• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسین بن منصور الحلاج کا تعارف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی صاحب ! السلام علیکم ! امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہونگے۔
میں اس خط کے ذریعے سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ منصور حلاج کون تھا؟ کس صدی میں گزرا ہے اور کس جرم کی پاداش میں اسے قتل کیا گیا تھا۔ محدثین اور علماء محققین منصور حلاج کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ دلائل سے ثابت کریں ۔
(والسلام فقط انعام الرحمٰن تحصیل و ضلع صوابی گاؤں و ڈاکخانہ زروبی محلّہ بوزرخیل)
الجواب:
حسین بن منصور الحلاج کا تعارف
حسین بن منصور الحلاج ، جسے جاہل لوگ منصور الحلاج کے نام سے یاد کرتے ہیں، کا مختصر و جامع تعارف درج ذیل ہے:
۱: حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:​
“المقتول علی الزندقۃ، ماروی وللہ الحمد شیئاً من العلم، وکانت لہ بدایۃ جیّدۃ و تألّہ و تصوّف، ثم انسلخ من الدین، وتعلم السحر وأراھم المخاریق، أباح العلماء دمہ فقتل سنۃ احدی عشرۃ و ثلاثمائۃ“
اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے علم کی کوئی چیز روایت نہیں کی۔ اُس کی ابتدائی حالت (بظاہر) اچھی تھی، عبادت گزاری اور تصوف (کا اظہار کرتا تھا) پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں، علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے لہذا اسے ۳۱۱؁ھ میں قتل کیا گیا ۔ (میزان الاعتدال ج ۱ص ۵۴۸)​
۲: حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں کہ :​
“والناس مختلفون فیہ، وأکثرھم علی أنہ زندیق ضال”
لوگوں کا اس (حسین بن منصور الحلاج) کے بارے میں اختلاف ہے، اکثریت کے نزدیک و ہ زندیق گمراہ (تھا) ہے (لسان المیزان ج ۲ ص ۳۱۴ والنسخۃ المحققۃ ۵۸۲/۲)
دورِ متاخرین میں اسماء الرجال کے ان دو جلیل القدر اماموں اور اسماء الرجال کی دو مشہور ترین کتابوں سے جمہور علماء کے نزدیک حلاج مذکور کا زندیق و گمراہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔​
۳: جلیل القدر امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:​
“لما أخرج حسین الحلاج لیقتل مضیت في جملۃ الناس ، ولم أزل أزاحم حتی رأیتہ، فقال لأصحابہ: لا یھولنم ھذا، فإني عائد إلیکم بعد ثلاثین یوماً، ثم قتل“
جب حسین (بن منصور) حلاج کو قتل کے لئے (جیل سے ) نکالا گیا تو لوگوں کے ساتھ میں بھی (دیکھنے کے لئے) گیا، میں نے لوگوں کے رش کے باوجود اُسے دیکھ لیا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:”تم اس سے نہ ڈرنا، میں تیس (۳۰) دنوں بعد تمہارے پاس دوبارہ (زندہ ہوکر) آجاؤں گا“ پھر وہ قتل کر دیا گیا۔ (تاریخ بغداد ج ۸ ص ۱۳۱ ت ۴۲۳۲ و سندہ صحیح، المنتظم لابن الجوزی ۴۰۶/۱۳ وقال :”وھذا الإسناد صحیح لاشک فیہ“ لسان المیزان ۳۱۵/۲ وقال:“وإسناد ھا صحیح”)​
اس صحیح سند سے معلوم ہوا کہ حسین بن منصور حلاج جھوٹا شخص تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :​
“وعند جماھیر المشائخ الصوفیۃ و أھل العلم أن الحلاج لم یکن من المشائخ الصالحین، بل کان زندیقاً“
جمہور مشائخِ تصوف اور اہلِ علم (علمائے حق) کے نزدیک حلاج نیک لوگوں میں سے نہیں تھا بلکہ زندیق (بہت بڑا ملحد و گمراہ) تھا (مجموع فتاویٰ ج ۸ ص ۳۱۸)
“الحمد للہ رب العالمین، الحلاج قتل علی الزندقۃ“
اللہ رب العالمین کا شکر ہے ، حلاج کو زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ (مجموع فتاوی ۱۰۸/۳۵)
شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ :
”وکذلک من لم یجوز قتل مثلہ فھو مارق من دین الاسلام“
اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دینِ اسلام سے خارج ہے (مجموع فتاویٰ ج۲ ص ۴۸۶)
۴: حافظ ابن الجوزی نے اس (حسین بن منصور ) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے “القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج“(المنتظم ۲۰۴/۱۳)
ابن جوزی فرماتے ہیں : “أنہ کان مُمَخْرِقاً” بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔ (ایضاً ۲۰۶/۱۳)​
ان شدید جرحوں کے مقابلے میں حلاج مذکور کی تعریف و توثیق ثابت نہیں ہے۔​
ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی صاحب نے اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کی زیرِ نگرانی ایک کتاب لکھی ہے “القول المنصور فی ابن منصور، سیر منصور حلاج”یہ کتاب مکتبہ دارالعلوم کراچی نمبر ۱۴ سے شائع شدہ ہے ۔ اس کتاب میں تھانوی صاحب نے موضوع، بے اصل اور مردود روایات جمع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ (دیوبندیوں کے نزدیک) حسین بن منصور حلاج اچھا آدمی تھا (!)​
مثال نمبر ۱۔ تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
“لوگوں کے اسرار بیان کردیتے، ان کے دِلوں کی باتیں بتلا دیتے (یعنی کشف ضمائر بھی حاصل تھا) اسی وجہ سے ان کو حلاج الاسرار کہنے، پھر حلاج لقب پڑگیا”(سیرت منصور حلاج ص ۳۱)

تبصرہ:اس قول کی بنیاد تاریخِ بغداد کی ایک روایت ہے جسے احمد بن الحسین بن منصور نے تستر میں بیان کیا تھا(ج۸ ص ۱۱۳)
احمد بن الحسین بن منصور کے حالات معلوم نہیں ہیں لہذا یہ شخص مجہول ہے ۔

مثال نمبر ۲۔ تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:​
“حسین بن منصور نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے حدوث کو لازم کردیا ہے ….” (سیرت منصور حلاج ص ۴۷ بحوالہ رسالہ قشیریہ)​
عبدالکریم بن ہوازن القشیری کے الرسالۃ القشیریۃ میں یہ عبارت بحوالہ ابوعبدالرحمٰن (محمد بن الحسین) السلمی النیسابوری لکھی ہوئی ہے
(وکان صدوقاً، لہ معرفۃ بالحدیث وقد درس شیئاً من فقہ الشافعي، ولہ مذھب مستقیم و طریقۃ جمیلۃ / تاریخ بغداد ۴۱۱/۳) (ص۱۳ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
ابو عبدالرحمٰن السلمی اگر چہ اپنے عام شہر والوں اور اپنے مریدوں کے نزدیک جلیل القدر تھا مگر اسی شہر کے محدث محمد بن یوسف القطان النیسابوریفرماتے ہیں کہ:
”کان أبو عبدالرحمٰن السلمي غیر ثقۃ…….وکان یضع للصوفیۃ الأحادیث“ ابوعبدالرحمٰن السلمی غیر ثقہ تھا….. اور صوفیوں کے لئے احادیث گھڑتا تھا (تاریخ بغداد ج۲ ص ۲۴۸ و سندہ صحیح)​
اس شدید جرح کے مقابلے میں سلمی مذکور کی تعدیل بطریقہِ محدثین ثابت نہیں ہے ۔ سلمی کے استاد محمد بن محمد بن غالب اور اس کے استاد ابو نصر احمد بن سعید الاسفنجانی کی توثیق میں بھی مطلوب ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس موضوع سند کو تھانوی صاحب نے فخریہ پیش کیا ہے۔

تنبیہ بلیغ: عبدالکریم بن ہوازن نے رسالہ قشیریہ میں حسین الحلاج کو بطورِ ولی ذکر نہیں کیا۔ رسالہ قشیریہ اس کے ترجمہ سے خالی ہے ۔ کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے۔

تنبیہ بلیغ: حسین بن منصور الحلاج اولیاء اللہ میں سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک گمراہ وزندیق صوفی تھا جسے جلیل القدر فقہاء اسلام کے متفقہ فتوے کی بنیاد پر چوتھی صدی ہجری کے شروع میں قتل کردیا گیا تھا ، اس کی کرامتوں کے بارے میں سارے قصے موضوع و بے اصل ہیں۔​
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
“ولا أری یتعصب للحلاج إلا من قال بقولہ الذي ذکر أنہ عین الجمع فھذا ھو قول أھل الوحدۃ المطلقۃ و لھذا تری ابن عربي صاحب الفصوص یعظمہ ویقع فی الجنید واللہ الموفق“
“میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے اس لئے تم ابن عربی صاحب فصوص کو دیکھو گے کہ وہ حلاج کی تو تعظیم کرتے ہیں اور جنید کی تحقیر کرتے ہیں” (لسان المیزان ج ۲ ص ۳۱۵، وسیرت منصور حلاج ص ۴۵ حاشیہ)​
اہلِ وحدت مطلقہ سے مراد وہ صوفی حضرات ہیں جو وحدت الوجود اور حلولیت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔تعالی اللہ عما یقولون علواً کبیراً
اس قول کا رد ظفر احمد تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے رسالہ قشیریہ کی موضوع روایت سے کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ رد تحقیقی میدان میں بذاتِ خود مردود ہے۔ تھانوی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ”ابن منصور اور جنید کا عقیدہ توحید ایک ہی تھا“ (ص۴۶) مگر انہوں نے اس دعویٰ پر کوئی صحیح دلیل پیش نہیں کی۔ علمی میدان میں عبدالوہاب الشعرانی، خرافی صوفی بدعتی کے بے سند حوالوں سے کام نہیں چلتا بلکہ صحیح و ثابت سندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہوں یا سلف صالحین کے آثار و اسماء الرجال کے حوالے، سب کے لئے صحیح و حسن لذاتہ اسانید کی ضرورت ہے۔

شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ (متوفی ۱۸۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ:​
“الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء“
سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا (مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۳۲ و سندہ صحیح)
وما علینا إلاالبلاغ
(۱۴ شوال ۱۴۲۶؁ھ)

بشکریہ
 
شمولیت
مارچ 26، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
بے شک طریقت شریعت کے تابع ہے وہ اسلام ارکان نماز ،حج ، زکٰوۃ وغیرہ کا بھی انکاری تھا، یہ صوفیت صرف ڈھونگ ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
من هو الحلاج
من هو منصور الحلاج ؟ وما هو وضعه في التاريخ الإسلامي ؟.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد لله
الحلاج هو الحسين بن منصور الحلاج ، ويكنى أبا مغيث . وقيل : أبا عبد الله .
نشأ بواسط . وقيل بتستر ، وخالط جماعة من الصوفية منهم سهل التستري والجنيد وأبو الحسن النوري وغيرهم .
رحل إلى بلاد كثيرة ، منها مكة وخراسان ، والهند وتعلم السحر بها ، وأقام أخيراً ببغداد ، وبها قتل .
تعلم السحر بالهند ، وكان صاحب حيل وخداع ، فخدع بذلك كثيراً من جهلة الناس ، واستمالهم إليه ، حتى ظنوا فيه أنه من أولياء الله الكبار .
له قبول عند عامة المستشرقين ويظهرونه على أنه قتل مظلوماً ، وذلك لما سيأتي من أن اعتقاده قريب من اعتقاد النصارى ، ويتكلم بكلامهم .
قتل ببغداد عام 309 هـ بسبب ما ثبت عنه بإقراره وبغير إقراره من الكفر والزندقة .
وأجمع علماء عصره على قتله بسبب ما نقل عنه من الكفر والزندقة .

وها هي بعض أقواله :

1- ادعى النبوة ، ثم تَرَقَّى به الحال أن ادعى أنه هو الله . فكان يقول : أنا الله . وأمر زوجة ابنه بالسجود له . فقالت : أو يسجد لغير الله ؟ فقال : إله في السماء وإله في الأرض .
2- كان يقول بالحلول والاتحاد . أي : أن الله تعالى قد حَلَّ فيه ، وصار هو والله شيئاً واحداً . تعالى الله عن ذلك علواً كبيراً.
وهذا هو الذي جعل له القبول عن المستشرقين النصارى لأنه وافقهم على الحلول ، إذ إنهم يعتقدون في عيسى عليه السلام أن الله تعالى قد حَلَّ فيه . ولهذا تكلم الحلاج باللاهوت والناسوت كما يفعل النصارى . فمن أشعاره :
سبحان مـن أظهر ناسوته سـر لاهوته الثاقـــب
ثم بدا في خلقـه ظــاهراً في صورة الآكل والشارب

ولما سمع ابن خفيف هذه الأبيات قال : على قائل هذا لعنة الله . فقيل له : هذا شعر الحلاج . فقال : إن كان هذا اعتقاده فهو كافر اهـ
3- سمع قارئاً يقرأ آية من القرآن ، فقال : أنا أقدر أن أؤلف مثل هذا .
4- من أشعاره :
عَقَدَ الخلائقُ في الإله عقائدا وأنا اعتقدتُ جميعَ ما اعتقدوه
وهذا الكلام مع تضمنه إقراره واعتقاده لجميع الكفر الذي اعتقدته الطوائف الضالة من البشر ، فإنه مع ذلك كلام متناقض لا يقبله عقل صريح ، إذ كيف يعتقد التوحيد والشرك في آنٍ واحد ؟!
5- له كلام يبطل به أركان الإسلام ، ومبانيه العظام ، وهي الصلاة والزكاة والصيام والحج .
6- كان يقول : إن أرواح الأنبياء أعيدت إلى أجساد أصحابه وتلامذته ، فكان يقول لأحدهم : أنت نوح ، ولآخر : أنت موسى ، ولآخر : أنت محمد .

7- لما ذُهب به إلى القتل قال لأصحابه : لا يهولنكم هذا ، فإني عائد إليكم بعد ثلاثين يوماً . فقتل ولم يَعُدْ .
فلهذه الأقوال وغيرها أجمع علماء عصره على كفره وزندقته ولذلك قتل ببغداد عام 309 هـ . وكذا ذمه أكثر الصوفية ونفوا أن يكون منهم ، فممن ذمه الجنيد ، ولم يذكره أبو القاسم القشيري في رسالته التي ذكر فيها كثيراً من مشايخ الصوفية .
وكان من سعى في قتله وعقد له مجلساً وحكم عليه فيه بما يستحقه من القتل هو القاضي أبو عمر محمد بن يوسف المالكي رحمه الله . وقد امتدحه ابن كثير على ذلك فقال : وكان من أكبر صواب أحكامه وأصوبها قَتْلَهُ الحسين بن منصور الحلاج اهـ (البداية والنهاية 11/172).

وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : ( مَنْ اعْتَقَدَ مَا يَعْتَقِدُهُ الْحَلاجُ مِنْ الْمَقَالاتِ الَّتِي قُتِلَ الْحَلاجُ عَلَيْهَا فَهُوَ كَافِرٌ مُرْتَدٌّ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ ; فَإِنَّ الْمُسْلِمِينَ إنَّمَا قَتَلُوهُ عَلَى الْحُلُولِ وَالاتِّحَادِ وَنَحْوِ ذَلِكَ مِنْ مَقَالاتِ أَهْلِ الزَّنْدَقَةِ وَالإِلْحَادِ كَقَوْلِهِ : أَنَا اللَّهُ . وَقَوْلِهِ : إلَهٌ فِي السَّمَاءِ وَإِلَهٌ فِي الأَرْضِ . . . وَالْحَلاجُ كَانَتْ لَهُ مخاريق وَأَنْوَاعٌ مِنْ السِّحْرِ وَلَهُ كُتُبٌ مَنْسُوبَةٌ إلَيْهِ فِي السِّحْرِ . وَبِالْجُمْلَةِ فَلا خِلافَ بَيْنِ الأُمَّةِ أَنَّ مَنْ قَالَ بِحُلُولِ اللَّهِ فِي الْبَشَرِ وَاتِّحَادِهِ بِهِ وَأَنَّ الْبَشَرَ يَكُونُ إلَهًا وَهَذَا مِنْ الآلِهَةِ : فَهُوَ كَافِرٌ مُبَاحُ الدَّمِ وَعَلَى هَذَا قُتِلَ الْحَلاجُ )اهـ مجموع الفتاوى ( 2/480 ) .

وقال أيضاً : ( وَمَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ ذَكَرَ الْحَلاجَ بِخَيْرِ لا مِنْ الْعُلَمَاءِ وَلا مِنْ الْمَشَايِخِ ; وَلَكِنَّ بَعْضَ النَّاسِ يَقِفُ فِيهِ ; لأَنَّهُ لَمْ يَعْرِفْ أَمْرَهُ ) .اهـ مجموع الفتاوى ( 2/483 ) .

للاستزادة يراجع :
تاريخ بغداد للخطيب البغدادي ( 8/112-141) . المنتظم لابن الجوزي ( 13/201-206) . سير أعلام النبلاء للذهبي ( 14 / 313-354 ) . البداية والنهاية لابن كثير ( 11/132-144) .

والله الهادي إلى سواء السبيل.

الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد

_______________________
ترجمہ :
منصور حلاج کون ہے ؟
اور تاریخ اسلامی میں اس حالت کیا ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد للہ
حلاج کا نام حسین بن منصور الحلاج اور کنیت ابومغیث ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کی کنیت ابوعبداللہ تھی ۔
اس نے واسط شہر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ تستر شہر میں پرورش پائ اورصوفیوں کی ایک جماعت کے ساتھ میل جول رکھا جن میں سھل تستری اور جنید اورابوالحسن نوری وغیرہ شامل ہيں ۔

اس نے بہت سے ممالک کے سفر کیے جن میں مکہ ، خراسان شامل ہیں ، اورھندوستان سےجادو کا علم حاصل کیا اوربالآخر بغداد میں رہائش اختیار کی اور وہیں پرقتل ہوا ۔

انڈیا میں جادو سیکھا اوریہ بہت ہی حیلے اوردھوکہ باز تھا ، لوگو ں کو ان کی جہالت کی بنا پربہت سے لوگوں کودھوکہ دیا اورانہیں اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوگيا حتی کہ لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا کہ یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا ولی ہے ۔

عام مستشرقین ( وہ کافر جومسلمانوں کا لبادہ اوڑھے ہوۓ ہیں ) کے ہاں یہ بہت مقبول ہے اوروہ اسے مظلوم سمجھتے ہيں کہ اسے قتل کردیاگیا ، اور اس کا سبب اس کا وہ عیسا‏ئ کلام اورتقریبا انہی کا عقیدہ ہے جس کا اعتقاد رکھتا تھا ، اس کے عقیدہ کا بیان آگے چل کر ذکر کیا جاۓ گا ۔

بغداد میں اسے زندیق اور کافر ہونے کی بنا پرجس کا اس نے خود بھی اقرار کیا تھا 309 ھ میں قتل کردیا گیا ۔
اوراس وقت کے علماء کرام نے اس کے قتل پراجماع کرلیا تھا کہ اس کے کفافراورزندیق ہونے کی بنا پریہ واجب القتل ہے ۔
اب آپ کے سامنے اس کے بعض اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن کی بنا وہ مرتدہوکر واجب القتل ٹھرا :

1 - نبوت کا دعوی :

اس نے نبوت کا دعوی کیا حتی کہ وہ اس سے بھی اوپر چلا گیا اور پھر وہ یہ دعوی کرنے لگا یہ وہ ہی اللہ ہے ، ( نعوذباللہ ) تووہ یہ کہا کرتا کہ میں اللہ ہوں ، اوراس نے اپنی بہو کوحکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کرے تواس نے جواب دیا کہ کیا غیراللہ کوبھی سجدہ کیا جاتا ہے ؟

توحلاج کہنے لگا ایک الہ آسمان میں ہے اورایک الہ زمین میں ۔
2 - حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ
حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا تھا یعنی اللہ تعالی اس میں حلول کرگيا ہے تووہ اوراللہ تعالی ایک ہی چیز بن گۓ ہیں ، اللہ تعالی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔

اوریہی وہ عقیدہ اوربات ہے جس نے حلاج کومستشرقین نصاری کے ہاں مقبولیت سے نوازا اس لیے کہ اس نے ان کے اس عقیدہ حلول میں ان کی موافقت کی ، وہ بھی تویہی بات کہتےہیں کہ اللہ تعالی عیسی علیہ السلام میں حلول کرگيا ہے ۔
اورحلاج نے بھی اسی لیے لاھوت اورناسوت والی بات کہی ہے جس طرح کہ عیسا‏ئ کہتے ہيں حلاج اپنے اشعار میں کہتا ہے :

پاک ہے وہ جس نے اپنے ناسوت کوروشن لاھوت کے رازسے ظاہرکیا پھر اپنی مخلوق میں کھانے اورپینے والا بن کر ظاہرہوا ۔

جب ابن خفیف رحمہ اللہ تعالی نے یہ اشعاد سنے توکہنے لگے ان اشعار کے قائل پر اللہ تعالی کی لعنت برسے ، توان سے کہا گيا کہ یہ اشعار تو حلاج کے ہیں ، تو ان کا جواب تھا کہ اگر اس کا یہ عقیدہ تھا تووہ کافر ہے ۔ اھـ

3 - قرآن جیسی کلام بنانے کا دعوی :
حلاج نے ایک قاری کوقرآن مجید پڑھتے ہوۓ سنا توکہنے لگا اس طرح کی کلام تومیں بھی بنا سکتا ہوں ۔

4 - کفریہ اشعار :

اس کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے :
اللہ تعالی کے متعلق لوگوں کے بہت سارے عقیدے ہیں ، میں بھی وہ سب عقیدے رکھتا ہوں جو پوری دنیا میں لوگوں نے اپنا رکھے ہیں ۔

یہ اس کی ایک ایسی کلام ہے جس میں اس نے دنیامیں پاۓ جانے والےگمراہ فرقوں میں پاۓ جانے والے ہرقسم کے کفر کا اقرار اوراعتراف کیا ہے کہ اس کا بھی وہی کفریہ عقیدہ ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ ایک کلام ہے جس میں تناقض پایا جاتا ہے جسے صریحا عقل بھی تسلیم نہیں کرتی ، تویہ کیس ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں توحید اور شرک کا عقید رکھا جاۓ یعنی وہ موحد بھی ہواور مشرک بھی ؟

5 - ارکان اورمبادیات اسلام کے مخالف کلام :
حلاج نے ایسی کلام کی جو کہ ارکان اورمبادیات اسلام کوباطل کرکے رکھ دیتی ہے یعنی نماز ، روزہ اورحج اورزکاۃ کوختم کرکے رکھ دے ۔

6 - مرنے کے بعد انبیاء کی روحوں کا مسئلہ :
اس کا کہنا تھا کہ انبیاء کے مرنے کے بعد ان کی روحيں ان کے صحابہ اورشاگردوں کے اجسام میں لوٹادی جاتی ہیں ، وہ کسی کو کہتا کہ تم نوح علیہ السلام اور دوسر ے کو موسی علیہ السلام قرار دیتا اور کسی اور شخص کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔

7 - جب اسے قتل کے لیے لیجایا رہا تھا تووہ اپنے دوست واحباب کو کہنے لگا تم اس سے خوف محسوس نہ کرو ، بلاشبہ میں تیس روز بعد تمہارے پاس واپس آجاؤں گا ، اسے قتل کردیا گیا تووہ کبھی بھی واپس نہ آسکا ۔
توان اوراس جیسے دوسرے اقوال کی بنا پراس وقت کےعلماء نےاجماعا اس کے کفراور زندیق ہونے کا فتوی صادر کیا ، اوراسی فتوی کی وجہ سے اسے 309 ھـ میں بغداد کے اند قتل کردیا گيا ، اوراس طرح اکثر صوفی بھی اس کی مذمت کرتے اوریہ کہتے ہیں کہ وہ صوفیوں میں سے نہیں ، مذمت کرنے والوں میں جنید ، اور ابوالقاسم شامل ہیں اورابوالقاسم نے انہیں اس رسالۃ جس میں صوفیاء کے اکثر مشائخ کا تذکرہ کیا ہے حلاج کوذکر نہیں کیا ۔

اسے قتل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں قاضی ابوعمر محمد بن یوسف مالکی رحمہ اللہ تعالی شامل ہیں انہیں کی کوششوں سے مجلس طلب کی گئ اور اس میں اسے قتل کا مستحق قرار دیا گیا ۔

علامہ ابن کثير رحمہ اللہ تعالی نے البدایۃ والنھایۃ میں ابوعمرمالکی رحمہ اللہ تعالی کی مدح سرائ کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ان کے فیصلے بہت ہی زیادہ درست ہوتے اور انہوں نے ہی حسین بن منصورالحلاج کوقتل کیا ۔ ا ھـ دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 11 / 172 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
جس نے بھی حلاج کے ان مقالات جیسا عقیدہ رکھا جن پروہ قتل ہوا تووہ شخص بالاتفاق کافراور مرتد ہے اس لیے کہ حلاج کومسلمانوں نےحلول اوراتحاد وغیرہ کا عقیدہ رکھنے کی بنا پرقتل کیا تھا ۔
جس طرح کہ زندیق اوراتحادی لوگ یہ کہتے ہیں مثلا حلا ج یہ کہتا تھا کہ :: میں اللہ ہوں ، اور اس کا یہ بھی قول ہے : ایک الہ آسمان میں ایک زمین میں ہے ۔

اورحلاج کچھ خارق عادت چیزوں اور جادو کی کئ ایک اقسام کا مالک تھا اوراس کی طرف منسوب کئ ایک جادو کی کتب بھی پائ جاتی ہیں ، تواجمالی طورتوامت مسلمہ میں اس کے اندر کوئ اختلاف نہيں کہ جس نے بھی یہ کہا کہ اللہ تعالی بشرمیں حلول کرجاتا اور اس میں متحد ہوجاتا ہے اوریا یہ کہ انسان الہ ہوسکتا ہے اوریہ معبودوں میں سے ہے تووہ کافر ہے اوراس کا قتل کرنا مباح ہے اوراسی بات پرحلاج کوبھی قتل کیاگیا تھا ۔ اھـ دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 2 / 480 ) ۔

اورایک جگہ پرشیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے یہ کہا ہے کہ :
ہم مسلمان علماء میں سے کسی ایک عالم اورنہ ہی مشائخ میں سے کسی ایک شیخ کوبھی نہیں جانتے جس نے حلاج کا ذکر خیر کیا ہو ، لیکن بعض لوگ اس کے متعلق خاموشی اختیارکرتے ہيں اس لیے کہ انہیں حلاج کے معاملے کا علم ہی نہیں ۔ اھـ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 2 / 483 )۔

معلومات میں مزید استفادہ کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کریں :
خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کی : تاریخ بغداد ( 8 / 112- 141 )
ابن جوزي رحمہ اللہ تعالی کی المنتظم ( 13/ 201 -206 ) ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کی سیر اعلام النبلاء ( 14 / 313- 354 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کی البدایۃ والنھايۃ ( 11 / 132- 144 ) ۔
(اللہ تعالی کی رحمتیں ہوں ان علماء پر )
اللہ تعالی ہی سیدھے راہ کی راہنمائ کرنے والا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
Top