من جهة قلة حفظ رواية وكثرة بالكذب إذا روي مثله بسند آخر نظير هذا السند في الرواة فإنه يرتقي بمجموعهما إلى درجة الحسن لأنه يزول عنه حينئذ ما يخاف من سوء حفظ الرواة ويعتضد كل منهما بالآخر. (جامع التحصيل (ص: 41)
یہ قول حسن لغیرہ کے متعلق بالکل واضح ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(حصہ دوم: اعتراضات)
فریق ثانی کی طرف سے کیے جانے کئی ایک اعتراضات کے جوابات ہم سابقہ تحریروں میں عرض کرچکے ہیں۔
اس تحریر میں ہم مزید دو کا تذکرہ کرتے ہیں۔
پہلا اعتراض:
امام ابن معین کی ایک عبارت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره.
فريق ثانی کا یہ دعوی ہے کہ امام ابن معین کا یہ قول حسن لغیرہ کی عدم حجیت پر دلیل ہے۔
پہلے یہ عبارت سیاق و سباق کے ساتھ ملاحظہ کرلیجیے:
قد روى شعبة أيضا في القطع في ربع دينار فصاعدا حديث الزهري لم يروه غيره وقد خالفه غيره ولم يرفعه أبو سفيان الذي يروي عن جابر وقيل له فقال ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره. (من كلام أبي زكريا يحيى بن معين في الرجال (ص: 44)
ہمارے علم کے مطابق یہ استدلال کئی اعتبار سے محل نظر ہے، مثلا:
1۔ ابن معین کی یہ بات ایک حدیث کی تعلیل میں منقول ہے، وہ حدیث جس کی سند میں اختلاف ہے، اور یہ بات ہم شروع سے کہہ چکے ہیں کہ شاذ ومنکر وجہ کے راوی ثقہ بھی ہوں، تو قابل حجت نہیں، ضعیف تو بالاولی نہیں ہوں گے۔
2۔ اس پیرے میں پیش کردہ عبارتیں بے ربط محسوس ہورہی ہیں، مثلا قیل لہ فقال... یہاں قیل اور اس کے بعد قال کا آپس میں کیا ربط ہے؟ اور لیتہ یصحح.. والے جملے میں ابن معین کا یہ تبصرہ کس کے متعلق ہے؟
شاید یہ عبارت نامکمل ہے، محقق کتاب نے بھی سقط و تصحیف کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ابن معین کی اس عبارت کو کہیں اور سے تلاش کیا جائے، تو شاید اس کا عقدہ کھل سکتا ہے۔
3۔ میں نے اس عبارت پر کافی غور کیا، سمجھ نہیں آرہی، کہ اس میں کس ضعیف نے کس ضعیف کی متابعت کی، یا کم از کم کس ضعیف کے متعلق یہ جملہ بولا گیا ہے کہ وہ تو خود قابل حجت نہیں، تو دوسرے کو کیا فائدہ دے گا؟
یہ حدیث امام احمد کی العلل ومعرفۃ الرجال ۔ روایۃ ابنہ(1/194) میں سفیان ثوری کے حوالے سے مذکور ہے، اسی طرح علل الدار قطنی میں دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، اور تفصیل سے انہوں نے اس کی مختلف وجوہ پر کلام کیا ہے۔
دوسرا اعتراض:
حسن لغیرہ کی تعریف کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے، انقطاع و ضعف کی مختلف اقسام کو ذکر کرکے احتمالات کی لائن لگادی جاتی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس قسم کے اعتراضات اور استحالے قائم کرنا یہ محدثین کا طریقہ نہیں ہے، مجرد احتمالات اور علم منطق کی رو سے اصول حدیث کو زیر بحث لایا جائے، تو صحیحین میں موجود اصح الاسانید بھی محل نظر ہوجائیں گی۔
ہاں جن احتمالات و وجوہات کو محدثین ذکر کریں، ان کو تحریر و تقریر کی زینت بنانا طالب حدیث کے شایان شان ہونا چاہیے۔
تیسرا اعتراض:
حسن لغیرہ کے منکرین ایک شبہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ متابعات و شواہد یا اعتبار سے مراد، ضعیف جمع ضعیف کی متابعت نہیں، بلکہ اس سے مراد وہ ضعیف ہے، جس کی ثقہ متابعت کرے۔
یہ توجیہ و اعتذار اس فریق کے منہجی اضطراب کی علامت ہے، کیونکہ جب ضعیف ہر حال میں ہی ضعیف رہتا ہے، تو پھر اس کی متابعت ثقہ کرے یا ضعیف، وہ قابل احتجاج کیونکر ہوگا؟
اسی وجہ سے اس فریق کے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ضعیف اور ثقہ متابعت کریں، تو اعتماد ثقہ پر ہے، ضعیف چنداں قابل التفات نہیں۔
بہر صورت یہ عذر یہ پیش کریں، یا وہ، دونوں ہی درست نہیں۔ محدثین کے ہاں دونوں طرح کی متابعت اور اعتبار کی مثالیں موجود ہیں، بعض ہم سابقہ تحریروں میں پیش بھی کرچکے ہیں۔
اور پھر محدثین نے جب اعتبار کی بات کی ہے، تو وہ ضعیف جدا وغیرہ لوگوں کی روایات اعتبار میں بھی لینے سے منع کیا ہے، حالانکہ جب اعتماد ثقہ پر ہی کرنا ہے، تو پھر ضعیف یا ضعیف جدا ایک برابر ہیں۔
محدثین کے ہاں یعتبر بہ ولا یعتبربہ والی تفریق کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حسن لغیرہ کے منکرین ، ائمہ محدثین کی تطبیقات و تاصیلات کو درست سمت میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔
(ختم شد)
نوٹ: اگر کسی وجہ سے اس مجموعہ میں بات جاری رکھنا ناممکن ہوا، تو آئندہ تحریریں، گروپ کے معروف مشارکین کو دیگر ذرائع سے ارسال کر دی جائیں گی، یا حسب ضرورت نیا گروپ بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔